افغانستان ڈائری

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عزیزانِ محفل۔ میں پچھلے تین سال سے افغانستان میں رہائش پزیر ہوں۔
اس دوران بہت سے ایسے واقعات پیش آئے اور بہت سے ایسے مشاہدات ہوئے جو کہ کبھی میڈیا وغیرہ پر سامنے نہیں آئے۔ جو کچھ دیکھا، محسوس کیا اور جن تجربات سے گزرا وہ افغانستان کی زندگی کا ایک بالکل مختلف رخ ہے جس سے اس ملک سے باہر کے لوگ بالکل ناواقف ہیں۔

میری خواہش ہے کہ میں اپنے یہاں گزرے ایام کے متعلق اپنے تجربات، مشاہدات اور احساسات سے شریکانِ محفل کو آگاہ کروں تاکہ افغانستان سے باہر کی دنیا کو بھی علم ہو کہ حقیقت کیا ہے اور میڈیا کیا دکھا رہا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس لڑی کا آغاز صحیح زمرے میں کیا ہے یا نہیں۔
اگر میرے اس موضوع کو شروع کرنے پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور یہ لڑی صحیح زمرے میں ہی میں نے ڈالی ہے تو کیا اجازت ہے کہ میں اس بارے میں اس لڑی کے تحت لکھنا شروع کروں؟
 

عبد الرحمن

لائبریرین
مناسب لڑی کا انتخاب منتظمین حضرات از خود فرمالیں گے۔

البتہ آپ کا موضوع واقعی بہت دل چسپ ہے۔ اپنے تجربات ضرور شئیر کیجیے! ہم منتظر ہیں۔

اعتراض کیسا اور اجازت کیسی؟؟
 
بالکل لکھنا شروع کیجئے ۔ ہم آپ کے تجربات ، احساسات اور مشاہدات کے منتظر ہیں ۔
اللہ آپ کو ہمت اور حوصلہ عطا فر مائے ۔
 
بہت بہت شکریہ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کا۔
ہمارے ہاں افغانستان میں طالبان سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ اور انہیں انسانیت سے بھی گرا دیا جاتا ہے اور ایک وحشی درندے سے تشبیہ دے کر میڈیا پر اچھالا جاتا ہے۔
اور میڈیا یہی دکھاتا ہے کہ افغانستان کے عوام پر وہ ظلم کرتے ہیں اور عوام ان ک مخالف ہے۔ لیکن ان سالوں میں میں نے جو کچھ بھی دیکھا وہ میڈیا پر آنے والی ہر بات سے برعکس تھا۔ میں یہاں طالبان کے عدل کا ایک واقع آپ کو سناتا ہوں آغاز کے طور پر۔ میں یہی واقعہ اپنی تعارفی لڑی میں ایک بھائی کے استفسار پر لکھ چکا ہوں۔

دو سال قبل بہار کے موسم میں ہم کچھ لوگ صوبہ لوگر میں تھے تو ایک صبح ایک گاؤں کے باہر کھیتوں میں وہاں کے مقامی کمانڈر کے ساتھ نشانہ بازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔
ایسے میں گاؤں کے ایک شخص کا مرغ سامنے آگیا اور وہ اس مقامی کمانڈر کی گولی کی زد میں آگیا اور مر گیا۔
وہ گاؤں والا بھاگا بھاگا آیا کہ تم نے میرا مرغ کیوں مار دیا۔
مقامی کمانڈر نے اسے زیادہ گھاس نہیں ڈالی اور کہا کہ جاؤ کچھ نہیں ہوتا ایک مرغ ہی تو تھا۔

جن علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں ہفتے میں ایک بار ایک وفد لازمی چکر لگاتا ہے جس کے اندر ایک قاضی بھی ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے مسائل سنتا ہے اور ان کو حل کرتا ہے۔
دو دن بعد ہی وہاں وہ وفد پہنچ گیا تو اس دیہاتی نے جا کر اسے شکایت کی کہ یہاں کے مقامی کمانڈر نے میرا مرغ مار دیا ہے۔ تو قاضی نے کہا کہ اس کمانڈر کو بلا کر لاؤ

میں بھی اس وفد کے پاس موجود تھا اور جو اس میں قاضی تھا وہ انتہائی دبلا پتلا سا نوجوان تھا۔ جبکہ جس کمانڈر کو بلایا تھا وہ اچھا خاصا تگڑا آدمی تھا۔ میں اپنی عام لوگوں والے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ اتنا تگڑا طاقتور کمانڈر اس بیچارے نحیف سے قاضی کو کہاں لفٹ کروائے گا۔

