افسانہ:امید کا دروازہ از: سحرش سحر

سحرش سحر

محفلین
افسانہ: امید کا دروازہ از:سحرش سحر
( ایف ایس سی کے طالب علموں اور ان کے والدین کے نام)
ٹیلی ویژن کی تیز آواز میں اس کی آہیں اور سسکیاں دب گئی تھیں ۔ اس کا کرب اس کی دم توڑتی زندگی کی فریاد کوئی بھی نہیں سن پا رہا رہا تھا یا شاید..... پہلے کی طرح آج بھی وہ اپنے چیخنے چلانے کو سننے سے بھی قاصر تھی...وہ تو مجرم تھی ۔ اس کی یہی سزا تھی...اس نے اپنے خواب اور اپنے والدین کے ارمانوں کا خون کیا تھا ۔ وہ مجرم تھی وہ والدین کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی تھی...وہ مجرم تھی اس نے سارے خاندان کے سامنے اپنے ماں باپ کی ناک کاٹ دی تھی ۔
اس کے جسم میں زہر سرایت کر چکا تھا وہ اکیلی تنہا اپنے کمرے کے فرش پر پڑے پڑے لوٹ پوٹ رہی تھی ۔اس نےدونون ہاتھوں سے اپنی گردن کو مضبوطی سے یوں پکڑا تھا جیسے اس کا سارا کرب ساری تکلیف گلے میں آکر ا ٹک گئی ہو ۔اس کی ساری قوتیں ساری توانائیاں جواب دینے لگی تھیں ۔ اب تو اس میں تڑپنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی تھی ۔ جیسے اسے سکون مل گیا ہو ۔
آج اس کی مختصر سی اٹھارہ سالہ زندگی کا چراغ گل ہونے جا رہا تھا ۔
اسی جلتےبجھتے چراغ کی ہلکی اور مدھم سی روشنی میں اس کے ذہن کے اسکرین پر گزشتہ کچھ عرصے کے ان حالات وواقعات کی کچھ دھندلی سی تصویریں چلنے لگی تھیں ۔ جنھوں نے اس کی آنے والی پہاڑ جتنی زندگی کو آج لا سمیٹا تھا ۔۔کچھ سوالات تھے....کچھ الجھنیں تھیں...کچھ رویے تھے ۔وہ اکھڑتی سانسوں میں کھلے منہ اور نیم وا آنکھوں سے کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی ۔
آخر اس کا جرم کیا تھا ...اسے اتنی بری سزا کیون دی گئ...کیا واقعی وہ قصور وار تھی...
یا تقدیر.... ؟جس نے اسے ' اس کے خواب سمیت خاکستر کر دیا تھا اور حالات کی طوفانی ہواوں نے دور دور تک اس خاک کو بکھیر دیا تھا .....اب تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔
کافی عرصہ سے سے وہ شدید اعصابی دباو کا شکار تھی ۔ اس کی الجھن سمجھنے والا کوئی نہیں تھا ۔ کالج سے اس کی بری کار کردگی کی رپورٹ کی بنا پر اس کو اپنی امی کو اتنا بتانے کا موقع مل گیا تھا کہ........ جبھی توامی اسے کئی روز سے اس کے سر کے درد اور کچھ عرصہ سے نیند نہ آنے کی بنا پر ڈاکٹر کے پاس لے کر گئ تھیں ۔ ڈاکٹرنے بھی تو چند گولیاں دے کر اور ارام کا مشورہ دے کر اس کی امی کو کچھ حد تک مطمئن کروا دیا تھا ۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ تو مہینوں مہینوں سے سو نہ سکی تھی ۔ اس نے تو کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ رات کو مسلسل جاگنے کی وجہ سے صبح اس کا سر چکراتا تھا ۔ مگر وہ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی ۔ وہ مسلسل ایک خوف میں مبتلہ تھی .... ایک خوف.....ناکامی کا خوف ۔
اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا ۔کہ جو کچھ وہ پڑھ رہی ہے ' یاد کر رہی ہے وہ تو اس کے سر پر سے گزر رہا ہے ...وہ جب بھی کچھ لکھنے کو بیٹھتی ....اس کا ذہںن خالی ہوتا ۔ وہ ساری ساری رات کتاب کھولے بیٹھی رہتی ۔ ارام وہ کیسے کرتی.... ٹیچرز اس کو بے تحا شا کام دیتں تھیں... اور وہ کسی کی بیماری و مجبوری کو تسلیم بھی تو نہیں کرتی تھیں ۔ روزانہ زبانی وتحریریں ٹسٹ.... جو اب اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ٹسٹوں میں بری کارکردگی انے پر ایک ٹیچر نےدلبرداشتہ ہو کراسےگھر بیٹھنے کا مشورہ تک دیا تھا ۔اسے نا لائق' کام چور' غیر زمہ دار... اور پتہ نہیں کیا کیا کہا تھا۔ اور اسکے گھر فون بھی کیا تھا ۔ اس دن وہ بہت روئی تھی ۔ اسے تو ہر گھڑی یہ ڈر بھی لاحق رہتا تھا کہ کہیں اس کی مسلسل خراب کارکردگی سے والدین آگاہ نہ ہو جائیں جبکہ انھیں تھوڑا بہت ادراک ہو چکا تھا اسلئے اب کہ اس کی امی اسے ایک سائکاٹرس کے پاس لے کر گئی تھی ۔ والدین اب بھی زیادہ پریشان نہیں تھے کیونکہ ان کے ایک جاننے والوں کی لڑکی جو میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی اسے اکثر سائیکاٹرس کی ضرورت پڑتی تھی' یہ بھی ایک سٹیٹس سیمبل تھا ان لوگوں کے لیے ۔
مگر اس کے دن ورات کا چین وسکون غارت ہو چکا تھا ۔
وہ دن وہ کیسے بھول سکتی تھی جب اس کے میٹرک کے نتیجہ کا اعلان ہوا تھا تو اس کی بہترین کارکردگی کی بنا پر سارے خاندان میں واہ واہ ہوگئ تھی ۔ اس کے خاندان میں کبھی کسی کے اتنے نمبرات نہیں ائے تھے اور اس کی امی نے غرور سے اپنے سر کو جھٹکا دے کر کہا تھا:
پورے خاندان میں کوئی اتنے نمبر لے کر دکھائے تو وہ مانے ....اور ابا جان بھی تو اس زعم کا شکار تھے اور اکثر کہا بھی کرتے تھے:
"میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا .... ہمارا مان رکھے گا ۔ اصل میں اس کے ابا جان کے ایک دوست کا بیٹا ڈاکٹر بننے جا رہا تھا اور وہ یہ بات ہر جگہ بڑے فخر سے کرتا تھا ۔ جسے سن سن کر اس کے ابا جان احساس کمتری کا شکار ہو گئے تھے ۔
اسی لیے انھوں نے شہر کے ایک بہترین کالج میں اس کو داخل کروایا تھاتاکہ ان کے پاس بھی کوئی قابل فخر بات معاشرے مین بتانے کے لیے ہو ۔
داخلہ کروانے کے بعد وہ کالج جانے کے لیے بے حد بے تاب رہتی تھی کہ کب وہ دن ائے گا جب وہ کالج جا ئے گی .... وہاں سکول کی طرح پابندی بھی نہ ہو گی .....آزادی ہوگی..... عیش ہوں گے..... وہاں کے عجب ہی رنگ ڈھنگ ہوں گے ۔
ذہین اور محنتی تو وہ تھی ہی اس لیے اس نے بھی ڈاکٹر بننے کا خواب بننا شرو ع کیا تھا کہ ایف ایس میں بھی جب وہ اے پلس گریڈ میں پاس ہو جائےگی تو اس کی کزن میمونہ سن کر کتنی جلے گی اور جب انٹری ٹسٹ پاس کرلے گی تو.........سارے خاندان میں کیسے پھر سے واہ واہ ہو جائےگی.پھر میڈیکل کالج....... ہائے ہائے.....ہنستے کھیلتے وہ اپنا میڈیکل بھی پڑھ لے گی...... سفید اوور آل پر گلے میں سٹھیتو سکوپ پڑا ہو گا............وہ ایک شان سےاپنے میل اور فیمیل کولیگز سے ملا کرے گی........... بالکل وہ دھوپ کنارے ڈرامہ کی 'زویا" کی طرح وہ بھی اپنے ہاوس جاب کو خوب انجوئے کرے گی........... یہ ہنسی مذاق ...مستی.....شاید اسے بھی کوئی ڈاکٹر احمرجیسا مل جائے...."
