اسکین دستیاب افسانہء نادر جہاں

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 71
کی دوسرے سے جدا جدا ہے۔ اسی طرح باطن میں طبیعت مزاج خصلت عادت بھی کسی کی کسی سے نہیں ملتی۔ اور اگر ملتی ہے تو لاکھوں کروڑوں میں ایک آدھ کی۔ جس کا وجود مثل عدم کے ہے۔ ایک آفتاب مشرق سے آ کر مغرب کے ماہتاب کو لے گیا۔ اب جب تک دونوں کا مزاج ایک نہ ہو گا موافقت نہ ہو گی۔ سہل یہ ہے کہ صبر کیا رنج سہا دل پر قابو طبیعت پر زور تھا دونوں کو بدل کر دوسروں کی مرضی اور خوشی پر چلنے لگے۔ سو یہ بات بھی انھیں سے ممکن ہے جن میں ذرا ظہور سمجھ ہے۔ اچھی صحبت اٹھائی ہے۔ غیرت دار نیک بخت مرنے بھرنے والی ہیں۔ کچھ تعلیم پائی ہے۔ دوسری میں کہاں نئی نویلی ہونے کی وجہ سے ہفتہ عشرہ تک صبر کیا۔ بڑی شرم کی۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ہفتے کے دن بے حجابی کا سبق پڑھنے بیٹھ گئیں۔ خدا سے ڈریں تو نرمی و آشتی سے ابتدا کی نہیں گر یہ کشتن روز اوّل پر خیال کر کے گھونگھٹ ہی کے اندر سے زبان باہر نکال دی۔ چومتے ہی گال کاٹا اور چھوتے ہی ڈنک مارا۔ میرے نزدیک سب سے بہتر اور عمدہ طریقہ یہ ہے کہ عورت بعد نئی دنیا پہنچنے کے اپنی اور شوہر کی اچھی بری باتوں پر لحاظ کرے ۔ اگر اس کے مزاج میں غیرت حمیت مروت نیکی خوبی اور ایسی ہی اچھی اچھی باتیں زیادہ ہوں تو اس پر واجب ہے کہ اپنے نفس کو مارے اور اس کی خوشی کرے چاہے اس پر جبر ہو چاہے ظلم۔ اور اگر خود نیکیوں کی پوٹ ہو جیسے ہماری طاہرہ اسی کی طرح طبیعت میں راستی ہو شر اور فساد جھگڑا قبضیہ نہ جانتی ہو حق پر نظر ہو اور حق پر ہو تو اسے لازم ہے کہ جس طرح سے ہو عقل کے زور ہمت کے سہارے سے دل کو ابھارے۔ اور خداوند عالم سے مدد لے کر شوہر

ریختہ صفحہ 72

کی اصلاح مزاج اور درستی افعال کا بیڑا اٹھائے۔ جب تک وہ راہ پر نہ آئے پیچھا نہ چھوڑے، ہاتھ نہ اٹھائے۔ ہمت نہ ہارے، بڑی حکمت اور دانائی کی بات یہ ہے کہ اپنا دل نہ جلائے اور دوسرے کو راہ پر لے آئے۔ زندگی میں یہ زمانہ عورت کے لئےکالا جیہل خانہ(جیل خانہ) ہے جس میں کوئی با مشقت قید ہے اور کوئی بے مشقت۔ نا اتفاقی کی مصیبت اس قید کی حالت میں ہتھکڑی اور بیڑی بن جاتی ہے۔خدا پناہ میں رکھے اور سب کی لڑکیوں کو عقل سلیم و توفیق نیک عطا فرمائے کہ وہ اس قید کو جو صرف چند روزہ ہے اور مختلف معیاد رکھتی ہے ہنس بول کر میل جول سے کاٹ دیں۔ قید خانے کو عشرت خانہ اور مشقت سے راحت کو بدل لیں۔" (نانا جان)واہ واہ استانی جی سبحان اللہ یہ ساری تقریر آپ کی آب زر اور انگشت شہادت سے لوحِ دل پر لکھنے کے قابل ہے اللہ اکبر۔ سو لفظیں اور ہزار معنی۔ کیا مطلب خیز۔ ماشاءاللہ آپ کی تقریر ہوتی ہے۔ میں نے تو بڑے بڑے عالم فاضل اور مولویوں کو وعظ کہتے سنا مگر نہ یہ اثر زبان میں اور خوبی بیان میں دیکھی۔نہ ایسا سلسلہ۔ بے اختیار دل چاہتا ہے کہ تمام زمانے کی بن بیاہی لڑکیوں کو جمع کر کے آپ سے یہ باتیں سنوا دوں، اگر ایک بات پر بھی انھوں نے عمل کیا تو دنیا کی کھیکھڑوں اور زمانے کے بکھیڑوں سے نجات پا گئیں۔ سُنا استانی جی آپ ضرور عورتوں میں وعظ کہا کیجئیے۔(استانی جی) اے حضور بھلا میں اور وعظ۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔ ہاں اگر خدا نے چاہا میری طاہرہ وعظ کہے گی اور اس پر ماشاء اللہ زیبا بھی ہوگی۔ جوان آدمی کے منہ سے نیک بات نکل کر سننے والوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ اور کسی قادر انداز کے تیر کی

ریختہ صفحہ 73
طرح کبھی اس کا نشانہ خطا ہی نہیں کرتا۔ میں بوڑھی عورت مرنے کے قریب میری تقریر سے میرا ہلتا ہوا سر بالکل مخالف جو برابر میرا کہا نہ ماننے کے نسبت اشارے کئے جاتا ہے ۔ سفید بال نامہ اعمال نیکیوں سے سادہ ہونے کی بلندی پر چڑھے گواہی دے رہے ہیں ہاتھ پاؤں کی تھرتھری گناہگاری کا اچھا خاصا ثبوت ہے ۔ نہیں معلوم ان چاروں سے مل کر کیا کچھ کیا ہے جو ابھی سے یہ حال ہے۔ سارا بدن کسی مجرم کی طرح بید کی مانند تھرّا رہا ہے بے دانتوں کا کلھیا سا منہ ایک لفظ کو بھی ڈھل کر نہیں نکلنے دیتا کانپتی تھرتھراتی آواز میرے خوفزدہ اور خطاوار ہونے کے علاوہ ہانکے پکارے کہہ رہی ہے کہ بہکے ہوئے ہاتھ کے لہراتے تیر کی طرح میں کام کی نہیں ۔ ہمیشہ بیکار ہی جاؤں گی۔ آزمائی ہوئی بات ہے کہ بوڑھے زاہد سے جوان صالح کا کہنا زیادہ موئثر ہوتا ہے کہ ان مشک شام جوانی کی مہک اور کہاں کافور صبح پیری کی بھیک ،جوان جب جوانوں کو نصیحت کرے گا اور مثال میں خود شاہد حال بن کر ان کے سامنے آئے گا تو ممکن نہیں کہ ہمسنوں پر اس کی صلاحیت و نصیحت کا اثر نہ پڑے اور بوڑھے کی باتیں گو وہ کیسی ہی سچ کیوں نہ ہوں مگر سب نوجوان سن کر چٹکیوں میں اڑائیں گے اور طعن سے کہیں گے کہ خود قبر میں پاؤں لٹکائے ہیں نا جبھی ایک ایک کو نصیحت فرما رہے ہیں ۔ نہیں معلوم ان حضرت نے ہمارے سن میں کیا کچھ کیا ہو گا چل چلاؤ کا وقت قریب ہے اس سے یہ خدا کی یاد ہو رہی ہے۔ (نانا جان) بہت صحیح نہایت درست ۔ آپ کی جو بات ہے لاجواب ہے جو دعوےٰ ہے با دلیل۔ لیکن ہماری طاہرہ آج تو اس قابل نہیں اس کا سن کیا ہے جب خدا وہ دن

ریختہ صفحہ 74
لائے گا لائے گا۔ ہم تو آج چاہتے ہیں۔ (استانی جی) آج نہ سہی کل سہی۔ ہم تو چراغِ سحری ہیں، وقت آیا اور بجھے۔ جتنی دیر ٹمٹماتے ہیں ٹمٹماتے ہیں۔ ہاں ان شاء اللہ آپ ایک دن اس کی وعظ سنیں گے اور خوش ہوں گے۔آپ کی مراد ہوری ہونے کا زمانہ بہت جلدی آئے گا۔اس وقت ہم کو دعائے خیر سے فراموش نہ فرمائیے گا۔ (ناناجان) میرا تو دل چاہتا ہے کہ آپ بھی سنیں اور لکھنو میں میرا مکان اسی وعظ کے تصدق سے مشہور ہو۔ آپ کی اگر یہہی خوشی ہے تو پہلے طاہرہ بیگم سے کچھ پڑھوائیے گا اس کے بعد آپ فرمائیے گا۔ (استانی جی) نواب صاحب ابھی موقع نہیں ہے ورنہ میں آپ کا حکم سر آنکھوں سے قبول کرتی۔ ناناجان خاموش ہو رہے اور استانی جی کوٹھے پر گئیں۔ دوسرے دن سبق کے بعد استانی جی نے فرمایا کہ طاہرہ بیگم تم قران شریف حفظ کرنا شروع کرو اور دنیا کے سب کام چھوڑ دو۔ مجھے تو کبھی ان کے حکم سے انکار تھا ہی نہیں۔ فوراً طاق پر سے قران مجید اٹھا لائی اور سنانا شروع کیا۔ سورہ بقرہ، سورہ یٰسین ، سورہ رحمٰن ، سورہ رعد، سورہ واقعہ، سورہ جمعہ، سورہ مزمل، سورہ تغابن ، سورہ عنکبوت، سورہ روم، سورہ دخان، سورہ نون، سورہ جن اور ان کے ماسوا کل چھوٹے چھوٹےسورے پھر سورہ مجادلہ اٹھائیسویں سپارے سے عم یتسائلون تک تین سپارے اس کے علاوہ چھوٹی بڑی جا بجا کی آیتیں پھر ہر سپارے کا سرا ایک دو رکوع تک سب ملا کر قریب تہائی کے تو مجھ کو قران شریف یاد ہی تھا اور یہ سب اپنی خوشی سے یاد کیا تھا جس سورت کی نماز یا کسی عمل یا وظیفہ کے لئے ضرورت ہوئی اور اس کو یاد کیا ۔ شب قدر کی ضرورت سے کچھ یاد کیا تھا ، کچھ سورے ان کے فضائل اور منافع دیکھ کر حفظ کئے تھے۔

ریختہ صفحہ 74
جن کی بالکل استانی جی کو خبر نہ تھی۔ آج کلام اللہ گردان کر جو میں نے پورا سورہ بقرہ سنایا تو استانی جی نے سر سے پاؤں تک میری بلائیں لیں اور دیر تک چھاتی سے لگائے رہیں۔ پہر بھر صبح پہر بھر شام میں نے قران پاک یاد کرنے کا وقت مقرر کیا۔ فضل خدا اور ان معظمہ کی دعا سے تین مہینے میں تلک الرسل کے سورہ آل عمران سے سورہ مومنون قد افلح اٹھارویں پارےکے آخر تک میں نے حفظ کر لیا۔ بقر عید کے مہینے سے پھر انیسویں پارے و قال الذین لا یرجون سے قال فما خطبکم ایہا المرسلون ستائیسویں پارے تک صفر کے آخر تک یاد کئے۔ قد سمع اللہ سورہ مجادلہ سے تو مجھ کو ازبر ہی تھا اسے اسے ملا کر پھر سرے سے لگّا لگایا اور بارہ وفات سے مدار کے مہینے تک تین مہینے برابر دونوں وقت بلا ناغہ ایک ایک سپارہ روز پڑھا اسی زمانے میں استانی جی نے جابجا سے الٹا سیدھا قران شریف پڑھ کر سنا۔ پھر ان کے فرمانے کے بموجب پندہ دن میں عمّا یتسائلون سے سے الم تک دو سپارے روز کے حساب سے پڑھ کر سنائے، بیچ میں وہ ٹوکتی بھی جاتی تھیں تا کہ یہ اٹک جائے یا رکنے سے بھول جائے۔ لیکن میری یاد میں فتور نہ پڑا اور جس جگہ سے چھوڑتی تھی باتیں تمام کر کے وہیں سے پھر سے یوں شروع کر دیتی تھی جیسے اسی جگہ سے ابتدا کی ہے۔ رو میں روانی کے ساتھ پڑھے جانے کی بات اور ہے اور ٹہر کر پھر پڑھنے کی دوسری بات۔ یہ بہت باریک مضمون تھا جس پر استانی جی کی توجہ سے مجھ کو یہ قدرت حاصل ہوئی اور بہت اچھا ملکہ ہو گیا۔ ماہ رجب کے مبارک مہینے میں رکوع سجود معانقہ سکتہ منزل وقف آیتوں کی تفصیل شانِ نزول نصف ربع ثلث سورتوں کے نام دعا سے ختم قران وغیرہ وغیرہ کو ازبر کر کے کلیۃً حفظ قران شریف سے فراغت پائی اور

ریختہ صفحہ 76
سال کے اندر خداوند عالم نے مجھ کو حافظہ کرا دیا۔ وہ لقب عنایت کیا جو آج تک میرے شہر میں کسی دوسری عورت کو میرے عہد میں نہیں حاصل ہوا تھا۔ شعبان میں عید کے دن استانی صاحبہ مجھے ساتھ لےکر کوٹھے سے نیچے اتریں اور ابا جان سے کہا کہ یٰسین گنج میں جناب حافظ مولوی محمد یوسف علی صاحب کا مکان ہے کسی کو بھیج کر ذرا ان کو بلوا بھیجئیے۔ (اباجان ) میں خود نہ چلا جاؤں؟ (استانی جی) ہاں مناسب تو یہی ہے میں نے مصلحتاً نہیں کہا تھا کہ آپ کو تکلیف ہو گی۔ (اباجان) جی ہاں تہذیب و ادب کوئی آپ سے سیکھ لے۔ خدا آپ کی عمر میں روز افزوں برکت دے ۔ ہمارے گھر میں آپ کے دم قدم سے بڑی رونق اور زینت ہے۔ ہاں استانی صاحب یہ تو فرمائیے کہ میں ان سے جا کر کہوں کیااور تکلیف و زحمت دوں تو کس غرض سے۔ آپ کا نام لوں اور کہوں بلایا ہے۔ (استانی جی) میرا نام کیا کام دے گا یہ فرمائیے گا کہ ایک عورت نے قران مجید یاد کیا ہے۔ آپ کو سنانا منظور ہے تو آپ کا کام ہے ذرا آ کر اسے سن جائیے کہیں غلط نہ پڑھتی ہو۔ (اباجان) تو دیر تک انھیں ٹہرنا پڑے گا۔ (استانی جی) جی اور کیا۔ (اباجان ) تو میں شام کی دعوت کو بھی کہہ آؤں اور سہ پہر سے بلاؤں یا سواری ساتھ لیتا جاؤں اپنے ساتھ لاؤں۔(استانی جی) جیسا مناسب سمجھئیے۔ غرضکہ ابا جان شاہ بازار سے دو بجے یاسین گنج سدھارے اور استانی جی نے باہر سے نانا جان کو بلوا کر کہا کہ میں نے حافظ سید یوسف علی شاہ صاحب کو بلوایا ہے آپ بھی کہیں سوار نہ ہو جائیے گا۔ (نانا جان ) کون حافظ یوسف علی صاحب، مولانا حافظ ہادی علی صاحب کے بھائی تو نہیں۔ (استانی جی) جی ہاں۔ (نانا جان) اہا ، ان مرحوم سے تو ہم سے نہایت ہی رسم و راہ اور میل محبت تھی۔ خدا بخشے بڑے

ریختہ صفحہ 77
ملنسار اور خلیق تھے۔ بہت لطف و عنایت فرماتے تھے۔ ایک دن بیچ برابر آتے تھے۔ ان حضرت سے البتہ وہ ربط و خصوصیت نہیں۔ لیکن تاہم شناسائی بخوبی ہے۔کئی مرتبہ ان کے ساتھ تشریف لائے جب ہم خاص بازار میں اور وہ مینا بازار میں رہتے تھے۔ جیسے ہمارے ان کے مکان کھدے انتزاع سلطنت ہوا سب تین تفرقہ ہو گئے ۔ ہمارا ادھر آنا ہوا ان کا ادھر جانا ہوا۔ پہلے دور کی وجہ سے آمد ورفت کم ہوئی اور اب تو قطع تعلق کے ساتھ امید بھی منقطع ہو گئی۔ وہ دین کی جنت میں ہم دنیا کے دوزخ میں۔ میں بھی ان کی خاطر سے مدرسے کے امتحانوں اور تقسیم انعام میں برابر شریک ہوا کیا۔ دونوں صاحب نہایت مقدس اور متبرک ہیں خدا ان کو جنت میں عزت اور ان کی عمر میں برکت دے۔ عجب با خدا اور پارسا لوگ ہیں۔ اور کیونکر نہ ہوں مولوی سید کمال الدین صاحب اللہم اغفر کیسے متقی زاہد ابرار بزرگ و دیندار تھے۔ استانی جی صاحب آپ ان حضرات کو کب سے جانتی ہیں۔ استانی جی نے سکوت کیا۔ نانا جان نے دوسری مرتبہ پھر کہا۔ اس وقت مجبور ہو کر فرمایا کہ نواب صاحب کیا عرض کروں میں کم نصیب انھی کے خاندان کی بدنام کرنے والی ہوں۔ جن سے آپ سے ساتھ قران درمیان بہت ملاقات تھی وہ میرے والد مرحوم تھے۔ میں بے کمال مولوی کمال الدین صاحب مرحوم کی پوتی اور حافظ یوسف علی کی بھتیجی ہوں۔ (نانا جان) افسوس آج تک آپ نے اپنی کیفیت ہم پر ظاہر نہ کی اور اللہ اکبر آپ اس گھرانے کی ہیں جن کے صدقے میں نیک باتوں کا رواج ہوا ہے۔ یا ہم سے کچھ آپ کی خدمت نہ ہوئی اور کچھ قدر نہ کی۔ (استانی جی) نواب صاحب یہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ آپ نے تو

ریختہ صفحہ 78
میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جو کوئی نہ کرتا۔ میری عزت قدر خاطر مدارت پاس لحاظ جیسا اس گھر میں ہوا ہے دوسری جگہ ممکن نہ تھا۔ آپ ہی کی وجہ سے میں نے طاہرہ بیگم کو پڑھایا۔ ثواب پایا۔ اب ایک ایسا سلسلہ دنیا پر چھوڑ جاؤں گی جس سے ہزاروں نیکیوں کی توقع ہے۔ ہزار اولادیں اس کے خاک قدم پر سے نثار کی تھیں ۔ انسان کو اگر اولاد کی تمنا اور آرزو ہے تو بقائے نام و نشان کے لئے اور کسی طرح کی توقع نہیں۔ اور جو اس کے خلاف سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ جہاں تک میرا تجربہ ہے نام ہو یا نشان اگر کسی سعادت مند کے ذریعے سے باقی رہا تو وہ نام و نشان ہے۔ ورنہ اور طرح کے نام سے رہنے سے تو مٹ جانا ہی بہتر ۔ دنیا میں جو راحت اپنے گھر یا اپنی نیک اولاد سے ملنا چاہئیے تھی وہ آپ کے گھر اور نیک سیر سے ملی بلکہ وہاں سے وہ چند مرنے کے بعد جو اس خوش نہاد بچی کی ذات سے مجھے راحت پہنچے گی وہ دنیا کی راحت سے کہیں زیادہ اور ضروری ہے۔ اب فرمائیے اس کا باعث سوا آپ کے اور کون ہے ۔ نہ آپ میری ضد اور ہٹ مانتے نہ اپنی کسر شان کو گوارا کرتے نہ مجھے یہ روز خوش نصیب ہوتے۔ میرا رویاں رویاں آپ کو دعا دیتا ہے اور دنیا سے میں آپ کی شکر گزار جاؤں گی۔ آج میں نے چھوٹے چچا کو جس لئے بلایا ہےوہ یہ بات ہے کہ ماشاءاللہ چشمِ بدور طاہرہ بیگم سلمہا نے قران شریف حفظ کیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی سن لیں ۔ بندہ بشر میرے بتانے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو یا خامی ہو آج زمانے بھر کے حافظوں میں جیسے چچا جان ہیں دوسرا نہیں۔ ان کا ایک سورہ بھی سن لینا اور جا بجا سے بطور امتحان پوچھ گچھ لینا میرے بہت بڑے امتحان کا سبب ہو جائے گا۔ کسی