لیکن جب وہ آیا تو وہ کمانڈر قاضی کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ قاضی نے پوچھا کہ جو اس دیہاتی نے الزام لگایا ہے وہ ٹھیک ہے تو وہ کمانڈر مان گیا۔

قاضی نے اسے حکم دیا کہ تمہارے پاس 2 گھنٹے کا وقت ہے بالکل اسی مرغ جیسا مرغ ڈھونڈ کر لاؤ اور اس دیہاتی کا حق ادا کرو۔
وہ کمانڈر وہاں سے بھاگا سارا گاؤں پھرا لیکن اس گاؤں میں ویسا مرغ کہیں نہیں تھا تو وہ تیزی سے ساتھ والے گاؤں پہنچا تو خوش قسمتی سے اسے مرغ مل گیا۔ وہاں سے وہ مرغ خرید کر لایا اور لا کر پیش کر دیا۔

قاضی نے دیہاتی سے پوچھا کہ کیا یہ ویسا ہی ہے جیس تمہارا تھا۔ تو دیہاتی نے کہا جی بلکہ یہ اس سے زیادہ صحت مند ہے۔

تو قاضی نے کہا کہ یہ تو دیہاتی کا حق ادا ہو گیا۔ اب جو تم نے اسے اسی وقت اس کا حق ادا نہیں کیا اس کی سزا کے طور پر تم اب اس علاقے کے کمانڈر نہیں رہے اور اسے ایک اور علاقے کا بتایا کہ اس علاقے میں چلے جاؤ اور وہاں کے کمانڈر کے تحت جا کر کام کرو۔

یہ سب میرے لئے بہت حیران کن تھا اور میں تب اس سے بہت متاثر ہوا۔ لیکن اب دو سال گزرنے کے بعد میرے لئے یہ بات معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہاں اسی طرح فوری حق ادا کیا جاتا ہے اور غلطی کرنے والا چاہے جتنا بھی بڑا ذمہ دار ہو اسے فوری معزول کر دیا جاتا ہے۔
 
عبد الرحمٰن بھائی اعتراض اور اجازت کی بات اس لئے کی کیونکہ کسی کو اعتراض نہ ہو کہ یہاں ”شدت پسند“ گھس آئے ہیں۔میں محفل میں نیا ہوں اس لئے پوچھ لینا مناسب سمجھا کہ جس عنوان کا آغاز کرنے جا رہا ہوں اس کی اس محفل مین اجازت بھی ہے یا نہیں۔
 
آخری تدوین:

سویدا

محفلین
طالبان دور کے واقعات معروف ہیں
آج کل کابل شہر اور دیگر بڑے شہروں کے کیا احوال ہیں وہ بتایےزیادہ دل چسپ ھوگا
 
