القاعدہ کے انتہائی اہم رہنما

منقب سید

محفلین
141129123414_aymanal-zawahiri.jpg

ایمن الظواہری پہلے سے ہی تنظیم کے اہم نظریہ ساز تھے
اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے رہنماؤں کے موت کے بعد اس تنظیم میں کئی قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس کا جغرافیائی محور بدلا ہے اور اس کی جنگجویانہ سرگرمیوں میں تبدیلی آئی ہے۔
القاعدہ کے انتہائی اہم ناموں کے بارے میں بعض معلومات یہاں پیش کی جا رہی ہیں
ایمن الظواہری
ایمن الظواہری آنکھوں کے ڈاکٹر ہیں جنھوں مصری جنگجو گروہ اسلامی جہاد کے قیام میں تعاون کیا اور انھیں 16 جون سنہ 2011 میں اسامہ بن لادن کی موت کے چند ہفتوں بعد القاعدہ کا رہنما نامزد کیا گیا۔
نئی قیادت کے تحت ایک بیان میں القاعدہ نے صلیبی جنگجو امریکہ اور اس کے نوکر اسرائیل اور جو بھی ان کا تعاون کرے ان کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔
141019103905_ayman_al-zawahiri__304x171_getty_nocredit.jpg

الظواہری کو القاعدہ کے ممتاز ترین ترجمان میں شمار کیا جاتا ہے
ایمن الظواہری پہلے سے ہی تنظیم کے اہم نظریہ ساز تھے جبکہ بعض ماہرین کے مطابق وہ تنظیم کی جانب سے 11 ستمبر سنہ 2001 میں امریکہ پر کیے جانے والے حملے کے پس پشت کارفرما ذہن تھے۔
اس حملے کے بعد ایمن الظواہری کے سر پر ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر کا انعام رکھا گيا تھااور امریکہ کی جانب سے جاری کی جانے وال 22 افراد پر مشتمل موسٹ وانٹڈ کی فہرست میں اسامہ بن لادن کے بعد ان کا دوسرا نام تھا۔
ان کی ایک بیوی اور دو بچے امریکی فضائی حملے میں سنہ 2001 کے اواخر میں مارے گئے تھے۔ افغانستان میں طالبان کی امریکہ کے ہاتھوں شکست کے بعد الظواہری روپوش ہو گئے۔
الظواہری کو القاعدہ کے ممتاز ترین ترجمان میں شمار کیا جاتا ہے۔ سنہ 2003 کے دوران ان کے کئی ویڈیو اور آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئے اور ان کا سب سے تازہ پیغام ستمبر سنہ 2014 میں آیا جس میں انھوں نے بھارت میں اسلام پسندوں کے احیا کی بات کہی ہے۔
اس سے قبل جون میں انھوں نے شدت پسند اسلامی گروپ دولت اسلامیہ سے کہا تھا کہ شام کو چھوڑ کر وہ عراق پر توجہ دیں اور رواں سال فروری میں القاعدہ نے دولت اسلامیہ سے تمام روابط منقطع کر دیے۔
نصر عبدالکریم الوحیشی
141207064444_wuhayshi_640x360__nocredit.jpg

وحیشی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی 36 سال کے ہی ہیں
اسامہ بن لادن کے سابق پرائویٹ سیکریٹری نصر عبدالکریم الوحیشی سرزمین عرب (اے کیو اے پی) کے لیے القاعدہ کے سربراہ ہیں۔ اس تنظیم کا قیام سعودی عرب اور یمن کی القاعدہ کی شاخوں کے انضمام کے سبب سنہ 2009 میں عمل میں آیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق انھیں حال میں جنرل مینیجر کے طور پر القاعدہ کا نائب سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے خطے سے نکل کر یہ القاعدہ اب سرزمین عرب میں مستحکم ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
وحیشی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی 36 سال کے ہی ہیں اور انھوں نے لیبا کے ابو یحی اللبی کی جگہ لی ہے جو شمال مغربی پاکستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
خالد الحبیب
141207064601_khalid_al-habib_304x171__nocredit.jpg

خالد الحبیب کی جنوب مشرقی افغانستان کے کمانڈر کے طور پر شناخت کی گئی تھی
خالد الحبیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یاتو مصری ہیں یا پھر مراکش سے ان کا تعلق ہے۔ سنہ 2005 کے نومبر میں آنے والے ایک ویڈیو میں جنوب مشرقی افغانستان کے کمانڈر کے طور پر ان کی شناخت کی گئی تھی۔
اگلے سال پاکستانی حکام نے خبر دی کہ کہ وہ افغانستان سے ملحق پاکستانی سرحد پر ایک امریکی فضائی حملے میں مارے گئے لیکن پھر بعد میں انھوں نے اپنے اس دعوے کو واپس لے لیا۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ سنہ 2006 میں عراق پر قبضے کے بعد انھوں نے مجموعی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ انھیں جولائی سنہ 2008 میں القاعدہ کے ملیٹری کمانڈر کے طور پر بیان کیا گیا۔
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور شمالی پاکستان میں تنظیم کا اندرونی کام کاج دیکھتے ہیں۔
سیف العدل
130805134201_saif_al-adel.jpg