ریختہ صفحہ 79
آدمی کی تحریر یا کلام کو دوسرا غلط پڑھتا ہے تو اس کو کیسا ملال ہوتا ہے اور سننے والے اس کو بے مادہ بے بھگو کہہ دیتے ہیں۔ یہ تو کلام خدا ہے ۔ مد وقف سکتہ یا زیر زبر پیش کی غلطی کا لحاظ سب پر طرّہ اختلاف قراءت ہے ۔ نیکی برباد گناہ لازم کی مثل ایسی ہی جگہ صادق آتی ہے۔ انھیں مشکلوں کے خیال سے میں نے ان کو تکلیف دی ہے۔ وہ مشکل مقام جگہ جگہ سے سن کر میرا اطمینان فرما دیں گے۔ نانا جان یہ تقریر سن کر سناٹے میں آ گئے اور دیر تک سکوت کر کے فرمایا کہ ہائیں یہ آپ نے قران مجید کب یاد کرا دیا۔ ہم نے تو اس کا چرچا بھی نہیں سنا۔ (استانی جی) حضور چرچا تو بری بات کا زیادہ ہوتا ہےجس کا ڈھنڈورا پیٹنے والا شیطان ہے۔ یہ تو نیک بات تھی اور چھپا کے کی گئی تھی کیونکر ظاہر ہوتی۔ اگر یہ ضرورت نہ ہوتی تو آج بھی آپ نہ سنتے۔ (نانا جان) حق تو یہ ہے کہ آپ کی خلقت دنیا والوں سے جدا گانہ ہے۔ یہ ذکر تھا کہ ابا جان کی سواری آئی۔ (نانا جان) کہو بھئی نواب دولہا بھائی حافظ جی صاحب آئے۔ (وہ) جی ہاں تشریف لائے۔ نانا جان ان کو لینے گئے، یہاں اماں جان نے جلدی جلدی مسند جھاڑی ، پردہ کیا کمرے میں گئیں کہ اتنے میں مولوی صاحب تشریف لائے۔ استانی جی اور میں اماں جان سمیت کمرے میں تھیں۔ مسند پر مولوی صاحب بیٹھے اور ان کے برابر نانا جان سامنے وار کو اباجان۔ مزاج پرسی اور عدم ملاقات کے افسوس میں چند باتوں کے بعد جو اس وقت کے مناسب تھیں۔ نانا جان نے اباجان کی طرف کچھ اشارہ کر کے فرمایا وہ اٹھ کر کمرے کے دروازے کے پاس گئے اور کہا کہ استانی جی صاحب جناب مولوی صاحب کو زیادہ تکلیف وقت ضائع کرنے کی نہ دیجئیے جس بات کے لئے آپ نے بلوایا ہے وہ ارشاد کیجئیے۔

ریختہ صفحہ 80
استانی جی کے حکم سے میں نے کہا کہ اوٹ باہر رکھوا دیجئیےتو بیوی باہر آئیں۔ جلدی سے اوٹ رکھا گیا۔ بیوی مجھے لے کر اس کی آڑ میں بیٹھیں۔ اباجان نے میرا پردہ کرنا نامناسب جان کر نانا جان کے کان میں کچھ کہا انھوں نے ہنس کر فرمایا کہ ہاں یہ تو تم نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ پھر بسم اللہ کرو۔اباجان اوٹ کے پاس آئے اور کہا طاہرہ بیگم پردے کے باہر آؤ۔ مجھے پہلے پہل کی وجہ سے بہت شرم آئی مگر عدول حکم کی مجال نہ تھی۔ فوراً باہر ائی۔ ادب سے جھک کر جناب مولوی صاحب کو تسلیم کی ، انھوں نے عمر دراز کہہ کر ہاتھ پھیلا دئیے۔نانا جان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ بچی کون ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ میری نواسی ہے۔ اسی کو استانی صاحب نے قران پاک یاد کرایا ہے۔ اباجان تو حیرت میں آ گئے کیونکہ انھوں نے اس وقت تک یہ سنا نہ تھا اور مولوی صاحب کو اس قدر فرحت و مسرت ہوئی کہ جس کی انتہا نہ تھی۔ بے اختیار میری پیشانی پر بوسہ دے کر ٹھڈی ہاتھ سے پکڑ کر فرمایا کہ ماشاءاللہ بڑی ذہین اور غیرت دار بچی معلوم ہوتی ہے۔ کلام الہیٰ کس نے یاد کرایا ہے۔ نانا جان بخیال افشائے راز خاموش تھے کہ اوٹ سے استانی جی نے بندگی کر کے کہا کہ آپ کی کنیز نے مولوی صاحب نے جواب سلام دے کر نانا جان سے فرمایا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ انھوں نے پھر مصلحتاً سکوت کیا۔ استانی جی نے کہا جی میں ہوں امۃ الفاطمہ (مولوی صاحب) ہائیں فاطمہ بیگم (استانی جی) جی ہاں (مولوی صاحب) تم یہاں کہاں (استانی جی) کیا عرض کروں۔ اس بچی کی خدمت خدا وند عالم نے میرے نام لکھ دی تھیاس سے یہاں ہوں اور آج سے نہیں بلکہ کئی برس سے ۔مولوی صاحب
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 81
تا دیر سر جھکائے رہے اور پھر کہا تو یہ کہا نواب صاحب یہ میری حقیقی بھتیجی بڑے بھائی صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ یہ اور میں ہم عمر و ہم مکتب رہے۔ شاید کوئی دو ڈیڑھ برس کا عمر میں تفاوت ہو تو ہو۔ ایک گھر میں پرورش پائی۔ ایک جگہ پڑھ لکھ کر بڑے ہوئے۔ جب ان کی شادی ہو گئی تو ایک دن یہ ہمسایہ کے ہاں تھیں اور میں ان کے دیکھنے کو گیا، جب گھر میں نہ پایا تو میں نے اتنا کہا کہ میاں تو گھر میں ہیں نہیں ۔ بے ان کی اجازت دوسرے گھر میں جانے کے کیا معنی۔ یہ میرا کلمہ انھوں نے ادھر سے آتے وقت کھڑکی میں سے سنا۔ اس وقت تو مجبور تھیں سامنا ہو گیا کیا کرتیں۔ ؟؟؟؟ غیرت اس کے بعد سے جو انھوں نے منہ چھپایا اور مجھ سے پردہ کیا تو آج پینتیس چھتیس برس کے بعد میں نے ان کی آواز سنی ہے صورت دیکھنا کیسا۔ لڑکی مری، میاں کا انتقال ہوا بیماری سے غیر حال رہا تکلیفیں اٹھائیں بھگدڑ کے ادھر تک بارہا میں گیا اور ان بندہ ء خدا نے میرا سامنا نہ کیا۔ عذر معذرت خوشامد درآمد کسی کو نہ مانا۔ جب گیا یہی جواب سنا کہ میں کیا کروں میری آنکھ چار نہیں ہوتی۔ بھگدڑ سے تو کچھ حالت ہی نہیں معلوم۔ آج نواب صاحب کے طفیل سے یہ دن دیکھا۔ نہیں معلوم کیا تھا جو مجھے آواز بھی سنائی۔ نواب صاحب استانی جی کی اس غیرت داری کا تذکرہ سن کر تصویر ہو گئے۔ اور اباجان سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ باہر چلو۔ مجھ سے فرمایا طاہرہ تم استانی جی کو پردے سے باہر لاؤ۔ یہ کہہ کر وہ باہر سدھارے ۔ میں اوٹ میں جا لر بیوی جی کے قدموں پر گر پڑی۔ وہ کانپ کر بولیں اے ۃے بیٹا مجھے گنہگار نہ کرو۔ پھر سر اٹھا کر چھاتی سے لگا کر پیار کیااور کہا کہ کہ یہ تو میں پہلے ہی سمجھ چکی تھی چلو یہ کہہ کر

ریختہ صفحہ 82
باہر آئیں اور اپنے چچا جان کو سلام کر کے بیٹھ گئیں۔ انھوں نے دیر تک گریہءشادی کیا۔ اور کئی مرتبہ ان کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اس کے بعد کچھ اگلے پچھلے مرتبے اپنے اور اپنے خاندان کے یاد کر کے اور دل ہی دل میں استانی جی کو یہاں نوکر خیال کر کے اس قدر ملول ہوئے کہ پیشانی پر شکن پڑ گئی اور چہرے سے آثار رنج و ملال کے ظاہر ہوئے۔استانی جی فوراً ان کے اصل مطلب کو پا گئیں اور چین جبین کی سطروں سے مطلب کی چند باتیں پڑھ کر ان کے دلی ملال اور نئے خیال نکالمے کی یوں تقریر شروع کی " میں یہاں کسی طرح سے نہیں رہ سکتی تھی اگر نواب صاحب میری بات نہ مانتے اور کہا نہ سنتے۔ جب بوا رحمت نے اس بچی کے پڑھانے اور میرے یہاں آنے کی نسبت کہا تو میں نے ٹکڑا توڑ کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیا اور صاف جواب دیا کہ بوا نوکری تو ہر گز نہ کروں گی اگر مفت خدمت لینا چاہئیں تو میں حاضر ہوں۔ آپ نواب صاحب کی انسانیت اور نیک نفسی دیکھئیے کہ نہ تو انھوں نے اپنی بدنامی کا خیال فرمایا نہ اس جواب صاف سے کچھ بیدل اور آزردہ ہوئے بلکہ نہایت خوشی سے میرا کہا مانا اور اپنے وعدے پر آج تک قائم بھی رہے۔ پانچ برس کے قریب مجھے یہاں رہتے گزرے نہ کبھی انھوں نے حیلے بہانے سے لینے دینے کا نام لیا نہ ان کی صاحبزادی نے کبھی ذکر کیا۔ میں نے ایسے با وضع عقلمند پابند قول رئیس نہ دیکھے نہ سنے۔ جیسے چھوٹے ویسے بڑے سب کے سب آفتاب۔ دوسرا ہوتا اس وقت رفع دفع کر دیتا۔ اور پھر کسی حوالے سے اپنا مطلب نکالتا۔ انتہا کی دانشمندی فرمائی کہ انھوں نے میری سنی سنائی باتوں پر قیاس سے یہ خیال کیا کہ اشارے کنایے حیلے بہانے اور دھوکے سے بھی اگر کچھ اس سے کہا جائے گا تو یہ ہاتھ اس سے نکل جائے گی اور

ریختہ صفحہ 83
نہ مانے گی پھر کیوں کہو جو بات ضائع ہو اور لطف میں بے لطفی پیدا ہو۔ ماشاءاللہ مہینے میں سینکڑوں روپے محتاج و مساکین کو بٹ جاتے ہیں۔ غریب ہی سمجھ کر مجھے کبھی صدقہ دینے کا قصد کرتے یا اس بہانے سے دیتے کہ لو یہ دس روپے ہیں جو تمہارے نزدیک واجب الرحم اور قابل رعایت ہوں انھیں بھجوا دو۔ سچ تو یہ ہے کہ آدمی کا پہچاننا ہی بہت مشکل کام ہے۔" مولوی صاحب یو ں تو افسردہ بیٹھےہوئے تھےیا اس تقریر کے اصل مطلب تک پہنچتے ہی ان کے چہرے سے بشاشت و خوشی ظاہر ہونے لگی ۔ پہلے میں استانی جی کی اس تقریر کو بالکل بے محل سمجھی مگر جب ایک وقت میں مولوی صاحب کے چہرہ ء مبارک کی وہ رنگتیں دیکھیں تب مجھے یہ عقدہ کھلا کہ استانی جی نے اس وجہ سے یہ باتیں کیں ۔ چونکہ اباجان اور نانا باوا کو بھی میرے قران شریف سننے کی بڑی آرزو تھی اس وجہ سے تھوڑی دیر ٹہر کر بیوی پھر اوٹ میں چلی گئیں اور وہ دونوں صاحب محل میں بلائے گئے ۔ آج بیوی نے اپنے ہاتھ کا سیا ہوا جوڑا مجھے پہنایا تھا چھوٹے چھوٹے پائنچوں کا پائجامہ اودھے دھاری دار قلندرے کا اس میں شالباف کی گوٹ اور محمودی کا کرتا نینو کا دوپٹہ سر پر قصابہ بندھا ہوا اسی حیثیت سے میں مولوی صاحب کے سامنے قبلہ رو بیٹھی اور رحل و کلام اللہ ان کے آگے بڑھا کر اعوذ باللہ کے بعد سوریہ حمد پھر پارہ آلم ایک ربع تک پڑھا۔ مولوی صاحب آنکھ بند کئے سُنا کئے۔ میرا رکنا تھا کہ انھوں نے فرمائشات کا تار باندھا ۔قران پاک ہاتھ میں لے کر کبھی سورہ مریم کی پانچویں آیت سے سن کر سورہ نساء کے دوسرے رکوع سے شروع کرایا کبھی سورہ توبہ سنتے سنتے سورہ آل عمران میں پوچھ بیٹھے۔ دو تین رکوع پڑھے تھے کہ سورہ رعد کا امتحان لیا وہ ناتمام تھا کہ پارہ المحصنت

ریختہ صفحہ 84
پڑھنے کا حکم دیا۔ اور انھوں نے سورہ حج میں رکوع دوم سے پڑھنے کو کہا اور ادھر میں نے و منَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّ۔هَ عَلَىٰ حَرْ‌فٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ‌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ‌ الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَ‌انُ الْمُبِينُ سے چھٹے سنت سجدے تک پڑھا بیچ تین آیتوں کی تفریق و تحقیق بھی ہوتی گئی اور وقف لازم بنی جبرئیل جائز مجوز مطلق مرخص کو پوچھا پھر رموز زیر و بالا کو پھر وقف ۔ ق۔ صلے۔ صل۔ سم۔ لا۔ سم سکتہ۔ وقفہ معانقہ۔ لا۔ قلا قلے۔ ک۔ ہ۔ ے۔ خب وغیرہ سورہ و منزل و خزب قاریوں کے نام رکوع سجود پوچھ کر حروف و نقطہ و اعراب کی تعداد پوچھ بیٹھے پھر الٹا قران مجید اسی طرح سے سنا پھر فرمایا کہ اُولئکَ میں واؤ ظاہر کر کے پڑھا جاتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ نہیں فرمایا کیوں میں نے کہا کہ الف پر پیش اس کا بھائی موجود ہے فرمایا پھر لکھا کیوں جاتا ہے میں نے عرض کیا رسل الخط ہے۔ فرمایا کہ بسم اللہ سے الغفور الرحیم تک تو پڑھو۔ میں نے پڑھ کر سنایا، فرمایا کہ یہاں تو (ر) کے بعد (ے) ہے اور (ر) کے نیچے زیر بھی ہے۔ پھر تم نے مجریہا (رے یے زیر رے) کیوں نہ پڑھا۔ میں نے عرض کیا کہ یے بصورت الف ہو گئی اس لئے کہ ما قبل اس کے جو رے تھی اس پر زبر ہے جیسے اس کے بعد مرسٰہا ہے۔ مولوی صاحب نے مسکرا کر قران مجید گردانا اور نانا جان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ نواب صاحب فخر اور شکر کا مقام ہے کہ خداوند عالم نے اوصاف حمیدہ سے متصف آپ کو نواسی مرحمت فرمائی۔ میں نے اس وقت اس کے امتحان میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا لیکن ماشاءاللہ اس کے ذہن اور حافظہ خداداد نے کہیں کوتاہی نہ کی ۔ اگر محنت کی طرف خیال کروں تو اس کی عمر ہی کیا ہے۔ شاید کوئی نو برس کا سن ہو۔

ریختہ صفحہ 85
اس میں کیا محنت کی ہو گی۔ہم کو اس طرح سے قران شریف پانچ برس میں یاد ہوا تھا۔ اگر اس پر قیاس کیا جائے تو چار برس کے سن سے پڑھنے کا حساب ٹھیک بیٹھتا ہے۔ حالانکہ وہ سن اس قابل نہیں بسم اللہ بھی نہ ہوئی ہو گی۔ (ناناجان) جی نہیں پانچویں میں تھی جب تو پڑھنے بیٹھی ہے۔ (مولوی صاحب) لیجئیے اس حساب سے اگر نو برس کی عمر ہو تو چار برس ہوئے پڑھا کتنے زمانے میں اور یاد کس مدت میں کیا ۔ (ناناجان) اے جناب اگلے سال تک تو یاد نہ تھا تین چار برس ادھر کیسے۔ (مولوی صاحب) سبحان اللہ اب اس کو سوا تائید ربانی اور امداد یزدانی کے کیا کہا جائے۔ (نانا جان) ہاں یہ تو بجا ہے مگر ہماری استانی صاحبہ نے بھی اپنی ساری لیاقت اس کی تعلیم و تربیت میں صرف کر ڈالی اور حضرت اپنے اپنے پڑھانے کا دستور اور انداز ہے۔ یہ بات بھی آپ کے خاندان پر ختم ہے۔ اسی وجہ سے استانی صاحبہ کا ماشاءاللہ طرزِ تعلیم ہی جداگانہ ہے۔ آٹھ نو برس کی بچی پر رفتہ رفتہ پہاڑ کا بوجھ رکھ دیا۔ کامدانی، زردوزی، چکن کاٹنا چھاٹنا سینا پرونا پکانا ر یندھنا ، رکابداری رنگریزی رنگ سازی نقاشی سوت کاتنا جراب کاڑھنا لچکا پٹھا بننا جالی لوٹ کا کام نماز روزہ پڑھنا لکھنا ماشا ء اللہ ان سب میں طاہرہ کو مہارت حاصل ہے ۔ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ کس کس نفاست اور تازگی صفائی اور عمدگی سے اس نے یہ کاریگریاں کی ہیں۔ یہ فرما کر رحمت کو پکارا اور وہ صندوق منگوا کر( جس میں میری دستکاری کی چیزیں تھیں ) سب کے پہلے قران مجید کا زردوزی مخملی غلاف نکالا جس کے حاشیئے پر چو طرفہ میں نے جو بیل بنائی تھی اس میں یہ آیتیں تھیں بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ فِىْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ لَّا يَمَسُّه اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ اور اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ اور اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ اور اَكْ۔رَمَكُمْ عِنْدَ اللّ۔ٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚاور کلُّ مَنْ عَلیها فَان وَ یبقَی وَجْهُ رَبّک ذوالجلالِ والاکرامِ اور اِنَّ اللّ۔ٰهَ مَعَ الصَّابِ۔رِيْنَ اور إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ جناب مولوی صاحب ان آیتوں کے معنی اور محل تصرف پر دیر تک غور فرمایا کئے پھر مسکرا کر کہا کہ طاہرہ بیوی تم نے ان کے معنے بھی سمجھے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی میرے پاس ایک قران مجید با ترجمہ ہے اسی سے لفظی معنی معلوم ہو جاتے ہیں۔ مولوی صاحب نے جزودان کو چوم چاٹ کر نانا جان کو دیا ۔ انھوں نے کامدانی کا دوپٹہ اٹھا دیا۔ ظاہر میں تو وہ تاروں سے کڑھا ہوا معلوم ہوتا تھا مگر بغور دیکھنے سے اس کی صنعت کھلتی تھی۔ یہی ہوا کہ جب قریب سے مولوی صاحب نے دیکھا تب اس کے بیل بوٹے کے جوہر کھلے۔ بے اختیار ہنسے اور فرمایا کہ نواب صاحب ذرا اس فقرے کو دیکھئیے (بیوی آنچل کو تو اٹھاؤ دیکھو زمین پر لوٹ رہا ہے۔یہ کیسا انداز دوپٹہ اوڑھنے کا ہے) واہ واہ واہ اس کے بعد دوسری بیل میں یہ عبارت تو ملاحظہ فرمائیے "اچھا کپڑا پہن کر اترانے کے بدلے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کیونکہ جو کچھ ہے اسی کی عنایت ہے" طاہرہ سبحان اللہ یہ تو بتاؤ کہ تمہاری مرضی کے موافق چھاپے کیونکر میسّر آئے۔ ۔میں) میں نے خود کھودے ہیں ۔مولوی صاحب) یہ اس پر بھی طُرّہ ہے چھاپے کھودنا تو نہایت مشکل کام ہے۔ (میں ) جی ہاں پہلے میں بھی ایسا ہی جانتی تھی۔ ایک دن میر نقش علی صاحب کی لڑکی کو ماما کھلاتی ہوئی نکل آئی۔ میں کوٹھے پر سے اتر رہی تھی۔ ماما نے اس سے سلام کرایا۔ میں گود میں لے کر اسے