میں طالبان دور کے واقعات ذکر نہیں کر رہا آج کل کے دور میں افغانستان کے واقعات ذکر کر رہا ہوں۔ جو اوپر بیان کیا وہ 2 سال پہلے کی بات ہے۔
خیر جہاں تک بات کابل کی اور بڑے شہروں کی ہے تو میں کوئی عینی شہادت تو نہیں دے سکتا ان کے بارے میں کیونکہ ساری امریکی اور نیٹو افواج سمٹ کر کابل اور کچھ اور بڑے شہروں تک محدود ہو گئی ہیں۔ اور حکومت کی بھی باقاعدہ عمل داری انہیں علاقوں میں ہے، یعنی بڑے شہروں میں۔ تو وہاں مقامی طالبان تو جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تو بہر حال شناختی کارڈ ہوتا ہے لیکن ہم جیسے باہر سے آئے ہوئے ان علاقوں میں نہیں گھس سکتے۔
لیکن جو کچھ میرے علم میں ہے اس کے مطابق تو شمالی اتحاد کے علاقوں کو چھوڑ کر باقی سارے افغانستان میں صرف کابل ایسا ہے جہاں طالبان عوام میں اتنے مقبول نہیں ہے۔
کابل کا ماحول تو اتحادی فوجوں نے کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ افغانستان کا شہر ہے۔ جگہ جگہ شراب خانے اور نائٹ کلب بنائے گئے ہیں اور ان کی سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ خواتین جو آپ کو بازاروں میں نظر آئیں گی ان میں جینز میں بھی نظر آئیں گی۔
لیکن یہ سطحی درجے پر چیزیں ہیں جو آپ کو بظاہر نظر آئیں گی۔ حقیقت اتنی بھی گئی گزری نہیں کابل کی۔ کابل کی آبادی اصل میں دو قوموں پر مشتمل ہے۔ ایک پشتون اور دوسرے فارسی بان۔ کابل میں فارسی بان لوگوں کا رجحان جدیدیت کی طرف زیادہ ہے اس لئے بازاروں میں بھی وہی لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔
لیکن پشتون قوم ہمیشہ سے ہی اپنی روایات کے معاملے میں سخت رہی ہے اس لئے وہ اس جدیدیت کی زیادہ شکار نہیں ہوئی۔ اگرچہ کابل جیسے دارالحکومت میں رہنے کی وجہ سے ان کے رہن سہن اور مزاج میں بہرحال وہ بات نہیں جو باقی کے افغانستان میں ہے۔ باہر کے لوگ کابل کے پشتونوں کو جدید ہی کہتے ہیں۔
خیر ان پشتونوں میں بڑی تعداد میں اور کچھ تعداد میں فارسی بان لوگوں میں بھی طالبان کی چھپ کر حمایت کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ انہی کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ طالبان نے جب کابل میں اتحادی فوجوں کے مراکز وغیرہ پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو انہیں اتنی اندر تک رسائی مل جاتی ہے کیونکہ ان علاقوں میں کام کرنے والے لوگ خفیہ طور پر طالبان کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔

باقی افغانستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی شہروں سے باہر دیہی زندگی گزارتی ہے۔ اور اصل افغانستان کی زندگی وہی ہے۔
 

سویدا

محفلین
افغانستان کا پھڈا ہی ہمیشہ سے قومیت کارہا ہے پشتون اور فارسیوں کے درمیان

پشتون خوش قسمت رہے کہ انہیں آئی ایس آئی کے ذریعے اسلام کا جھنڈا نصیب ہوگیا

مخالف دشمن کے خلاف دونوں کا اتحاد ہوجاتا ہے لیکن دشمن ختم ہونے کے بعد یہ قومیت کی بنیادپر خود ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں
 
بھیا یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آئی ایس آئی کے ذریعے اسلام کا جھنڈے والا معاملہ روس کے خلاف جہاد میں تھا۔ تب اس دور میں بھی آئی ایس آئی کی ساری سپورٹ گل بدین حکمت یار کے ساتھ تھی۔ یہ بات اب غلط العام ہو چکی ہے کہ طالبان کو آئی ایس آئی سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ویسے بھی انتہائی غیر منطقی سی بات لگتی ہے کوئی غیر جانبدار آدمی بھی دور سے اس معاملے کو دیکھو تو کہ ایک طرف تو آئی ایس آئی سینکڑوں کی تعداد میں افغانستان میں جہاد کرنے والوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر رہی ہے اور خود اس کی اپنی قید میں بھی افغان طالبان قید ہیں جن میں سے ان کے بڑے رہنما ملا عبید اللہ اخوند اور استاد یاسر کو انہوں نے شہید بھی کر دیا دوران قید پھر بھی یہ سمجھنا کہ آئی ایس آئی طالبان کے ساتھ ہے اور طالبان کو آئی ایس آئی سے مدد ملتی ہے بالکل اچھنبے کی بات لگتی ہے۔

رہی بات پشتون اور فارسی بان لوگوں کی تو میں نے کابل کی حد تک ایک فرق بتایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایسا سب جگہوں پر ہے۔ اس بات میں حقیقت ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں پشتون اور فارسی بان قوموں کی آپس میں لڑائی رہی ہے۔ لیکن اسلام کے نام پر طالبان کے ساتھ یہ دونوں ہی متحد ہیں۔ طالبان کی صفوں میں جیسے پشتون لوگ ہیں ویسے ہی ایک اچھی بڑی تعداد میں فارسی بان بھی ہیں۔ اور افغان نیشنل آرمی یعنی ملی اردو کے اندر بڑی تعداد میں جو طالبان کے ساتھی موجود ہیں وہ بھی فارسی بان ہیں۔

