افسانہ لمس از ایم مبین

mmubin

محفلین
افسانہ لمس از ایم مبین



اسٹاپ آنے سے دس منٹ قبل ہی وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر دروازے میںآکر کھڑاہوگیاتھا۔ بہت دنوں کے بعد وہ اس طرف جارہاتھا اس لیے اسے بس کے اسٹاپ کا صحیح طور پر اندازہ نہیں تھا۔ اس کے دل میں ڈر تھا کہ کہیں وہ بس اسٹاپ سے آگے نہ چلا جائے یا پھر گھبراہٹ میں اپنی مقررہ جگہ سے پہلے بس سے نہ اتر جائے۔

اس درمیان وہاں پر اتنی تبدیلیاں واقع ہوگئی تھی کہ اس کے لیے سب کچھ اجنبی اجنبی ساتھا۔ ہاں اسے نشانی کے طور پر ایک بڑی سی گلابی رنگ کی عمارت یاد تھی جو سب سے پہلے اس علاقہ میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس عمارت سے ہی وہ اندازہ لگاسکتا تھا کہ اسے کہاں جانا ہے اوراس کا گھر اور کھیت کہاں تھے؟وہ عمارت تیزی سے اس کے سامنے سے گزری تو اسے اطمینان ہوا کہ اس کی منزل مقصود آگئی ہے۔ بس ایک جگہ رک گئی ، وہی بس اسٹاپ تھااور اس کی منزل

وہ اپنے ننگے پاﺅں سے اس اسٹاپ پر بس سے نیچے اترا۔اس کے ساتھ ایک دو لوگ اور اترے اور بس اسٹاپ پر انتظار کرتے ہوئے ایک یا دو مسافر بس میں سوار ہوئے۔بس سے اترنے والے بھی اسے اور اس کے ننگے پاﺅں کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے اور بس میں چڑھنے والے بھی۔اس کے ننگے پاﺅں کا نکریٹ کے بنے سخت فٹ پاتھوں سے ٹکرائے اور وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا آگے بڑھا۔دور تک وہ کانکریٹ کا فٹ پاتھ اور اس کے بازو میں کانکریٹ کی وہ چوڑی سڑک جو درمیان سے دو رویہ ہوگئی تھی ۔دوسری جانب پھرکانکریٹ کا فٹ پاتھ۔اور اس فٹ پاتھ سے لگ کر دونوں جانب اونچی اونچی خوبصورت، رنگین،دلکش عمارتوں کا سلسلہ۔ فٹ پاتھ اور عمارتوں کے سلسلے کے درمیان کہیں چھوٹے راستے تھے جو اندر دور تک جاتے تھے اور ان راستوں کے دونوں طرف بھی عمارتوں کے طویل سلسلے تھے۔

وہ ایک ایک عمارت اور جگہ کو غور سے دیکھتااپنے ننگے پاﺅں سے آگے بڑھ رہاتھا۔اسے سچ مچ اس جگہ کو پہچاننے میں بے حد دشواری ہورہی تھی۔اس کے ذہن میں جو اس جگہ کے خدوخال اور نقشہ تھااس میںکا کوئی بھی عنصر اس جگہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔دو سال قبل تک وہ ایک تارکول کی کم چوڑی سڑک تھی جس کے دونوں جانب ہرے ہرے بڑے بڑے سایہ داردرخت ہوا کرتے تھے۔درختوں کے پیچھے کھیتوں کاایک طویل سلسلہ جس میں ہری ہری فصلیں لہراتی رہتی تھیں۔کھیتوں میں جانور چرتے دکھائی دیتے تھے یا پھر بندھے ہوئے ہوتے تھے۔ جگہ جگہ کھیتوں میںکام کرنے والے کسان، عورتیں اور بچے دکھائی دیتے تھے لیکن وہ منظر یکسر بدل گیا تھا۔اب وہاں نہ تو کوئی کھیت تھا نہ ہریالی اور نہ مٹی جس کے لمس کی تلاش میںوہ وہاں آیا تھا۔