ریختہ صفحہ 87
پیار کرنے لگی۔ اس کے پاس چھوٹی سی لکڑی کا ٹکڑا تھا جس پر انھوں نے کھریا لگا کر نقش بنا دیا تھا دوسرے رخ پر تیل کی چکنائی معلوم ہوئی ۔ میں نے بھی انھی کے معرفت اپنی مرضی کے موافق نمونے دے کر پندرہ بیس ٹکڑے کٹوا منگوائے اور تیل میں بھگو دئیے۔ جب تیل پی چکے تو ایک نکال کر کھریا لگائی پھر حرف بنائے اور انھی کے ہاں سے تھاپی اوزار منگوا کر اسے کھود لیا۔ دو چار بگڑے۔ ہاتھ جمنا تھا کہ بننا شروع ہوئے۔ اب تو اوزار بھی بن گئے اور میرے دل کا ڈر بھی نکل گیا۔ (مولوی صاحب) طاہرہ بیگم تمہارے ذۃن عالی اور عقل سلیم کا وصف دشوار ہے۔ خدا تمہیں نظر بد سے بچائے۔یہ میری انتہا کی خوش نصیبی تھی کہ ایسے ایسے باخدا اور مقدس پاک دل بزرگوں کی زبان مبارک سے طرح طرح کی دعائیں میرے حصے میں آتی تھیں جن کی تاثیر کے جلووں سے میرے ہنر اور عقل اور ذہن میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی اور تیزی ہوتی گئی ۔ تھوڑی دیر جناب مولوی صاحب اور ٹہرے تھے کہ مغرب کا وقت آ گیا۔ جانے کا ارادہ کیا۔ اباجان نے نہ مانا۔ مسجد میں نماز با جماعت ہوئی۔ عشاء کی نماز کے بعد اباجان گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ طاہرہ بیگم آج ہم بھی مولوی صاحب کے ساتھ کھانا باہر کھائیں گے۔ باہر کھانا بھیج کر تم سب بھی کھانا کھا لینا۔ ہمارا انتظار نہ کرنا۔ کھانے کے بعد بھی مولوی صاحب کو ٹہرایا اور جی بھر کر سب نے ان کی زیارت کی ۔ ہر شب جمعہ کو آنے کا وعدہ ہوا اور مولوی صاحب اپنے گھر سدھارے۔ ابا جان گھر میں آئے۔ آج اماں جان نے انتہا سے زیادہ بجد ہو کر اور مجھے مصرا کر کے استانی صاحبہ کو کھانا کھلایا تھا۔ باہر سے آنے والوں کی آہٹ پا کر استانی جی کوٹھے پر گئیں ۔ خیراتن شمع لئے ساتھ ساتھ

ریختہ صفحہ 88
تھیں۔ میں آناً فاناً اس غرض سے ٹہر گئی کہ مولوی صاحب کے دوبارہ آنے کا حال پوچھ لوں تو چلوں۔ اباجان آئے ہیں میں ان سے پوچھ چکی ہوں کہ زینے پر دھماکہ ہوا باورچی خانے کے لوگ دوڑے اعجوبہ میرے لئے کھڑی تھیں وہ دوڑیں میں اباجان کی طرف دیکھ رہی ہوں۔ اور یہ سن کر کہ مولوی ساحب اب ان شاء اللہ ہر جمعرات کو آیا کریں گے۔ دل ہی دل میں خوش ہو رہی ہوں کہ ہئے ہئے استانی جی گریں "بوا اعجوبہ " کی صدا میرے کان میں پہنچی۔ یقین ماننا کہ میرا دل اُڑ گیا اور ہاتھ پاؤں کا ست نکل گیا۔ عرق عرق ہو گئی اور اسی حالت میں گرتی پڑتی زینے تک پہنچی دیکھتی کیا ہوں کہ پلنگڑی پر لوگوں نے لٹا دیا ہے اور وہ بے ہوش ہیں۔ بدن پر کہیں چوٹ چپیٹ نہ معلوم ہوئی تب مجھے اور زیادہ تردد ہوا دل بھر آیا۔ بے اختیار ڈبڈبائی آنکھیں لے کر ان پر جھکی۔سینے پر منہ رکھا شمع سر کے پاس لے جا کر ایک ایک بال بچور کر دیکھا کہ شاید سر میں ضرب آئی ہو لیکن نہ تو کہیں زخم تھا نہ گومڑ نہ ورم۔ یہ دیکھتے ہی میں بے قابو ہو گئی۔ حواس جاتے رہے دل میں ایک سنسناہٹ ہوئی نہ کسی اور خیال و ملال سے بلکہ اس اندیشہ سے کہ مبادا کوئی صدمہ دل پر پہنچا ہو اور اس کی وجہ سے دشمنوں کی یہ حالت ہو گئی ہو جلدی جلدی ہوشیار ہونے اور غش برطرف کرنے کی معمولی تدبیریں کیں مگر کچھ اثر ان کا ظاہر نہ ہوا۔ اس وقت حکیم مسیحا صاحب کے بلانے کو اماں جان سے کہلوا بھیجا اور میں نے بہ خیال فصل کیوڑا بید مشک پلایا خس اور کیوڑے کا عطر سنگھایا چکنی مٹی کا ڈھیلا بھگو کر ناک کے پاس رکھا دو آدمیوں نے تلوے سہلائے دوپٹے کے آنچل سے ہوا دی پنکھا جھلا ٹھنڈے

ریختہ صفحہ 89
پانی کے بار بار چھینٹے دئیے۔ بارے خدا خدا کر کے آنکھ کھولی۔ آدھی گھڑی سے زیادہ ان باتوں میں نہ گزری ہو گی جو ماشاء اللہ وہ ہوشیار ہو گئیں۔ لیکن مجھ پر کیا سب یہی کہتے تھے کہ نہ معلوم کئی گھنٹے گزر گئے اماں جان ان کی پیٹھ کی طرف آ بیٹھیں اٹھا کر مومیائی کھلائی گرم سہتا سہتا دودھ تھوڑی سی پھٹکری ڈال کر پلایا پھر یہ صلاح ہوئی کہ اب ان کو کوٹھے پر نہ لے جائیں ۔ دوپہر رات گزر لے صبح کو شب بخیر دیکھا جائے گا۔ اُتّر رخ کو ایک کمرہ تھا اور اسی سے ملی ہوئی بوا رحمت کی صحنچی خالی پڑا تھا۔ جلدی جلدی جھاڑ بہار کر سب نے مل کر ان کی راحت کے سامان وہاں مہیا کر دئیے۔ اور پلنگ پر لے جا کر لٹا دیا۔ جب وہاں سے کھٹولی اٹھی اور بوا اعجوبہ بوتلیں کنٹر شیشیاں لینے گئیں تو انھوں نے خون کا تھالا شمع کی روشنی میں دیکھا "بیوی صاحبزادی" جلدی ادھر آؤ کہہ کر مجھے پکارا۔ میں جو گئی تو وہ لہو کا ڈبرا بھرا دیکھا کاٹو تو لہو نہیں۔ ہائے ہائے یہ کس کا خون کہہ کر میں زرد ہو گئی۔ اماں جان آئیں۔ انھوں نے دیکھا ۔ دم بخود کھڑی تھیں کہ پائنچوں پر نگاہ پڑی۔ اے لو۔ ہائیں یہ کیا ہوا۔ کہہ کر وہ اپنے پائنچے دیکھنے لگیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ساری گوٹ لتھڑی ہوئی تھی اور لختے کے لختے جمے تھےاب سب کے سب وہیں جمع ہو گئے خون کی جگہ گھیرے کھڑے ہیں کہ میں جلدی سے اٹھ کر کمرے میں گئی ۔ استانی جی کی پیٹھ کی طرف جا کر کمر کو روشنے سے دیکھا تو بائیں جانب زخم پایا ۔ میرا قیاس صحیح نکلا۔ جلدی سے ہاتھ رکھ کر خون بند کیا ۔ گو اب اس تیزی سے نہیں بہتا تھا پھر بھی بخوبی رِس رہا تھا۔ کچھ دیر تو ٹونٹی ہی چلی ہو گی ۔ اشارے سے بوا رحمت کو بلایا اور آگ منگا کر ریشم جلا کر بھرا خون نہ رکا ۔ مکڑ کا گھر بھی اکسیر ہے لیکن سارے گھر میں وہ آدھا بھی نہ ملا جو کچھ کام نکلتا۔ اخر کو لوبان پیس کر رکھ دیا

ریختہ صفحہ 90
اس سے خون آنا بند ہوا ۔ اب میری جان میں جان آئی، دم ٹہرا اور استانی جی کو غفلت سی آ گئی جاگ کر وہ رات کاٹی۔ حسب معمول چار گھڑی رات رہے استانی جی اٹھیں۔ میں دوسرے پلنگ پر لیٹی تھی انھوں نے مجھے سوتا سمجھ کر اٹھنے کا قصد کیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی اور جلدی سے بازو پکڑ کر چوکی پر لے گئی۔ بوا اعجوبہ آہٹ پا کر اٹھیں اور گرم پانی لا کر رکھ دیا ۔ مجھے ان کی نیت کا حال معلوم تھا کوٹھے پر سے بخچی منگا کر جوڑا نکالا ۔ جب چوکی پر سے آئیں تو پہلے کا سا ضعف نہ تھا۔ میں نے کہا آپ کے دشمنوں کے بڑی چوٹ لگی یہ کپڑے سب نجس ہیں کہا میری بچی کچھ ایسی تدبیر کرو کہ میری نماز نہ جائے۔ ذرا سا پانی منگاؤ تو میں پنڈا غوطہ کر ڈالوں۔ اس امر میں کچھ کہنا سننا محض بیکار تھا، چولہے پر سے بوا اعجوبہ اور امامن پانی کا گھڑا اٹھا لائیں بوا رحمت کی صحنچی میں انھوں نے بدن پاک کیا کہڑے بدلے۔ اتنی دیر میں نماز کا بھی وقت آ گیا میں وضو کرنے گئی اور وہ سجادے پر تشریف لے گئیں۔ بوا اعجوبہ ان کے پاس رہیں ۔ سارے گھر کو امامن نے جگایا۔ بعد نماز ہر ایک ان کی خیریت پوچھنے آیا۔ صبح و شام حریرہ اور یخنی دینا شروع کیا۔ آنولے کا مربہ ورق نیم برشت انڈا انار شیریں مکھن دودھ قلیہ قورمہ روے کے افلا طونی پھلکے اور ایسی ہی ایسی ہلکی اور خون پیدا کرنے والی چیزیں زبردستی کھلا پلا کر پندرہ بیس دن میں ان کو اس قابل کر لیا کہ بے سہارے خود چلنے پھرنے لگیں اور ذری ظہور طاقت آ گئی۔ مولوی صاحب دیکھ گئے تھے گھر جا کر ایک معجون بھیجی کہ سوتے وقت تولہ بھر سونے کے ورق میں لپیٹ کر کھلا دی جایا کرے۔ رفتہ رفتہ فضل خدا شامل حال ہوا اور میرے اطمینان کو ترقی ہوئی۔ دو روز مہینے میں باقی تھے کہ وہ پھر کوٹھے پر گئیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 91
اور وہیں غسل صحت بھی ہوا۔ مولوی صاحب نے دو جلدیں اور ایک قلمدان مع جزدان مجھے عطا کیا تو یہ سب بیوی کے غسل صحت کے دن مجھے مل کر دونی چوگنی ترقی کا سبب ہو گیا۔ قلمدان صندل کا اور کتان اخلاق محسنی اور انوار سہیلی تھی یہ کتابیں مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں ، بیوی دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ گلستان تو میں پڑھ چکی تھی اخلاق محسنی مولوہ صاحب سے شروع کرا دی جو ہر روز میں اباجان سے پڑھتی تھی اور انوار سہیلی اپنی جگہ پر دیکھتی تھی۔ کہیں کہیں استانی جی اور اباجان سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ گو کہ استانی جی کی اگلی حالت بدل گئی تھی اور خدا نہ کرے وہ نقاہت نہ تھی طرح طرح سے ان کی الٹ پلٹ کی گئی لیکن باوجود ان سب باتوں کے میں جو دیکھتی ہوں تو ان کی وہ خوش خلقی ملنساری ایک ایک کی دلداری محبت سے پیش آنا خاطر کرنا پان دینا بٹھانا چیونٹی چیونٹی کی خیر خبر پوچھنا بالکل باقی نہیں۔ نہ آتے سے غرض نہ جاتے سے کام ۔ کبھی آنکھ بند مراقبہ میں ہیں کبھی چپ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ کبھی حال برزخ و قبر پاڑھ کر کانپتی ہیں کبھی قیامت کے ذکر پر روتی ہیں ۔ اگر کوئی آ نکلتا ہے تو اس سے اسی قسم کی باتیں کرتی ہیں کہ وہ گھبرا کر اٹھ جاتا ہے۔ روز کے ایک حال پر اکتاتا ہے۔ سوا میرے اور کون تھا جو روز موت کی کہانی اور قیامت کا حال دل دے کے توجہ سے سنتا۔ رفتہ رفتہ لگ کم آنے لگے ایک دن میں نے کہا کہ آپ کا مزاج نصیب دشمناں کچھ سست رہتا ہے۔ فرمایا کہ نہیں تو۔ میں نے کہا پھر کیا باعث جو آپ کی اگلی حالت میں کچھ فرق آ گیا ہے یا مجھی کو ایسا معلوم ہوتا ہے۔ فرمایا نہیں تمہارا کہنا بجا ہے۔ میری طبیعت بالکل بدل گئی۔ اہل دنیا اور دنیا سے دل بیزار ہو گیا

ریختہ صفحہ 92
نہ کسی سے ملنے کو جی چاہتا ہے نہ بات کرنے کو۔ اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب زمانہ کوچ کا بہت قریب ہے۔ خداوند عالم بڑا مسبب الا سباب ہے۔ جب انسان کی موت آنے کو ہوتی ہے تو چند روز قبل مرنے کے اس کے دل کو دنیا کی طرف سے پھیر دیتا ہے کہ جتنے تعلق ہیں ان سے نفرت ہو جائے اور سختی سے دم توڑ توڑ کر پھڑک پھڑک کے نہ مرے چونکہ وہ دنیا سے مانوس ہوتا ہے اور دفعتاً اس کے چھوٹنے سے جدائی کے صدمے کی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس لئے حکیم مطلق اس کی دوستی کو مبدل بہ دشمنی کر دیتا ہے اور یہ بھی ضرور ہے کہ جب ایک طرف سے دل ہٹتا ہے تو دوسری طرف رجوع کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیونکہ ہر انسان میں انس کا مادہ موجود ہے پس دنیا کے مقابلہ پر کیا ہے دین ۔جب دنیا کی محبت دل سے جاتی ہے دین کی الفت آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موت کی یاد ہوتی ہے موت کے لئے خوف خدا تاریکی قبر سکراتِ موت طول برزخ ہول حشر سختی حساب دہشت سوال و جواب تردد عذاب پر نظر کرنا واجب ہے۔ ان کے تصور بندھتے ہی وہ شخص مردہ دل اور مخموم ہو کر اپنے اعمال کی طرف خیال کرتا ہے۔ ان کو حقیر و ذلیل نا قابل و قلیل پا کر فکر درستی سفر آخرت پر متوجہ ہوتا ہے اور خدا سے لو لگاتا ہے۔ دنیا اور اس کے تعلقات سے دل ہٹاتا ہے۔ یہی حال میرا ہے۔ کچھ اوپر نوے برس کا سن ہوا ساری عمر دنیا ہی کے دھندوں میں کٹی۔ اب خدا کے فضل و کرم نے توفیق نیک کو میرا رفیق کر کے ان بکھیڑوں سے نجات دی ہے۔ خودبخود دل علٰیحدگی ڈھونڈتا ہے۔ سوا تمہارے کسی سے مجھے لگاؤ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ وہ بھی فقط اس وجہ سے کہ خدا رکھے تم انتہا کی نیک بخت اور سعادتمند ہو۔ تم سے بڑی بڑی

ریختہ صفحہ 93
توقع ہے۔ بیٹا یہی نازک وقت ہے کہ جس کی عمر کم ہے اور کام برا کرنا ہے۔ اگر اس تھوڑے سے زمانے میں دل سے اس کی یاد کی جائے اور اعمال نیک کا ذخیرہ کر لے تو نہایت ہی مناسب ہے تا کہ اس لمبے چوڑے تنہائی کے سفر میں کام آئے۔ بیوی طاہرہ بیگم یہی سفر ہے جس میں نہ امن ہے نہ مفر۔ ہر فرد بشر کو جانا ہے اور منزج پر پہنچ کے سختیاں اٹھانا نہ پردہ نشین پردہ کے بہانے سے بچ جائے گا نہ لنگڑے کا عذر لنگ سنا جائے گا نہ خانیہ نشین بچے گا نہ گوشہ گیر نہ امیر نہ غریب نہ بادشاہ نہ فقیر نہ بوڑھا نہ جوان نہ بالا گورا نہ سانولا نہ کالا اپاہج نہ لُنجا لولا نہ اندھا نہ توانا کی طاقت کام آئے گی۔ نہ مالدار کو دولت نفع پہنچائے گی ظالموں کی دال نہ گلے گیحاکموں کی خاک نہ چلے گی۔ عین وقت پر سب ساتھ چھوڑ دیں گے۔انکھ موڑ لیں گے۔ نہ کوئی کام آئے گا نہ کام دے گا نہ بات پوچھے گا نہ خبر لے گا باپ ہو یا بھائی جایا ہو یا جائی بہن ہو کہ ماں بیوی ہو کہ میاں پیسہ ٹکا پاس نہیں ہوش نہیں حواس نہیں ۔ اور اگر ہو بھی تو مال کیا مال ہے خالی ہاتھ جانا بہر حال ہے۔ ہاتھ پاؤں دشمن شیطان و نفس رہزن اپنی گور اپنی منزل خلوت میں اعمالوں کی محفل کچھ دے لے کر جائیں کہ لے دے سے بچیں نہ کائی پیچھے نہ آگے نہ دہنے نہ بائیں نہ آرزوئیں نہ خواہشیں نہ ہوائیں قیامت کی تنہائی غضب کی تاریکی چھائی گناہوں کے بوجھ سے گردن ٹیڑھی کمر میں خم تشنج سے بند بند ٹوٹا ہوا منہ پر ورم ندامت سے زمین میں گڑنا حسرت سے ایڑیاں رگڑنا عذر نا معقول اس کی سماعت محال ۔ نہ کہنے کا یارا نہ عرض کی مجال تمہیں بتاؤ کہ گیا وقت پھر ہاتھ آ سکتا ہے بھولا بھٹکا منزل پر جا سکتا ہے۔ اگر پہلے ہی سے اس دن پر نظر رکھتے ۔ کچھ اپنی کچھ ادھر کی خبر رکھتے تو آج کیوں

ریختہ صفحہ 94
یہ ہراس ہوتا اور پھوٹ پھوٹ کر دل روتا۔ حاکم کونین کے سامنے جاناا ور خالی ہاتھ دکھانا نہ ہدیہ مقبول ہے نہ تحفہ معقول۔ گو وہ مستغنی ہے بے نیاز ہے مالک ہے پلک نواز ہے ہمارا کچھ لے جانا اپنے واسطے ہے نہ اس کے واسطے۔ تھوڑا سا کام دکھائیں گے مزدوری پائیں گے۔ رونا تو اس بات کا ہے کہ وقت تنگ ہے اور بڑی بڑی امنگ۔ لیکن اب سوچے تو کیا سوچے اور سنبھلے تو کیا سنبھلے۔ نہ کچھ بنائے بنے گا نہ کچھ کئے ہو سکے گا۔ٹھوکر کھا چکے گھڑے میں پاؤں جا چکے۔ اگر چار دن ادھر یہ خیال ہوتا تو آج نہ یہ حال ہوتا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی مشہور ہے۔ خطا کر کے پچھتانا بھی ضرور ہے۔ اب بے موت مرتے ہیں افسوس کرتے ہیں ۔ کاش اب بھی جو کچھ کیا کریں بے ریا کریں تو بھی اس کی رحمت بے انتہا ہے۔گناہوں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ بخش دے تو کیا دور ہے کہ وہ راٖم و غفور ہے۔ طاہرہ بیگم خالی ہاتھ سارا قافلہ ہے نہ زاد ہے نہ راحلہ۔ رستے سے نابلد راہ سے نا آشنا۔ منزل ایک اور پھر سب جدا۔ تخت نشین اور خاک نشین سب برابر۔ جو اس کو خوف وہی اس کو ڈر۔سب کے پاس سواری ہے مگر بے قابو ہے۔ وہاں لئے جاتی ہے جو مقام ہو ہی سیہات۔ خدا کی ذات۔ زبان ہے گویائی نہیں آنکھ کھلی ہے بینائی نہیں ہاتھ معطل پؤں شل جگر افسردہ دل مردہ پہلو ویران سینہ سنسان نہ رگوں میں لہو نہ لہو میں جوش نہ سر میں سودا نہ دماغ میں ہوش نہ قلب میں ارمان نہ بدن میں جان سب اعضا کا قافلہ بدستور و برقرار ہے مگر بے یوسف روح ہر اک بیکار۔ نہ طاقت قیام نہ قوت قعود نہ دم نہ درود۔ بند منہ پر موت کا قفل لگا ہے روح نکل گئی اب وہاں کیا دھرا ہے۔ ہونٹ بے حرکت ہیں اور ہاتھ پاؤں بے ست۔ ناک میں بو نہیں جاتی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کان

