اقتدار اور حب الوطنی کے تقاضے

جاویداقبال

محفلین
یہ آج کی نوائےوقت کےاخ۔بارمیں شا‏ئع ہوایہ کالم اپنی حشرسمانیوں کےساتھ۔ آپ کی خدمت حاضرخدمت ہے۔

پوٹھوہارکی ایک کہاوت ہے: ’’اپنے سے کمزور کو دیکھتا ہوں تو مجھے غصہ آتا ہے۔ اپنے سے طاقتور کو دیکھتا ہوں تو مجھے رحم آتا ہے‘‘ یہی کہانی پاکستان اور امریکہ کی دوستی کا اصول ہے۔ امریکہ کو ہمیشہ ہم پر غصہ آتا ہے ۔ ہمیں جلی کٹی سنا تا رہتا ہے۔ ڈانٹ بھی دیتا ہے۔ موقعہ کی مناسبت سے کسی نہ کسی شکل میں ایک آدھ لگابھی دیتا ہے لیکن ہم چونکہ پیدائشی طور پر رحمدل واقع ہوئے ہیں اس لیے تھپڑ کھا کر بھی دوسرا گال پیش کر دیتے ہیں۔ امریکہ سے دوستی کا جو خوبصورت پودا ماضی میں ہم نے بڑی امیدوں سے لگایا تھا۔ برسوں اس کی آبیاری کی۔ اب اس نے پھل دینا شروع کر دیا ہے اور یہ پھل بہت کڑوا ثابت ہو رہا ہے۔ واہ رے قسمت بویا کیا تھا ۔ کاٹنے کو کیا مل رہا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی اور فیصل شہزاد کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا اس کی متوقع بقیہ زندگی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کا جرم سن کر اپنی بے بسی پر غصہ آتا ہے۔ ایک دھان پان سی خاتون نے سات فٹے مسلح امریکی فوجیوں پر حملہ کر دیا۔ عجیب زمانہ آگیا ہے بلیاں کتوں کو مارنے لگی ہیں۔ اسے اس کمزور بے یار و مددگاراور مجبور لڑکی کی بہادری سمجھا جائے یا سات فٹے مسلح فوجیوں کی بزدلی جو ظاہری طو رپر پوری دنیا فتح کرنے نکلے ہیں اور ڈرتے ایک کمزور لڑکی سے ہیں۔ انہیں تو واقعی بہادری کا تمغہ ملنا چاہیے۔
امریکہ کو اپنے نظام عدل پر بڑا فخر ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ ہمیں بھی اپنے ملک کی عدلیہ پر فخر ہے۔ امریکی عدلیہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان دو مجرموں کو اُن کے جرم کے مطابق سزا سنا دی۔ مجرموں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔ یہی نظام عدل ہے لیکن ان دو خطرناک مجرموں کا جرم کیا تھا؟ ایک نے فوجی جوانوں کو مارنے کی کوشش کی اور دوسرے نے سویلین کو ۔ عجیب نظام عدل ہے دونوں کا جرم ثابت نہیں ہوا لیکن سزا مل گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی یہی کچھ کیا کرتا تھا۔ جسکے گلے پھانسی فٹ آجائے اسے لٹکا دیا جاتا۔ جرم کا ارتکاب کرنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ انکا مشہور فقرہ: ’’تم جرم نہیں کرو گے تو ہم سزا بھی نہیں دیںگے‘‘ یہی کچھ امریکہ بادشاہ کر رہا ہے۔ دراصل بات جرم کی نہیں۔ امریکہ میں ان سے کہیں زیادہ گھنائونے جرم ہوتے ہیں اور معمولی سزائوں کے ساتھ فیصلے ہوجاتے ہیں۔ ان دونوں کا جرم صرف ایک ہی تھا وہ یہ کہ دونوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہاں یہ ہمیں ضرور یاد رہنا چاہیے کہ جو بھی پاکستانی امریکیوں کے ہاتھ آئیگا اسے اسی طرح کی سزائیں ملیں گی۔ جرم کا سرزد ہونا یا نہ ہونا کوئی بنیاد نہیں۔
یہاں پر ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے خصوصاً جبکہ ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحادی ہیں۔ امریکی خدمت کے جوش میں اپنی معیشت تک تباہ کر بیٹھے ہیں۔ تقریباً 32 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی قربانی دے چکے ہیں پھر بھی کالی دیوی کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اگر پچھلے چند ماہ کے امریکی میڈیا کا تجزیہ کیا جائے تو تین بنیادی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ اول اور سب سے اہم یہ کہ امریکہ کی جان اس طوطے میں ہے جسے ’’اسرائیل‘‘ کہتے ہیں۔ یہ طوطا ہر کلمہ گو سے نفرت کرتا ہے اور کوشش میں ہے کہ اول تو کلمہ گو اشخاص کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں اسقدر ذلیل و خوار کر دیا جائے کہ یہ زندہ تو رہیں لیکن نیم مردہ حالت میں جو انکی غلامی سے سر نہ اٹھاسکیں۔ مسلمان ملکوں میں پاکستان کا وجود اس لئے بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے کہ پوری مسلم اُمہ میں یہ ایک واحد ایٹمی طاقت ہے۔ کسی مسلمان ملک کا ایٹمی طاقت ہونا نا قابل معافی جرم ہے۔ لہٰذاپاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا اسرائیل کا اولین فرض ہے جس پر وہ پوری تندہی سے کام کر رہا ہے۔
دوم: ورلڈ میڈیا کی باگ ڈور اسوقت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے جو سفید کو کالا اور کالے کو سفید ثابت کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ یہودی میڈیا نے پاکستان میں طالبان کی سرگرمیوں کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرکے پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلا سکتے ہیں بلکہ دنیا کے اہم شہروں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے پاکستان ایک بہت ہی خطرناک ملک بن چکا ہے پروپیگنڈہ تیزی سے پھیلایا جارہا ہے کہ جتنا جلدی پاکستان کے ایٹمی اثاثے قبضے میں لے لئے جائیں۔ دنیا اتنی ہی دہشت گردی سے محفوظ ہوجائیگی بدیگر الفاظ پاکستان اور دہشت گردی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جسے وہ اسلامی دہشت گردی کا نام دیتا ہے۔ اس لیے پاکستان کا ہر شہری بھی دہشتگرد ہے۔ باقی تمام دنیاوی مذاہب کے خلاف ہے۔ امریکی اور یورپیوں کو مارنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جسے وہ جہاد کا نام دیتا ہے۔ اس خطرے سے نبٹنے کے لئے اور دنیا کو محفوظ جگہ بنانے کے لئے پاکستان کی طاقت کو توڑنا بہت ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی پاکستان کو بے اصول۔ کرپٹ ترین اور امریکہ کا دشمن ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں امریکہ افغانستان میں صرف اس لئے جنگ ہار رہا ہے کیونکہ پاکستان طالبان اور القاعدہ کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ان لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ دہشت گردی کی تربیت گاہیں بنا رکھی ہیںجہاں سے طالبان اور القاعدہ کے لوگ افغانستان میں نیٹو افواج پر حملے کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی شدید دکھ ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ مخلص نہیں۔ امریکہ سے دہشت گردی کے نام پر ڈالر بٹورتا ہے اورر پھر وہی ڈالرز دہشت گردی پر خرچ کرکے امریکیوں پر حملے کراتا ہے ۔ پاکستان دراصل وہ کچھ نہیں کر رہاجس کا وہ امریکہ کے سامنے دعویٰ کرتا ہے۔ امریکی حکومت اور امریکی فوج نے بھی بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی ISIہی طالبان اور القاعدہ کو سپورٹ کر رہی ہے۔ لہٰذا امریکی شہری اپنی تمامتر ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان ہی کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے اب یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان کی تمام فوجی اور معاشی امداد بند کی جائے۔ پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف اب تک پاکستان کو تقریباً 2ملین ڈالرز کی امداد دے چکا ہے لیکن دہشت گردی قابو میں آنے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔
اس پس منظر میں افغانستان میں امریکی فوج کی ناکامیاں ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ روس کی ناکامی کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ہے۔ اس لحاظ سے روس اور امریکہ کے پاکستان کے خلاف مفادات اور تحفظات ایک جیسے ہیں۔ اب امریکہ کو افغانستان سے باعزت طور پر نکلنے کے لئے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امریکی مفادات کا بھی علاقے میں تحفظ ہو۔ طالبان اور القاعدہ کا بھی خاتمہ ہو۔امریکی آرام سے گھر بھی چلے جائیں اور یہ جنگ پاکستان جاری رکھے۔ ہمارا بازو مروڑنے کے لئے امریکہ کے پاس کئی ایک ’’حربے‘‘ موجود ہیں۔ اس میں پہلی بات تو ہماری حکومت کا وجود ہے۔ یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ حکومت NROکے ذریعے اقتدار میں آئی اور NRO امریکہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔اسی لیے اقتدار میںبیٹھی بڑی بڑی ہستیوں کی بڑی بڑی کرپشن کو بھی NROکے برقعے میں چھپا دیاگیا۔ بدیگر الفاظ یہ اقتدار امریکی امداد کا ہی مرہون منت ہے۔ دوسری اہم بات ہمارے آرمی چیف کی مکمل ٹرم کی ایکسٹینشن ہے جو جمہوری تاریخ میں کہیں بھی ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ خیال غلط ہو لیکن روزنامہ ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق یہ کارنامہ امریکی کرامت ہی کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یقینا آرمی چیف بھی امریکہ ہی کے ممنون ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری معیشت مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہے اس کے فوری ریکوری کے امکانات ہیں اور نہ ہی کوئی کوشش ہے۔ ہماری معیشت کا اب تمامتر دارومدار امریکی امداد پر ہے جو کیری لوگر بل کی شکل میں سیلاب زدگان کی امداد کی شکل میں IMFسے قرض کی شکل میں یا فرینڈز آف پاکستان سے امداد کی شکل میں آرہی ہے۔ اگر یہ امداد بند ہوجائے تو پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔
اس پس منظر میں حقیقت یہ ہے کہ بد قسمتی اور ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ہماری سالمیت کی چابی امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ ہم سے جو کچھ چاہتا ہے اس سے تمام پاکستان واقف ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کو اپنی من مانی کرنے سے روکے گا کون؟ کیا پاکستانی قیادت اس قابل ہے کہ کوئی ’’سٹینڈ ‘‘ لے سکے؟ ایک طرف امریکی خواہشات اور امریکی تقاضے ہیں۔ دوسری طرف قومی مفادات اور حب الوطنی کے تقاضے ہیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس وقت ہماری عسکری اور سیاسی قیادت سخت پریشر اور ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔ دونوں راستوں سے صرف ایک راستے کا انتخاب ہی ممکن ہوگا۔ اقتدار یا حب الوطنی میں سے کسی ایک کی قربانی دینی ہوگی لیکن یاد رہنا چاہیے کہ اقتدار محض وقتی چیز ہے جبکہ حب الوطنی تاریخ میں امر ہونے کا دوسرا نام ہے اور ایسے مواقع صدیوں بعد قوموں کو نصیب ہوتے ہیں۔

اقتدار اور حب الوطنی کے تقاضے

والسلام
جاویداقبال
 
Top