مگر کالج میں داخلہ لینے کے بعد اسکے تو سارے کے سارےخواب چکنا چور ہو گئے تھے ۔ اس نے جو سوچا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں تھا ۔ نہ وہ ازادی ..نہ ہی عیش کوشی ... نہ اس کے خوابوں والے کالج کےرنگ ڈھنگ ..... بلکہ اس کی زندگی تو بلکل بے کیف ہو گئی تھی ۔ اپنے حساس طبیعت کی بنا ء پر وہ وہاں کسی احساس کمتری کا شکار ہو گئی تھی ۔
اسےاپنے کسی سائنس مضمون کی سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ۔ اس کی کئی سہیلیاں اس کے میٹرک کے نمبرات کا مذاق بھی اڑانے لگی تھیں ۔ کالج کے لان میں بیٹھ کر اس کی سہیلیاں ترنگ میں آکر گانے لگتی تھی ہنستی کھیلتی ...ہلہ گلہ کرتی تھی مگر وہ ان سب سے بے نیاز اپنے خیالوں میں گم بیٹھی رہتی تھی ۔ یہاں تک کہ کلاس کا وقت ہو جاتا توکوئی ایک سہیلی اسے جھنجھوڑتے ہوئے طنزا ڈاکٹر صاحبہ کہہ کر مخا طب کرتی تھی ۔
وہ یہ سب سوچ سوچ کر رات بھر روتی رہتی تھی ۔ کھانا بھی چھوڑدیا تھا ۔
امی بھی اکثر اسے اپنا خیال رکھنے اورکھانے پینے کی نصیحت کرتی تھی کہ اچھی پرھائی کے لیے صحت ضروری چیز ہے ...وہ اسے اس پر کیے جانے والے خرچہ کا بھی ذکر کرتی تھیں ۔وہ اسے ہر لمحے کسی نہ کسی طریقے سے اس کی زندگی کا ان کا متعین کردہ مقصد یا د دلواتی ر ہتی تھیں ۔ وہ اسکی غمخوار نہیں تھی اسلیے کہ وہ کوئی سیدھی سادی ان پڑھ ممتا سے بھر پور ماں نہیں تھی ۔ وہ تو جدید مادی دور کی ماں تھی.... جدید دور کی ماں.....سٹیٹس کی ماری ماں.... ممتا سے عاری ...دولت اور سٹیٹس کی پجاری ۔
انٹری ٹسٹ دینے کے بعد اس کا خوف اور بھی بڑھ چکا تھا ۔ وہ گھر والوں سے کم کم ہی بات چیت کرنے لگی تھی ۔ وہ شاذونادر ہی اپنے کمرے سے نکلتی تھی یہ سوچ سوچ کر اس کا دل بیٹھا جا تا تھا کہ اگر وہ ناکام ہو گئی تو....
نہیں...نہیں...اس کے والدین کی توقعات......اس کی امی کی اونچی ناک....اس کے ابا کا اس پر کیا گیا خرچہ....... اور اس کے اپنے خواب.......