ریختہ صفحہ 95
بہرے۔ گالوں کی رنگت زرد ہے محرور مزاجی کا بازار سرد ہے۔ کانوں کی لویں آنکھوں کی پتلیاں پھری ہوئیں ساری دنیا کی چیزیں نگاہوں سے گری ہوئیں، شام جوانی اور صبح پیری کا ایک حال نہ سن کی تمیز نہ عمر کا خیال۔ کچھ پیچھے کچھ آگے جاتے ہیں۔ چار کے سہارے بھاگے جاتے ہیں۔ اتنی مجال نہیں کہ سامان سواری دیکھیں یا اپنی ناداری جو عمر بھر نہ پہنے کپڑے وہ پہنے ہیں۔ ہیں سہاگن اور ہاتھ پاؤں بے گہنے ہیں۔ سادی وضع سادہ لباس عطر کے بدلے کافور کی بو باس ۔ نہ سونا جھونا ہے نہ اوڑھنا بچھونا ۔ کوئی شہادت دیتا پے مگر کانوں میں آواز نہیں آتی۔ کسی کی شکل دیکھی نہیں جاتی۔ نہ اپنی محبت کا خیال ہے اور نہ کسی کا نہ فکر کا محل ہے نہ غور کا۔ کوئی روتا ہے رویا کرے جان اپنی کھویا کرے۔ نہ ملت کا پاس ہے نہ میل کا خیال نہ کسی سے خلا ملا ہے نہ بول چال۔ آرزو بے ٹھور ٹھکانے ہے امید خاک بسر نہ حسرت کا اثر ہے نہ ارمان کا گذڑ وہ دل ہی نہیں جو ان سب کا مکان ہے ہر اک صاحب سلامتی انجان ہے۔ آبادی کی جگہ ویرانہ ہے ابتر کارخانہ ہے۔ نہ خون دوڑتا ہے نہ سانس آتی جاتی ہے۔ نہ کوئی ہرکارہ ہے نہ خبر آتی ہے۔ چار طرف سناٹا پڑا ہے خاموشی کا جھنڈا گڑا ہے۔نہ کوئی ہمدرد ہے نہ غمخوارنہ دلسوز ہے نہ دلدار اور کوئی ہے تو ہوا کرے کچھ کہتا ہے کہا کرے نہ شکوے شکایت کا خیال نہ ترک ملاقات کا ملال۔ بلائے ہوئے جاتے ہیں کب کسی کے کہنے میں آتے ہیں بڑی سرکار میں طلب ہے دم لینا ترک ادب ہے ٹہرنا کیسا بات کرنا کیسا ، نہ اس کی طاقت نہ اس کی مجال نہ کسی کی پرواہ نہ کسی کا خیال سب سے آنکھ پھراتے ہیں پردے میں منہ چھپاتے ہیں آخری نکھار نیا سنگھار کئے ہیں جو دکھائی نہیں دیتی وہ گھٹری سر پر

ریختہ صفحہ 96
لئے ہیں۔ چار کی مدد سے راہ کٹی خدا خدا کر کے منزل ملی زمین کی چھاتی پھٹی نام چار کو جو ساتھ آئے تھے لحد کے منہ میں لقمہ دینے کو لائے تھے۔ سواری سے گڑھے میں اتار دیا اپنے اپنے گھر کا رستہ لیا۔ اجلے کپڑوں سمیت زمین پر لٹا گئے۔ ہوا کو راک گئے خاک میں ملا گئے۔ " یہ کہہ کر استانی جی کو اس قدر رقت آئی کہ بات کرنا دشوار ہو گئی۔میرا دل پہلے ہی سے بھر آیا تھا آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں ان کا رونا سہارا تھا یا ٹھیس لگنا بلک بلک کر رونے لگی۔ یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئی۔ استانی صاحب آنسوؤں سے روئیں اور میں آواز سے ۔ میرے بھوں بھوں رونے کی صدا امامن نے سنی ، دوڑی ہوئی گئی اماں جان کو لائی وہ گھبرائی ہوئی آئیں اور ہکا بکا ہو کر امامن سے پوچھنے لگیں کہ ارے کیا ہوا کچھ تو بیان کرو، وہ بیچاری چولھے پاس بیٹھی تھی اسے کیا خبر کہ یہاں کیا باتیں ہوئیں۔ ڈر کر بولی کہ حضور مجھے نہیں معلوم۔ میں نگوڑی ماری تو باوچی خانے میں اپنا منہ جھلس رہی تھی ۔ یہاں کچھ باتیں ہو رہی تھیں ۔ میں نے سنی بھی نہیں۔ اماں جان کا میرے پھڑپھڑانے پر دل تلملایا۔ روک تھام کرنے بیٹھیں۔ سینے پر ہاتھ پڑتے ہی کہا ہائے ہائے اندر سے دل بھی تو تڑپ رہا ہے کس سے پوچھوں کہ یہ کیا تھا۔ استاد شاگرد دونوں کے درمیان ساون بھادوں ہو گئے۔ اب بیچاری اماں جان کبھی تو استانی جی کی خبر لیتی ہیں کبھی میری۔ تھوڑی دیر میں وہ بے ہوش ہو گئیں مگر مجھے معلوم نہیں۔ دو چار دفعہ منہ دھلانے پانی پلانے سے سانس اور د ل ہرا ہچکی رکی۔ آنسو تھمنا تھے کہ اماں جان نے کہا طاہرہ بیگم دیکھو خبردار اب نہ رونا ۔ تمہاری استانی کے دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں۔ میں رونا دھونا سب بھول گئی۔ مڑ کر جو دیکھتی ہوں تو لکڑی کی طرح پڑی ہیں

ریختہ صفحہ 97
بدن سخت ہے دانت بیٹھے ہیں نہ حلق سے پانی اترتا ہے نہ پانی کے چھینٹے منہ پر اثر کرتے ہیں۔ نہ پنکھا کام دیتا ہے نہ ہوا سے کچھ ہوتا ہے۔ اماں جان بد حواس اور بے تاب کہ کیونکر جلدی سے ہوش میں لے آؤں۔ زینے پر کھڑے اباجان پوچھ رہے ہیں۔ نانا جان نے خبر پا کر ڈاک بٹھا دی ہے آدمی برابر پھیرے کر رہے ہیں نیچے ے لوگ اوپر اوپر کے لوگ نیچے ہو رہے ہیں۔ اپنی اپنی عقل لڑاتے ہیں تدبیریں کرتے ہیں کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت آ گیا اور باگ والی مسجد میں اذان ہوئی۔ یا تو ایک ایک چپ چپ کر رہا تھا بستم بستہ تھی نہ کاؤں کاؤں تھی نہ چاؤں چاؤں۔ اللہ اکبر کی صدا سنتے ہیتو چل میں چل ایک ایک کھسکنے لگا۔ کچھ ادھر کچھ ادھر ہو گئے۔ اماں جان بھی وضو کے لئے گھبرا کر اٹھیں۔ میں استانی جی کے سرہانے بیٹھی۔ نہ انھیں چھوڑنے کو جی چاہتا ہےنہ نماز کو۔ تو سر زانو پر رکھ لیا مگر نماز کے جانے کا بڑا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ خدا کے صدقے جاؤں فوراً اس نے میرے دل میں ڈالا کہ لاؤ کان میں جھک کر نماز کے لئے تو کہوں شاید آنکھیں کھول دیں۔ یہ خیال آتے ہی میں نے کان سے منہ لگا کر چیخ کر کہا کہ بیوی جلدی اٹھئیے نماز کا وقت جاتا ہے۔ ایک ہی دفعہ کہنے کی نوبت آئی تھی کہ وہ چونک پڑیں۔مجھے دعا دے کر سر زانو سے اٹھابٓنے کا ارادہ کیا ۔ میں نے سہارا دے کر اٹھا بٹھایا۔ وضو کر کے ہن نے انھوں نے ساتھ نماز پڑھی۔ بعد نماز اماں جان آئیں اور مجھ سے کہا کہ طاہرہ یہ کیا ہوا تھا، میں نے عرض کیا کہ موت اور قبر برزخ اور قیامت اعمال اور گناہ سزا اور جزا کا ذکر تھا جس پر مجھے بھی رونا آیاا ور وہ بھی روئیں۔ سجدہ شکر کر کے استانی جی صاحب اماں کی طرف پھریں اور کہا بیوی کچھ اتفاق کی بات تھی

ریختہ صفحہ 98
بیسیوں مرتبہ یہی ذکر کیا اور ایک آنسو نہ نکلا۔ آج کچھ ایسا دل بھرا کلیجہ امڈا کہ ضبط نہ ہو سکا۔ بہت چاہا کہ طاہرہ بیگم بیٹھی ہیں میں نہ روؤں مگر توبہ آنسوؤں کی دو نہریں تھیں کہ جاری ہو گئیں۔ سماں تو بندھ ہی چکا تھا اور تصور بھی صادق تھا میں اپنے عالم میں آنکھ بند کئے کہہ رہی تھی اور یہ دل لگائے سن رہی تھیں دونوں دلوں کا ایک ہی حال تھا اور وہی ایک خیال ایک ہی سا اثر بھی پڑا۔ (اماں جان) استانی صاحبہ جب آپ ایسی اچھی باتیں کیا کیجئیے ہمیں بھی یاد فرما لیا کیجئیے۔ (استانی جی) اے بیوی پہلے سے ارادہ کس کا تھا۔ بات میں بات نکل آئی۔ فرض کر کے کہنے بیٹھتی تو ایسا بھی کرتی۔ میں نے کہا کہ رونے نے بات ہی کاٹ دی۔ افسوس ہے کہ ذکر ناتمام رہا اور ہمارا مطلب نہ نکلا۔ پہلی ہی منزل کا حال تھا کہ اپنے حال پر رونا آیا۔ نہ سننے کی تاب رہی نہ کہنے کی۔ نہیں معلوم اس کے آگے آپ کیا بیان کرتیں جہاں تک سنا اسی کی تاثیر نے دل دکھا دیا۔ دنیا اور اس کے اسباب زمانہ اور اس کے تعلقات سب کی نظروں میں خاک معلوم ہوتے ہیں ۔ ایک تو حق بات سچا حال دوسرے آپ کا زبان مبارک سے اس کو بیان فرمانا ایسا نہ تھا کہ کوئئ کانوں والا خدا کا بندہ سن کر چپ چاپ بیٹھا رہے۔ پتھر ہوتا تو پگھل جاتا یہ تو دو آدمیوں کے دل تھے۔ (اماں جان) ہائے افسوس ہے کہ میں محروم رہی۔ نہ سننے کی حسرت رہ گئی۔ طاہرہ بیگم اب خیال رکھنا ایسا وقت پھر ہو۔ خود نہ آ سکنا تو مجھے بلوا لینا۔ دیکھو خبردار بھولنا نہیں۔ یہ کہہ کر اماں جان نے پان کھولا اور ایک ایک پان بنا کر سب کو دیا۔ بیوی کے لئے میں پان پن کٹی میں کوٹنے لگی کہ اتنے میں اعجوبہ نے مولوی صاحب کے آنے کی خبر دی۔اماں جان نے فرمایا کہ آنے دو ہم تو

ریختہ صفحہ 99
کوٹھے پر ہیں۔ اعجوبہ نے کہا کہ یہیں آئیں گے۔ زینے پاس سب کھڑے ہیں۔ میں نے جلدی سے پردہ کیا اور تینوں صاحب کوٹھے پر تشریف لائے۔ اس کے پہلے باہر شاید آپس میں کچھ باتیں ہو چکی تھیں ۔ تھوڑی دیر بعد مولوی صاحب نے نانا جان سے خطاب کر کے فرمایا موت کا وقت گو معین ہے لیکن ہم کو معلوم نہیں خدا جانے کس وقت آ جائے۔ اعمال تو جیسے ہیں وہ ظاہر ہے۔ ساری عمر روسیاہی میں کٹی ۔ دنیا کے چولھے کی لکٹی بنے رہےکائی نیک کام نہ ہوا۔ شیطان کے تابع رہے اور نفس کے محکوم ۔ جو خبط ہوا وہ کیا جو سمجھ میں آیا وہ ہوا۔ اب الرحیل کی آوازیں آ رہی ہیں جرس بج رہا ہے قافلہ تیار ہے کوچ کی خبر ہے صبح شام چل چلاؤ ہے میرے پاس جو کچھ ہے وہ بھائی صاحب کی جائداد ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی کو اپنا وصی اور وارث کر جاؤں۔ خواہ میرا مال ہو یا بھائی صاحب کا۔ فاطمہ بیگم کے سوا کوئی حقدار نہیں۔ تین بھائی دو بہنوں میں یہی ایک اکیلی ہیں یا بدنام کنندہ نکونامے چند ایک میں ہوں۔ ان کے سوا نہ کوئی میرا وارث ہے نہ مستحق ارث۔ چاہتا ہوں کہ آپ کل تکلیف فرما کر جائیں یا نواب دولہا صاحب زحمت گورا کریں۔ اور کسی وکیل سے پوچھ کر پکا کاغذ کرا دیں۔ وصیت نامہ حبہ نامہ یاا ور جو کچھ مناسب ہو وہ لکھا پڑھا دیجئیے کہ میں بری الذمہ ہو جاؤں۔باوصف اس کےکہ بڑے بھائی صاحب بیت اللہ شریف جاتے وقت وہ جائداد بادشاہی وقت میں میرے نام لکھ گئے تھے اور جس کام کا وہ صلہ تھا اسے بھی چند سال تک میں نے انجام کو پہنچایا تاہم اس کی آمدنی سے ایک حبّہ اور خر مہرہ میں نے نہیں چھوا۔ خرچ اخراجات مالگذاری کے بعد پچیس ہزار روپے

ریختہ صفحہ 100
سال گذشتہ تک جمع ہوئے تھے جس میں سات ہزار روپے اور ملا کر اسی سے ملا ہوا موضع بکتا تھا وہ میں نے مول لے لیا اور پانچ ہزار روپے کو بالک گنج والا باگ بیچ ڈالا۔ اب دونوں موضعوں کی آمدنی قریب ستائیس روپے کے ہے۔ مچھلی پتاور سینٹھا نرکل کھجور آپ کٹھل امرود وغیرہ سات سو روپیہ سال کو بکتا ہے کوئی تردد کرے اور خود جا کر جانچے تو چونتیس سو سے بہت زیادہ نکاسی ہو جائے۔ دریا قریب ہے۔ دونوں موضعوں میں بڑی بڑی جھیلیں ہیں جن میں کی ایک میں نے بنوائی ہے پانی کی اترخ وقت تھی میں نے گرمیوں میں بہت سے مزدور لگا کر دو مہینے تک دو ڈیڑھ کوس تک کی ایک بڑی گہری جھیل کھدوائی۔ ہزار روپیہ خرچ ہوا۔ کنکر پتھر سے تو سب راستے درست ہوئے اور مٹی کسانوں نے لے کر مکان بنوائے۔ کئی برس تک تو اس میں مینہ کا پانی آیا کیا ایک سال بھیا نے آ کر اس کو ملّبب کر دیا۔ ہر سال برسات کے بعد چوطرفہ مکانوں کی مرمت اور تعمیر کے لئے مٹی کی ضرورت ہوےی تھی تو میں نے پٹواری اور وہاں کے ضلعدار سے کہہ دیا تھا کہ جس کو مٹی کی ضرورت ہو اس جھیل سے کھدوا لے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ چار برس میں وہ دور تک پہنچ گئی۔ اب دونوں موضعوں کا رقبہ یا احاطہ جو کچھ سمجھئیے وہی ہے۔ مچھلیوں اور سنگھاڑوں کی آمدنی اسی جھیل سے بڑھی۔ نرکل اور بید سادہ بھی اسی کے دونوں کناروں پر ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا سا ٹکڑا میں نے بھی حال میں آباد کیا ہے۔ پرانا باغ کٹوا کر نئی بستی بسائی ہے جو ابھی بہت کچھ تردد چاہتی ہے۔ وہ بھی انھیں کی ذات سے متعلق ہے۔ الغرض حقدار کو حق پہنچ جائے تو مجھے چین آئے۔ استانی جی نے یہ تقریر سن کر فرمایا کہ یہ آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں مجھ عورت مانی
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں

صفحہ ۔۔۔ 226

کہ انہوں نے ہماری محس و مہمان عزیزوں کی فخر کنبے کی جان استانی صاحبہ پر کیا کیا زیادتی کی۔ اور نہ حجاب آیا نہ لحاظ۔ شکایت کا محل تو ہمارا ہے، تم الٹی پیش بندی کر رہے ہو اور غایت ما فی الباب ایک بات سمجھانے کے طور یا فہمایش کے طریقے سے تمہاری یا میری بہن نے کہی بھی ہو تو کیا قباحت ہوئی۔ بڑوں کا حق یہی ہے تم کیوں ان کا حق مٹاتے ہو۔ میر مقبول احمد صاحب نے کہا کہ یہ بات کیا ہے ہمیں بھی تو سمجھاؤ۔ میر مبارک حسن صاحب نے سارا واقعہ میری نصیحت، لوگوں کی شرکت، کاغذ کی تحریر، ان کی تقریر، زبان لڑانا، باتیں بنانا، چچی اور بہن سے لڑنا، کنبے بھر سے بگڑنا تفصیل کے ساتھ بھائی کو سنایا۔ وہ مسکرا کر بولے کہ بھئی کل تمہارے ہاں کی شادی یادگار شادی ہوئی۔ خدا استانی جی کی زبان میں تاثیر اور بیان میں اس سے زیادہ زور عطا کرے۔ درحقیقت انہوں نے عجب احسان کیا (سطوت دولہا) لیجیے ایک نشد دو شد۔ بس جناب۔ سمجھے۔ میں نے بھر پایا۔ جہاں کے مردوں کا یہ حال ہے۔ سمجھے۔ وہاں کی عورتوں ۔ سمجھے۔ کیا ذکر۔ جتنی حماقت کریں وہ تھوڑی ہے (میر مقبول احمد صاحب) بس بھائی۔ معلوم ہوا کہ تم کو نیک و بد کی تمیز مشکل سے ہو گی اور اچھی طرح تمہارے کان بھرے گئے ہیں۔ جو اس نیک صلاح پر تمہیں رغبت نہ ہوئی۔ عورتوں سے بھی گئے گذرے۔ وہ سمجھ کر شریک ہوئیں، اقرار کیا، ترک کا وعدہ کیا، تم ہنوز ہوا کے گھورے پر سوار ہو۔ کاغذ سنا، اس کی خوبی دیکھی اور پھر وہی انکار۔ تم اس نیک صلاح کو نہ مانو اور ہم تمہارا کہنا سن لیں چاہے وہ سننے کے قابل ہو چاہے نہ ہو۔ اب ہم سے شکوہ گلا محض بےجا ہے۔ ایسی لغویات نہ ہمیں سننے کی ضرورت ہے نہ اس کی معذرت کی احتیاج۔ بس زبان بند کرو اور خواہ مخواہ کی تکلیف نہ دو۔ سطوت دولہا۔ بہت اچھا آج سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 227