ویسے آپس کی بات ہے میں جب سے یہاں آیا ہوں میں فارسی بان بھائیوں سے زیادہ اچھی طرح گھل مل جاتا ہوں۔ شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ نفاست پسند ہوتے ہیں پشتونوں کے مقابلے میں۔ اور ہم شہری زندگی گزارنے والوں کی پھر ان سے اچھی بن جاتی ہے :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
عبد الرحمٰن بھائی اعتراض اور اجازت کی بات اس لئے کی کیونکہ کسی کو اعتراض نہ ہو کہ یہاں ”شدت پسند“ گھس آئے ہیں۔میں محفل میں نیا ہوں اس لئے پوچھ لینا مناسب سمجھا کہ جس عنوان کا آغاز کرنے جا رہا ہوں اس کی اس محفل مین اجازت بھی ہے یا نہیں۔
نعمان بھائی! آپ کی بات سمجھتا ہوں۔ مگر آپ یہاں کسی فرد یا گروہ کا نام لیے بغیر وہ واقعات رقم کررہے ہیں جو آپ کے آنکھوں دیکھے ہیں۔ میں اس دھاگے میں ابتدا سے شریک ہوں اور بہت شوق و دل چسپی سے آپ کی پوسٹس پڑھ رہا ہوں۔ ماشاء اللہ بہت معتدل طریقے سے آپ اپنے مؤقف کا اظہار کررہے ہیں۔ االھم بارک فیکم!
 
جزاک اللہ عبد الرحمن بھائی۔
چلیں موقف کا اظہار تو ہوتا رہے گا۔ ابھی میرے ذہن میں ایک مزے کی بات آئی سوچ رہا ہوں پہلے وہ شیئر کر دوں۔
یہاں مقامی لوگوں کے اندر ایک روایت ہے کہ جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو فرداً فرداً ہر شخص سے پورا تفصیلی حال احوال پوچھتے ہیں دونوں فریق ایک دوسرے کا۔

مثلاً میں کسی سے ملا ہوں تو میں اس سے کہوں گا۔ السلام علیکم۔ کیا حال ہے، ٹھیک ٹھاک ہیں، طبیعت ٹھیک ہے،وقت اچھا گزر رہا ہے، معاملات اچھے جا رہے ہیں، زندگی ٹھیک گزر رہی ہے، نماازیں اچھی جا رہی ہیں، اللہ سے تعلق اچھا جا رہا ہے، ایمان بہتر ہے، صحت ٹھیک ہے، مزاج اچھے ہیں، کام صحیح چل رہا ہے، ساتھی ٹھیک ہیں، گھر میں سب خیریت ہے، بچے ٹھیک ہیں، خاندان والے سب ٹھیک ہیں، قبیلے والے سب ٹھیک ہیں۔ علاقے میں سب خیریت ہے۔
تو اس کے جواب میں جس شخص سے میں نے یہ باتیں پوچھی ہیں وہ بھی جواب میں یہی باتیں دہرائے گا۔


میں ایک دفعہ ایک علاقے میں گیا تو وہاں پر ایک بیٹھک کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں جو بھی جاتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اصل میں کس کام سے آیا تھا۔

میں نے وجہ پوچھی تو پتہ لاگا کہ اس بیٹھک میں ہر وقت ۳۰ کے قریب لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں تو جو بھی نیا بندہ ، داخل ہوتا ہے تو اسے روایت کے مطابق ہر شخص سے فرداً فرداً یہی سب کچھ پوچھنا ہوتا ہے

جب سارے ۳۰ لوگوں سے ایک ایک کر کے حال پوچھ چکے اور سارے ۳۰ لوگ علیحدہ علیحدہ اس سے اس کا حال پوچھ چکیں پھر وہ اس بندے کے پاس واپس جائے گا جس سے اس نے اصل بات کرنی اور پھر اس سے دوبارہ سے اس کا حال پوچھے گا ۔

