اقبال ڈے کے موقع پر

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بالِ جبریل میں سے نوجوانوں پہ اشعار

اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے 'لا' سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ 'الا'

وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا

تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں

جاری ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر

تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی

آئین جواں مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدر کرار بھی ہے؟

میری میں فقیری میں ، شاہی میں غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا بے جرأت رندانہ

مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے

جاری ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
تڑپ جا ، پیچ کھا کھا کر بدل جا
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج
ابھر کر جس طرف چاہے نکل جا!

ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
تری پرواز لولاکی نہیں ہے
یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری
تری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے

جمال عشق و مستی نے نوازی
جلال عشق و مستی بے نیازی
کمال عشق و مستی ظرف حیدر
زوال عشق و مستی حرف رازی

ترا جوہر ہے نوری ، پاک ہے تو
فروغ دیدۂ افلاک ہے تو
ترے صید زبوں افرشتہ و حور
کہ شاہین شہ لولاک ہے تو!

جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اور یہ تو پوری کی پوری نظم ہی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:

اٹھو ! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہ ہو نومید ، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں

تو شاخ سے کیوں پھوٹا ، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبۂ پیدائی ، اک لذت یکتائی!

کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر ، اثر آہ رسا دیکھ!

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
نت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
اے راکب تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

جرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا
ہیں بحر خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
 
Top