اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی دلچسپ کہانیاں اور یادیں

کعنان

محفلین
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی دلچسپ کہانیاں اور یادیں
پیر 19 ستمبر 2016م
دبئی - سماح السيد


اقوام متحدہ میں تقاریر کے ڈائس کو عرب اور غیر ملکی سربراہوں نے اپنی کہانیوں کے لیے تھیٹر کے طور پر لیا جن میں سے بہت سی دلچسپ اور مزے دار کہانیاں تو کئی سال گزرنے کے باوجود ذہنوں میں موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تاسیس کو 71 برس گزر چکے ہیں۔

1960 میں جنرل اسمبلی کا اجلاس ابھی تک یادوں میں بسا ہوا ہے۔ ہم اس میں جنرل اسمبلی کے طویل ترین خطاب کی بات کرتے ہیں۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کے 4.5 گھنٹے کے خطاب میں انہوں نے امریکی سامراجیت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس وقت امریکی صدارتی امیدواروں جان کینیڈی اور رچرڈ نکسن کی شان میں نامناسب کلمات بھی کہے تھے۔

جہاں تک سرد جنگ کے دوران سب سے زیادہ شہرت پانے والے خطاب کی بات ہے تو وہ سوویت یونین کے رہنما نکیتا خروشیف کا تھا جو اپنے مشہور جوتے کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ جوتا انہوں نے جنرل اسمبلی کے ڈائس پر کھڑے ہونے کے دوران اٹھایا تھا۔ وہ امریکا کی جانب سے پیپلز چین کو تسلیم کرنے سے انکار اور فلپائن میں اس کی سامراجی پالیسی پر غضب ناک ہو گئے تھے۔

فلسطین کے سابق رہنما یاسر عرفات 1974 میں ہاتھ میں زیتون کی شاخ لے کر آ گئے تھے۔

لیبیا کے سابق سربراہ معمر قذافی نے 2009 میں جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اقوام متحدہ کا منشور ہاتھ میں تھاما اور پھر اس کو سب کے سامنے پھاڑ دیا۔ قذافی کے خیال میں سلامتی کونسل دہشت کونسل بن چکی ہے۔

وینزوئیلا کے سابق صدر ہوگو شاویز کا خطاب بھی ان خطابات میں شامل ہے جو سننے والوں بالخصوص ان کے مخاصمین کی سماعت پر کافی گراں گزرا۔ 2006 میں ہوگو شاویز نے جارج بش جونیئر کو
(جنہوں نے ایک روز قبل خطاب کیا تھا) تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "شیطان کل یہاں موجود تھا"۔

سال 2012 میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے اسرائیل پر سخت نکتہ چینی کی جس کے نتیجے میں اسرائیلی وفد ہال سے چلا گیا۔

ح

 
Top