اب وہاں پر کانکریٹ کی بنی سڑکیں اور راستے تھے ۔اونچی اونچی عمارتوں کا حد نظر تک پھیلا ہوا سلسلہ تھا ۔راستوں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی سواریاں، موٹر سائیکلوں، کاروں ، بسوں کا شور اور ان سے خارج ہونے والے دھوئیں کی بدبو ماحول میں بسی ہوئی تھی۔وہاں پر نہ کوئی ہرا بھرا درخت تھااور نہ کسی کھیت کا چھوٹا ساٹکڑا اور نہ کسی کھیت کے کسی پیڑکے نیچے بندھے جگالی کرتے جانوروں کا نام ونشان تھااور نہ کہیں پر ہری بھری لہلہاتی فصلیں نظر آتی تھیںچاروں طرف ایک کانکریٹ کا جنگل تھااور وہ خود کواس کانکریٹ کے جنگل میںگھراہوامحسوس کررہا تھا۔جیسے وہ اس جنگل میں راستہ بھول گیا ہوگا۔

ایک جگہ وہ رک کرچاروں طرف کی عمارتوںکو غور سے دیکھنے لگا۔وہ اس نئے منظر میںاپنے ذہن میں بسے اس منظر کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا جو اس کے نہ صرف روح کا ایک حصہ تھا بلکہ اس کے لیے باعث روحانی سکون بھی۔اس کا دل کہہ رہاتھا یہیں کہیں آس پاس اس کا مٹی کا گھر تھا۔وہ بڑا سا درخت تھا جس کے نیچے اس کے جانور بندھے ہوئے جگالی کرتے تھے۔ وہ کنواں تھا جس کے پانی سے سارا کھیت سیراب ہوتا تھااور جس کی وجہ سے اس کھیت میں فصلیں لہلہاتی تھیں۔لیکن اس کی آنکھوں کے سامنے خاردار تاروں سے گھرے کمپاﺅنڈ وں کاایک سلسلہ تھا۔جن کے اندر کہیں اونچی اونچی رہائشی عمارتیں بنی ہوئی تھیں تو کہیں پر کارخانوں کی عمارتیں۔کمپاﺅنڈ کے گیٹ پر پہرے دار پہرہ دے رہے تھے اور ہر آنے جانے والے پر اپنی عقابی نظر رکھے ہوئے تھے۔کانکریٹ کی سڑک کے دونوں کاجانب خار دار تاروں سے گھرے کمپاﺅنڈ کا سلسلہ تھا۔کمپاﺅنڈ کے اندر بھی اونچی اونچی کانکریٹ کی عمارتیں بنی ہوئی تھیںاور ان کے احاطے بھی کانکریٹ کے ذریعے بنائے گئے تھے۔

سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ اس کی گرمی سے کانکریٹ کی بنی ہوئی سڑک گرم ہورہی تھی اور اس کے ننگے پاﺅں جلنے لگے تھے۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ گرم انگاروں پر چل رہا ہے۔یہ بات ضرور تھی کہ وہ بہت دنوں کے بعد ننگے پاﺅں چل رہا تھالیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ کبھی ننگے پاﺅں نہ چلا ہو۔ اس کی زندگی زمین پر ننگے پاﺅں چلتے ہوئے گزری تھی۔ ننگے پاﺅںکھیت میں ہل چلاتے ہوئے ، ننگے پاﺅں کھیت میں بوائی کرتے ہوئے، کھیتوں کو پانی دیتے ہوئے، ننگے پاﺅں بارش میں کیچڑ میں کھیت کے کام کرتے ہوئے،کھیت میںاگ آئی نرم نرم خودرو ہری ہری گھاس پر چلتے ہوئے، تیار فصل کے درمیان گزرتے ان کا فرحت بخش لمس اپنے ننگے پیروں میں محسوس کرتے ہوئے، مٹی اور گوبر سے پوتی زمین پر چلتے ہوئے۔

اس لیے ننگے پاﺅں چلنا اس کے لیے نہ تو کوئی عجیب بات تھی اور نہ ہی اسے کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔یہ الگ بات تھی کہ اس کا اس طرح ننگے پاﺅں چلنا لوگوںکو عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔جب وہ گھر سے نکلا تھا تو بیٹے نے اسے ٹوکاتھا” بابا ! ننگے پاﺅ ں کہاں جارہے ہو؟ چپل تو پہن لو۔“ پھر پوتے نے ٹوکا” بابا! باہر جارہے ہو تو پیروں میں چپل ڈال لو۔ باہر سخت دھوپ ہے۔“

