الحمراء میں شائع ہوا ایک خط

Rashid Ashraf

محفلین
خاکسار کا یہ مکتوب لاہور کے جریدے الحمراء کے تازہ شمارے، اپریل 2012 میں شائع ہوا۔ احباب کے ذوق مطالعہ کی نذر یہ سوچ کر کررہا ہوں کہ اس میں ادب کے تعلق سے کئی باتیں شائد پڑھنے والے پسند کریں:

محترم شاہد علی خاں صاحب، آداب
الحمراء کا فروری 2012 کا شمارہ میرے کرم فرما سید معراج جامی صاحب کی وساطت سے موصول ہوا۔آپ کا بیحد شکریہ کہ خاکسارکے حضرت مشفق خواجہ پر لکھے مضمون کو شامل کیا۔ ڈاکٹر انور سدید کی کرم نوازی کہ ایک شوقیہ لکھنے والے 35 برس کے انجینئر کی اپنے خط میں اس قدر حوصلہ افزائی فرمائی(خاکسار ہائیڈرالک نہیں بلکہ ایک کیمیکل انجینئر ہے ) اور مذکورہ مضمون کی الحمراء میں اشاعت کو یقینی بنایا۔ محترم ابن صفی سے مجھے دلی عقیدت ہے اور ان پر ایک محقق کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہوںاور صفی صاحب سے متعلق ایک غیر تجارتی ویب سائٹ وادی اردو کا نگران کار ہوں۔ ابن صفی ایک بڑے ادیب تھے، افسوس کہ ادب عالیہ کے لوگوں نے ان کی ادبی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا لیکن اب برف پگھل رہی ہے اور اردو ادب میں ان کے جائز مقام کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ حال ہی میں پروفیسر شمس الرحمان فاروقی نے ابن صفی کے چار ناولز کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ وادی اردو ڈاٹ کام پر دو عدد ’لنکس‘ کے زیر تحت لگ بھگ سات سوخودنوشت آپ بیتیوں کے سراوراق ، ہمراہ نام مصنف و سن اشاعت محفوظ کیے ہیں اور ان میں وقتا فوقتا اضافہ بھی کرتا رہتا ہوں۔ امید ہے کہ یہ ان تمام لوگوں کے لیے کارآمد ثابت ہوگا جو اردو کی اس اہم صنف ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں یا اس میں تحقیق کام کررہے ہیں۔

چند مشاہیر کے وفات نامے میں ڈاکٹر انور سدید نے ڈاکٹر اعجاز حسین کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ یہ ذکر بھی کرتا چلوں کہ ڈاکٹر اعجاز حسین، الہ آباد میں ابن صفی کے استاد تھے۔اس وقت جب یہ سطور سپرد قلم کررہا ہوں، اہل کراچی ایک ادب نواز شخصیت سے محرومی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں، لطف اللہ خاں صاحب بھی رخصت ہوئے۔ابھی ذہنوں میں حال ہی میں شہر کراچی میں انتقال کرجانے والے جمیل زبیری، شاہ محی الحق فاروقی اور محب عارفی کا صدمہ تازہ تھا۔