سو ناکامی کی صورت میں اس نے اپنے لیے ایک دوسرے راستہ کا پہلے ہی سے تعین کر لیا تھااور وہ راستہ تھا .....خود کشی ! جس کے لیے اس نےپہلے ہی سے خود کو ذہنی طور پر تیا ر کر لیا تھا۔
آخرکار اس کے انٹری ٹسٹ کے اعلان کا دن آن پہنچا ۔ ابھی بھی وہ مسلسل یقین وبے یقینی کا شکار تھی ۔ شاید کوئی معجزہ ہو جائے ...اللہ تو غفور الرحیم ہے ...اس سے کچھ بھی بعید نہیں .....۔ مگر ناکامی کا خوف بری طرح سے اس کے اعصاب پر سوار تھا ۔ وہ چڑ چڑی ہو گئی تھی ۔ اس نے کچھ دنوں سے گھر میں بات چیت بھی بند کر دی تھی ۔ وہاپنے کمرے میں گھسی بیٹھی رہتی تھی ۔ آج بھی کمرے میں تھی کہ اپنے بھائی کے یہ الفاظ اس کے کانوں سے جا ٹکرائے ۔
"اپ لوگوں کو بہت مان تھا کہ مونا بہت ذہین ہے اور میں ..... میں نالائق ہوں ۔ ارے! فیل ہو چکی ہے ....اپ کی ڈاکٹر بیٹی فیل ہو چکی ہے "یہ سن کر اس کے ذہن میں ایک طرح کا شور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا ۔ اس کے والدین کی باتیں ' اس کی سہیلیوں کا مذاق ....اور اس کے بھائی کی چھبتی ہوئی باتیں .....۔کاش وہ یہ سب سننے سے پہلے مر جاتی ۔اس نے اپنا سر پکڑ لیا تھا اور دبی دبی چیخنے لگی تھی ۔ انکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے ۔شدت غم سے نڈھال وہ نیچے کو بیٹھ گئ تھی ۔اس کے دل کی دھڑ کنیں تیز ہو گئی تھیں ۔اس کی ساری حسیات جواب دے گئ تھی ۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ آہستہ اہستہ اٹھی اور ایک انسکٹسائیڈ سپرے کی بوتل کو اٹھا کر اسے دیکھنے لگی اور ایک آخری پر سکون سانس لے کر اسے منہ سے لگا لیا ۔
ادھر اس کے بے حس گھر والوں کی امید کے گھروندے اور ان کی توقعات کی بلند وبالا عمارت زمین بوس ہو گئی تھی لہذا وہ اس کے ملبے پر بیٹھ کر ماتم کر رہے تھے ۔ امی کو اس کی ناکامی کی خبر سنتے ہی پہلے تو یقین نہیں آ رہا تھا پھر اس کےابا جان کی طرف دیکھ کر اتنا کہہ دیا تھا کہ ہماری ناک کٹوا کر رکھ دی ہے اس لڑکی نے ......اور ابا جان نے یہ کہہ کر ٹی ۔ وی کا والیم تیز کر دیا تھا کہ آسائشیں دے دے کر انھوں نے اپنے بچوں کو بگاڑا ہے....اگر پڑھتے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے... ان کے دوست کا بیٹا کیسے میڈیکل کالج میں ہے .....
ایسے والدین بھلا اولاد کی آہیں اور سسکیاں کیسے سن سکتے تھے ۔
وہ کھلے منہ اور نیم وا آنکھوں سے ابھی بھی چھت کو گھور رہی تھی.....اس کی آخری سانسیں چل رہی تھی کہ اسے اپنی اردو کی ٹیچر کی وہ باتیں یا د آ گئیں:
ہر انسان کو اللہ نے ایک خاص مقصد کے لیے بنا یا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جو چاہتے ہیں وہی ہو جائے۔یہ دنیا ہے دنیا ۔جنت نہیں کہ جو چاہا ...جو طلب کیا وہ مل گیا ۔یہان انسان کو مختلف ازمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ...وہ...!اوپر والا ' کبھی دے کر آزماتا ہے تو کبھی لے کر آزماتا ہے ۔