اتنے میں اسے بات ہی بھول جاتی ہے کہ وہ اصل میں آیا کس مقصد کے لئے تھا :D
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
جزاک اللہ عبد الرحمن بھائی۔
چلیں موقف کا اظہار تو ہوتا رہے گا۔ ابھی میرے ذہن میں ایک مزے کی بات آئی سوچ رہا ہوں پہلے وہ شیئر کر دوں۔
یہاں مقامی لوگوں کے اندر ایک روایت ہے کہ جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو فرداً فرداً ہر شخص سے پورا تفصیلی حال احوال پوچھتے ہیں دونوں فریق ایک دوسرے کا۔
مثلاً میں کسی سے ملا ہوں تو میں اس سے کہوں گا۔ السلام علیکم۔ کیا حال ہے، ٹھیک ٹھاک ہیں، طبیعت ٹھیک ہے،وقت اچھا گزر رہا ہے، معاملات اچھے جا رہے ہیں، زندگی ٹھیک گزر رہی ہے، نماازیں اچھی جا رہی ہیں، اللہ سے تعلق اچھا جا رہا ہے، ایمان بہتر ہے، صحت ٹھیک ہے، مزاج اچھے ہیں، کام صحیح چل رہا ہے، ساتھی ٹھیک ہیں، گھر میں سب خیریت ہے، بچے ٹھیک ہیں، خاندان والے سب ٹھیک ہیں، قبیلے والے سب ٹھیک ہیں۔ علاقے میں سب خیریت ہے۔
تو اس کے جواب میں جس شخص سے میں نے یہ باتیں پوچھی ہیں وہ بھی جواب میں یہی باتیں دہرائے گا۔
جب یہ حال احوال پوچھنا ختم ہو گا تو جس نے بات کا آغاز کرنا ہو گا وہ ایک بار پھر تھوڑا سا پوچھے گا اور سب خیریت، اور ساتھ میں کچھ مزید لاحقے بھی۔
چلیں یہ تو ہو گیا معاملہ جب دو افراد آپس میں ملتے ہیں۔ لیکن جب افراد کی تعداد بڑھ جائے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے یہ نہیں کہ سب سے اجتماعی انداز میں پوچھ لیا جائے اور سب اجتماعی انداز میں اس ایک فرد سے پوچھ لیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص فرداً فرداً ہر موجود شخص کے پاس جاتا ہے اور یہی سارے الفاظ دونوں دہراتے ہیں۔

میں ایک دفعہ ایک علاقے میں گیا تو وہاں پر ایک بیٹھک کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں جو بھی جاتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اصل میں کس کام سے آیا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو پتہ لاگا کہ اس بیٹھک میں ہر وقت ۳۰ کے قریب لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں تو جو بھی نیا بندہ ، داخل ہوتا ہے تو اسے روایت کے مطابق ہر شخص سے فرداً فرداً یہی سب کچھ پوچھنا ہوتا ہے جب سارے ۳۰ لوگوں سے ایک ایک کر کے حال پوچھ چکے اور سارے ۳۰ لوگ علیحدہ علیحدہ اس سے اس کا حال پوچھ چکیں پھر وہ اس بندے کے پاس واپس جائے گا جس سے اس نے اصل بات کرنی اور پھر اس سے دوبارہ سے اس کا حال پوچھے گا ۔ اتنے میں اسے بات ہی بھول جاتی ہے کہ وہ اصل میں آیا کس مقصد کے لئے تھا :D
بھائی گھن چکر بنادیا آپ نے تو۔
 

سویدا

محفلین
طالبان اور شمالی اتحاد کی لڑائی درحقیقت قومیت اور لسانیت کی ہے جسے اسلام کا رنگ روپ چڑھانے کی کوشش کی گئی اس کا جو منطقی نتیجہ نکلنا تھا وہ اب نکل چکا
 
سویدا بھائی یہ آپ کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے۔ لیکن مجھے یہاں رہتے ہوئے ایک فیصد بھی اس کا شائبہ نہیں ملا کہ طالبان اور شمالی اتحاد کی لڑائی کسی معمولی سے پیمانے پر بھی قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر تھی یا ہے۔شمالی اتحاد کے لوگ فارسی بان ہیں مان لیا ۔ للیکن اُس دور میں بھی طالبان کے ساتھ فارسی بان لوگ موجود تھے۔ آج بھی ہیں۔ نہ کبھی اُس دور میں فارسی بانوں کو طالبان کے درمیان پرایا سمجھا گیا نہ آج سمجھا جاتا ہے۔
ان تین سالوں میں جب بھی میں کسی محفل میں بیٹھا ہوں جس میں مختلف علاقوں سے طالبان اکٹھے ہوں اس میں پشتون بھی موجود ہوتے ہیں اور فارسی بان بھی ۔ میں نے اس پورے دور میں ایک بار بھی محسوس نہیں کیا کہ وہ ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں۔
میں نے تو جو دیکھا ہے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ہی بتا رہا ہوں۔ معلوم نہیں آپ کا اتنے یقین سے کہنے کی وجہ کیا ہے۔
پشتون اور فارسی بان کا اختلاف تو چھوٹی بات ہے ا س جہاد نے تو دیوبندی اور اہل حدیث کو بھی اکٹھا کر دیا۔ میں اہل حدیث ہوں اور طالبان کٹر دیو بندی۔ لیکن مجھے ان سے محبت ہے انہیں مجھ سے محبت ہے۔ نہ کبھی میرے دل میں خیال آیا کہ وہ لوگ اچھے نہیں کیوں کہ اُن کا تعلق میرے فرقے سے نہین نہ ہی ان کے دل میں یا رویہ میں۔