مشفق خواجہ والے مضمون میں ایک غلطی کی نشان دہی کرتا چلوں۔صفحہ نمبر اکیس پر سہوا لکھا گیا ہے کہ خواجہ صاحب کا کتب خانہ 2004 میں ناظم آباد کے ایک گھر میں منتقل کردیا گیا تھا۔ درست سن 2006 ہے ، 2004 میں خواجہ صاحب حیات تھے اور ایسی کسی کوشش کرنے والے کو مناسب مقام پر منتقل کرنے کی صلاحیت بخوبی رکھتے تھے۔ اسی طرح صفحہ نمبر بیس پر خاکسار نے ’’استفادہ حاصل کیا۔۔ ‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے ۔، اہل دانش اعتراض کریں گے کہ اس میں لفظ ’حاصل‘ کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں میں اس غلطی پر اعتراف جرم کرتا ہوں، کاتب کے سر بھی یہ وبال نہیں ڈالا جاسکتا کہ مذکورہ مضمون کا کاتب بھی خود ہی ہوں۔ اپنی اس غلطی پر حضرت مولانا غلام قادر کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، واقعے کے راوی ہیں مولانا عبدالمجید سالک جنہوں نے ایک مرتبہ مولانا غلام قادر سے نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی کی شاعری کے بارے میں مولانا کا خیال دریافت کیا ، جواب ملا: ’’ خامی میں پختہ ہوگیا ہے۔‘‘ اور سالک صاحب اس جامع مانع رائے کو سن کر پھڑک اٹھے۔ مضمون میں خواجہ صاحب کے کالمز کے مجموعوں کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے، اس سلسلے میں آخری کتاب 2008 میں شائع ہوئی تھی ۔ چند روز قبل (فروری2012) اسی سلسلے کی ایک نئی کتاب ’’مزید خامہ بگوشیاں ‘‘ کے عنوان سے مقتدرہ قومی زبان سے شائع ہوگئی ہے جسے ڈاکٹر انور سدید اور خواجہ عبدالرحمان طارق نے مرتب کیا ہے۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرتا چلوں۔گزشتہ چند ماہ کی محنت کے بعد میں نے مشفق خواجہ صاحب کے سینکڑوں کالمز سے دلچسپ و شگفتہ ٹکڑے نکالے ہیں، ایسے کہ جن کو پڑھ کو تبسم زیر لب سے بات خندہ دنداں نما تک جا پہنچے۔الحمراء کے لیے درکار ہوں تو حکم کیجیے گا۔ ڈاکٹر انور سدید اس بات سے واقف ہیں کہ میرے زیادہ تر مضامین غیر مطبوعہ ہیں اور بہتیروں کو لکھ کر اور پال لگا کر ایک طرف ڈال دیا ہے۔ شائع ہوگئے تو ٹھیک بصورت دیگر بقول خامہ بگوش ’’ ٓآپ کی غیر مطبوعہ تصانیف کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیننا یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے محفوظ ہوگئے۔ ‘‘ (ایک ادیب کے گھر لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں ان کی مطبوعات کے خاکستر ہوجانے پر رد عمل )

اب آئیے الحمراء کے تازہ شمارے کی جانب ۔ ایک ستم تو یہ ہے کہ آپ ای میل کا استعمال نہیں کرتے ۔ یقیننا اس کی بھی کوئی مناسب وجہ رہی ہوگی لیکن صاحب یہ ان دنوں مراسلت کا سہل طریقہ ہے۔ مشفق خواجہ والا مضمون بہار ہندوستان کے جریدے کسوٹی جدید میں بھی شائع ہوا ہے، ان لوگوں کو میں بذریعہ ای میل اغلاط کی بروقت نشان دہی کرپایا تھا۔ گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ نے خامیوں میں پختہ اس خاکسار کا انٹرویو لیا ، ایک سوال ’انٹرنیٹ کے اردو کے فروغ میں استعمال ‘سے متعلق بھی تھا ، جواب میں عرض کیا تھا کہ نہایت تیزی سے اردو کے جرائد انٹرنیٹ پر منتقل ہورہے ہیں اور اس نئی تکنیک کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لکھنے والا اپنی تخلیق مدیر کے نام لفافے میں بند کرکے بھیجتا تھا،

گمان ہے کہ زیر لب کچھ پڑھ کر دم بھی کرتا ہوگا، ڈاک خانے جا کر ’لیٹر بکس‘ میں ڈال اس کو دو ہاتھ بھی جڑتا تھا کہ کہیں لفافہ باہر ہی نہ آن گرے۔، پھر جواب کے انتظار میں دن گنتا تھا، جواب مثبت آئے تو کیا کہنا، اور کہیں ناقابل اشاعت کا ٹھپہ لگ کر آتا تو مایوسی و بے بسی سے برا حال۔