عقلمندی کا تقا ضا یہی ہے کہ اس کے دیے ہوئے پر انسان راضی ہو جائے ۔انسان کو خود کو خواہشات کا تابع نہیں بنا نا چاہیےبلکہ خواہشات اپنے تابع کرنی چاہیے ۔جیسا کہ آپ طالبات یہی خواہش یا خواب لے کر یہا ں پڑھنے آتی ہیں کہ ڈاکٹر بن جائین یا انجینئر ۔ تو ٹھیک ہے یہ خواہش اچھی ہے ۔ اس کے لیے محنت کریں اور دعا کریں ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد رکھیں کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا
اللہ نے اس دنیا کا یہ نطام چلانا ہے ۔ ہر دور مین ہرشعبہ ہائے زندگی کو چلانے کے لیے اس نے کچھ لوگوں کو مخصوص کر رکھا ہوتا ہے ۔ اسی لیےاسی نےہر ایک کو الگ قابلیت اور صلاحیت دے رکھی ہے تا کہ اس دنیا کا کاروبار چلے ۔تو وہ جسے جہاں چاہے وہاں پہنچا دیتا ہے ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے شک محنت کریں ۔اپنی خواہش کو پانے کے لیے سخت محنت کریں مگر اس کے لیے خود کو ہلکان کرنے ' بیمار کرنے یا اپنی شخصیت کو مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈاکٹر یا انجئنر بننا نہیں بلکہ اعلی انسان بننا ہے ۔
ڈئیر سٹوڈنٹس! ہمیشہ زندگی مین دوسرا آپشن رکھا کریں ۔اگر ایک دروازہ نہیں کھل رہا تو کیا ہوا..... تو با لکل مایوس نہیں ہونا 'دوسر ا دروازہ کٹھکٹھا ؤ.....تیسرا کھولنے کی کوشش کرو ۔ ہم ٹیچرز ان دروازوں کو کھولنے میں اپ کی مدد کریں گے اور ضرورکریں گے ۔
آپ آگے بزنس پڑھ سکتی ہیں....سول سروسز میں جا سکتی ہیں ....ڈریس ڈیزائنر بن سکتی ہیں .....بیو ٹیشن بن سکتی ہیں....بو تیک چلا سکتی ہیں...اور سب سے بڑھ کر سوشل انجئیر بن سکتی ہیں...مطلب ٹیچر...پروفیسر ......
یقین جانیں! آپ جیسے پڑھے لکھے 'باشعور اور با ہمت نوجوان ان شعبوں میں ائیں گے تو دیکھنا ہمارا ملک کیسے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک نہیں بن سکے گا ۔
دم توڑتی زندگی کے ان آخری لمحات میں وہ کف افسوس مل رہی تھی ۔یہ اس نے کیا کیا ....؟؟؟؟اس کے والدین نے اس کے ساتھ کیا کیا ....؟؟؟؟اس نے اپنے خالق کی مرضی سے منہ کیوں موڑا .....؟؟؟اس کی دی ہوئی زندگی کی نا شکری کیوں کی ....؟؟؟؟کاش میں ٹیچر کی ان باتوں پر غور کرتی......!
اب آخری سانسیں لیتے ہوئے اس کی زبان پر کوئی کلمہ نہیں تھا بلکہ ایک ہی لفظ تھا........ کاش !مونا....... 'ارے ا ٹھو مونا! کیا ہو گیا ہے تمہیں...؟ اٹھو کیا کالج نہیں جانا؟ ؟؟ امی نے اسے جگانے کی کوشش کی ۔
شاید وہ کوئی برا خواب دیکھ رہی تھی...؟
اس نےایک دم سے انکھیں کھولیں اور بہتے ہوئے آنسووں کے ساتھ ہچکیاں لیتی ہوئی پہلےچھت کو اور پھر عجیب عجیب نظروں سے اپنی امی کو اور گردوپیش کو دیکھے جا رہی تھی ۔
وہ زندہ تھی.....اسے دوبارہ زندگی مل گئی تھی ....وہ تو خواب دیکھ رہی تھی
بیٹا ...شاید تم خواب دیکھ رہی تھی ؟
امی کا یہ جملہ سن کر وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی "جی شکر ہے وہ خواب تھا ...بلکہ میں تو پچھلے چار مہینوں سے جاگتی انکھوں سے یہ خواب دیکھ رہی تھی اور آپ لوگ بھی دیکھ رہے تھے.....میرے ڈاکٹر بننے کا خواب.."