لیکن وہ ان کی بات کو درگزر کرکے بلڈنگ کی سیڑھیاں اترکر نیچے آیا تھا۔بلڈنگ کے گیٹ پر بیٹھے گورکھے نے اسے ننگے پاﺅں بلڈنگ سے باہر جاتے عجیب نظروں سے گھورا تھا۔ اس نے اسے ٹوکا نہیں تھا۔ آگے بڑھا تو اسے اس کا پوتا اور پوتی مل گئے تھے جو اسکول سے واپس آرہے تھے” بابا ! اتنی دھوپ میں ننگے پاﺅں کہاں جارہے ہو؟ چپل تو پہن لو۔“

” نہیں بیٹاآج میرا من بغیر چپل کے گھومنے پھرنے کو چاہ رہا ہے۔میں ابھی آتا ہوں۔تم لوگ کھانا کھالینا، میرا انتظار نہیں کرنا۔“ یہ کہتے وہ آگے بڑھ گیاتھا۔پیدل چلتے ہوئے وہ اپنے گھر سے بس اسٹاپ تک آگیا تھالیکن اسے ننگے پاﺅں چلتے ہوئے وہ مسرت حاصل نہیں ہوسکی تھی جس کے تلاش میں وہ نکلا تھا۔

پورا راستہ تارکول اور کانکریٹ کاتھا۔اس پر قدم رکھتے ہوئے وہ اپنے پیروں میںایک عجیب سی سختی محسوس کررہاتھا۔ اسے وہ نرمی کااحساس پورے راستے نہیں مل سکا جوا سے مٹی پر رکھنے سے ملتا تھا۔کہیں بھی مٹی کی سڑک باقی نہیں تھی۔ہر جگہ تارکول کانکریٹ یا بریکٹ سمینٹ سے بنی اینٹوں کے راستے بن گئے تھے۔اس لیے اس کے پیروں کو مٹی کا وہ لمس نہیں مل سکا جس کی تلاش میں وہ نکلا تھا۔

کئی دنوں سے دل کی عجیب سی حالت تھی۔فلیٹ کے ماربل پر چلتے ہوئے اسے اپنے پیروں میںایک طرح کی اینٹھن کااحساس ہوتا تھا۔ماربل کی سردی سے اس کے پیر اتنے سرد ہوجاتے تھے کہ کبھی کبھی وہ اپنے پیروں کے تلوﺅں کو سہلاکر ان میں گرمی لانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر اس کی بہویا بیٹا ٹوک بیٹھتے تھے”پیروں میں سردی لگ رہی ہے؟ بغیر سلیپر کے ماربل پر مت چلاکرو۔ اب تمھاری عمر اس سردی کو برداشت کرنے کی نہیں رہی ہے، نقصان کرے گی، گھر میں دودو سلیپر کے جوڑ ے ہیں،انھیں استعمال کیوں نہیں کرتے؟“

بات بھی درست تھی۔کہاں ساٹھ سالوں تک پیروں میں چپل نہ پہننے والے بال کرشن گھرت نے گذشتہ دوسالوں میں صرف سوتے وقت ہی پیروں سے چپلیں اتاری تھیں۔