عدل سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مبینہ طور پر سلیمان ابو غیث اور سعد بن لادن کے ساتھ ایران بھاگ گئے
سیف العدل تقریباً 50 سال کے ہیں اور ان کا تعلق مصر سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سابق مصری فوجی محمد ابراہیم مکاوی کا ہی نام سیف العدل ہے۔
ایک زمانے میں عدل اسامہ بن لادن کی سکیورٹی کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور انھوں نے سنہ 2001 میں فوجی کمانڈر محمد عاطف کی موت کے بعد ان کی بہت سی ذمہ داریاں اٹھا لیں۔
کہا جاتا ہے کہ وہ اس تنظیم کے رکن ہیں جس نے سنہ 1981 میں انور سعدات کا قتل کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 1998 میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں شامل تھے۔
عدل سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مبینہ طور پر سلیمان ابو غیث اور سعد بن لادن کے ساتھ ایران بھاگ گئے۔ مبینہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھیں ایرانی گارڈ کور نے نظر بند کر رکھا ہے جبکہ ایران نے کبھی ان کی موجودگی اعتراف نہیں کیا ہے۔
تازہ خبروں کے مطابق یہ کہا جارہا ہے کہ شاید انھیں رہائی مل گئی ہے اور وہ اسامہ کے بیٹے سعد بن لادن کے ساتھ شمالی پاکستان چلے گئے ہیں جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ ایران لوٹ گئے ہیں۔
مصطفیٰ حامد
مصطفی حامد سیف العدل کے خسر ہیں اور جلال آباد کے نزدیک واقع القاعدہ کیمپ میں وہ حکمت عملی کی تربیت دیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی حکومت اور القاعدہ کے درمیان رابطہ ہیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سقوط کے بعد انھوں نے القاعدہ کے کئی بڑے رہنماؤں اور ان کے اہل خانہ کو ایران میں محفوظ جگہ فراہم کرنے میں اہم کردار نبھایا۔
سنہ 2003 کے وسط میں ایرانی حکام نے حامد کو گرفتار کر لیا لیکن ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انھیں سنہ 2011 میں رہا کر دیا گیا ہے اور اب وہ انقلاب کے بعد مصر میں ہیں۔
مطیع الرحمٰن
مطیع الرحمن پاکستانی جنگجو ہیں جنھیں القاعدہ تنظیم کے منصوبہ سازوں کے سربراہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 2006 میں رقیق بم کے ذریعے بحر اوقیانوس میں ایک طیارے کو اڑانے کی سازش کے معمار تھے جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔
ان کی اس پاکستانی پولیس اہلکار کے طور پر بھی شناخت کی گئی ہے جس نے سنہ 2002 میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔
ابو خلیل المدنی
ابو خلیل المدنی کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ ایک ویڈیو کے ذریعے القاعدہ کی شوری کونسل کے رکن کے طور ان کی شناخت جولائي سنہ 2008 میں کی گئی۔ ان کے نام سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان کی وطنیت سعودی عرب ہے۔
آدم گدان
141207064825_adam_gadahn_304x171__nocredit.jpg

اسلام قبول کرنے کے بعد وہ سنہ 1998 میں پاکستان منتقل ہو گئے
آدم گدان امریکی شہری ہیں اور ان کی پرورش کیلیفورنیا میں ہوئي ہے۔ وہ القاعدہ کے بڑے پروپگینڈا کرنے والے کے طور پر معروف ہیں اور کئی ویڈیو میں انھیں دیکھا گیا ہے۔
نوجوانی میں اسلام قبول کرنے کے بعد وہ سنہ 1998 میں پاکستان منتقل ہو گئے اور ایک افغان پناہ گزین سے شادی کی۔ گدان نے القاعدہ کے لیے مترجم کا کام کیا اور القاعدہ کے فیلڈ کمانڈر ابو زبیدہ کے ساتھی بن گئے۔ بعد میں انھیں افغانستان کے ایک کمیپ میں تربیت بھی دی گئي۔
ابو مصعب عبدالودود
عبدالودود اسلامی مغرب کے علاقے میں القاعدہ کے سربراہ ہیں۔ وہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں اور بم بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
وہ سنہ 2004 کے وسط میں الجیریا کی اسلامی جنگجو تنظیم سلفی گروپ برائے تبلیغ و جنگ (جی ایس پی سی) کے سربراہ بن گئے۔
یوینورسٹی سے نکلنے کے بعد سنہ 1995 میں عبدالودود مسلح اسلامی تنظیم (جی آئي اے) میں شامل ہو گئے اور پھی جی ایس پی سی میں شامل ہوئے۔
لنک
 

منقب سید

محفلین
معلوماتی تحریر ہے

ویسے ۔۔۔۔ اگر یہ علاقائی سربراہ بنائے جانے کی کسوٹی ہے تومجھے بھی کہیں نا کہیں اپلائی کردینا چاہیے۔۔ :p;) :boxing:
چند جہادی تنظیموں اور طالبان کے کچھ گروپس کی کسوٹی دیکھ رکھی ہے۔ اس پر پورا اترنے کے لئے آپ کا ان کے لئے کارآمد ہونا ضروری ہے عمر، تعلیم، تجربے اور دولت کی کوئی قید نہیں۔
 
Top