الفت بھری شراب کا اک مے کدا ہیں ہم

نوید اکرم

محفلین
الفت بھری شراب کا اک مے کدا ہیں ہم
بھڑکے ہے جس میں پیار وہ آتش کدا ہیں ہم

ہم وہ نہیں جو پھول کی رنگت پہ مر مٹیں
وہ پھول کی مہک ہے کہ جس پر فدا ہیں ہم

ہو جائے جن سے پیار وہ سب سے حسین ہیں
پھر ان کے زلف و لب پہ ہی لکھتے سدا ہیں ہم

ان کا ہمارا ساتھ ہمیشہ رہے گا اب
پوشاک وہ ہماری اور ان کی ردا ہیں ہم

آنسو ہیں ان کی آنکھ میں ، چہرہ بجھا بجھا
پوچھیں سبھی کہ کیسے مجازی خدا ہیں ہم!​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مے کدہ اور آتش کدہ ۔۔۔ اول تو حرف "دال" کے بعد حرف "ہ" لگاتے ہیں، لیکن یہ "رعایت شعری" آپ کو دے بھی دی جائے (جو کہ دی نہیں جاتی)، تو پہلے ہی شعر سے آپ کا قافیہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں مصرعوں میں لفظ "کدا "تو مشترک ہے۔ پھر قافیہ مے اور آتش نکلتا ہے، جوکہ غلط ہے۔۔

2) رنگت کی بجائے مہک پر فدا ہونا قدرے نیک خیال معلوم ہوتا ہے ۔

3) پھر ان کے زلف و لب پہ ہی لکھتے سدا ہیں ہم، کمزور مصرع ہے، مصرع اولیٰ سے اس کا تطابق بھی کمزور ہے۔

4) پوشاک اور ردا والا شعر بھی کچا ہے۔۔۔ لفظ "اب" کا آخر میں استعمال مصرعے کو کمزور کر رہا ہے۔ پوشاک اور ردا والا خیال پراناسہی، لیکن آپ کو یہی کہنا ہے تو یونہی درست ہے۔
پوچھیں سبھی کہ کیسے مجازی خدا ہیں ہم!
5) ۔۔۔ پہلا مصرع ہمیں اچھا لگا کہ آنسو ہیں ان کی آنکھ میں ، چہرہ بجھا بجھا۔۔۔ لیکن دوسرا مصرع وہ مضمون لایا ہے جسے بدل دینا ہی بہتر ہوگا۔۔۔ یہاں مجازی خدا کا لفظ استعمال کرنا بات کو اتنا کھول دیتا ہے کہ اس کی خوبصورتی برقرار نہیں رہتی ۔۔۔
 

نوید اکرم

محفلین
مے کدہ اور آتش کدہ ۔۔۔ اول تو حرف "دال" کے بعد حرف "ہ" لگاتے ہیں، لیکن یہ "رعایت شعری" آپ کو دے بھی دی جائے (جو کہ دی نہیں جاتی)، تو پہلے ہی شعر سے آپ کا قافیہ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ دونوں مصرعوں میں لفظ "کدا "تو مشترک ہے۔ پھر قافیہ مے اور آتش نکلتا ہے، جوکہ غلط ہے۔

املا کی تصحیح کا شکریہ۔۔۔
- کیا ایسی صنف متعارف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے مطلع میں ہم قافیہ کی جگہ ایک جیسے الفاظ (کدہ اور کدہ) آ جائیں؟ میں نے ایک دو اور غزلیں بھی اسی طرح کی لکھی ہوئی ہیں۔
 
- کیا ایسی صنف متعارف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے مطلع میں ہم قافیہ کی جگہ ایک جیسے الفاظ (کدہ اور کدہ) آ جائیں؟ میں نے ایک دو اور غزلیں بھی اسی طرح کی لکھی ہوئی ہیں۔

آپ کی تجویز نہ صرف قابلَ عمل ہے بلکہ ہم تو اس پر عمل کربھی چکے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے ہمارا مضمون
وزل: ایک نئی صنفِ سخن
 

آوازِ دوست

محفلین
بھائی نوید اکرم مجھے لگتا ہے کہ آپ کی غزل کی الفت بھری شراب کو اہلِ ہُنرغلطی سے کچی شراب سمجھ بیٹھے ہیں، سو مقامِ صبر ہے۔ مگر یقین جانیے اصلاحِ کلام کی ذیل میں فن پاروں کایہاں جو پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے اِسے دیکھتے ہوئے اَب کم از کم ایک ماہ تک توہم خود کو اِس مشقِ ستم کا نشانہ بننے کے لیے تیار نہیں پاتے۔ پھر جو ہوگا سو دیکھا جائے گا۔ آپ بھی کوشش جاری رکھیں ہم بھی ہمت جمع کرتے ہیں۔ خدا کرے "لائف اِز شارٹ اینڈ آرٹ اِز لانگ" والی بات ہمارے کم خواہوں کے لیے ہی ہو۔
 

نوید اکرم

محفلین
بھائی نوید اکرم مجھے لگتا ہے کہ آپ کی غزل کی الفت بھری شراب کو اہلِ ہُنرغلطی سے کچی شراب سمجھ بیٹھے ہیں، سو مقامِ صبر ہے۔ مگر یقین جانیے اصلاحِ کلام کی ذیل میں فن پاروں کایہاں جو پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے اِسے دیکھتے ہوئے اَب کم از کم ایک ماہ تک توہم خود کو اِس مشقِ ستم کا نشانہ بننے کے لیے تیار نہیں پاتے۔ پھر جو ہوگا سو دیکھا جائے گا۔ آپ بھی کوشش جاری رکھیں ہم بھی ہمت جمع کرتے ہیں۔ خدا کرے "لائف اِز شارٹ اینڈ آرٹ اِز لانگ" والی بات ہمارے کم خواہوں کے لیے ہی ہو۔
میرے بھائی یہاں سب لوگ اپنی اپنی غزلیں پوسٹ مارٹم کرانے کے لئے ہی تو پوسٹ کرتے ہیں تاکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے ناقص کلام کو تھوڑا بہتر کر سکیں۔
 

الف عین

لائبریرین
تو میرے پوسٹ مارٹم کا انتظار ہے۔ نہیں بھئی، اس غزل میں مطلع کے قافئے کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ مصرعوں کی روانی اور چستی ضرور بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن کوئی عر وضی غلطی نہیں ہے میرے خیال میں۔ بس مطلع کا ایک مصرع بدل دو۔
 
Top