افغان درسی کتاب میں علامہ اقبال پر مضمون

حسان خان

لائبریرین
ہم نے پچھلے سبق میں کامیابی کے راز کے بارے میں پڑھا۔ علامہ اقبال بھی اُن دانشمندوں میں سے ہیں جو انسانوں کی کامیابی کے راز کے بارے میں اعلیٰ افکار رکھتے ہیں۔

محمد اقبالِ لاہوری ایک بزرگ سخنور، توانا شاعر، اور آزادی طلب سیاستدان تھے۔ وہ اپنے معاشرے کے اور دیگر استعمار زدہ ملکوں کے درد کو بخوبی سمجھتے تھے، اور استعمار کے تازیانے کو مشرقی اقوام کے کاندھوں پر محسوس کیا کرتے تھے۔ اقبالِ لاہوری مسلمانوں کی بے سر و سامانی کا دل میں عظیم درد رکھتے تھے اور اُن کے اسلامی افکار اور اخلاقی و فلسفی مبادیات سے بھرے اشعار مسلمانوں کو غیروں کی قید سے محفوظ رکھتے ہیں۔
عمیق فکر اور قدرتِ بیان نے اُن کی شاعری کو خاص کمال عطا کیا ہے۔
بزرگ سخن ور اقبال افغانوں کے وطن اور افغانستان کے لوگوں سے محبت رکھتے تھے اور افغانستان کو ایشیا کا قلب مانتے تھے، چنانچہ اُنہوں نے فرمایا ہے:
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملتِ افغاں در آں پیکر دل است
از گشادِ او گشادِ آسیا
از فسادِ او فسادِ آسیا​
اقبال کی مادری زبان ہرچند اردو تھی، لیکن زبانِ فارسی سے خاص علاقہ رکھنے کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے چند مجموعۂ اشعار اس زبان میں کہے ہیں اور وہ خود کہتے ہیں:
گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیریں تر است​
اقبالِ لاہوری خواجہ عبداللہ انصاری کے الٰہی نامہ سے آشنائی رکھتے تھے۔ وہ کابل بھی آئے، اور قندہار میں اُنہوں نے پیغمبرِ اسلام کے خرقۂ مبارک کے سامنے سرِ تعظیم خم کیا۔ وہ مولانا جلال الدین بلخی رومی کی زادگاہ ہونے کی خاطر بلخ سے قلبی پیوستگی رکھتے تھے۔
اقبالِ لاہوری نے اگرچہ زبانِ فارسی کو شمال مغربی ہند (موجودہ پاکستان) میں سیکھا تھا؛ لیکن قوی استعداد اور ذکاوت رکھنے کی وجہ سے اُنہوں نے اس زبان میں خالص شعر کہنے میں ایک اہم مرتبہ حاصل کیا ہے۔
اقبال نے اپنی عمر کا اکثر حصہ دنیائے عرفانِ اسلامی کے بزرگ ترین مفکر مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی کے افکار و اشعار کے ہمراہ بسر کیا، اور اپنی امیدوں، اپنے افکار اور اپنے نظریات کے بیان میں وہ اُن کے زیرِ تاثیر رہے۔
اقبالِ لاہوری تنہا مردِ تحقیق و تحریر نہ تھے، بلکہ وہ ایک مبارز انسان بھی تھے جن کی کوشش رہی کہ اُس زمانے کا مستعمرہ ہند اور دیگر اقوام، خصوصاً مسلمان اقوام، استقلال و آزادی سے بہرہ ور ہوں۔
آج ہم اقبالِ لاہوری کو نہ صرف بطور شاعر، مصنف اور سیاستدان، بلکہ ایک انسان دوست مبارز اور عدالت پسند شخصیت کے طور پر بھی پہچانتے ہیں۔
۱۸۷۷ عیسوی کو ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں متولد ہونے والے اقبال سن ۱۹۳۸ میں، قبل اس کے کہ ہند کی تقسیم ہو اور پاکستان وجود میں آئے، وفات پا گئے۔