ہمارے آپ کے میل ملت، رشتہ قرابت، آنا جانا، حصہ بخرا سب ترک (میر مبارک حسن صاحب) اگر یہی تمہاری خوشی ہے تو ہم مجبور نہیں کر سکتے۔ تمہیں اختیار ہے۔ لیکن بھائی غصے، غیظ، رنج، ملال کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔ سنی سنائی بات پر عمل کیسا۔ تم نے جو وجہ نزاع اور لڑائی کی صورت بیان کی تھی ہم نے اس کا جواب اس لیے دیا کہ تم اپنے دل سے رنج نکال ڈالو یا اس غرض سے کہ تم عزیزداری سی شے کو ترک کر دو۔ ذرا سوچو تو کہ مہمان کا مرتبہ کتنا بڑا ہے۔ اور مہمان بھی کیسا جس کا ایک بھاری احسان سر پر ہو۔ ہم تم غیر تو ہیں نہیں۔ غیر تو استانی جی تھیں۔ ان کی خاطر داری، عزت، خدمت جیسی ہم پر ضروری تھی ویسی تم پر۔ جیسے تمہاری بہن پر ویسے تمہاری بیوی پر۔ پھر کوئی قصور ان کا نہیں، خطا نہیں۔ جس بات کو تم جرم قرار دیتے ہو وہ جرم اس حالت میں ہوتا کہ سوا تمہاری بیوی کے انہوں نے اور کسی سے نہ کہا ہوتا۔ فقط انہیں کے پیچھے پڑ جاتیں اور کسی ناجائز بات کو سمجھاتیں۔ حق امر کہنے کے علاوہ انہوں نے اور کیا کیا سمجھانا۔ اس خوبی کا اس حسن کا کہ سوا تمہاری بیوی کے اور سب نے مان لیا۔ جس میں بڑے بوڑھے بھی دس پانچ تھے۔ تم پہلے میرے کہنے کو جا کر اپنی اماں جان سے تو پوچھو۔ ان کے بھی تو دستخط کاغذ پر ہیں۔ وہ بھی تو موجود تھیں۔ اگر میرا کہنا غلط بتائیں، اسی وقت عزیزداری کی جڑ کاٹنا۔ رشتہ یا قرابت بچوں کا کھیل تو ہے نہیں کہ کھٹ ہو گئی۔ غرض واسطہ نہ رہا بات صرف اتنی ہوئی ہے کہ سطوت دولہن کے انکار پر استانی جی نے دلیلیں پیش کی ہیں وہ عاجز آ کر جواب نہ دے سکیں۔ گھر جا کر تمہارے ذریعے سے بدلا لینا چاہا۔ اس کا اثر فقط ہماری ذات تک محدود نہ رہے گا بلکہ سارے کنبے تک پہونچے گا۔ کیونکہ سبھی تو عہد و قسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 228

سے اقرار کر چکے ہیں۔ تو ہمارے ساتھ تم سارے کنبے کو چھوڑتے ہو۔ بھلا تمہارے چھوڑے چھوڑا جائے گا۔ اور یہ بھی سہی کہ تم اپنی ضد اور بیوی کی خاطر سے ایسا کر بھی گذرو کہ ہمیں چھوڑ دو اور سب سے تو ملو گے۔ پھر یہی قصور تو ان کی طرف بھی عائد ہوتا ہے۔ چھوڑو تو سب کو چھوڑو ۔ پہلے جا کے سب کی بڑی اپنی اماں جان سے اس کا جواب لو کہ آپ بیٹھی رہیں اور بہو کو سب نے مل کر ذلیل کیا۔ اگر وہ عاجز آ کر قابل چھوڑ دینے کے ٹھہریں تو پہل ان سے کرو پھر سلسلے سے ہم تک بھی پہونچنا۔ اس وقت تمہارا کہنا بمجبوری ہم بھی مان لیں گے۔ چاہے ہمارا دل چاہے یا نہ چاہے۔ ملنا جلنا ایک طرف سے تو ہو سکتا نہیں۔ تمہارے ترک سے ہمیں بھی خواہ مخواہ رکنا پڑے گا۔ (سطوت دولہا) آپ کی ساری تقریر سے سمجھے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سراسر خطا میری بیوی کی ہے۔ سمجھے اور سب بےقصور ہیں (میر مبارک حسن) بھائی یہ تو میں نہیں کہتا ان کی کیا خطا اور کسی کی کیا خطا۔ تم خواہ مخواہ استانی جی کو خطاوار ٹھہراتے ہو۔ آخر ان کا کیا جرم ہے۔ ایک بات کا سمجھانا یہ قصور ہے تو ہم بھی قصور وار ہیں کہ اس وقت ہم نے تم کو سمجھایا (سطوت دولہا) معقول آپ کے ان کے سمجھانے میں سمجھے زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ نے میری ذلت کی کون سی بات کہی۔ سمجھے ایک تو طریقے اور قاعدے سے کہنا سمجھے ایک مشیخت اور بدزبانی کے ساتھ۔ میر مبارک حسن۔ بھلا بھائی تمہاری سمجھ میں یہ بات آ سکتی ہے کہ ایک آدمی زبان درازی اور بےعنوانی سے چالیس پچاس آدمیوں کو اپنا بندہ بنا لے اور وہ بن جائیں۔ نہ ایک کو غریت آئے نہ رگ حمیت جوش کھائے۔ تم بچے ہو بھلا۔ کسی تجربہ کار اور سن رسیدہ سے پوچھو کہ شیریں زبانی سے دل ہاتھ میں لیے جاتے ہیں یا درشتی اور تلخ گوئی سے۔ ایک کام کرو میرے اس کہنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 229

کو بھی تم اپنی اماں جان ہی سے پوچھ لینا۔ زیادہ بات کو کیوں طول دو۔ پہلے میرے کہنے کو آزما لو پھر جو مزاج میں آئے وہ کرنا۔ سطوت دولہا نے چاہا کہ پھر کچھ کہوں میر مقبول احمد صاحب نے روک دیا اور کہا کہ اب تو ایک بات فیصلے کی کہہ دی گئی۔ جاؤ اسے آزماؤ اگر وہ قصور وار ٹھہریں تو بے کہے سنے ہمیں بھی چھوڑ دینا۔ یہاں آ کر کہنے اور تکلیف کرنے کی کچھ ضرورت نہیں۔ سطوت دولہا چلے گئے اور الٹے پاؤں پھر پلٹ آئے کہا کہ اماں جان اور میری بیوی سوار ہو کر آتی ہیں۔ آپ بھی ان صاحبوں کو بلوا بھیجیے۔ میر صاحب ہاتھ مل کر رہ گئے اور امیر خانم کو ادھر دونوں صاحبوں کو لینے کو بھیجا۔ دونوں بیچاریاں افسوس کرتی اور سوچتی ڈرتی سوار ہو گئیں۔ میں نے چلتے وقت کہہ دیا تھا کہ ذرا آپ لوگ غصہ سے کام نہ بگاڑیے گا اور اگر ہو سکے تو مجھے اطلاع دیجیے گا کہ میرا دل لگا رہے گا۔ چونکہ امجدی بیگم اور بختاور دولہن کو میری بات کا خیال تھا جب وہ دونوں بیبیاں سوار ہو گئیں تو امجدی بیگم گو وقت نہ رہا تھا جھٹپٹا ہو چلا تھا مگر آئیں اور نماز سے فرصت کر کے بیان کیا کہ خیریت یہ گذری کہ ہم سے بات چیت کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ساس بہو اور ماں بیٹے ہی میں خوب رد و بدل ہوئی۔ بختاور دولہن نے بولنے کا ارادہ کیا لیکن میں نے ہر گز ان کو بات نہ کرنے دی۔ جس وقت وہ بیوی کی طرف سے ماں کو قائل معقول کرنا چاہتے تھے اور آواز بلند کرتے تھے یہ تھیں کہ لال ہو ہو جاتی تھیں۔ ادھر انہوں نے قصد کیا اور میں نے گلا دبایا، منہ پر چھوپا دیا۔ ایک تو برابر وہ بندہ خدا لڑ رہا تھا۔ یہ بولتیں تو ان کی بھی اچھی طرح خبر لیتا۔ بارے لڑتے لڑتے جواب دیتے دیتے وہ بیچاری عاجز ہو گئیں اور تنگ آ کر یہ کہا کہ اچھا بئی جو تمہیں بن پڑے وہ کرو جب تم ہمارے شریک نہ ہو گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 230

تو ہم تمہاری کسی بات میں کیوں شریک ہونے لگے۔ سارے کنبے کے سامنے میں اقرار کر چکی، کاغذ پتر ہوا۔ بڑھاپے میں کہہ کر مکر جاؤں، گھٹے کی جگہ کلنگ کا ٹیکا لگواؤں۔ تمہارا ساتھ دے کر مجھے اپنی بات کھونا منظور نہیں۔ چاہے ملو چاہے نہ ملو۔ سطوت دولہا بگڑ کر اٹھے اور بیوی سے کہا کہ جاؤ اپنی سب چیزیں نکلوا کر رکھو میں مزدور بھیجتا ہوں مجھے آپ کے تعلق کا خیال تھا۔ جب وہ گئیں تو بختاور دولہن نے چاہا کہ اپنی اماں جان کو روکیں۔ میں نے کہا کہ م بارکہ بیگم وہاں اکیلی ہیں۔ نند بھاوج ایک جگہ کئی برس سے رہتی ہیں۔ ان کے جانے پر ایسا نہ ہو کہ وہ کچھ روکیں ٹوکیں اور بھائی بہن میں لڑائی ہو۔ بختاور دولہن چپ ہو رہیں۔ ان کی اماں جان نماز پڑھ کر سوار ہو گئیں۔ جیسے ہی کہا انہیں پہونچا کر آئے ویسے ہی میں سوار ہو آئی۔ میں۔ کیا سمجھانے کی نوبت نہیں آئی یا پہلے ہی سے رنگ بگڑ گیا۔ ان کی اماں نے آپ لوگوں کی طرف گواہی ضروری دی ہو گی۔ امجدی بیگم۔ جی ہاں سبھی کچھ ہوا۔ کوئی جتن اٹھا نہیں رکھا۔ گیارہ بارہ بجے سے اس وقت تک یہی تو میں میں بک بک جھک جھک رہی۔ وہ لڑکا دیوانہ ہے۔ آپ ہی ایک بات کہتا ہے آپ ہی مکر جاتا ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ ہوبہو بیوی کے مزاج کا چربہ ہے۔ نہیں معلوم ان کے منہ میں اس کی زبان ہے یا اس کے منہ میں ان کی۔ تمام زمانہ ایک طرف وہ بندہ خدا ایک جانب۔ بیوی کا بھی بالکل یہی نقشہ ہے۔ نہ بردباری، نہ بات کا سلیقہ، نہ تحمل۔ دونوں کے دونوں چھچھورے اور اوچھے ہیں۔ وہ اپنی امارت پر اتراتے ہیں۔ یہ بیوی کے بل پر گودتے ہیں۔ چار دن ادھر وہ غضب کا بیر، قیامت کی روشنی دوںوں میں تھی کہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا۔ مجال نہ تھی جو یہاں کا آدمی وہاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 231

اور وہاں کا یہاں نکل آئے۔ محبت اور اخلاص ہو تو ایسا کہ اماں جان کو چھوڑنے پر کمر باندھ لی۔ نہ اس میں بھدرک نہ اس م یں چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیرا۔ پاک خدا راس لائے کہیں سسرال میں جا کر گل نہ کھلائیں۔ مزاج کی تو تیز ہیں دماغ دار اتنے کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔ پندرہ روپے مہینہ باپ بھیجتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ پندرہ ہزار ہیں۔ نواب بنے پھرتے ہیں۔ ٹھسا ہے ٹھسا کہ خدا کی پناہ۔ وہاں سب کے سب ایک سرے سے ان کے بھی استاد۔ چار روز بھی ساتھ نہ ہو گا اور عجب نہیں جو بیوی سے بھی پھر کھٹ پٹ ہو جائے۔ میں۔ جو کچھ ہوا برا ہوا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ان کا مزاج نیک صلاح دینے سے ایسا بگڑ جائے گا اور اس قدر بات بڑھے گی۔ ورنہ میری کیا شامت تھی جو ان سے کچھ کہتی سنتی۔ اگر آپ یا بختاور اور دولہن اشارے کنائے سے بھی مجھے روک دیں تو میں سمجھ کر ٹال دوں۔ بعضے وقت کچھ ایسی ہی دقت آ پڑتی ہے کہ بنائے نہیں بنتا۔ خدا انجام بخیر کرے آپ نے یہ کہہ کر میرا دل اور ڈرا دیا کہ سسرال والے بھی سب کے سب مزاجدار ہیں۔ (امجدی بیگم) جی نہیں سب نہیں۔ نواب صاحب اور ان کی بیوی چھٹ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سطوت آرا بیگم کی بہنیں بھائی بھاوجیں خدا رکھے سب کے سب دس بارہ ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر بد دماغ اور کوڑ مغز۔ اٹھاؤ میرا مونڈھا کہ کنبے کا کنبہ بھونڈا۔ ماں باپ کی تو ایک بات کسی میں چھو تک نہیں گئی۔ لڑکے فرعون بے سامان لڑکیاں پڑھے جن بھاوجیں شیطان۔ اگر دونوں صاحبوں کی خوبی مزاج کا سولہواں حصہ ان بچوں میں ہوتا تو تر جاتے۔ خدا معلوم ان میں بدخصلتیں کہاں کی آ گئیں۔ شوخی، شرارت، ضد، بے ہودگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ جو ہے تڑاق پڑاق۔ نہ آنکھ میں سیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 232

نہ منہ میں لگام نہ زبان میں لوچ نہ ادب جانیں نہ تہذیب۔ گنوار کے لٹھ ہیں۔ میں تو ایک دفعہ کامنی بیگم کے مانجھے والے دن اپنے سن بھر میں گئی تھی۔ دن بھر رہی۔ تمام دن کانٹوں پر لوٹتے ہی گذرا۔ بیوی بچے ہیں کہ آفت۔ زمین سے پورے ابھرے نہیں، ٹھینگے برابر قد، ہاتھ بھر کی زبان۔ سارے گھر میں چیخ دھاڑ مچی ہوئی ہے۔ انا نے شکایت کی کہ پیارے میاں دودھ مانگتے تھے۔ میں نے کہا کہ اب دودھ کیسا۔ انہوں نے میرے اس زور سے کاٹا کہ دیکھیے لہو لہان ہو گئی۔ ماما نے بالوں کا بکٹا لا کر دکھایا کہ دیکھیے چھوٹی بیگم نے میرا سر گنجہ کر دیا۔ کبڑنی اور حلوا سوہن والی آتے کے ساتھ ہی آفت میں مبتلا ہو گئیں۔ شکر قند، امرود، گاجریں بھرا ہوا ٹوکرا ایک دم میں خالی۔ کیسی تول کیسا سول۔ ایک پٹری کی چکتی ساری کی ساری کھٹکتا پھرتا ہے۔ پیچھے پیچھے ماما کاوہ کر رہی ہے اور کہتی جاتی ہے کہ دیکھیے ننھے نواب نہیں مانتے۔ دوسرا جوزی کی لوز کھاتا اور پھیکتا پھرتا ہے۔ سب میں بڑے تل کے لڈوؤں سے گولیاں کھیل رہے ہیں۔ ایک لگا لے کر بےتحاشا جو دوڑا، جھابا ٹوٹ کر چھن سے زمین پر آیا۔ ڈیوڑھی کا تو سامنا اور لڑکوں نے برابر ڈاک کے ہرکاروں کی طرح آہر جاہر لگا رکھی ہے۔ کسی نے منع کیا، انہوں نے بالکل پروا گرا دیا۔ ملیحن تو جھکی ہوئی چولھا پھونک رہی ہے ایک لڑکا جو اس کے اوپر گرتا ہے، اوندھے منہ چولھے میں جا رہی۔ راکھ بھر گئی، بھویں پلکیں جل گئیں، منہ بھل بھلا گیا، آنکھیں مل کر جو پلٹتی ہے کوئی نہیں کونوں میں بیٹھے ہوئے قہقہے لگا رہے ہیں۔ مچان پر سے انا پٹارا اتارنے کو چڑھی، تلے اوپر مونڈھے تھے۔ پکڑے رہنے کے بہانے سے مونڈھے کو اپنی طرف جو الٹا کھینچا، وہ کھڑے قد سے پٹارے سمیت زمین پر آ رہی۔ ایک نے دوسرے کے سر چھدا رکھ دیا اور آپ رو بکاری میں نلوہ الگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 233

مرچوں کی لبدی مصالح پیسنے میں ایک لے بھاگا۔ دوسرے نے بٹنا ملا کر سب ماما اصیلوں کے مل دیا۔ سارا دن کمبختوں کو روتے کٹا۔ بہت سے جوتے جو مہمانوں کے رکھے ہوئے دیکھے، ایک ایک کر کے آٹھ دس جوڑے تہ خانے میں جا کر ڈال دیے۔ جو اٹھتا ہے جوتا ندارد۔ کسی کی نماز جاتی ہے، کسی کو پیشاب لگا ہے۔ بولایا اور گھبرایا چار طرف ڈھونڈھتا پھرتا ہے۔ لڑکے ہنسی کے مارے لوٹے جاتے ہیں۔ دستر خوان پر ایک ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا بٹیروں کے آگے دانہ ڈالا۔ پلاؤ کے چار دانے کم زیادہ ہونے پر کئی پلیٹوں کا خون ہوا، پیالے ٹوٹے اور سکھ برن کو الگ دکھ پہونچا۔ پلیٹ جا کر اس کے منہ پر پڑی۔ ایک دوسرے کے آگے کی بوٹی دیکھتا پھرتا ہے۔ دسترخوان لت روندن میں آ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے تمہاری بوٹی بڑی ہے، یہ کہتا ہے باجی کی بےریشے ہے۔ جیسے ہڈیوں پر کتے لڑتے ہیں۔ سیر تو قابل دید تھی مگر میں تین ہی پہر میں اگتا گئی۔ ہونٹوں پر دم آ گیا۔ دن پہاڑ ہو گیا۔ کسی طرح کاتے نہیں کٹتا۔ خدا خدا کر کے چار بجے میں رخصت کو گئی۔ بیگم صاحب نے کہا کہ بیوی ایک رات تو رہ جاؤ، کل چلی جانا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے حکم اور خفگی کے خیال سے چلی آئی۔ آپ جانتی ہیں جو میرے سر کام دھندے ہیں ۔ وہ تو یہ کہہ کے رکیں۔ لرکی نے ڈوپٹہ اتارنے کے قصد سے آنچل کھینچ کر کہا کہ ہم تو نہیں جانے دیں گے۔دوپٹہ تھام کے میں نے کہا کہ ان شاء اللہ پھر آئیں گے اور آ کر رہیں گے بھی۔ اس نے دوپٹہ پر کچھ زور نہ چلتا دیکھ کر جھٹ میرے ہاتھ سے ریشمی رومال چھین، یہ جا وہ جا۔ بیگم صاحب ہاں ہاں کیا کیں لیکن وہ کب سنتی ہے۔ خدا معلوم کدھر غائب ہو گئی۔ ادھر ڈھونڈو ادھر دیکھو۔ میں نے کہا کہ جی کیوں کاہے کے لیے لے گئیں تو لے جانے دیجیے۔ آخر اس رومال میں کیا دولت کونین بندھی تھی کہ بچے سے کھل کے گر پڑے گی۔ صدقے کیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 234

(بیگم صاحب) نہیں یہ کیا بات ہے۔ اس وقت تو نہیں ملے گا۔ میں چھین کر بھجوا دوں گی۔ رومال حلال ہو گیا۔ آج تک تو نہ آیا۔ خدا معلوم اس نے کس کونے کھترے میں غارت غول کیا۔ چینگے پوٹے چھوٹے بڑے لڑکیاں لڑکے سب کے سب آفت کے پرکالے، حشر کے فتنے۔ خدا بچائے ایسے بچوں سے۔ بیگم صاحب بھی کچھ ان کی حرکتوں کی عادی ہو گئی ہیں۔ مجھے تو سودا ہو جاتا ۔ ایک دن میں تو دل بےقابو ہو چلا تھا۔ ہر دفعہ جی چاہتا تھا کہ سب کو پائخانہ میں جا کر بند کر آؤں۔ ادھر نہیں دیکھتی ہوں، بھیانک آوازیں کان کے پردے اوڑائے دیتے ہیں۔ دیکھتی ہوں آنکھوں سے خون ٹپکتا ہے۔ گھر بھر میں ایک تلاطم ہے۔ معلوم ہوتا ہے بھگدر کا دن ہے۔ سانڈ چھٹے ہیں، دیوانے گھس آئے ہیں۔ کچھ وہی انوکھے بچے نہیں آخر اور گھروں میں بھی تو بچے ہیں۔ نہیں معلوم سب کے سب کس قماش کے ہیں اور کس پر پڑے ہیں۔ میں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کثرت کی وجہ سے کچھ توجہ نہیں کرتے۔ نیچ قوموں میں پل کر بڑے ہوئے۔ انہیں کی خو بو پا ئی۔ جتنی باتیں آپ نے کہیں سب سے یہ ظاہر ہے کہ بالکل تعلیم نہیں ہوئی۔ لاڈ پیار نے اور رہی سہی مٹی کراب کی امارت اس پر بھی طرہ کچھ گیہوں گیلے کچھ جانگر ڈھیلے۔ جہاں تک ممکن ہو شریف قوم کی عورتیں ڈھونڈھ کر بچوں پر مقرر کرے۔ انا کے واسطے تو شرافت بالضرور ہے۔ دودھ کی تاثیر مشہور ہے۔ کیا معنے جو بچے میں دودھ کا اثر نہ ہو۔ جب ابتدا سے بری صحبت ہوئی اور نافہموں سے پالا پڑا۔ دودھ پیا کہاری اور چماری کا تب آپ ہی بڑھ کر تو مس قلب پر ملمع ہو جاتا۔ جہالت سے رہی سہی اور بھی قلعی کھل گئی۔ سطوت آرا بیگم کو دیکھیے کہ اس قدر غصہ در بدمزاج جوانی کا عالم شوہر والی ماں کی لاڈلی باپ کی پیاری اس پر بات چیت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 235

