الطاف حسین کی فنکارانہ صلاحیتیں

محمد امین

لائبریرین
بوريوں كا ذكر وڈيروں کے ليے ہو يا عام آدميوں كے ليے ، ايسى باتوں سے تشدد اور نفرت كے سوا كچھ حاصل نہيں ہوتا ۔

اپیا۔۔ انقلاب کے نعرے تلے یہی سب سننے میں اور دیکھنے میں آتا ہے۔۔۔ غلط صحیح کا فیصلہ وقت ہی کرتا ہے۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
:happy::happy: میں نے جناح پور والے دھاگے میں بھی یہی لکھا تھا کہ میں بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔۔۔ شمالی کراچی میں رہتا ہوں جو کہ لوئر مڈل کلاس کا علاقہ ہے اور چند ایک جگہوں پر تو غربت بھی آباد ہے۔ میرے علاقے میں بھی ترقی ہوئی ہے پچھلے دور میں۔

میں آپکو اپنا ذاتی واقعہ بتاؤں۔ نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں ہمارے شمالی کراچی کے ناظم جماعت کے ہی ایک صاحب تھے۔ اور ان کے در میں ہمارے علاقے میں پانی کی ایک بوند تک نہیں آئی۔ اور جو اگر آیا بھی تو کلی طور پر گٹر کا پانی۔

ہمارے علاقے کے بزرگ، بچے، جوان، عورتیں (اور میں بھی) سب انتہائی تہذیب کے ساتھ، درخواست لے کر ناظم صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے ملاقات کے لیے ایک گھنٹہ انتظار کروایا۔ پھر ملاقات میں بے توجہی کے ساتھ بات سنی اور کہا آپ جائیں پانی آجائےگا۔۔ مگر پانی آیا ہے تو ان کے جانے کے بعد۔۔

نعمت اللہ خان یا کسی سے میرا اختلاف نہیں، نہ ایم کیو ایم سے میرا کوئی مفاد وابستہ اور نہ ہمدردیاں۔

بات میں وہ کرتا ہوں جہ دیکھتا ہوں اس شہر کا ہمیشہ کا باسی ہونے کے ناتے۔ نہ کہ سیاسی اور اختلافی بات۔

نعمت اللہ صاحب نے بہت اچھے کام بھی کیے ہونگے۔۔مگر جماعتِ اسلامی کا مسئلہ منافقت ہے اور کچھ نہیں۔
جماعت اسلامی کی منافقت ، میں اس سے ذاتی طور پر متفق ہوں۔ رہی ناظمین کی بات تو ہمیں بھی بحیثیت لوئر مڈل کلاس ناظم جماعت سے زبردستی پانی لینا پڑا کہ پہلے سے دیا گیا کنیکشن آبادی کے اعتبار سے بہت ہی کم پانی فراہم کرتا تھا۔ میرا مقصد مجموعی حیثیت میں کراچی کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت سے ہے ۔ نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کا سالانہ بجٹ بھی کم تھا تو بتدریج بڑھتے بڑھتے غالبا پچاس ارب تک جا پہنچا تھا۔ ترقیاتی کام نعمت اللہ کروائیں یا مصطفٰی کمال ، پہلی بات تو یہ کہ کوئی احسان نہیں کرتا یہ ہمارے نوکر ہیں اور اسی بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں کی رقم ہم پر حکمت سے خرچ کریں ۔ اور معاملہ صرف حکمت کا ہے جس کی مصطفی کمال میں واضح کمی ہے اور جمہوریت جس کا رونا پاکستان میں ہر جماعت روتی ہے اسی کا روز "بلاتکار" کرتی ہے تو میرے خیال میں جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہو وہ سیدھی بن نہیں سکتی۔

جوں جوں متحدہ کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے توں توں میرے اردو بولنے والے دوستوں کی خبروں اور گفتگو سے اندازہ ہو رہا ہے کہ متحدہ اردو بولنے والوں کے ذہنوں میں یہ شکوک تیزی سے ابھار رہی ہے کہ اگر الطاف حسین کو کچھ ہو گیا تو اردو بولنے والوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ اس طرح کی چیزوں سے ہم کراچی کے مکین خصوصا جو سیاست میں قدرے دلچسپی رکھتے ہیں خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کیا بھیانک نتیجہ بر آمد ہوگا اور موجودہ سال کے آغاز سے ہی جو کچھ کراچی میں متحدہ ، اے این پی اور پی پی کر رہی ہیں وہ تو کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تھوڑے فائدے کو بڑے نقصان پر ترجیح یقینا اچھا فیصلہ نہیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
شکریہ طالوت بھائی۔
یہ باتیں تو کبھی نہیں ختم ہونگی۔۔۔ اہم چیز یہ کہ ہے دریں اثناء ذہنوں کی تہذیب اور مستقبل کے معماروں کی تربیت ہو۔ میرا خیال ہے کہ ابحاث میں ایک دوسرے پر طرح طرح کے الزامات کے بجائے تعمیری گفتگو کی جانی چاہیے۔ اور یہی میرا یہاں بے پر کی اڑانے کا مقصد ہے۔ میں بہت کم اظہارِ خیال کرتا ہوں سیاسیات یا دیگر متنازع موضوعات پر، مگر ضروری بھی سمجھتا ہوں کہ کسی طور اپنی اور دوسروں کی اصلاح ہو۔ افہام و تفہیم اور گفت و شنید سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے۔ بات وہ کی جانی چاہیے جو سب کے لیے قابلِ قبول اور مجموعی طور پر ملک و ملت کی فلاح کا باعث بنے۔
 
Top