اقبال احمدبخت : جان ِمن مرے گلے میں تری باہیں وا ہ وا

سید زبیر

محفلین
شاعر ڈاکٹر
جان ِمن مرے گلے میں تری باہیں وا ہ وا​
جس طرح کوئی سٹیتھسکوپ ہو لٹکا ہوا​
نرگسی آنکھوں میں تیری جھومتی ہیں مستیاں​
جیسے تم نے کھائی ہوں کچھ خواب آور گولیاں​
کھنکھناتی ہیں تمہارے پیار کی یوں چوڑیاں​
جیسے ٹکراتی ہیں انجکشن کی خالی شیشیاں​
یوں حیا و شرم سے گل رنگ ہے چہرہ ترا​
بڑہ گیا ہو جیسے ایک دم دباوٍ خون کا​
تیری خاطر میں جلوں 'یہ دل جلے 'سینہ جلے​
تھرمامیٹر سے تپش'گرمی 'جلن ماپ لے​
یہ تری زلف پریشان کی کوئی تصویر ہے​
یا کہ نسخے میں مری لکھی ہوئی تحریر ہے​
جھلملاتے ہیں مرے ینے میں جلوے آپ کے​
گر یقیں نہ ہو تو ' لو دل کا مرے ایکسرے​
بڑھتا جاتا ہے نہ جانے کیوں ترا حسن و جمال​
عین ممکن ہے سکن کی سرجری کا ہو کمال​
بات اور بے بات تم کھِلتی ہو سرسوں کی طرح​
مہرباں ہونے لگی ہو مجھ پہ نرسوں کی طرح​
میں ہوں عاشق اور شاعر ، عاشقی سے کام ہے​
"ڈاکٹر" کا لفظ تو بس ایک جنرک نام ہے​
اقبال احمدبخت​
 
Top