شہر کا ماحول ہی ایسا تھا کہ بنا پیروں میں چپل ڈالے سڑکوں پر چلنا ممکن ہی نہیں تھا۔اس کے علاوہ بغیر چپل کے چلنے والے کو معیوب نظروں سے بھی دیکھا جاتا تھا۔پھر یہ اس کے بیٹوں کے Status کے خلاف بھی تھا کہ ان کا باپ بغیر چپل کے پھرے۔آخر وہ شہر کے عزت دار لوگ بن گئے تھے۔لیکن گذشتہ کئی دنوں سے اسے اپنے پیروں میںایک عجیب سی ہلچل مچی محسوس ہورہی تھی۔اسے محسوس ہاتا تھا کہ فرش پر چلنا تھا جب وہ چپل پہن کر شہر کی سڑکوں پر چلتاتھایا ماربل کے فرش پر چلتاتھاتو پیروں میں ایک عجیب سی اینٹھن سی محسوس ہوتی تھی۔ اس کے پیر اس لمس کو چاہ رہے تھے جس سے وہ گذشتہ ساٹھ سالوں تک آشنا تھے۔مٹی کے لمس سے۔ کھیت کی مٹی کے لمس ، سڑکوں اورراستوںکی مٹی کے لمس، گھر کے مٹی کے فرش کے لمس کی چاہ اسے اس کے پیروں کو بے چین کررہی تھی۔وہ لمس اسے کہیں بھی نہیں مل رہا تھا۔

اس کے گھر میں فرش پر ماربل لگا تھا۔ بلڈنگ کے آس پاس کا احاطہ سیمنٹ اور کانکریٹ کا بنا ہواتھا۔سامنے دور شہر کی جو سڑکیں اور راستے تھے وہ تارکول یا کانکریٹ کے بنے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں مشکل سے مٹی دکھائی دیتی تھی جو ریت آمیز ہوتی تھی۔اسے اس مٹی کا لمس شہر میں تو ملنے سے رہا۔

اسے وہ لمس اپنے کھیت ، اپنے پرانے گھرمیں ہی مل سکتا تھا۔لیکن اسے علم تھا اب نہ تو اس کا پرانامٹی کاگھرہے نہ اس کے کھیتوں کا نام ونشان ہے۔اس گھر کب کا مسمار ہوگیا ہے اور اس کے کھیت پر بلند وبالا کانکریٹ کی پختہ عمارتیں بن گئی ہیں جن کو جانے والے پکے راستے تارکول ،سیمنٹ یا کانکریٹ کے بنے ہیں۔تین چار سال قبل زندگی میںایک انقلاب آیاتھا۔ اس کے کھیت کے قریب سے گزرنے والی سڑک شاہراہ بن گئی تھی اور وہ علاقہ صنعتی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ اس اعلان کے بعد اس پورے علاقے میںزمین کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔ کھیت بکنے لگے تھے ۔ان پر کارخانے ، رہائشی اور تجارتی عمارتیں تعمیر ہونے لگی تھیں۔سڑکیں چوڑی اور پکی ہوجانے کی وجہ سے آمدورفت بڑھ گئی تھی اور زمین کی قیمتیں بھی۔

شہر کے بڑے بڑے بلڈر، صنعت کار،اونچی منہ مانگی قیمتوںمیں زمینیں اور کھیت خرید رہے تھے۔اس کے اطراف کے کئی کسان اپنے کھیت فروخت کرکے ان سے ملنے والی موٹی رقموں کو لے کر شہروں میںمنتقل ہوگئے تھے۔ اب اس کی باری تھی۔اس کے دونوں بیٹوں نے بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بھی اپنے کھیت فروخت کر کے شہر میںا چھا ساایک گھر لیں گے اور اپنا اچھا سا کاروبار شروع کرکے اس کھیتی کے کاموں سے نجات حاصل کرلیں گے۔

آخر رات دن محنت کرکے انھیں اس کھیت سے کیا ملتا ہے؟ نہ تو ان کو ٹھیک ڈھنگ سے کھانا نصیب ہوتا ہے نہ ان کے تن کو اچھے کپڑے اور نہ ان کی بیویوں کو پہننے کے لیے ایک آدھ اچھا زیور مل پاتاہے، نہ ان کی اولاد یں اچھی تعلیم حاصل کرپارہی ہیں۔وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔اس وقت تک وہ ایک طرح سے ریٹائر ہوچکا تھا۔ کھیتوں کے سارے کام اس کے بیٹے اور بہوئیں دیکھتی تھیں۔ وہ کبھی کبھی کھیتوں کے کاموں میںان کا ہاتھ بٹا دیتا تھا۔اس کی بیوی کے انتقال کو پانچ سال ہوگئے تھے۔اس دوران وہ کچھ زیادہ ہی اکیلا ہوگیا تھا اور کسی بھی بات پر نہ تو احتجاج کرتاتھا اور نہ کسی بھی بات کی مخالفت کرتا تھا۔اس لیے اس نے بیٹوں کے فیصلہ کی نہ تو مخالفت کی اور نہ اس میں کوئی دخل دیا۔اس کے بعد ان کھیتوں کے مالک وہی تھے۔وہ جو چاہے ان کھیتوں کا کرے۔ رکھے یا فروخت کردے۔