علامہ اقبالِ لاہوری کی زندگی کے اہم ترین واقعات:
اُنہوں نے بیس سال کی عمر میں انگریزی اور عربی میں ممتاز درجے کے ساتھ گریجویشن کیا اور دو سال بعد جامعۂ لاہور میں درس دینا شروع کیا۔ تیس سال کی عمر میں میونخ جامعہ سے فلسفے کے شعبے میں ڈاکٹریٹ حاصل کیا۔ ایک سال بعد وہ لندن کی جامعہ میں استاد بن گئے۔ ۱۹۳۳ میں شاہِ افغانستان کی دعوت پر اُنہوں نے ہمارے وطن کا سفر کیا۔

مختلف زبانوں میں اقبالِ لاہوری کے اہم آثار یہ ہیں: تاریخِ ہند، اسرارِ خودی، پیامِ شرق، بانگِ درا، زبورِ عجم، جاویدنامہ، مثنوی مسافر، ضربِ کلیم، پس چہ باید کرد؟ وغیرہ

اُن کے کلام کا نمونہ:

چون چراغ لاله سوزم در خیابان شما
ای جوانان عجم جان من و جان شما​
اے جوانانِ عجم! مجھے اپنی اور تمہاری جان کی قسم ہے کہ میں تمہارے چمن میں لالہ کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔
غوطه‌ها زد در ضمیر زندگی اندیشه‌ام
تا بدست آورده‌ام افکار پنهان شما​
میری سوچ نے زندگی کے ضمیر میں بہت غوطے لگائے ہیں، تب کہیں جا کر مجھے تمہارے پوشیدہ افکار کا حصول ہوا ہے۔
مهر و مه دیدم نگاهم برتر از پروین گذشت
ریختم طرح حرم در کافرستان شما​
میں نے سورج اور چاند کا گہرا مشاہدہ کیا، حتیٰ کہ میری نگاہ ستاروں کے جھرمٹ سے بھی آگے نکل گئی۔ (اس گہرے سوچ بچار کے بعد) میں نے تمہارے کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی ہے۔
تا سنانش تیز‌تر گردد فرو پیچیدمش
شعلهٔ آشفته بود اندر بیابان شما​
تاکہ اُس آشفتہ شعلے کی نوک اور تیز ہو جائے جو تمہارے بیابان میں اب تک آوارہ تھا، میں نے اسے یکجا کر کے لپیٹ لیا ہے۔ (یعنی تمہارے پراکندہ خیالات کو یکجا کر لیا ہے تاکہ اُن کی توانائی اور زیادہ ہو جائے۔)
فکر رنگینم کند نذر تهی دستان شرق
پارهٔ لعلی که دارم از بدخشان شما​
تمہارے بدخشاں سے جو لعل کا ٹکرا میرے پاس ہے اُسے میری رنگین فکر مشرق کے تہی دست لوگوں کو نذر کر رہی ہے۔
می‌رسد مردی که زنجیر غلامان بشکند
دیده‌ام از روزن دیوار زندان شما​
وہ مرد آ رہا ہے (یا آنے والا ہے) جو غلاموں کی زنجیریں توڑ کر اُنہیں آزادی دلائے گا۔ میں نے تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے اُسے دیکھا ہے۔
حلقه گرد من زنید ای پیکران آب و گل
آتشی در سینه دارم از نیاکان شما​
اے آب و گل کے بنے ہوئے لوگو! آؤ میرے گرد حلقہ بناؤ، میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے لی ہے۔

توضیحات:
اقبالِ لاہوری اگرچہ تشکیلِ پاکستان سے پہلے وفات پا گئے تھے لیکن چونکہ اُن کی زادگاہ اور زندگی کا مقام موجودہ پاکستان تھا، اس لیے اُنہیں بطور پاکستانی یاد کیا جاتا ہے۔

(وزارتِ معارفِ افغانستان کی شائع کردہ آٹھویں جماعت کی نصابی کتاب 'زبان و ادبیاتِ دری: صنفِ ہشتم' سے ماخوذ)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اپنے محبوب ملک سے تعلق رکھنے والے مشہور ترین شاعر کے بارے میں ہمسایہ ملک کی درسی کتاب میں یہ مضمون دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ اسی لیے اس مضمون کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ آپ کی بصارتوں کے سامنے پیش کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top