القابات؟؟؟؟

قربان

محفلین
یہ اس زمانے کے لائقِ احترام اور عالی مرتبت بزرگانِ کرام تھے، جب بڑے سے بڑے عالم کو ”مولوی“ کہاجاتا تھا یا پھر زیادہ سے زیادہ ان کے نام کے ساتھ ”مولانا مولوی“ لکھا جاتا تھا۔ اس دور میں شاید زبدۃ العلماء، عمدۃ المفسرین، قدوۃ الصالحین، رأس الاتقیاء، شیخ القرآن والحدیث، امام العصر اور شیخ الاسلام وغیرہ القاب ایجاد نہیں ہوئے تھے، نہ علامہ اور فہامہ قسم کے الفاظ کبھی سننے میں آئے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ القاب کی کثرت اور خطابات کی اگاڑی پچھاڑی میں میرے جیسے ناواقف کے لیے کسی عالم کا اصل نام تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پہلے پہل القاب نویسی کا آغاز بریلوی حضرات نے کیا۔ پھر یہ مرض دیوبندی مقالہ نگاروں میں آیا اور اب کچھ عرصہ سے یہ متعدی بیماری بعض اہلحدیث مصنفوں اور مضمون نویسوں کو لاحق ہوگئی ہے۔ علم گھٹتا جارہا ہے اور اس کی جگہ القاب و خطابات لے رہے ہیں۔
میں الحمد للہ ”جلسئی“ نہیں ہوں۔ نہ کسی جلسے میں جاتا ہوں نہ اس موضوع سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ بعض ایسے مقررین بھی ہیں کہ کوئی ان کو جلسے میں دعوت دینے اور تقریر کے لیے عرض کرنے آئے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کن کن عالموں کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ پھر انھیں اپنے متعلق باقاعدہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ان کا نام اشتہار میں سب سے پہلے لکھا جائے یا پھر نمایاں کرکے اسے رنگین اور جاذبِ نظر چوکھٹے میں درج کیا جائے اور یہ یہ القاب لکھے جائیں۔
میری شنید کے مطابق ایسا بھی ہوا کہ بعض مقرروں نے اشتہار پھاڑ دیئے کہ ان کا نام دوسرے یا تیسرے نمبر پر لکھا گیا ہے، یا پھر محض اس بناء پر جلسے میں شریک ہونے سے انکار کردیا کہ ان کے اسم گرامی سے پہلے اور بعد میں فلاں فلاں القاب نہیں لکھے گئے۔
آزادی سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ تمام علماء کرام کو الگ الگ جوابی پوسٹ کارڈ لکھ دیئے جاتے تھے اور جلسے کی تاریخ بتا دی جاتی تھی، منظوری آجاتی تھی اور وہ خود ہی تشریف لے آتے تھے۔
موجودہ دور میں اس سے تو نہایت خوشی ہوتی ہے کہ علماء نے موٹر کاریں رکھی ہیں اور ان کا معیارِ زندگی اونچا ہوا ہے۔ لیکن اس میں کئی قسم کی باتیں آگئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وقت طے ہوجانے کے باوجود ایک دو آدمی ان کو لینے جائیں۔ پھر ان کی خدمت الگ کریں، ان کی گاڑی کے لیے پٹرول الگ دیں اور ”ٹائر گھسائی“ الگ دیں۔ ہر عالم کے ساتھ ایک ایک دو دو خادم بھی ہوتے ہیں، ان کی خدمت الگ کی جائے۔
تقسیم سے پہلے ہم نے ہندوؤں کے گھروں میں دیکھا کہ خاندان کے برہمن کو کھیر کھلانے کے لئے کوئی ہندو گھر میں بلاتا تھا تو گائے کے دودھ کی کھیر اسے کھلائی جاتی تھی اور کھیر کھاتے ہوئے جو دانت گھستے ہیں اس کے پیسے الگ دیئے جاتے تھے، اسے کہا جاتا تھا ”دند گھسائی“
اسی طرح ہمارے علماء کرام کی موٹروں کا پٹرول الگ دیاجاتا ہے۔ اور ”ٹائر گھسائی“ کے پیسے الگ دیئے جاتے ہیں۔

تحریر: اسحٰق بھٹی
 
Top