اقوال حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ علیہ

Ahsan Ahmad

محفلین
آپ فرماتے ہیں ۔
’’ایک دفعہ حالت وجد میں آپ نے کہہ دیا کہ سبحانی مَا ا عظَمَ شَانی یعنی میں پاک ہوں اور میر ی شان بہت بڑی ہے ۔اور جب اختتام وجد کے بعض ارادت مندوں نے سوال کیا کہ یہ جملہ آپ نے کیوں کہا؟فرمایا کہ مجھے تو علم نہیں کہ میں نے ایسا کوئی جملہ کہا ہو۔‘‘

’’عرش کی حقیقت کے متعلق کسی نے آپ سے سوال کیا تو فرمایا کہ عرش تو میں خود ہوں پھر کرسی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کرسی بھی میں خود ہوں پھرقلم کے متعلق بھی یہی فرمایا۔اس کے بعد سائل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے تو اور بھی بہت سے مقرب بندے ہیں مثلاًحضرت ابراہیم ؑ حضرت موسیٰ ؑ،اور حضور محمد ﷺ اس پر بھی آپ نے یہی فرمایا کہ وہ بھی میں ہی ہوں یہ جواب سن کر جب وہ خاموش ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ حق میں قناعت کے بعدتمام چیزوں کو اپنی ہستی میں ضم پاتا ہوں اس لئے کہ حق میں سب چیزیں موجود ہیں ۔

مصنف تذکرۃ الاولیاء ان اقوال کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
مجھے حیر ت ہے کہ جو بزرگان دین وقار نبوی ﷺسے اس درجہ باخبر ہوں ان کے اقوال سے لوگ ایسا مفہوم کیوں اخذکرلیتے ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو۔جیسا کہ حضرت بایزید ؒ سے پوچھا کہ کیا تما م مخلو ق قیامت میں حضور اکرم ﷺ کے عَلَم کے نیچے ہوگی ۔فرمایا قسمیہ کہتا ہوں کہ میرے عَلَم کے نیچے مخلوق کے علاوہ انبیاء کرام بھی ہوں گے لیکن لوگوں نے یہ مفہوم اخذ کرلیا کہ بایزید رحمہ اللہ نے خود کو حضور اکرم ﷺ سے بھی زیادہ افضل تصور کرلیا۔لیکن یہ مفہوم سمجھنا ایک مہمل سی بات ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ تک اس حدتک رسائی حاصل کی تھی کہ آپ کی زبان خدا کی زبان بن چکی تھی اور آپ کا قول حقیقت میں خدا تعالیٰ کا قول تھا ۔اور یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ ’’لِوَالی اعظم مَن لِوَائِ مُحمد یَا سُبحان ماَ اَعظمُ شَانِی‘‘ جیسے کلمات آپ کی زبان سے نکلے لیکن درحقیقت خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان سے گفتگو فرمائی تھی ۔

انتخاب از : تذکرۃ الاولیاء، اردو ترجمہ. مصنف: حضرت شیخ فرید الدین عطار قدس اللہ سرہ،
 
Top