اقبالؒ، ٹیگور اورترانہ ملی ...قلم کمان .........حامد میر

اقبالؒ، ٹیگور اورترانہ ملی ...قلم کمان .........حامد میر

289780_s.jpg

ڈھاکہ سے آنے والے ایک خط نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ ڈاک میں آنے والے بھاری بھرکم لفافے کے باہر خط بھیجنے والے کا نام اورپتہ لکھا ہوا تھا۔ لفافہ کھولا تو اندر سے ایک کتاب اور انگریزی میں لکھا ہوا محبت نامہ نکلا۔ یہ خط ڈھاکہ سے آر ڈی قریشی صاحب نے بھیجا تھا جو علامہ اقبالؒ کے بہت بڑے مداح ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ 4جون 2015کو روزنامہ جنگ میں آپ کا کالم ’’علامہ اقبالؒ اور ترانہ ہندی‘‘ شائع ہواتھا۔ اس کالم کو امتیاز احمد نے اردو سے بنگلہ زبان میںترجمہ کیا اور بنگلہ اخبار ’’نویودیگونتو‘‘ میں شائع کیا۔ آر ڈی قریشی صاحب نے بنگلہ اخبار میں یہ کالم پڑھنے کے بعد میرا پتہ تلاش کرنا شروع کیا۔ان کی عمر 88 برس ہے اور وہ مجھے شاباش دینے کے لئے کوئی تحفہ بھجوانا چاہتے تھے۔ تحفے کے طور پر انہوں نے علامہ اقبالؒ کی ایک نایاب کتاب ’’اسلام اینڈ احمدی ازم‘‘ کی ایک نقل اپنے خط کے ساتھ بھجوائی ہے۔ یہ کتاب دراصل شاعرمشرق کے ان انگریزی مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے جواہر لعل نہرو کے جواب میںلکھے تھے۔ نہرو نے 1937میں احمدیہ تحریک پر کچھ مضامین لکھے جو کلکتہ کے اخبار ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں شائع ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے نہرو کے جواب میں تفصیلی مضامین لکھے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ علامہ اقبالؒ اور نہرو میں ہونے والا یہ علمی مباحثہ آج بھی اہمیت کا حامل ہے اور اسی لئے آر ڈی قریشی صاحب نے یہ کتاب بھجوائی ہے۔ ان کی محبت کا بہت بہت شکریہ۔ ای میل اورایس ایم ایس پیغام کے اس دور میں بھاری رقم خرچ کرکے بنگلہ دیش سے خط کے ساتھ کتاب بھجوانا ان کی بےلوث محبت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے طفیل میں ایک بزرگ کی محبت اور دعائوں کا مستحق ٹھہرا۔ علامہ اقبالؒ اور ترانہ ہندی کے بارے میں اس ناچیز کے کالم پر مجھ سے بہت سے طلبا نے بہت سے سوالات پوچھے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ معذرت کہ میں سب کے سوالات کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے سے قاصررہا۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ میں کوئی دانشور یا ماہر اقبالیات نہیں۔ ایک معمولی صحافی ہوں اور اپنی محدود بساط کے مطابق علامہ اقبالؒ کی فکر و فلسفے کی گہرائی میں اترنےکی کوشش کرتارہتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابینرجی نے علامہ اقبالؒ کے لئے ترانہ ہندی ایوارڈ کااعلان کیا تو میں نے ضروری سمجھا کہ ترانہ ہندی کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ کے ترانہ ملی کا ذکر بھی کردیاجائے۔
پچھلے دنوں جیو نیوز پر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے ساتھ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گفتگو ہو رہی تھی۔ جب میں نے پوچھا کہ کچھ عرصہ پہلے تک آپ فوجی جرنیلو ں کو انقلاب برپا کرنے کے مشورے کیوں دیا کرتے تھے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ علامہ اقبالؒ نے بھی تو یہ نظم کہی تھی.....
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
الطاف حسین صاحب کے اس جواب پرمیں نے عرض کیا تھا کہ علامہ اقبالؒ نے یہ نظم ضرور کہی تھی لیکن بعد ازاں ان کے نظریات میں تبدیلی آئی اور انہوں نے نئی نظم کہہ دی تھی۔ الطاف حسین صاحب نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا۔ ہماری گفتگو کا موضوع ایم کیو ایم کے پارلیمنٹ سے استعفے تھا لہٰذا میں نے ترانہ ہندی کے جواب میں ترانہ ملی کے اشعار پڑھنے سے گریز کیا کیونکہ ایسی صورت میں تلخی پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ جیسے ہی جیو نیوز پر ان کی میرے ساتھ لائیو گفتگو ختم ہوئی تو میں نے اپنے ناظرین کو بتا دیا کہ علامہ اقبالؒ نے ترانہ ہندی 1904 میں لکھا تھا جس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک سے واپسی پر انہوں نے 1910 میں ترانہ ملی لکھا جس کے یہ اشعار ان کے نظریات میں تبدیلی کا پتے دے رہے تھے.....
