افغانستان: اسپتال اور پولیس افسر کے جنازے پر حملے، 38 افراد ہلاک

جاسم محمد

محفلین
افغانستان: اسپتال اور پولیس افسر کے جنازے پر حملے، 38 افراد ہلاک
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا مئی 12, 2020
F1E299C8-CD12-419F-9624-29C4C6D2CF40_cx0_cy5_cw0_w1023_r1_s.jpg

فائل
ویب ڈیسک —

افغانستان میں دو مختلف حملوں میں 38 افراد ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں نومود بچے، خواتین اور صوبائی کونسل کے رکن بھی شامل ہیں۔


دارالحکومت کابل میں ایک اسپتال پر تین مسلح افراد نے حملہ کیا جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ننگرہار میں ایک جنازے پر خود کش حملے میں 25 افراد نشانہ بنے۔

حکام کے مطابق ملک کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں منگل کو ہونے والے خود کش حملے میں 15 افراد ہلاک جب کہ 50 زخمی ہوئے ہیں جن میں کئی اعلیٰ سرکاری حکام بھی شامل ہیں۔

ننگرہار صوبے کے گورنر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ننگرہار کی صوبائی کونسل کے رکن لال خان بھی دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

پولیس کمانڈر کے جنازے میں رکن پارلیمنٹ حضرت علی بھی شریک تھے تاہم وہ حملے میں محفوظ رہے ہیں۔

ننگرہار صوبے کے گورنر کے ترجمان عطا اللہ خوگیانی نے بتایا ہے کہ دہشت گرد نے جنازے کے شرکا کے بالکل بیچ میں دھماکہ کیا۔

ترجمان نے حملے میں 12 افراد کے موقع پر ہی ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔

صوبائی گورنر کے ترجمان کے مطابق 56 زخمیوں کو علاج کے لیے جلال آباد کے اسپتال منتقل کیا گیا۔

عطا اللہ خوگیانی کا مزید کہنا تھا کہ دھماکہ ڈسٹرکٹ پولیس فورس کے کمانڈر شیخ اکرم کے جنازے میں کیا گیا جو گزشتہ روز ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس کمانڈر کےجنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے۔

de2db06d-6f32-4347-9e98-5b3e9a17c675_tv_w650_r1.jpg


طالبان نے اس خودکش حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

حکام کے مطابق خودکش حملہ صوبہ ننگرہار میں پاکستان کی سرحد کے قریب واقع علاقے خیواہ میں ہوا۔

یہ علاقہ شدت پسند تنظیم داعش کے زیرِ اثر علاقوں میں شمار ہوتا ہے جب کہ طالبان اور داعش کے درمیان اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے کئی بار جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔

کابل میں اسپتال پر حملہ، 8 افراد ہلاک
دریں اثنا افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسلح افراد نے ایک اسپتال پر حملہ کیا جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے زیرِ انتظام چلنے والے اسپتال کو حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

حکام نے ابتدائی طور پر 8 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

DF88F0D3-AF3F-4672-BFF8-4C35BB9FDBBA_w650_r1_s.jpg

حملے کے فوری بعد اسپتال کو سیکیورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا۔

وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق دشت برچی اسپتال سے کئی افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا تاہم حملے میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ دشت برچی اسپتال پر تین دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔

اسپتال میں موجود افراد کے حوالے سے حکام نے بتایا ہے کہ حملے کے بعد سے کئی افراد لاپتا ہیں جب کہ کچھ ڈاکٹرز نے اسپتال کے ساتھ والی عمارت میں چھلانگ لگا کر جان بچائی۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق اسپتال سے بحفاظت نکلنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز سمیت عملے کے 140 افراد موجود تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے کارروائی شروع کرتے ہوئے پہلے دستی بم پھینکے اس کے بعد فائرنگ شروع کر دی۔

0971A5D6-4CFD-441A-AED6-14655B8DE454_w650_r1_s.jpg

حملے کے بعد اسپتال کی عمارت سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا ہے تھا کہ حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 نومولود بچوں سمیت خواتین بھی شامل تھیں۔

وزارت داخلہ نے سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں حملے میں ملوث تینوں افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے تاہم حملہ آوروں کے حوالے سے مزید کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔

'رائٹرز' کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ وہ حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ کسی اور شدت پسند گروہ نے بھی حملے کی ذمہ داری فوری طور پر قبول نہیں کی۔

افغان وزارتِ صحت کے ترجمان وحید اللہ مایار نے بتایا کہ جس عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ ایک سرکاری اسپتال ہے تاہم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) اس کو چلاتی ہے۔ یہ اسپتال 100 بستروں پر مشتمل ہے۔

حملے کے حوالے سے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ابتدائی بیان میں بتایا تھا کہ سیکیورٹی ادارے حملہ آوروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتال سے 80 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

کارروائی کے حوالے سے صحت کے نائب وزیر وحید مجروح نے کہا تھا کہ حملے میں 8 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کو دیگر اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

6BB58A24-9126-4B17-B1B7-194782BEC1BA_w650_r0_s.jpg

اسپتال میں کئی خواتین اور بچے موجود تھے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس حملے کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم اس تنظیم کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق وہ کابل کے اس اسپتال میں ایک میٹرنٹی کلینک چلاتی ہے۔

خیال رہے کہ کابل کے نواح میں زیادہ تر غریب اور کم وسائل رکھنے والے لوگوں کی آبادیاں ہیں جو اس اسپتال سمیت دیگر قریبی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں ہزارہ برادری بھی بڑی تعداد میں آباد ہے جن پر شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کابل میں ہونے والے اکثر بدترین حملوں کی ذمہ داری داعش قبول کرتی رہی ہے۔
 

شمشاد خان

محفلین
انتہائی افسوسناک واقعات ہوئے ہیں۔ بے گناہ لوگ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، ان حملوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
 
Top