کے وقت جو آتے ہوئے غصے کو روک لیتا ہے انہیں دو حرفوں کا زور ہے جو انہوں نے پڑھے ہیں۔ خواہ وہ اچھی جگہ پڑھے گئے خواہ بری جگہ بروں کی صحبت تھی یا بھلوں کی استانی جی کا بھی کیسا ہی مزاج سہی لیکن یہ جو تھوری سی نیکی اور تہذیب ان میں برائے نام ہے اسی پڑھنے کے صدقے سے ہے۔ دور نہ جائیے وجیہ النسا بیگم ہی کی حالت کو جانچیے۔ چار روز ادھر کیا تھیں اور ماشاءاللہ آج کیا ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی وجیہ النسا ہیں (امجدی بیگم) جی ہاں آپ بجا فرماتی ہیں۔ ماشاءاللہ احمدی بیگم مجھ سے زیادہ پڑھ گئیں۔ سبھی باتوں میں زیادہ ہیں۔ یہاں شادی کے مارے پڑھنا لکھنا سب چھوٹ گیا۔ ان کی شادی اچھے خاصے سن تمیز میں ہوئی۔ بارہویں یا تیرہویں میں تھیں۔ میری شادی کی وہ جلدی پڑی کہ دسویں ہی برس میں سب کچھ ہو گیا۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ (میں) دیکھیے کمسنی کی شادی بھی اچھی نہیں۔ دشمنی اسی دوستی کا نام ہے کہ عقل کامل ہونے دی نہ سمجھ درست۔ دس برس کے کیڑے کو پہاڑ کے نیچے دبا دیا چاہے اس میں اتنے بڑے بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو چاہے نہ ہو۔ انہوں نے تو اس پر احسان کا چھپر رکھ دیا۔ بٹھا رکھیں گے تو اتنا کہ بال سفید ہو جاویں۔ دولہن خضاب کرے تو سسرال میں منہ دکھانے کے قابل ہو اور نکالیں گے تو اتنی جلدی کہ بی بنو میاں سے چھلی چھلیا کھیلیں، گڑیوں کا گٹھر جہیز کے ساتھ لے جائیں۔ جو بات ہے انوکھی جو ایجاد ہے گندہ۔ یہ کیا ضرور ہے کہ ہم پرانی لکیر کے فقیر بنے رہیں اور اپنا اونچ نیچ آپ نہ دیکھیں۔ آخر یہ خدا نے عقل کیوں دی ہے۔ پہلے تو شادی بیاہ میں ایسی ایسی رسمیں تھیں کہ سن کر قے آتی ہے ۔ چھوتی سی چھالیا ڈلی دولہن کو مائیوں میں کھلا دیتے تھے۔ اسی کو پ ائخانے سے نکال کر سکھاتے اور کاٹ کر بیٹے میں کھلاتے۔ آخر یہ رسم کیونکر موقوف ہوئی عقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں

صفحہ ۔۔۔ 236

ہی کے ذریعے سے ناشدہ شدہ بو پھوتی ایک دولہا نے سنا چیخا پیٹا۔ استقتا ہوا۔ نجس اور حرام ہونے سے اس کا رواج اٹھ گیا۔ اسی طرح سے بہت سے موقع اور محل شادی بیاہ تصرف کے قابل ہیں۔ خشکہ اور بروزہ اگرچہ گندہ مگر ایجاد بندہ (امجدی بیگم) اے ہے یہ کس کمبخت کا کا ایجاد تھا۔ موا گھناندہ گھیل اگھوری دولہا بچارے کا کیا قصور ۔ وہ نجس پاک کیا جانے۔ جبر و ظلم سے کھا لیتا ہو گا۔ کیوں استانی جی اس کا گناہ بھی اسی کی گردن پر ہو گا (میں) اور کیا (امجدی بیگم) اے ہے میرا تو جی متلانے لگا۔ یہ ان لوگوں کیعقل پر کیا پتھر پڑے تھے۔ جھوٹوں بھی اس سے کام نہیں لیتے تھے۔ ہائیں بھلا اس حماقت کا کہیں ٹھکانا ہے۔ اے ان پر یہ کیا مصیبت پڑ گئی کہ ایک سرے سے دوسرے تک الٹے ہی پیوند لگاتے چلے گئے اور سوجھائی نہ دیا کہ ہم اپنے حق میں کانٹے بوتے اور اپنی راہ میں کنوئیں کھودتے ہیں۔ آخر لڑکا اور لڑکی دونوں ہی تو خدا نے سب کو دیے ہوں گے پھر یہ نہ سمجھے کہ جو آج اور کے بچے سے ہم کریں گے کل ہمارے بچے سے بدلا لیا جائے گا۔ ایک ہاتھ کی لینی ایک ہاتھ کی دینی (میں) بیوی یہ سب مردوں کی غفلت اور عورتوں کی حماقت ہے۔ شادی بیاہ سی مشکل بات اور اس میں مردوں کی پہلو تہی سہل انکاری سے جواب دے دینا کہ بھئی اس بارے میں باجی جان اپنے جانیں ہمیں دخل نہیں۔ خدا تو مشورہ کرنے کا حکم قرآن مجید میں دے اور یہ بیویوں کے غلام ایسے سخت اور مشکل کام میں اپنا بولنا تک نہ جائز رکھیں۔ بھلا اس بےپروائی اور غفلت کی کچھ حد بھی ہے۔ استانی جی بہت بجا فرماتی تھیں کہ آج کل کے مرد عورتیں اور عورتیں مرد ہیں۔ پہلے ڈھیل دے دے کر عورتوں کو تو مطلق العنان کر دیا پھر ان کی خود مختاری کے زور سے دب دب کر آپ بے بس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 237

اور معذور ہو بیٹھے۔ مردوں میں بیٹھ کر حدیثیں چھاٹنے کو ہیں۔ اپنے نبی برحق کے اس کہن پر بالکل دھیان نہیں کہ اگر کوئی نہ ملتا تھا تو میں عورتوں سے مشورہ لیتا تھا جو وہ کہتی تھیں اس کے خلاف کرتا تھا۔ ذرا آنکھ کھول کر دیکھیں کہ اس روایت سے فقط مشورہ ہی کی تاکید نہیں ثابت ہوتی بلکہ عورتوں کی عقل پر دار مدار ہے جو وہ فرمائیں۔ معاذ اللہ حدیث و آیت ہو جاتا ہے ویسی ہی تو خرابیاں پڑتی ہیں۔ سر پر ہاتھ دھر دھر کے روتے ہیں۔ نام استخارے کا پکڑ لیا کوئی پوچھے کہ تمہیں استخارہ دیکھنے کا محل و مقام بھی معلوم ہے یا بدنام ہی کرنا آتا ہے۔ تل پھوٹتے استخارہ، پھول سونگھتے استعارہ۔ جتنے محل پر عقل سے مشورہ لینے کی ضرورت ہے وہاں خدا سے مشورہ لیا جاتا ہے اور بے سمجھے بوجھے الزام رکھنے کو بھی موجود ہیں۔ اس ڈھٹائی کی قائل ہوں اس میں بھی شک نہیں ہے کہ عورتوں نے دخل در معقولات دے دے کر مردوں کو عاجز ضرور کیا اور ان بیچاروں نے اپنی بدنامی خاندان کے پاس حرمت کے لحاظ سے طرح دے کر عورتوں کو حریف غالب بنا لیا۔ کیا اندھیر ہے کہ جو مد مقابل ہونے کی لیاقت نہ رکھے اس کو فوقیت دی جائے۔ (امجدی بیگم) حقیقت میں آج کل بڑے بڑے گھرانوں کی عورتوں کا یہی حال ہے۔ ہزار ہزار خدا کا شکر کہ ہمیں ان عیبوں سے پاک رکھا۔ بختاور دولہن بھی اپنے میاں کی کسی بات میں دخل نہیں دیتیں۔ ماشاءاللہ بڑے آن بان کی ہیں۔ دور از حال ان کے میاں ماندے پڑے اور ایسے ماندے کہ راجہ صاحب نے کام ہرج ہونے کی وجہ سے دوسرا نوکر رکھ لیا۔ دو مہینے تک تو تنخواہ بھیجی۔ اس کے بعد وہ وہ صورت ہوئی آمدنی رکنا تھی کہ خرچ کی بلوں بلوں پڑ گئی۔ پھر اسی نے ماشاءاللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 238

سارے گھر کا ٹبر سنبھالا۔ کل گہنا بیچ ڈالا اور ماں باپ کے عتاب کے خیال سے یہ دانائی کی کہ جو چیز بیچی ویسی ہی چاندی کی ملمع دار بنوائی چھ مہینے تک اب سے دور چھوٹے بھیا بیمار رہے اور سارا کنبہ دیکھنے کو آیا۔ انہیں گہنے پاتے میں لدا پھندا دیکھا۔ جب خدا نے فضل کیا وہ اچھے ہوئے تو انہوں نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ باجی کیا تم نے روپے خرچ کے دیے۔ میں نے کہا کہ بھیا میں نے نہیں دیے۔ کہا اور بہت کہا مگر تمہاری بیوی کیمیا بناتی ہیں۔ انہیں ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ ہنسنے لگے اور کہا مجھے تعجب ہے کہ پھر خرچ کیونکر نہیں چلا۔ کہیں اپنے گھر سے تو نہیں منگوایا۔ میں نے کہا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں۔ آخر میرے سامنے انہوں نے بلا کر پوچھا۔ پہلے تو ہنسا کیں۔ پھر گہنا بیچنے کو کہا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا کیا بیچا کہا کہ اک طوق، جوشن، چھڑے، کڑے، ٹھولنا، پاؤں کے چھلے، نونگے، چوہے دتیاں، کنگن۔ بھائی نے کہا کہ ہائیں کڑے کون سے بیچ ڈالے۔ وہ سمجھے کہ شاید چڑھاوے کے کڑے۔ کہا کہ جہیز والے ۔ انہوں نے کہا اور تم پہنے جو ہو۔ کہا کہ ویسے ہی میں نے چاندی کے بنوا کر ملمع کرا لیا۔ بھیا بولے کہ آخر اس سے کیا مطلب تھا۔ کہا کہ اس سے بڑا مطلب یہ تھا کہ گہنا بکنے کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو اور کوئی میرے عزیزوں سے خبر پا کر طعنہ مہنہ نہ دے۔ بھیا دیر تک تعریف کیا کیے اور کہا کہ درحقیقت خدا نے تمہیں بہت اچھی طبیعت دی ہے اور عقل سے کام کرتی ہو۔ میں تمہارا احسان مند ہوں۔ ان شاءاللہ جیتا ہوں اور اچھا ہو گیا تو سب سے پہلے جتنی چیزیں تم نے بیچی ہیں، خواہ چاندی کی ہوں، خواہ سونے کی، میں سب سونے کی بنوا دوں گا۔ وہی انہوں نے کیا کہ گوالیار کی نوکری کو سال نہ پلٹا تھا، ایک ضرورت سرکار سے وہ آئے۔ ہزار روپے گہنے کے لیے دے گئے۔ اب ماشاءاللہ ان کے پاس ایک تار چاندی کا نہیں۔ سونے

صفحہ ۔۔۔ 239

میں پیلی موتیوں میں سفید ہیں (میں) امجدی بیگم صاحب اس وقت آپ سے بختاور دولہن کی یہ دانائی سن کر مجھے چوگنی محبت ہو گئی۔ کہاں سے پاؤں جو گلے سے لگاؤں۔ واہ واہ واہ کیا دل خوش کیا ہے۔ خدا ان کو ہمیشہ خوش رکھے۔ نیک بیبیاں اور ان کی اچھی باتوں کا کیا کہنا۔ کسی کی اچھی بات کیوں نہ ہو۔ دوست دشمن کے منہ سے تعریف نکل جاتی ہے (امجدی بگیم) جی ہاں (سیدہ بیگم) بختاور دولہن کی میرا منہ نہیں جو تعریف کر سکوں۔ خدا اس کو مانگ کوکھ سے ٹھنڈا رکھے۔ اس کے بچے اس کے سائے میں پروان چڑھیں۔ رجے پُجے اِلسے بلسے عجیب نیک اور ملنسار بیوی ہے۔ استانی جی یہی اک بات نہیں۔ اس نے ایسی ایسی ہزاروں دانائیوں سے ہم سب کو اپنا لونڈی غلام بنا لیا ہے۔ لڑکے بالے، جوان بوڑھے سب اس کے لیے دست بدعا ہیں۔ محلے کی عورتیں بھلا فرض کر کے دیکھنے کو نہ تو آئیں اور دو تین دن گھر میں تہ دلی سے بیٹھ تو لیں۔ استغفراللہ بہت سی راتوں کو بہت سی دن کو اس کی زیارت اور باتوں کی مشتاق ہو کر آ جایا کرتی ہیں۔ قریب اور دور کے عزیز، آس پاس کے غیر اس کی سیرت کے عاشق ہیں (میں) جو کہیے بجا ہے۔ اچھی خصلت نیک سیرت ہے ہی ایسی شے۔ خدا جملہ جہان کی بہو بیٹیوں کو ایسی نیک توفیق دے کہ وہ غیروں میں جا کر عزیوزوں سے زیادہ ہر دل عزیز ہوں۔ راہ چلتے پیروں کے نیچے آنکھیں بچھائیں۔ غیر آنکھوں پر عزیز سر پر بٹھائیں۔ حاتم میں ایک سخاوت کی صفت تھی، دنیا والوں نے اس کی کہانی جوڑ ڈالی۔ مثل میں نام ملایا۔ پھر کیا ان لوگوں سے اور حاتم سے عزیزداری تھی جو کچھ ہوا اس کی سخاوت کی وجہ سے۔ نوشیرواں عادل تھا ہمارے نبی نے فخر کیا کہ الحمدللہ میں بادشاہ عادل کے عہد میں پیدا ہوا۔ وہ کافر مطلق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 240

یہ نبی برحق ، کہاں نور کہاں نار، کہاں گل کہاں خار مگر چونکہ وہ عادل تھا حضرت نے حق کلمہ کہہ دیا۔ اچھے کو سبھی تو اچھا کہیں گے۔ جب ہ میں کوئی صفت ہی نہ ہو گی تو تعریف کاہے کی کی جائے گی۔ خوشامد درآمد کی سند نہیں۔ یہ تو تھوڑی بات کو بہت سا دکھاتی ہے اور مزاج میں ذرا ظہور جو نیکی ہوتی ہے اسے بھی خاک میں ملا دیتی ہے۔ پھر خواہ مخواۃ کے آپ ایسے اور آپ ویسے رہ جاتے ہیں۔ سونا جانے کسے آدمی جانے بسے ساتھ حال پر حال کھلتا ہے کہ ہے ہے یہ تو ایسے ویسے مشہور تھے۔ ڈھاک کے تین پات، ہائیں ان میں تو کچھ بھی نہیں۔ خاک نہ دھول بکائن کے پھول۔ ایسا مشہور کرانا دو کوڑی کا۔ امجدی بیگم صاحب آج کل کسی کی اچھی بات اگر سننے میں آتی ہے تو یہ سمجھ لیجیے کہ پیر نہیں اڑتے مرید اڑواتے ہیں۔ خوشامد کے مارے بے وقت کا راگ گاتے ہیں۔ مجھے بختاور دولہن کی نیک بختی اور سادگی، خوش مزاجی اور بے تکلفی کا حال بخوبی اتنے دنوں میں کھل گیا تھا۔ لیکن اس درجے کا میں ان کو نہیں سمجھتی تھی۔ اس وقت تو آپ نے ان کا یہ ذکر کر کے مجھے بے چین کر دیا۔ دل ڈھونڈھ رہا ہے کہ اس گوشے سے نکل آئیں، اس کونے سے آ جائیں تاکہ میں انہیں جی بھر کے کلیجے سے لگا لوں۔ واہ بیوی بختاور دولہن واہ۔ خدا تمہاری لڑکیوں میں بھی ایسی ہی صفتیں دے جن کی میری طرح چار غیر تعریف کریں اور تمہاری طرح ان کا ساتھ نیک بختوں اور قدر دانوں کا ہو کہ ان کی زندگی عیش و راحت سے گذرے۔ اندھوں کے آگے روئے اپنے دیدے کھوئے کی زحمت و مصیبت سے یہ بچیاں دو چار نہ ہوں اور خدا نہ کرے ہوں تو صبر کے جوہر دکھائیں۔ بےتاب و بےقرار نہ ہوں۔ خدا وندا تو برا قادر و توانا ہے۔ میری سفارش میری دعا سب بے بیاہیوں کے حق میں قبول فرمانا اور ان کو سسرال کے جہنم میں جلنے سے بچانا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 241

امجدی بیگم میرے ہر فقرے پر آمین اور ان شاء اللہ کہتی تھیں۔ کھانے کا وقت آ جانے سے یہ ذکر ختم ہوا اور دستر خوان بچھا۔ امجدی بیگم میرے ہاں کے دستر خوان کے ادب قاعدے دیکھ چکی تھیں۔ دل میں بہت سی باتیں آئیں مگر سر ہلا ہلا کر اور مسکرا مسکرا کر رہ گئیں۔ کھانا کھانے کے بعد جب سب ہاتھ منہ دھو چکے تو ہنستی ہوئی میرے پاس آئیں اور کہا کہ ذرا ہاتھ دیجیے میں آنکھوں سے لگاؤں۔ یہ لڑکے کھانا کھاتے تھے اور میرے دل میں گدگدی ہو رہی تھی۔ اس دن ہول جول میں میں نے دیکھا نہیں آج جو ان کے ساتھ بیٹھ کر کھایا تو جی چاہتا تھا کہ ہر نوالے پر آپ کے گرد پھروں۔ ایک میں حرکت نہ تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ تصویریں ہیں۔ دو زانو ادب سے سر جھکائے نیچی نظریں کیے چھوٹے چھوٹے نوالے اٹھانا اور نرمی و ملائمت سے چبانا۔ کھاتی وہ تھیں مزا میں لے رہی تھی۔ ہائیں یہ وہی بچے ہیں جن کے خشکا کھانے کی چپڑ چپڑ آواز دوسرے دالان تک جاتی تھی۔ آج ایک دستر خوان پر بیٹھنے والے کان لگائے ہیں، آنکھ ملائے ہیں۔ نہ آواز آتی ہے نہ منہ چلتا دکھائی دیتا ہے۔ خدا کی قسم خدا رکھے آپ کے دم کو ہم جب آتے ہیں دو چار سبق تہذیب اور علم مجلس کے آپ سے پڑھ جاتے ہیں۔ سبحان اللہ، ماشاء اللہ جی چاہتا ہے کہ روز پہر دو پہر آپ کی خدمت میں رہ کر آدمیت سیکھیں۔ مگر مجبور ہیں کچھ زور نہیں چلتا۔ بڑے بوڑھے دسترخوان پر بیٹھ کے وہ وہ دنیا بھر کی باتیں بناتے ہیں جن کا سننے سے تعلق ہے۔ یہ تو بچے ہیں مگر آپ کی صحبت کے اثر نے ان کو کیا ماشاء اللہ نستعلیق کر دیا اور پھر مزا یہ کہ میں نے کسی وقت آپ کو ان کے ساتھ سرپھراتے نہیں دیکھا۔ دو دو تین تین پہر بیٹھی۔ نہیں معلوم آپ کن اشارے کنایوں میں سبق دیتی ہیں اور یہ بچے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 242