ایک نہایت اچھا کام آپ الحمراء میں خودنوشت آپ بیتیوں کی قسط وار اشاعت کی صورت کررہے ہیں۔ محمد کاظم، ظفر احمد چودھری،سعید اختر درانی اور جمیل یوسف کی آپ بیتیوں کی اقساط کراچی کے ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ، آپ بیتی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ
احوال زندگی پر مشتمل ہو۔ ایسے کتنے لوگ ہوں گے جن کی زندگیوں میں بیان کرنے لائق رنگا رنگ واقعات ہوں گے اور جو تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے کرتے شاید ایک دن یہ سوچیں کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ ان لوگوں کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جن کی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں بمثل چراغ روشن ہیں ۔ ان شخصیات تک ہماری یہ درخواست بھی پہنچے کہ جلد از جلد یاداشتوں کے اس بکھرے سلسلے کو کتابی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔ محمد کاظم ، محمد خالد اختر مرحوم کے دیرینہ دوست تھے، ان تک بھی ہمارا سلام پہنچے ۔ گزشتہ دنوں محمد خالد اختر کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کی کئی نادر و نایاب تصاویر حاصل کی ہیں ، مضمون بھی لکھا اور اپنے پسندیدہ مصنف کی قبر پر فاتحہ خوانی کا موقع بھی میسر آیا ۔ گھر کا وہ کمرہ بھی دیکھا جہاں ہمارے محبوب مصنف نے آخری سانسیں لی تھیں۔ الحمراء کے زیر تبصرہ شمارے میں ڈاکٹر انور سدید نے خالد اختر صاحب کا وفات نامہ لکھا ہے، اسی طرح ڈاکٹر خالق تنویر ، جو اپنی تحریر سے خالد صاحب کے پرستار معلوم ہوتے ہیں،کے مضمون میں خالد اختر کے ناول بیس سو گیارہ کو انوکھا ناول قرار دیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خالد اختر کو ادبی سطح پر جاننے والے کم کم ہی نظر آتے ہیں، جنہوں نے پڑھا ہے ان میں انہیں سمجھنے اور تحریر کا مزہ لینے والوں کی تعداد تو اور بھی کم ہے۔ حال ہی میں محترم اجمل کمال نے خالد صاحب کی تمام تحاریر کو ابتدائی طور پر چار جلدوں میں مرتب کرنے کے بعد ایک بڑے اشاعتی ادارے کو سونپ دیا ہے ۔ تاحال دو جلدیں شائع ہوچکی ہیں ۔ اگر بیس سو گیارہ انوکھا ناول ہے تو خاکسار کی نظر میں ’چاکیواڑہ میں وصال ‘انوکھا ترین ناول ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ تین روز قبل ہی علی گڑھ میں مقیم مدرس و ادیب جناب اطہر صدیقی (میں کیا میری حیات کیا) نے راقم سے اس ناول کی فراہمی کی خصوصی فرمائش کی ہے، صدیقی صاحب نے لکھا کہ انہوں نے سنا ہے کہ یہ اردو کا ایک بڑا ناول ہے اور وہ اسے پڑھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ صدیقی صاحب تک یہ ناول ایک ایسی خاتون پروفیسر کے ہاتھوں پہنچے گا جو علی گڑھ سے کراچی تشریف لارہی ہیں۔ محمد خالد اخترکی ایک آخری تحریر کا یہ اقتباس بھی پڑھ لیجیے:
’’ میں اب سب خواہشوں اور امنگوں سے آزاد ہوچکا ہوں۔ نہ علمی، نہ ادبی اور نہ عملی۔سورج غروب ہورہا ہے اور سائے لمبے ہورہے ہیں۔جلد، بہت جلد میں بھی اس دور دراز کے سفرپر چل نکلوں گا جو جلد یا بدیر ہم سب کو درپیش ہے۔ معمولی سا ٹیلنٹ یا صلاحیت مجھ میں تھی ، اس کو موافق جو کچھ مجھ سے ہوسکا، میں نے کرلیا۔ پچھتاوے بھی نہیں ہیں۔ایک خواہش البتہ ہے کہ جب اس دنیا سے جاؤں ، چلتا پھرتا جاؤں۔کسی کا محتاج ہوئے بغیر، کسی کو جوکھم میں ڈالے بغیر! ‘‘
محمد خالد اختر رخصت بھی اسی طور ہوئے تھے، بنا کسی کو تکلیف دیے، ان کے بیٹے نے اس بات کی تصدیق کی!

ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، جناب قاضی اختر جونا گڑھی ، پروفیسر جمیل آذر، اور جاوید اختر بھٹی کے مضامین معلومات سے بھرپور ہیں۔ ’آخری مکالمہ ‘پڑھ کر جی اداس ہوا۔ گزشتہ دنوں مظفر علی سید کی کتاب یادوں کی سرگم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کیا زندہ خاکے انہوں نے تحریر فرمائے ہیں۔ اسی طرح سید صاحب نے مشفق خواجہ کے کالمز کا انتخاب (دو حصوں میں) بھی ایسا لاجواب کیا ہے کہ پڑھیے اور پڑھ کر ہنستے رہیے۔ یاد ش بخیر، ۔کنہیا لال کپور سے انتظار حسین نے کہا:’ ’ کپور صاحب! آ پ اپنے دوست مظفر علی سید پر کام کررہے ہیں ‘‘۔۔کپور صاحب نے جواب دیا: ’’ ہاں سید صاحب کا خط آیا تھا۔ میں نے انہیں لکھ بھیجا ہے کہ یہاں ایک سکھ مجھ پر کام کرنے کے درپے تھا، مگر ایک سکھ کے ہاتھوں جھٹکا ہونے کے مقابلے میں مجھے ایک سید کی چھری سے ذبح ہونا منظور ہے۔‘‘

پیراکرم کا دیو آنند پر مضمون شاندار ہے۔ دیو صاحب کی فلموں کا شوقین یہ خاکسار بھی ہے ۔ بس ان کی ایک فلم سے محروم رہا ہوں اور وہ ہے ’افسر‘ جو سن 1950 بنی تھی اور اس میں دیو آنند کی ہیروئن تھیں ثریا۔ گزشہ برس دیو صاحب کو سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ ٹوئیٹر پر مذکورہ فلم کے حصول کی درخواست سے متعلق پیغام بھیجا تو ان کا جواب آیا ’’ آپ کو ملے تو مجھے بھی آگاہ کیجیے گا۔‘‘


آخر میں خصوصی طور پر ’محفل احباب‘ کا ذکر کروں گا۔ ادبی جرائد میں ، میں نے کم کم ہی یہ گوشہ اس قدر جامع اور مفصل دیکھا ہے۔ خطوط لکھنے والے بھی زیادہ تر ادبی لوگ ہیں،
مختلف النوع موضوعات کو اس طرح چھیڑتے ہیں کہ بات سے بات بھی نکلتی ہے اور جواب میں آنے والے مکتوب بھی دلچسپ و معلوماتی ہوتے ہیں۔ محفل احباب میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگ (ڈاکٹر حافظ صفوان) بھی ہیں، یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔ بہت برس گزرے جب عطاء الحق قاسمی کو ریل کار کے سفر کے دوران ایک ایسے صاحب ملے جن کی کہی ہوئی بات ان کے دل پر آج تک نقش ہے اور وہ یہ کہ poetic رجحان رکھنے والے شخص کے لیے مذہبی ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ ایک مذہبی شخص کا poetic vision رکھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر صفوان صاحب! حضور،جواب میں کچھ لکھنے سے قبل یہ جان لیجیے کہ خاکسار بھی زمانہ طالب علمی میں تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی قدم بوسی کا شرف ایک برس تک حاصل کرچکا ہے اور اس کے بعد ؟ لیجیے یہاں بھی عطاء الحق قاسمی یاد آئے کہ بیرون ملک ایک سفر کے دوران تبلیغی جماعت والوں کو جماعت چھوڑنے کا سبب بتلا رہے تھے ’’ بھائی! وجہ یہ تھی کہ رائے ونڈ میں قیام کے دوران کھانے میں ٹینڈے گوشت ملتا تھا جس میں ٹینڈے بہت زیادہ اور گوشت بہت ہی کم ہوتا تھا ، بوٹیاں تلاش کرنے کے لیے شوربے میں گہرا غوطہ لگانا پڑتا تھا ۔‘‘

کیا خوب محفل جمائی ہے جہاں مسعود مفتی صاحب بھی تشریف فرما ہیں تو مشکور حسین یاد صاحب بھی براجمان ہیں، میرے بیحد محترم کرم فرما جناب مقصود الہی شیخ صاحب بھی موجود ہیں اور نوید سروش، امین راحت چغتائی و پروفیسر جمیل آذر بھی رونق افروز ہیں۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے ۔۶ مارچ، ۲۰۱۲
 
Top