"دیکھ رہے تھے ....کیا مطلب؟" امی نےلبون پر مصنوعی مسکراۂٹ لاتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔وہ پر عزم ہو کر آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی...امی ! میں نے سوچ لیا ہے ' میں سو فیصد محنت کروں گی تاکہ آپ لوگوں کا خواب پورا کر سکوں اور اگر قسمت نے ساتھ نہ دیا تو ......تو پلیز ......۔
اب کہ اس نے امی کے آگے ھاتھ جوڑ کر بہتے آنسووں کے ساتھ کہا......." پھر میں ٹیچر بنوں گی اور امید کے دروازے کھولنے میں دوسروں کی مدد کروگی....... ' ورنہ میں مر جاوں گی ۔" یہ کہہ کر وہ ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
ادھر اس کی امی کو'اس کے حوالے سے سائیکا ٹرس سےپرسوں کی ملاقات نے' یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ اسکی بیٹی شرید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئ ہے ۔ اس سے اگے کئ پیچید گیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں بلکہ انھوں نے امی سے اسے زیادہ سے زیادہ پرسکون ماحول فراہم کرنے اور اس کے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی خصوصی بھی تاکید کی تھی ۔آج اس کی کیفیت کو دیکھ کر امی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر کے خدشات بجا تھے ۔
امی اس کے پاس بیٹھ کر پیار سےاسے سہلانے لگی اور انکھوں میں ڈگمگاتے انسوون کے ساتھ کہا " بیٹا ہمیں تمھاری زندگی اور خوشیاں چاہیے ' ہمیں خود غرض بن گئے تھے ' ہمیں معاف کر دے "
جس طرح سے موسلا دھار بارش فضا کی ساری کثافتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے ۔ ایسے ہی آج اس کے ذہن پر موجود خوف کے بادل آنسو وں کی صورت میں برس کر ہمیشہ کے لیے چھٹ رہے تھے ۔
 

سحرش سحر

محفلین
محترم محفلین! آج کل کسی کے پاس بھی" ٹائم" نہیں ۔ ہرکوئی ٹائم کی کمی کا شاکی ہے پر "وقت" کی کمی کا ذکر شاذونادر ہی ہوتا ہے ۔ لہذا اپنے قیمتی" وقت" میں سے چند گھڑ یاں نکال کر یہ کہانی پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے میری اصلاح فرمائیں ۔ خوش رہیں سب ۔
 

عرفان سعید

محفلین
ڈاکٹر یا انجیئنرنگ کی میراتھن میں ہانپتی اور کانپتی ہوئی قوم۔ ہمارے معاشرے کی ایک دردناک اور تلخ حقیقت کی درست ترجمانی۔
ہر انسان کو اللہ نے ایک خاص مقصد کے لیے بنا یا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جو چاہتے ہیں وہی ہو جائے۔یہ دنیا ہے دنیا ۔جنت نہیں کہ جو چاہا ...جو طلب کیا وہ مل گیا ۔یہان انسان کو مختلف ازمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ...وہ...!اوپر والا ' کبھی دے کر آزماتا ہے تو کبھی لے کر آزماتا ہے ۔
عقلمندی کا تقا ضا یہی ہے کہ اس کے دیے ہوئے پر انسان راضی ہو جائے ۔انسان کو خود کو خواہشات کا تابع نہیں بنا نا چاہیےبلکہ خواہشات اپنے تابع کرنی چاہیے ۔جیسا کہ آپ طالبات یہی خواہش یا خواب لے کر یہا ں پڑھنے آتی ہیں کہ ڈاکٹر بن جائین یا انجینئر ۔ تو ٹھیک ہے یہ خواہش اچھی ہے ۔ اس کے لیے محنت کریں اور دعا کریں ۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد رکھیں کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا

اللہ نے اس دنیا کا یہ نطام چلانا ہے ۔ ہر دور مین ہرشعبہ ہائے زندگی کو چلانے کے لیے اس نے کچھ لوگوں کو مخصوص کر رکھا ہوتا ہے ۔ اسی لیےاسی نےہر ایک کو الگ قابلیت اور صلاحیت دے رکھی ہے تا کہ اس دنیا کا کاروبار چلے ۔تو وہ جسے جہاں چاہے وہاں پہنچا دیتا ہے ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے شک محنت کریں ۔اپنی خواہش کو پانے کے لیے سخت محنت کریں مگر اس کے لیے خود کو ہلکان کرنے ' بیمار کرنے یا اپنی شخصیت کو مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈاکٹر یا انجئنر بننا نہیں بلکہ اعلی انسان بننا ہے ۔
بے شک
 

با ادب

محفلین
افسوس ناک.امر یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد علم کا حصول نہیں رہا ....اور ھس طرح طلباء کو شدید ترین مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اساتذہ اور والدین کی طرف سے دئیے گئے پڑھائی کے دباؤ کی وجہ سے بچے جس ذہنی اذیت کا شکار ہیں اسکو توازن.میں لانا ازحد ضروری ہے ...
بہت اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے ...اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 
Top