العلی، العلی، العلی

نور وجدان

لائبریرین
العلی العلی العلی ....
کُرسی کیسی ہے جس پر زندہ و جاوداں روشنی ہے؟یہ خانہِ رو جس میں بیٹھے قرطاس پر رحمت کی چادد ڈالی جاتی ہے. اس چادر پر عین کا جلالی نشانی کمالی ہوتا دکھائی دیتا ہے. تُم کیوں گُمشدہ ہو نَفس نَفس کی وادیوں میں جب کہ شاہی کُرسی تُمھارے دل پر نشان بَناتی ہے بعض اوقات تُم کو نشان بَنا دیتی ہے. تُم نشان ہو جاؤ اور درِ علم سے خیرات کے بانٹنے والے ساتھی ہمراہ خواہاں خواہاں .... جذبِ حب سے رب رب سے شب کے ڈھب میں نشانِ عین کی تلاوت روئے اعلی کے قریب کرتی ہے. روئے اعلی پر مقرر روحی روحی نشان کھل چکے ہیں. ربط ایسا ہے کہ برقی رو ہو. بجلیاں .... تجلیاں اور ان میں کھویا راہی فلک فلک کس کو ڈھونڈتا ہے. افلاک سے قندیل جب زمین پر اتر آئی ہے تو زمین فلک ہوگئی ...یہ وہی حشر خیزی ہے جس میں رب کا فرمان ہے تب جبرئیل بھی تھر تھر کانپیں گے .... تب انس و جن میں تمھارا دل ایسی رویت پکڑے گا جس کو میم سے مستعار استعارہ سمجھو اور پہچان کے پاروں کو یکجا کرو تو اسکو پورے قرآن کا استعارا سمجھو. کبھی یسین سمجھو تو کبھی طٰہ سمجھو تو کبھی تجریدی کھیعص سمجھو تو سجدہ ریزی کی حا میم سمجھو کبھی ملاقات کی رویت میں فقد رآنی سمجھو. تم جاؤ جب اس جہاں سے تو تم جاؤ گے نہیں کیونکہ امر ربی سب امر کر دے گا. رگ رگ سے صدا نکلے گی علی علی علی علی

حق کے دروازے دل کے اندر سے کھل جاتے ہیں باہر کی جانب سے چٹخنی لگا دی جاتی. تم دیکھ کے بھی دیکھ نہین پاتے کیونکہ تم وہ دیکھنے لگتے ہو جو تم کو دکھایا جاتا ہے. سماعت پر حجاب پڑ جاتے ہیں اور دل کے قفل توڑ کے نور قدامت کی صدائیں یکجا ہو جاتی ہیں ... صدائیں امر ہوتی ہیں اور صدائین تم سے ملتی ہے تو تم پر پہچان وسیلہ بن کے کھلتی ہے. تب تمھارا دل دربار بن جاتا ہے اس کا ادب اپنی ذات سے ملتزم ہوتا ہے تاکہ خدا کی راجدھانی میں شاہوں کا شاہ کسی جلال کے توسط کچھ ایسی صدا بہ نکال دے جس میں نفع بظاہر نہ ہو ...جان لیجیو کہ سب جانِ حیدر کے صدقے کھلتا ہے اور نور کا باڑہ بنٹتا ہے اور جناب سیدہ بی بی زہرہ پاک بی بی دامن تطہیر والی کی صدا یکجا ہوتے دوئ کے نقش مٹا دیتی ہے. صدا پر توجہ دو جو نور قدیم سے نکلی ہے. وہ عین سے میم سے الف تلک ہے اور جواب ہے کہ رفتار میں تم غریب نہیں ہو بلکہ الہامی ستار بصورت نغمہ تم پر بجتا ہے. تمھارے پاس جبہ و.دستار کی سلامی ہے. اسکو پیش کردو تاکہ زمانہ جان لے کہ چناؤ کے وقت خدا نے کسی کو کیوں اور کس وجہ سے چُنا .....
 

اکمل زیدی

محفلین
نظر تیری بھٹکتی ھے کہاں پر
اِسے ٹھہرا علیؑ کی داستاں پر
پُہنچنا ھے جو حق کے آستاں پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ارادے فکر کامل ڈھونڈتے ہیں
تمناؤں کا حاصل ڈھونڈتے ہیں
بھنور میں ہیں تو ساحل ڈھونڈتے ہیں
مسافر اپنی منزل ڈھونڈتے ہیں
نظر خود علم کا در مانگتی ہے
 
Top