فارسی شاعری السلام اے ساکنِ محنت سرائے کربلا - محمد بن سلیمان فضولی بغدادی

حسان خان

لائبریرین
السلام اے ساکنِ محنت سرائے کربلا
السلام اے مستمند و مبتلائے کربلا
السلام اے ہر بلائے کربلا را کردہ صبر
السلام اے مبتلائے ہر بلائے کربلا
السلام اے بر تو خارِ کربلا تیغِ جفا
السلام اے کشتۂ تیغِ جفائے کربلا
السلام اے متصل با آبِ چشم و آہِ دل
السلام اے خستۂ آب و ہوائے کربلا
السلام اے غنچۂ نشگفتۂ گلزارِ غم
ماندہ از غم تنگدل در تنگنائے کربلا
السلام اے رشک بردہ زندہ ہائے ہر دیار
در جوارِ مرقدت بر مردہ ہائے کربلا
(السلام اے حُسین کہ ہر جگہ کے زندہ افراد آپ کے جوار میں مدفون لوگوں پر رشک کرتے ہیں۔)
یادِ اندوہ و غمت کردم، شد از اندوہ و غم
از دلِ من تنگ تر بر من فضائے کربلا
ریخت خوں در کربلا از مردمِ چشمِ قضا
از ازل اینست گویا، مقتضائے کربلا
(کربلا میں قضا کی پتلیوں سے بھی خون بہا، شاید ازل سے کربلا کا تقاضا یہی تھا۔)
ہر کہ اندر کربلا از دیدۂ دل خوں نریخت
غالباً آگہ نشد از ماجرائے کربلا
(جس نے بھی کربلا میں اپنی دل کے آنکھ سے خوں ریزی نہیں کی وہ شاید ماجرائے کربلا سے آگاہ ہی نہیں ہوا ہے۔)
سرورا، با یادِ لبہائے بہ خوں آلودہ ات
خوردنِ خوں است کارم، چوں گیائے کربلا
(اے سرورِ دیں! آپ کے خون آلودہ ہونٹوں کی یاد میں میں بھی اُسی طرح خون پیتا رہتا ہوں جس طرح کربلا کی گھاس نے آپ کا پاک خون پیا تھا۔)
اجرِ من ایں بس کہ گر میرم، شود سرمنزلم
خاکِ پاکِ جاں فزائے دلگشائے کربلا
(میرے لیے یہی اجر کافی ہے کہ اگر میں مروں تو میری آرامگاہ کربلا کی پاک، جاں فزا اور دللکشا خاک قرار پائے گی۔ فضولی کی جائے پیدائش بھی کربلا تھی اور اُن کا مرقد بھی کربلا میں ہے۔ حالانکہ وہ نسلاً آذربائجانی ترک تھے۔)
کربلا خوانِ عطائے تُست، گردوں دم بہ دم
می رساند بر ہمہ عالم صلائے کربلا
(کربلا آپ کی عطا کا دسترخوان ہے، اسی لیے چرخ دم بہ دم تمام عالم کو کربلا کی جانب بلاتا رہتا ہے۔)
ہر کہ می آید بہ قدرِ سعی و استعدادِ خود
بہرہ اے می گیرد از بحرِ عطائے کربلا
(جو شخص بھی کربلا آتا ہے وہ اپنی سعی اور استعداد کے مطابق وہاں سے بہرہ یاب ہوتا ہے۔)
نیست سبحہ ایں کہ بر دست است ما را، بلکہ ہست
دانۂ چندے زِ درِّ بے بہائے کربلا
(یہ میرے ہاتھوں میں تسبیح نہیں ہے، بلکہ یہ تو کربلا کے بے بہا موتیوں کے چند دانے ہیںِ۔)
یا شہیدِ کربلا، از من عنایت کم مکن
چوں تو شاہِ کربلائی، من گدائے کربلا
در دلم دردیست استیلائے بیمِ معصیت
شربتے می خواہم از دارالشفائے کربلا
(میرے دل میں درد ہے، اور معصیت کے خوف نے مجھ پر غلبہ پایا ہوا ہے، اس لیے میں دارالشفائے کربلا سے کوئی دوا چاہتا ہوں۔)
روزگارے شد کہ ماوائے فضولی کربلاست
نیست او را میلِ ماوائے ورائے کربلا
(ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ فضولی کی پناہگاہ کربلا ہے، اور اب اُسے کربلا کے علاوہ کسی دیگر پناہگاہ کی رغبت نہیں رہی ہے۔)
ہست امیدم کہ ہرگز برنگَردَد تا ابد
روئے ما از کعبۂ حاجت روائے کربلا
(مجھے امید ہے کہ تا ابد میں ' کعبۂ حاجت روائے کربلا' سے مایوس نہیں لوٹایا جاؤں گا۔)
ہمچو سعیِ مَروہ لطفِ حق ببخشد اجرہا
سعیِ ما را در زمینِ پرصفائے کربلا
(اور مجھے امید ہے کہ جس طرح خدا کے لطف سے صفا و مروہ کی سعی کا اجر ملتا ہے ویسا ہی اجر مجھے کربلا کی پرصفا زمین کی سعی کرنے پر ملے گا۔)
(محمد فضولی بغدادی)
 
Top