کیونکر سمجھ لیتے ہیں۔ ہم نے ایسا انداز تعلیم و تربیت کا دنیا میں نہ دیکھا نہ سنا۔ ہم کو اور احمدی بیگم کو بھی آتو نے پڑھایا یا محذرہ بیگم اور مبارکہ بیگم بھی استانی سے پڑھیں لیکن یہ بات کہاں۔ میں نے کہا کہ آپ سچ کہتی ہیں۔ خدا بخشے استانی جی کو یہ سب انہیں کا صدقہ ہے۔ پہر رات گئے امجدی بیگم سوار ہوئیں ان کے جانے کے بعد اماں جان نے کہا کہ امجدی بیگم نہایت ہوشیار اور ملنسار ہیں۔ ان کی ہر اک بات سے احسان مندی اور وفا شعار کی بو آتی ہے۔ ناقدری اور احسان فراموش نہیں۔ تم سے بہت بری ہیں مگر کس قدر لحاظ و پاس کرتی ہیں۔ ادب دانی بھی عجب جوہر ہے۔ سچ کہا ہے کہ با ادب با نصیب۔ جبھی تو ماشاءاللہ نصیبے کی تیز اور سب طرح سے خوش ہیں۔ میں بھی ہاں میں ہاں ملا کر وہاں سے اتھی اور لڑکیوں کے کمرے میں جا کر کاموں کا جائزہ لیا۔ کئی دن سے روز مرہ کا خرچ اور کیفیت نہیں لکھی تھی۔ وہ لکھی۔ ایک کتاب پر اچھی اچھی باتیں لکھا کرتی تھی اور اچھی کتاب اس کا نام بھی تھا۔ ان سب باتوں سے فرصت کر کے دفتر برخاست ہوا۔ جا کر سو رہی۔ صبح کو سویرے نانا جان تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک کتاب قلمی جس میں طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں اور عجیب و غریب نسخے غیر مشہور دعائیں، شعبدے، نکتے، گُر نقلیں، شعر، لطیفے، حکایتیں لکھی ہوئی ہیں، بکنے کو آئی ہے۔ اگر تم بھی پسند کرو تو لے لیں۔ میں نے اس کتاب کو نانا باوا سے لے کر دیر تک الٹ پلٹ کر دیکھا۔ بکار آمد معلوم ہوئی۔ جا کر عرض کیا کہ بظاہر بہت اچھی چیز معلوم ہوتی ہے۔ فرمایا کہ رہنے دو میں نے تسلیم کی اور کتاب کو ایک جزدان میں رکھا۔ شام کو ابا جان نے کہا کہ طاہرہ بیگم آج ابا جان نے ایک کتاب لی ہے۔ حکیم بڑے صاحب کہتے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 243

کہ اس کی قیمت پچاس روپے دئے۔ تم نے بھی دیکھی۔ میں جی ہاں کہہ کر وہ کتاب اٹھا لائی۔ ابا جان نے رات کی وجہ سے پڑھا تو نہیں مگر دونوں خطوں کی پختگی اور عمدگی کی دیر تک تعریف کیا کئے۔ حقیقت میں کسی بہت نستعلیق خوش نویس نے لکھا تھا اور دونوں خط نہایت روشن تھے۔ سیاہی اور سرخی سفید افشانی کاغذ پر آنکھوں میں کھپی جاتی تھی۔ اماں جان کا سر بے چین تھا۔ انہوں نے نماز کے بعد آرام کیا۔ ابا جان باہر چلے گئے۔ میں مکتب خانے میں آ کر اس کتاب کو لے بیٹھی۔ دیکھتے دیکھتے ایک مقام پر امن یحبیب المضطر کے عمل پڑھنے کی یہ ترکیب لکھی تھی کہ نوچندی جمعرات کو قبل از غروب غسل کرے اور پاکیزہ لباس پہن کے فضیلت کے وقت نماز مغربین پڑھے۔ ختم نماز پر قبلہ رخ ایک تسبیح صلوات پڑھ کر یہ آیہ شریفہ پڑھنا شروع کرے۔ نماز صبح تک جس قدر ہو تسبیح درود پر تمام کر کے روزے کی نیت کرے اور نماز صبح بجا لائے۔ جس مطلب اور مراد کی خدا سے دعا کرے گا ضرور قبول ہو گی۔ دوسرے دن پنچشنبہ تھا۔ رات کو تو کچھ ذکر نہ کیا صبح سویرے دن کو نہا دھو کر نین سکھ کا کرتہ اور تہمد بنا کر اس پر چادر اوڑھ لی اور عمل کو ختم کیا دعا مانگ کے سو رہی۔ بارہ بجے کے بعد آنکھ کھلی۔ نماز پڑھی اور رو رو کر خدا سے پھر اپنے مطلب کی دعا مانگی۔ الحمد للہ کہ میرے خدائے برحق نے میری دعا اس عمل کی برکت اور اپنے کلام پاک کے صدے میں سن لی دو تین مہینے نہ گذرے تھے کہ آثار قبولیت اماں جان کے حمل سے معلوم ہوئے۔ مجھے اس ترکیب اور عمل پر انتہا کا اعتماد و اعتقاد تھا۔ جب روزہ کھول کر کھانے بیٹھی تو ابا جان نے نہایت اصرار سے فرمایا کہ طاہرہ بیگم کس کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 244

کے لئے تم نے عمل پڑھا تھا۔ میں نے کہہ دیا۔ فرمایا کہ ہاں خدا تمہاری ہی سعی میں برکت اور زبان میں اثر دے۔ میں نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالےٰ تھوڑے ہی دن بعد آپ پر کھل جائے گا۔ وہ چپ ہو رہے۔ جب میری بات کی تصدیق ہوئی تو شب کو میں نے پھر کہا کہ ابا جان دیکھیے خداوند عالم نے فضل کیا۔ میرے اعتقاد کا اثر ظاہر ہوا۔ وہ ہنس کر چپ ہو رہے۔ ان مہینوں میں دو چار مرتبہ اندر امیر خانم باہر آدمی امجدی بیگم کے یہاں سے خبر کو آئے گئے لیکن ان کو آنے کی فرصت نہ ہوئی۔ کچھ گود کا بچہ دانتوں پر تھا۔ اس کی الٹ پلٹ میں رہیں۔ پندرہ بیس دن سسرال میں گذرے۔ گھر پر آئیں تو زکام اور بخار میں آٹھ دس روز مبتلا رہیں۔ پھر نہائیں نہ تھیں۔ کپڑے میلے تھے۔ خدا خدا کر کے پورے تین مہینے بعد ایک ضرورت سے بی امجدی بیگم صاحب آئیں اور کہا کہ چچی سلطان بیگم صاحب تشریف لائی ہیں۔ مجھے بھیجا ہے کہ اجازت لے کر مجھے بلواؤ۔ اگر مصلحت ہو تو میرا پیام بھی دینا۔ میں نے کہا شوق سے تشریف لائیں۔ آپ کو کچھ خیال ہے تو اماں جان سے اجازت لیے لیتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں وہاں گئی اور اماں جان سے کہا۔ انہوں نے کہا کیا مضائقہ ، بلوا لو۔ میں تمہارے ابا جان سے کہہ دوں گی کہ میری اجازت سے بلایا ہے۔ میں ان کا حکم لے کر پلٹی اور کہا کہ بلوا لیجیے۔ باہر آدمی موجود تھا۔ کہلوا بھیجا۔ سلطان بیگم صاحب آئیں پہلے تو ادھر ادھر کی باتیں رہیں۔ پھر کہا کہ استانی جی میرا پیام آپ کو پہونچا۔ میں نے کہا نہیں تو کس سے کہلوا بھیجا تھا۔ کہا امجدی بیگم سے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ کو بلوانا منظور نہ ہوتا تو میں ان سے پوچھتی۔ انہوں نے تو کہہ دیا تھا لیکن مجھے آپ کی زبان سے سننا منظور تھا کیونکہ اپنا مطلب اپنے ہی سے خوب ادا ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 245

اب فرمائیے کہ دودھ بڑھائی میں جو آپ نے نسبت کا وعدہ کیا تھا اسے وفا کیجیے۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے عندیے سے مجھے آگاہ کیجیے۔ کس طرح منظور ہے۔ کس کے ساتھ ارادہ ہے۔ کب کا قصد ہے۔ جلدی ہے یا دوسرے کی مرضی سے بھی غرض ہے۔ کہا کہ وجیہ النسا بیگم کے ساتھ۔ میں نے کہا کہ خدا نے چاہا تو ہو جائے گی۔ آپ ایک اسم نویسی بھجوا دیجیے گا۔ لیکن یہ خوب سمجھ لیجیے لڑکے اور لڑکی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ صالحہ بیگم بچاری وعدہ کر چکی ہیں مگر ان کے میاں کو انہیں بچوں کی تقدیر سے خدا نے کارخانہ دار کیا ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہی وہ اپنا نام چاہیں گی۔ اس کی درستی اور سامان میں اگر دیر ہو یا مہلت مانگیں تو آپ کو قبول کرنا پڑے گی اور باتوں کی نسبت تو کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے اپنا زبانی وعدہ یاد ہے آپ نے تو لکھ بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بہت اچھی طرح سے حفظ ہے آپ خاطر جمع رکھیے۔ میں نے کہا تو آپ بھی مطمئن رہیے۔ میرا وعدہ خداوند عالم وفا کر دے گا ۔ دوپہر تک ٹھہر کر جب دونوں صاحب چلنے لگے تو میں نے اچھے دن بتا کر رقعہ کی تاکید کی اور امجدی بیگم صاحب سے کہا کہ جب رقعہ آئے تو آپ اس کے ساتھ ہی صالحہ بیگم کو بھی میرے پاس بھیج دیجیے گا۔ لے خدا حافظ۔ وہ ۔ قبول کیا کہہ کر سوار ہوئیں۔ جمعہ کو صالحہ بیگم آئیں اور یہ کہہ کر رقعہ دیا کہ امجدی بیگم نے تسلیم کہی ہے اور یہ کاغذ آپ کو دیا ہے۔ میں نے ان کا مزاج اور ٰخیریت پوچھ کر کہا کہ آپ نے تو آنا ہی چھوڑا۔ ہم تو ہم اپنی لڑکی کا بھی کچھ خیال نہیں۔ ہم نے تو یہ سمجھ کے اس کا گھر جانا روکا کہ آپ اس کی للک میں خود آئیں گی۔ اس بہانے آپ سے ملنا ہو گا۔ آپ نے ہماری سمجھ کے بالک برعکس بہادری دکھائی۔ یہ غفلت آپ کی اچھی نہیں۔ ماشاءاللہ اب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں

صفحہ ۔۔۔ 246

وہ سن تمیز کو پہونچیں کہیں شادی بھی ٹھہرائی یا بٹھا رکھنے کا ارادہ ہے (صالحہ بیگم) استانی جی بھلا میں کہاں اور نسبت ناتا کہاں۔ یا آپ جانیں یا ان کے باپ ۔ میں نے کہا ہماری نہ کہیے۔ ہمارے اوپر منحصر ہے تو اے لیجیے۔ یہ ٹھہر گئی اور یہ کہہ کر میں نے وہ رقعہ ان کے آگے رکھ دیا اور کہا کہ میر صاحب کو دیجیے کہ وہ لڑکے کا چال چلن وضع طرح پوچھ گچھ کے اقرار انکار سے مجھے مطلع کریں اور اپنے ارادے اور مستعدی کی بھی خبر دیں۔ کاغذ دیکھ کر ان کی باچھیں کھل گئیں اور کہا کہ وہ بھی آپ کو ہر نماز کے بعد دعا دیا کرتے ہیں۔ کئی روز ادھر کا ذکر ہے کہ مجھ سے اس کی نسبت کے بارے میں کہتے بھی تھے۔ اس رقعہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے اور آپ کی معرفت کا حال سن کر میں جانتی ہوں کہ وہ دریافت بھی نہ کریں۔ میں نے کہا خوب ہوا کہ آپ نے یہ کلمہ کہہ دیا۔ کہیں ایسا غضب بھی نہ کریں۔ میں نے لڑکے کی ماں، خالہ ، بہنوں کو دیکھا ہے ۔ نہ اس کو، وہ مرد ہیں باہر کے آنے جانے والے چار محلے والوں یا اپنے شناساؤں سے اوپری اوپر دریافت کر لیں۔ دمڑی کی ہانڈی تو ٹھونک بجا کر لی جاتی ہے۔ نہ دریافت کرنا کیا معنی۔ ذات رات کو پوچھنا نہیں، چال چلن تو خواہ مخواہ معلوم کر لینا چاہیے اور ایک دو جگہ نہیں پانچ چار جگہ اور بڑی چھان بنان سے پوچھیں۔ ہندی کی چندی کر کے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے کہ پیچھے کو خدا نہ کرے افسوس ہو۔ صالحہ بیگم یہ سن کر خاموش ہوئیں۔ وہ رقعہ لے کر اپنے گھر گئیں اور کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھ رہیں۔ جب میں نے امجدی بیگم صاحب سے کہلوا بھیجا اور انہوں نے تقاضا کیا۔ جب انہیں یاد آیا۔ میر صاحب کو وہ کاغذ دیا۔ انہوں نے ایک ہی دو روز میں لا کر بیوی کو پھیر دیا اور کہا کہ لڑکے کی سب تعریف کرتے ہیں۔ تم استانی جی کے ہاں جاؤ۔ میری تسلیم کہو اور منظوری ظاہر کرو۔ وہ آئیں

صفحہ ۔۔۔ 247

اور پیام دیا ان کے نزدیک نسبت ٹھہر گئی۔ میں نے ابا جان سے شب کو کہا کہ میں امجدی بیگم سے کہلوائے بھیجتی ہوں جب لڑکا بر دکھوے کو آئے تو اس کے مزاج کی کیفیت، سعادت مندی اور غیرت پنھاوے، بشرے اور قیافے سے دریافت کر کے مجھے مطلع کیجیے تاکہ وجیہ النسا کی شادی ٹھہرائی جائے۔ دوسرے دن صاحبزادے اپنے دو چار عزیزوں اور باپ کے ساتھ آئے۔ نانا باوا کے باغ میں بڑی دیر تک نشست رہی۔ ابا جان نے اچھی طرح سے اپنا اطمینان کر لیا۔ جب مجھے کہلوا بھیجا تو میر نقش علی صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا کاغذ میں نے بھیج دیا جس میں لڑکی کے ننھیال اور ددھیال کی سات پیڑھی تک کے نام لکھے تھے۔ وہ کاغذ سید وجاہت حسین صاحب کے باپ میر بشارت حسین صاحب کو دیا تاکہ وہ بھی ذات رات کو دیکھ بھال لیں۔ اس کے تھورے ہی روز بعد انہوں نے بھی کہلوا بھیجا کہ میر نقش علی صاحب اور ان کی بیوی سادات بارہہ سے ہیں۔ ہم کو بدل منظور ہے۔ کوئی فی ان کی ذات میں نہیں۔ جب طرفین قبول کر چکے تو میر بشارت حسین صاحب نے آ کر اباجان سے ایک دن کہا کہ اب کوئی ایسی رسم ہو جائے کہ دونوں جانب عذر باقی نہ رہے اور بات پکی ہو جائے۔ اباجان نے کہا ایک عہد نامہ آپ انہیں لکھ دیں ایک میں ان سے لکھوا کر آپ کو بھیج دوں گا۔ چلیے فراغت ہوئی۔ ہزار رسم کی ایک رسم یہ ہے جو کچھ ہے انسان کی زبان ہے۔ کیا رسم سے پابندی بہ نسبت زبان کے زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے امید نہیں کہ رسم کا ڈھکوسلا میر نقش علی صاحب کی بیوی منظور کریں اور آپ نے شاید اپنے گھر میں بھی ذکر نہیں کیا ورنہ وہ بھی آپ کو رائے نہ دیتیں کیونکہ یہ سب لوگ میر مبارک حسن صاحب کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 248

ہاں دودھ بڑھائی میں عہد کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی لاعلمی ظاہر کر کے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہوئی۔ سبحان اللہ۔ اس سے کیا بہتر میں آپ سے اقرار کرتا ہوں کہ جس طرح وہ فرمائیں گے اور جس وقت کہیں گے مجھے بلاعذر قبول ہو گا۔ اباجان باہر ہی سے باہر ان کو رخصت کر کے ٹہلتے ہوئے میر نقش علی صاحب پاس چلے گئے اور ان سے بھی اقرار مدار کر کے مجھے ان باتوں کی اطلاع دی۔ اطمینان ہو گیا شادی ٹھہر چکی ہے۔ اتوار کا دن ہے ہم سب کھانا کھا کر بیٹھے ہیں۔ سبق شروع ہوا ہے کہ راحت نے ایک میانہ آنے کی خبر دی۔ میں نے کہا کون ہے۔ کہا کھاردے کے پردے کا ایک چوپہلا پھاٹک پر رکھا ہے۔ کوئی بیوی وجیہن کی عزیز دار آئی ہیں۔ اجازت دی۔ وہ جا کر انہیں لائی۔ سب لڑکیوں نے میرے ساتھ تو سلام کیا لیکن وجیہ النسا نے انہیں دیکھ کر سلام کے بعد کچھ منہ پھلا لیا۔ جب وہ مل جل کر بیٹھیں تو میں نے وجیہن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ ہماری وجیہن کی رشتے میں کون ہیں؟ انہوں نے ہنس کر کہا کہ صاحب میراں یہ تو پھر پوچھیے گا، یہ فرمائیے کہ تم کون ہو اور کدھر آئیں۔ میں نے کہا اچھا یہی سہی۔ بولیں کہ صاحب میراں میں لڑکیاں پڑھانے پر اسکول میں نوکر ہوں۔ وجیہن نسا کا امتحان لینے آئی ہوں۔ میں نے کہا جو انہوں نے پڑھا ہے وہ سب یاد ہے۔ اٹکے بھٹکیں گی نہیں۔ شوق سے پوچھیے۔ ہاں اسکول کے قاعدے اور طریقے البتہ نہیں جانتیں۔ کہا نہیں بیوی موے اسکول صاحب میراں سے کیا مطلب۔ میں عقل کا امتحان لوں گی۔ وہی پوچھوں گی صاحب میراں جو انہیں معلوم ہو گا۔ یہ کہہ کر وجیہن کی طرف مڑیں اور کہا بیوی جان صاحب میراں ذری میرے قریب آؤ۔ وجیہ النسا تو پہلے ہی سے اکھڑی اکھڑی تھیں۔ ان باتوں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 249

تو اور زیادہ گوں متھوں ہو گئیں۔ مجھے ان کے نہ ٹسکنے اور چپ ہو جانے سے ان کا آنا اور بلانا ناگوار معلوم ہوا۔ بات بنانے کے لیے کہا آپ نے ان کی تعریف کس سے سنی۔ کہا ان کے باپ سے صاحب میراں کیا ان کی امی جنیا نے میرا نام آپ سے کبھی نہیں لیا۔ میں نے کہا۔ نہیں۔ کہا میں ان کی نند انگیا کی بند بھی ہوں اور صاحب میراں ایک طرح سے بھنیا (بہن) بھی لگتی ہوں۔ میرا نام مبارک آؤ تو جاؤ کہاں جگ کی اماں، جہان کی خالہ، بیچ کی دلالہ، اچھی خاصی ایسی ویسی بڑ کی جان صاحب میراں ادیب النسا بیگم ہے۔ لڑکیوں کو صاحب میراں ہی کی شدت پر مسکراہٹ ستا رہی تھی۔ اس فقرے نے تو دل میں وہ گدگدی کی کہ ضبط نہ ہو سکا۔ کھل کھلا کر ہنس پڑیں۔ لیکن ادھر تو ہنسی کے چپھانے کو بچوں نے منہ پھیرا، ادھر انہوں نے ٹالنے کی غرض سے گردن جھکا لی۔ جب سب سے پھر آنکھ چار ہوئی تو وجیہن کے چہرے پر میں نے کچھ بحالی کچھ ہنسی دیکھی۔ ان سے کہا پھر تو آپ کا بڑا حق ہے۔ جس طرح چاہے امتحان لیجیے۔ وجیہ النسا بیگم پاس جاؤ۔ وہ بے عذر ان کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔ کہا سلائیوں کے نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ لپکی، تیپنچی، پسوج، بخیہ، شلنگا اور مانئی، مئی، ڈوری، زنجیر، اترپنا، لڑھیانا، ٹکیانا، دہرانا۔ کہا بیوی یہ تیری میری کون سی سی سلائی ہے، کیسی ہوتی ہے۔ اس نے قلم دوات اٹھا کر کہا کہ الٹے سیدھے ڈھیروں الف لام میم ہوتے ہیں۔ پھر تختی پر یہ صورت ۔۔۔۔۔ بنا کر دکھائی کہا پیٹ والی کو کس کس چیز سے براؤ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ ابھی یہ وہاں تک نہیں پڑھی ہیں۔ مجھے اجازت ہو تو کچھ عرض کروں۔ کہا نہیں بیوی میں تم سے نہیں پوچھتی۔ تم بتاؤ کہ راز کب تک کہا جا سکتا ہے۔ وجیہن نے کہا کہ جب تک اپنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 250

