اقوام متحدہ اور بین الاقوامی جمہوریت…احسن عزیز

ربیع م

محفلین
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی جمہوریت

آؤ مل کے یہ ساری زمین بانٹ لیں
تاکہ جمہور دنیا میں جتنے بھی ہیں
ہم میں اپنی پسند کے خدا چھانٹ لیں !
آؤ بیٹھیں سبھی ایک چھت کے تلے
سب برے اور بھلے
تاکہ بندہ و آقا کا ہرگز کسی کو پتہ نہ چلے !
ایک جیسے دِکھیں… فرق باقی نہ ہو
مے کدہ تو سجے … کوئی ساقی نہ ہو
اک نیا دور ہو ، جامِ بے شور ہو
مل کے سارے پئیں
سب مزے سے جئیں
آؤ دنیا کو ایک ایسی تہذیب دیں
تاکہ ساروں کے ہی غم غلط ہو سکیں!

تاکہ ساروں کے ہی غم غلط ہو سکیں!
کیوں نہ آزادیوں کو نئی شان دیں
آؤ انساں کو آئینِ انسان دیں
تاکہ جتنے ہیں یہ
ایک سے ہو رہیں
برتری کا کوئی بھی حوالہ نہ ہو
کوئی بے دین یا دین والا نہ ہو
آؤ ایسی شریعت کو نافذ کریں
تاکہ انساں کو انساں کی پہچان دیں !

تاکہ انساں کو انساں کی پہچان دیں !
آؤ ہم آگہی کا اجالا کریں
آؤ جمہور کا بو ل بالا کریں
تاکہ جتنے ہیں یہ
ہم اِنھیں جان لیں
یہ ہمیں مان لیں !
ہم کہ انسان ہیں گو… خوش ادا بھی تو ہیں
ساحلوں پر سہی … ناخدابھی تو ہیں !
امن کی کشتیاں …دور ونزدیک میں بھیجتے ہیں ہمِیں
اپنے نوٹوں سے ہم …قحط والوں کو روٹی کھلاتے بھی ہیں
اپنے ووٹوں سے ہم … حریت (جس کو چاہیں ) دلاتے بھی ہیں !
اپنے ویٹو سے ہم … مارتے ہیں کسی کو جلاتے بھی ہیں
ناخدا ہی نہیں … ہم خدا بھی تو ہیں !
کچھ نہ کچھ دوسروں سے جدا بھی تو ہیں
گرچہ اترے ہیں انسان کے روپ میں
اس کڑی دھوپ میں
ہم بڑی دور سے
چرخِ جمہور سے
تاکہ لوگوں کو ہم باخدا کرسکیں !

تاکہ لوگوں کو ہم باخدا کرسکیں !
تاکہ حق ِنمک یہ ادا کرسکیں
جان ایمان ہم پہ فدا کر سکیں
آؤ جتنے ہیں یہ
"ڈالروں " میں انھیں تول دیں
ان کو سرمائے کی منڈیاں کھول دیں
سو زمانے میں جو
آج سرمائے کی برتری کو نہیں مانتا
دھن کو اپنا خدا جو نہیں جانتا
بستیوں میں نہیں اس کو رہنے کا حق!
آؤ ایسوں کو ہم
دور ویراں جزیروں کی تنہائیوں کی طرف موڑ دیں
تنگ پنجروں میں گلتا ہوا چھوڑ دیں
تاکہ اہلِ جہاں چین سے جی سکیں

تاکہ اہلِ جہاں چین سے جی سکیں
آؤ ہم امن کو آج پھر سے نئی ایک تعبیر دیں
نفرتوں کی کتابیں بہا دیں سبھی
آشتی کی نئی ایک تصویر دیں
موت کی آرزو کا گلہ کاٹ دیں
زندگی کی محبت کو شمشیر دیں
ہر "فسادی" کو دنیا میں تنہا کریں
ہر " مہذب " کو بستی میں توقیر دیں
عرش سے فرش پر
یہ جو تقسیم اتری ہے انسان کی
اپنے اور غیر کی
شر کی اور خیر کی
جس نے کاٹا ہے انساں کو انسان سے
اس کی جڑ نوچ دیں
آؤدنیا کو اک عالمی سوچ دیں
تاکہ کارِ جہاں بھی یہ چلتا رہے

تاکہ کارِ جہاں بھی یہ چلتا رہے
اور تمدن کا پودا بھی پَھلتا رہے
آؤ ہم "مقتدر" اور "مخالف" کے عنوان لوگوں کو دیں
تاکہ جتنے ہیں یہ
اِک سی مصروفیت سب پہ طاری رہے
ایک دوجے کی آپس میں باری رہے
اور الجھیں نہ ہر گز یہ ہم سے کبھی
نہ ہی سلجھیں مسائل نہ ان کے کبھی
بس نوالوں کی گنتی ہی کرتے رہیں
نالیوں اور کھمبوں پہ مرتے رہیں
ہاتھ تیغوں کی جانب نہ ان کے بڑھیں
مسندِ عالمی پر نہ چڑھ یہ سکیں
ہم پہ جتنا بھی ہے ان کا غیظ و غضب
ان کے ہی درمیاں بس نکلتا رہے
احتجاجوں کی صورت میں چلتا رہے
تند جملوں کی پیکر میں ڈھلتا رہے
پتلیاں بن کر چوکوں میں جلتا رہے
ان کی آپس میں ہی دھینگا مشتی رہے
بلکہ اچھا ہے یہ
ہم میں بھی گر یونہی نورا کشی رہے
بس توجہ رہے …سب کو حصہ ملے
اور اہم تر ہے یہ … پاؤں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا رہے
سب کی اک بات ہو ( جو بھی ہاتھی کہے )
ہاتھ میں ایک دوجے کے یوں ہاتھ ہو
تاکہ ساروں میں قائم مساوات ہو

تاکہ ساروں میں قائم مساوات ہو
تاکہ نفرت کا بھی خاتمہ ہو سکے
تاکہ مظلوم جگ میں کوئی نہ رہے
آؤ … جتنے ہیں یہ
مل کے آپس میں ہم ان کے گھر بانٹ لیں
پورے انصاف سے …ان کے سر بانٹ لیں
اس خوشی میں مگر
آؤ پہلے ذرا…
یہ فلسطین کا "کیک " ہی کاٹ لیں !


احسن عزیز
 
Top