اب جبکہ آس پاس کے تمام کھیت بک چکے تھے ،وہاں کارخانے اور عمارتیں بن رہی تھیں۔وہاں رہ کر کھیتی کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں تھا۔ ایک بڑے بلڈر نے کھیت کی قیمت ساٹھ لاکھ روپیہ لگائی تھی۔دو تین لاکھ بڑھا کر کچھ دنوں میںاس کے بیٹوں نے زمین کا سودا کر ڈالا۔اس کا فروخت کے کاغذات پر انگوٹھا لگادیا۔اتنی بڑی رقم اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی لیکن وہ دنیا سے جیسے بیگانہ ہوگیا تھا۔ اس کے دونوں بیٹوں نے بہنوں کو ان روپیوں میںسے کچھ روپیہ حصہ کے طور پر دیے اور باقی رقم آپس میںتقسیم کرلی۔ ان پیسوں سے انھوں نے شہر میںرہنے کے لیے فلیٹ خریدے۔ان پر خرچ کرکے ان کی آرائش کی۔ دوکان کا گالہ لیااور چھوٹا موٹا کاروبار کرکے اپنی روزی کا ایک ذریعہ بنالیا۔ وہ بڑے بیٹے کے حصے میںا ٓیا تھا۔بڑے بیٹے نے اسے سنبھالنے کی ذمہ داری لی تھی اور اس کو اس کے بدلے حصہ بھی زیادہ ملاتھا۔نئے گھر میں اس کا بیٹا بہواور پوتے پوتیاں بے حد خوش تھے۔

لیکن اسے کوئی خوشی نہیں تھی۔ اس کا احساس جیسے مرگیا تھا۔وہ گھر کے ایک کونے میں پڑا رہتایا دن بھر بے مقصد شہر کی سڑکوں پر گھومتا رہتا۔ رات میں پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا اور پھر سوجاتا۔نہ تو وہ کبھی اپنے گھر والوں کی زندگی میںدخل دیتاتھا اور نہ گھر والے بھی اس کی زندگی اور تنہائی میں مخل ہوتے تھے۔زندگی کے دن گزررہے تھے۔اکثر وہ بستر پر لیٹ کر آنکھ بند کرکے اپنے ماضی کے بارے میں سوچاکرتا تھا۔اس کا کھیت، اس کا گھر،اس کے جانور،اس کی بیوی، بچے، کھت میں لہلہاتی فصلیں اور اس کا اس کے سارے خاندان والوں کا ننگے پاﺅں کھیت میں کام کرنا،وہ کھیت کی مٹی کے لمس کی پیروں میں فرحت بخش گدگدی۔وہ دوسالوں سے ان کے لیے ترس گیا تھا۔

اپنی مٹی، اپنے کھیت کی مٹی کے لمس کی چاہ نے اسے اتنا بے چین کردیا کہ اسے پانے کے لیے وہ بنا سوچے سمجھے ننگے پاﺅں گھر سے نکل پڑا۔ اس کے پیر اس لمس کو پانے کے لیے بے قرار تھے تو اس کی روح اس لمس کے لیے بے چین۔لیکن وہاں پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ پورا منظر نامہ ہی بدل گیا ہے۔ اب تو کہیں بھی نہ تو اس کا وہ کھیت ہے نہ اس کا مٹی کا گھر۔نہ وہ مٹی بھرے راستے جس کے لمس کی چاہ اس کووہاں کھینچ لائی ہے۔ حد نظر تک کانکریٹ اور کانکریٹ اک جنگل ہے جو دھوپ میں گرم ہورہا ہے اور جس پر اس کے ننگے پاﺅںجل رہے ہیں۔

٭
 
Top