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا
بہرحال ترانہ ہندی بھی اقبالؒ نے لکھا ہے اور ترانہ ملی بھی اقبالؒ نے لکھا۔ ترانہ ہندی سے ترانہ ملی کی طرف سفر دراصل متحدہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف سفر ہے۔ ایک زمانے میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ دونوں کانگریس کے ساتھ مل کر انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے جدوجہد پر یقین رکھتے تھے لیکن جب دونوں کو یہ احساس ہوا کہ کانگریس سیکولرازم کے نام پر برہمنوں کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے تو یہ دونوں رہنما کانگریس سے برگشتہ ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ یہ پہلو بڑا دلچسپ ہے کہ علامہ اقبالؒ کے ترانہ ملی کو سب سے پہلے ایک غیرمسلم دانشور ڈاکٹر امبید چکرورتی نے 1912 میں اردو سے بنگلہ میں ترجمہ کیا اور یہ ترجمہ کلکتہ کے ایک ماہنامہ ’’الاسلام‘‘ میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر چکرورتی کا ذکر میں نے ’’علامہ اقبالؒ اور ترانہ ہندی‘‘ والے کالم میں بھی کیا تھا۔ امریکہ کی برکلے یونیورسٹی کے ایک طالب علم ندیم احمد نے ایل میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ ڈاکٹر امبید چکرورتی کون تھے؟ چکرورتی صاحب بنگالی زبان کے شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے سیکرٹری تھے اور بعد میں کلکتہ یونیورسٹی میں استاد بن گئے۔ وہ علامہ اقبالؒ کے مداح تھے۔ ٹیگور کے یہ الفاظ بھی ڈاکٹر چکرورتی کے ذریعے دنیا تک پہنچے..... ’’ڈاکٹر اقبالؒ اور میں ادب میں صداقت اور حسن کی خاطر کام کرنے والے دو دوست ہیں اور اس جگہ آ کر ایک ہو جاتے ہیں جہاں انسانی فکر اپنا بہترین ہدیہ جاودانی انسان کے حضور میں پیش کرتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر چکرورتی کے بعد کلکتہ کے ایک بنگالی اخبار ’’سلطان‘‘ کے ایڈیٹر اشرف علی خان نے علام اقبالؒ کی نظم ’’شکوہ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ مولانا محمد اکرم خان کے بنگالی ماہنامہ ’’محمدی‘‘ میں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ کے بنگالی تراجم شائع ہوئے۔ ان تراجم کو اصل کے ساتھ پڑھنے کے بعد بنگالی زبان کے عظیم شاعر قاضی نذرا لاسلام نے 1946 میں محمد سلطان کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ ’’شکوہ اور جواب شکوہ عظیم شاعر علامہ اقبالؒ کی بینظیر تخلیق ہے۔‘‘ بنگلہ دیش کے ایک مشہور ر شاعر کوی غلام مصطفیٰ کو عاشق اقبال سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نےاقبالؒ کے کلام کاترجمہ بھی کیا اور اقبالؒ کی مدح میں کئی نظمیں کہیں۔ اقبالؒ کے کلام میں کشمیر کاذکر پڑھ کر کوی غلام مصطفیٰ نے کشمیر کی تحریک آزادی کے حق میں بھی نظمیں کہہ دیں۔ یہ حقیقت نظرانداز نہ کی جائے کہ ٹیگور اور قاضی نذر الاسلام جیسے عظیم بنگالی شاعروں نےترانہ ہندی بھی پڑھا اور ترانہ ملی بھی پڑھا۔ علامہ اقبالؒ کے نظریات میں تبدیلی کے باوجودانہوں نے اقبالؒ کے شعری اسلوب کو خراج تحسین پیش کیا۔ دوسری طرف علامہ اقبالؒ کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے آپ کو بے عمل اور ٹیگور کو ایک عملی انسان قرار دیا کرتے تھے۔ پاکستان کے قومی شاعر اور بھارت و بنگلہ دیش کے قومی ترانوں کے خالق کے درمیان احترام کا یہ رشتہ اس خطے کے اہل فکر و دانش کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
 
Top