یہ مثال اس لئے دی کہ کوئی دور تھا کہ افغانستان کے لوگ چاہے پشتون ہوں یا فارسی بان، اہل حدیث کو ویسے ہی کافر سمجھتے تھے اور شدید نفرت کرتے تھے لیکن اب سب اکٹھے ہیں
 

عبد الرحمن

لائبریرین
ایک چھوٹا سا سوال ذہن میں آیا ہے کہ ہزارہ آبادی کے بارے طالبان کے کیا خیالات ہیں؟
ہزارہ (ایک) آبادی (دو) کے (تین) بارے (چار) طالبان (پانچ) کے (چھہ) کیا (سات) خیالات (آٹھ) ہیں؟ (نو)

ہممم ٹھیک ہے چھوٹا سوال ہے۔
 
اس کا جواب وہی ہے جو فارسی بان لوگوں کے متعلق دیا۔ طالبان کی کسی سے بھی اس کی زبان یا قوم کی بنیاد پر نہ لڑائی ہے نہ ہی ماضی میں کبھی تھی۔ ہاں ماضی میں طالبان سے پہلے زبان اور قوم کی بنیاد پر افغانستان میں بہت لڑائیاں ہوئی ہیں اس چیز سے انکار نہیں ہے۔ ہاں جو لوگ اتحادی فوجوں کے معاون ہوں گے طالبان کے خلاف ان کی مدد کریں گے ان کے خلاف خود بھی لڑیں گے تو ان سے تو طالبان لڑیں گے ہی پھر۔ چاہے اس کا تعلق جس بھی قوم سے ہو۔
اتحادی فوجوں کے بنائے ہوئے قومی لشکر جو زیادہ تر پیشہ ور مجرموں چوروں اور ڈاکوؤں پر مشتمل ہیں جن سے طالبان نے لڑائی کی اور انہیں مارا ان کمیں زیادہ تر کا تعلق پشتونوں سے تھا، تب کبھی کسی نے یہ نقطہ نہیں اٹھایا کہ طالبان پشتونوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہی لڑائی میں فریق فارسی بان ہو جاتے ہیں یا ہزارہ اآبادی کے لوگ آجاتے ہیں تو فورا ہی میڈیا واویلا مچانا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ کسی مخصوص قوم کی نسل کشی کی سازش ہے یا یہ اصل میں لسانی یا قومیت کی بنیاد پر لڑائی ہے۔ تاکہ طالبان کو بدنام کیا جا سکے۔
 

سویدا

محفلین
ہاں صحیح کہا آپ نے میں نے بھی اوپر یہی کہا تھا کہ بیرونی دشمن کے خلاف پشتون اور فارسیوں کے درمیان اتحاد پایا جاتا ہے لیکن اندرونی طور پر حکومت اور کرسی کے معاملات میں زبردست لسانی اور قومی لڑائی
روس کے جانے کے بعد جو چھ یا سات گروپ تشکیل پائے گئے وہ بھی لسانی علاقائی اور قبائلی بنیاد پر تھے جبکہ روس کے خلاف سب متحد تھے
اوراس کے بعد طالبان وشمالی کی تقسیم بھی لسانی بنیاد پر تھی تاہم یہ تقسیم سو فیصد نہیں تھی پشتونوں میں بھی کچھ نہ کچھ شمالی سوچ رکھنے والے لوگ موجود تھے اور شمالیوں میں بھی کچھ نہ کچھ طالبانی سوچ رکھنے والے موجود تھے
اس قسم کے تجزیوں میں سو فیصد پر بات نہیں کی جاتی استثنا ہر صورت میں کچھ نہ کچھ بہرحال پائے جاتے ہیں
دونوں طرف کے لوگوں سے ملاقات اورسوالات کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ یہ خالصتا لسانی جنگ تھی جسے اسلام کا نام دیا گیا
 
Top