دل میں ہے۔ کہا ایماندار کی کیا شناخت ہے۔ جواب دیا کہ وہ صاحب غیرت اور باحیا ہو گا۔ پوچھا عورت کا مرتبہ زیادہ ہے یا مرد کا انہوں نے کہا مرد کا۔ کہا کوئی دلیل۔ وجیہن نے کہا بڑی دلیل یہ ہے کہ مرد کامل العبادت ہے، دوسرے عقل میں زیادہ ہے۔ جو عقل میں سوا ہو گا رتبے میں بھی بڑا ہو گا۔ کہا عورت کے نام میں چار حرف ہیں مرد کے نام میں تین ہیں۔ کیا حروف بڑھنے سے بھی انس کا مرتبہ نہیں بڑھا۔ وجیہن نے کہا اگر ناموں کے حرف ہی بڑھنے پر مرتبے کا بڑھنا موقوف ہے تو باز سے کبوتر اور ہما سے ابابیل، بیوی سے لونڈی، مالک سے خدمتگار سوا ہیں۔ اگر وہاں عورت کو فضیلت دیجیے گا تو یہاں بھی دینا پڑے گی۔ کہا مرد میں جو تین حرف ہیں ہر اک سے کیا مراد ہے۔ جواب دیا کہ مردانگی اور مروت کی میر، راست اور ریاست کی رے، دینداری اور دولت کا دال۔ کہا عورت میں جو چار رحرف ہیں ان سے کیا مقصود ہے۔ بولیں کہ عین سے ایک نہ ایک علت، واؤ سے وہم، رے سے راحت پسندی، تے سے تکبر۔ پوچھا عورت کسی حال میں مرد کو نصیحت کر سکتی ہے۔ کہاں ہاں اگر مرد اس کے سامنے گناہ کرنے پر بالکل آمادہ ہوا ہو تو، ورنہ کوئی حق نہیں ہے۔ کہا عورت پر کس کس کی اطاعت فرض ہے اور مرد پر کس کس کی۔ کہا عورت پر والدین اور شوہر کی، مرد پر فقط والدین کی۔ کہا اگر ایک بات پر ماں باپ بجد ہوں اور شوہر منع کرتے تو عورت کو کس کا کہا کرنا چاہیے۔ کہا کہ شوہر کا۔ بولیں کہ شوہر کی اطاعت کا تو قرآن مجید میں کہیں حکم نہیں، ہاں ماں باپ کے بارے میں لاتقل لہما اف البتہ آیا ہے۔ جواب میں کہا کہ نہ تو مجھے سارا قرآن شریف یاد ہے نہ میں حافظ ہوں لیکن ایک جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 251

عورتوں پر مردوں کے غالب ہونے کا ذکر ضرور ہے۔ اور شاید وہ آیت ہے کہ ۔ الرجال قوامون علی النساء۔ پس جب مردوں کا غلبہ حکم خدا سے ثابت ہو گیا تو انہیں میں شوہر بھی ہیں۔ ان کا بھی غلبہ نکلا۔ جو مغلوب ہے وہ مطیع ہے اور جو غالب ہے وہ ھاکم ہے۔ کہا شوہر کی اطاعت کب تک عورت پر فرض ہے۔ کہا جب تک دگھدھگی پر دم ہو۔ کہا کہ خدا کی اطاعت اور شوہر کی اطاعت میں پھر کیا فرق رہا۔ نماز کے بارے میں بھی مرتے مرتے پڑھے جانے کا حکم ہے۔ ایسی قید تم شوہر کی اطاعت میں لگاتی ہو۔ کہا طاعت و اطاعت کا خود ہی فرق کیا کم ہے۔ اس کے علاوہ وہاں سجدہ ہے۔ سب پر طرہ حضور قلب اطاعت کے واسطے اگر ظاہر باطن یکساں ہو تو فبہا ورنہ ظاہر داری ہی سہی۔ جو عبد و معبود میں فرق ہے، وہی طاعت اطاعت میں بھی ہے۔ کہاں میاں سے بیوی کہاں تک لے سکتی ہے اور کس قدر حق ہے۔ کہا جہاں تک وہ اپنی خوشی سے بے مانگے دے۔ جو مل جائے وہ اپنا حق سمجھے۔ کہا عورت کا سلیقہ مکان صاف ستھرا رکھنے سے ظاہر ہو گا یا اپنے بنے سنورے رہنے سے۔ کہا دل پاک صاف رکھنےسے۔ کہا دل کی بات شوہر پر کیونکر ظاہر ہو گی۔ کہا دل کے کارندوں کے ذریعے۔ کہا کون کارندے۔ کہا ہاتھ، پاؤں، آنکھ، زبان، رات دن ہاتھ پاؤں پیلے دم نہ لے، زبان پر بہت اچھا ہو، آنکھوں کے اشارے پر چلے۔ کہا یہ تو اطاعت و خدمت ہے نہ سلیقہ۔ سلیقہ وہی سلیقہ ہے جس سے شوہر خوش ہو۔ اگر کسی سگھڑ عورت سے اس کا شوہر ناراض رہتا ہو تو اس کا سگھڑاپا بےکار ہے اور صفائی بےسود۔ اگر گھر پلا پتا بیوی صاف شفاف ہیں، دل میں خاک اڑ رہی ہے۔ خاطر پرسیل ہے تو زندگی حرام۔ پھوہڑ، غیرت دار اور خدمت گزار، سلیقہ شعار ناک چوٹی گرفتار بیوی سے ہزار درجے بہتر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 252

اجلے شفاف بچھونے کی پلنگڑی پر بیٹھ کر بدمزاجی کے حملے سہنے سے کھری کھاٹ اچھی جس پر آؤ بھگت ہو۔ کہا اگر مرد چار نکاح کر لے تو کیا کرنا چاہیے۔ کہا مرنا اور بھرنا چاہیے۔ خدا کا شکر کرے جس نے یہ دن دکھایا جو اس کا میاں حکم رسول بجا لایا۔ کہا اگر میاں بدمزاج ہے۔ کہا میٹھی زبان کا شربت اس کا علاج ہے۔ کہا اگر شوہر روٹی کپڑا دینے میں کمی کرے۔ کہا بھوکے اور ننگے کی اسے تصویر دکھائے تاکہ وہ رحم کھائے۔ کہا اگر اس کے دل میں محبت نہ ہو۔ کہا اپنی محبت اس کے دل میں ڈالے۔ کہا اگر وہ بےغیرت ہو۔ کہا اپنی غیرت سے دوہرا کام نکالے۔ کہا بدزبانی کا علاج۔ کہا سکوت و خاموشی۔ کہا ناقدرے پن کا تدارک۔ کہا اپنی بھلائیوں کی فراموشی۔ کہا اگر سو بروں سے برا ہو۔ کہا ہزار اچھوں سے اچھا سمجھے۔ کہا اگر بنائے سے بھی نہ بنے۔ کہا مقدر کا لکھا سمجھے۔ کہا اگر کھوٹا ہے۔ کہا اپنی اطاعت کی تیز آگ میں تپا لے۔ کہا اگر حد سے زیادہ بدراہ ہے۔ کہا نیک توفیق کی دعا دے۔ کہا اگر جھلا ہے۔ کہا ڈرنا چاہیے ۔ کہا اگر ٹرا ہے۔ کہا ادب حاصل کرنا چہیے۔ کہا اگر ظاہر بظاہر دشمنی کرے۔ کہا حاضر و ؑائب دوستی کا دم بھرے۔ کہا اگر آنکھ نہ ملائے۔ کہا کہ یہ آنکھیں بچھائے۔ کہا اگر ہت چھٹ ہو ہاتھ چلا بیٹھے۔ کہا پاس سے دور جا بیٹھے۔ کہا اگر رعب ٹھانے کے لیے بے خطا کچھ بھی کہے۔ کہا گنہگار کی طرح دم بخود ہو رہے۔ کہا اگر مر مٹنے پر بھی نہ دھیان کرے۔ کہا اور زیادہ اپنی جان ہلکان کرے۔ کہا یہ روز کی اچاپت کب تک کرے۔ کہا جس وقت تک مرے۔ ادیب النسا نے یہ سن کر سکوت کیا اور کہا کہ بس میری جان صاحب میراں، میں تم پر قربان۔ امتحان ہو چکا۔ تمہیں النا بلنا، پھولنا، پھلنا راج رجنا نصیب۔ جیسا مجھے خوش کیا تم بھی سدا خوش رہو۔ میں نے کہا اتنی دیر سے آپ کے صاحب میراں کہاں تھے۔ کہا بیوی کام کے وقت میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 253

ان کو رخصت کر دیتی ہوں۔ اس بات سے معلوم ہوا کہ انہوں نے صاحب میراں کو جان بوجھ کر تکلیف دی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ بوکھل اور سڑبلی سمجھ کر لڑکی جواب دے نکلے۔ رعب میں نہ آ جائے۔ پہلے پہل کی ملاقات پھر امتحان کا نام۔ انہوں نے اس مشکل کو اپنی دانائی سے اس طرح سہل کیا۔ تھور دیر اور بیٹھ کر جب وہ رخصت ہوئیں میں نے وجیہن کو گلے سے لگا کر کہا کہ یہ تمہاری خالہ پھوپھی تھیں۔ انہوں نے کہا دو چھوڑ ایک رشتہ بھی نہیں میں جانتی تھی کہ یہ کون ہیں۔ میں نے کہا بیٹھو تمہارے سامنے انہوں نے کہا۔ اس وقت منہ سے نہ بولیں کہا جی میں اب منہ ورمنہ کیا ان کی بات کود لکھتی۔ میں نے پوچھا تمہیں ملال کس بات کا تھا۔ کہا جی ملال تو نہیں شرم تھی۔ میں نے کیا کیوں؟ کہا خود بخود ۔ میں نے ایک رقعہ میں یہ سب کیفیت لکھ کر امجدی بیگم کے ذریعے سے ادیب النسا بیگم کا حال دریافت کیا۔ جواب سے بھی وہی بات ظاہر ہوئی جو وجیہ النسا بگیم نے کہی تھی۔ دوسرے دن صالحہ بیگم آئیں اور کہا کہ آپ نے رقعہ لکھا تھا۔ جب جواب لکھوا چکی تھی تب مجھے یاد آیا یہ بیوی بیاہ مانگنے والوں کے ساتھ آئی تھیں۔ لڑکیاں پڑھاتی ہیں اور کسی اسکول میں نوکر ہیں۔ بڑا تڑاق پڑاق، گرما گرم ہیں۔ یہ سن کر مجھے خیال گذرا کہ وجیہن کے شرمانے کا یہی سبب تھا۔ شاید اس نے آواز پہچانی۔ ہماری وجیہن کی واجبی صورت تھی۔ اس کی بھی غیرت آئی ہو گی کہ سسرال کی عورت آ کر مجھے دیکھ گئی تھی۔ الغرض جب صالحہ بیگم جا لیں تو میں نے بجد ہو کر سب حال پوچھ لیا۔ جب وہ قبولیں کہ میں نے آواز ہی سے نہیں پہچانا بلکہ صورت سے بھی اس لیے کہ میں پائخانے سے چلی آتی تھی، جو یہ بیوی صاحب ڈولی سے اتر پڑیں۔ خاطر خواہ میں نے ان کی زیارت کی اور انہوں نے مجھے دیکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 254

میں نے کہا الحمدللہ تم نے ان کی بات کے پورے پورے جواب دئے۔ اگر ہچکچا جاتیں تو کیا ہوتا۔ میری تمہاری دونوں کی آبرو پاک پروردگار نے رکھ لی۔ دو رکعت نماز شکر کی پڑھو اور اپنی سونلی رنگت، لمبے قد، کھڑے نقشے، سیتلا کے داغوں سے بد دل اور آزردہ خاطر نہ ہو۔ صورت کیسی ہی ہو، سیرت اچھی ہونا چاہیے۔ ہر وقت اسی کی فکر رہے کہ دنیا و دین دونوں جگہ ناموری اور سرخروئی حاصل ہو۔ اس وقت جو تم نے کہا ہے اسے بھول نہ جانا۔ وقت پر کر دیکھانا۔ خدا تمہیں اس دن کے امتحان میں بھی پورا کرے جس کا آج سے دھڑکا لگا ہے۔ اور بہت بڑا ہے۔ ہماری استانی خدا بخشے یہ شعر بہت پڑھا کرتی تھیں
اپنے عصیاں سے نہ ذلت ہو مجھے اے داور
حرش کے روز ترے ہاتھ ہے پردا میرا
الحاصل جب ہمارے ہاں خدا نے شادی دکھائی اور میری چھوتی بہن عابدہ بیگم کی چھٹی میں ان سب بیویوں کی دعوت ہوئی تو شب کو میں نے پھر نسبت کا ذکر چھیڑا اور ہر اک طرف کی مستعدی اور رضامندی دریافت کر کے ماہ رجب مقرر کیا۔ پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اس زمانے تک خدا کی رحمت سے کوئی امر نو حادث نہ ہوا تو اب رجب نہ ٹلے گا۔ گو آٹھ مہینے کا وقفہ تھا، لیکن خدا کے صدقے سے سب طرح امی جمی رہی اور جمادی الثانی کا مہینہ آیا۔ اب ہماری وجیہ النسا ماشاءاللہ بارہویں میں تھیں۔ کوئی تین برس تک میرا ان کا ساتھ رہا۔ جب عقد اور رخصت کی تاریخ بالاتفاق مقرر ہو چکی تو میں نے اس کے پہلے چاہا کہ وجیہ النسا کو رخصت کروں۔ اس لیے عقد سے آٹھ روز پیشتر جمعہ کا دن ٹھہرا کر سب صاحبوں کو پیام بھیجا کہ اگر فرصت ہوا اور ہرج بھی نہ ہوتا ہو تو آپ پہر دو پہر کے واسطے آ جائیں۔ جتنے سویرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 255

آئیے گا اتنی ہی جلدی فرصت ہو گی۔ سب اپنی محبت کی وجہ سے میرے بلانے سے شاد ہوتے تھے اور گویا یہی راہ دیکھا کرتے تھے۔ علی الخصوص بختاور دولہن اور امجدی بیگم اس پیام کے سنتے ہی مستعد ہو گئیں اور سارے کنبے میں خود سوار ہو ہو کر گئیں۔ ادھر میر نقش علی صاحب کی بیوی اپنے میکے میں قریب کے عزیزوں کو نیوت آئیں۔ جمعہ کو کوئی پہر بھر دن بھی نہ آیا ہو گا کہ ان صاحبوں کی ڈولیاں، میانے پینیسیں آنے لگیں۔ آج کے دن میں نے تنکا نہ توڑا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی حکومت کیا کی اور اپنے حواس خمسہ سے کام لیا کی۔ لڑکیوں پر میں نے اپنا ارادہ بالکل نہ ظاہر ہونے دیا۔ مہمان اور گھر کے آدمی ملا کر کوئی سو100 سے اوپر تھے۔ ماما اصلیوں لونڈی باندیوں کا ذکر نہیں۔ لڑکیوں نے آج نہایت خوبی سے دونوں بڑے دالانوں میں پرتکلف بچھونا کیا۔ مسندیں اور گاؤ تین طرف قاعدے سے لگائے۔ ہر مسند کے آگے ایک اگالدان، خاصدان، صراحی گلاس، دو دو گلدستے رکھے۔ جو آتا گیا اس کے عطر ملا ہار دیا اور مسند پر لے جر کر بتھا دیا۔ خاصدان کا ڈھکنا، تمباکو کی ڈبیا کھول دی۔ آٹھ آدمی پنکھے پر مقرر کئے۔ اوٹوں پر پھول ڈال دئیے۔ ہوا کے رخ پر اگرسوزوں اور انگیٹھیوں میں خوشبو سلگا دی۔ بچے والیوں کو باہر کے دالان میں اور چھڑے چھٹانک بیویوں کو اندر بٹھایا۔ شہ نشین میں بھی بچھونا تھا لیکن بیچ کا در میرے لئے مخصوص تھا۔ جب آنے والے آ چکے تو میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آج آپ صاحبوں کو میں نے خاص اس غرض سے تکلیف دی ہے کہ کچھ اپنے دل کے بھید آپ کے سامنے ان بچوں سے کہوں جو ایک زمانے سے میرے ساتھ ہیں۔ اگر یہ بچے قدر کی نگاہ سے انہیں دیکھیں گے تو جواہرات سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 151

اعمال پر نظر رکھے آنکھ ناک کان ہاتھ پاؤن زبان اور جتنے اعضا بدن دیں ظاہر ہیں یہ سب اور پیٹ کے اندر کی چیزیں خدائے برحق نے اپنی حکمت و عنایت سے ہر آدمی کو عین مصلحت سے کرامت فرمائی ہیں اور ہر چیز ایک خاص کام کیلیے ہا چند کاموں کے لیے مخصوص ہے وہ کام چاہے دنیا کے متعلق ہوں چاہے دیں کے مگر شرط یہی ہے کہ خلاف حکم خدا اور رسول نہ ہوں جب ان اعضا سے اس کے برعکس کام لیا جائے گا اور وہ خلاف حکم خدا بھی ہو گا تو گناہ ہو جائے گا۔ کوئی عضوِ بدن انسان کا کیوں نہ ہو اس کے قبضہ میں بالکل دے دیا ہے وہ ہر طرح اس عضو پر حاکم ہے اور بدن کی ہر چیز محکوم یہ بالکل جھوٹ اور بے اصل بات ہے کہ دل پر قابو نہیں چلتا کیا کریں دل سے مجبور ہو گئے دل سے اور مجبوری کیسی خطا اپنی الزام دوسرے کے سر رکھنا دل ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم دل کے جب ہم نے یہ مان لیا کہ ہر عضو ہمارے بدن کا ہمارے کہنے پر چلتا ہے اور اسی بدن میں دل بھی ہے تو وہ بھی ضرور یہی ہماری مرضی اور حکم کا پابند ہو گا۔ حاکم سے محکوم بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے یہی ہاتھ میں چاہے ان سے خیرات کرو زکوة دو مومنین مستحقین کی جوتیاں جھاڑو یتیم کے سر پی پھیر وضو کرو دعا کو اُٹھاؤ سلام کر دیا اور ایسے ہی نیک کام کر دیا کسی کو مار کسی کے آگے پھیلاؤ چوری کا مال اٹھاؤ اسی طرح ہر عضو کا گناہ ہے ہاتھ پاؤں پر کیا منحصر (امیر خانم) بھلا بیوی ناک اور آنکھ کا گناہ کیونکر ہوتا ہے (میں) آنکھ کا گناہ نا محرم کو دیکھنا جھانکنا تاکنا بُری اور بد نظر ڈالنا ناک کا گناہ حرام اور نجس چیزوں کا سونگھنا خدا نے جن چیزوں کے دیکھنے کو منع فرمایا ہے کہ عمداً جب دیکھو آنکھ کا گناہ ہو گا۔

صفحہ 152

اور اسی طرح سے ناک کا جن باتوں کو لوگ دل سے منسوب کر کے اس بیچارے کو متہم کرتے ہیں وہ دل کی طرف نہ کرنا چاہیں خدا نے ہر آدمی میں تین قوتیں پیدا کی ہیں اور ان پر بھی اس انسان کو غالب کیا ہے چاہے وہ اچھی قوت سے کام لے کر ملک سیرت ہو چاہے بری قوت سے کام چلا کر چنگیز خان ہلاکو بن جائے چاہے شیطان کی طرح مستحق لعنت ہو ان سب قوتوں کا نام نفس ہے ہاں اُن کے دوسرے ناموں اور کاموں میں البتہ فرق ہے جس کے نفس امارہ نے غلبہ کیا اور وہ آدمی دیا اس نے دل کو پکڑ لیا (امیر خانم) نفس امارہ بیوی کیا چیر ہے (میں )میں نے تم سے کہا نہیں کہ اک قوت یا طاقت انسان میں ہے اس کا نام نفس امارہ ہے (امیر خانم) یہ ہوا کیا کرتا ہے (میں) بُرے بُرے کام سب اسی کے غلبہ سے ہوتے ہیں (امیر خانم) ہی ہی بیوی میں قربان پھر اس کے رام کرنے کی کیا تدبیر ہے اگر گناہ ہو گیا ہو تو اس کا کیا علاج (میں) نفس کے کہنے کے برخلاف عادت ڈالے اور عقل سے کام لے مثلث ہاتھ خرچ سے تنگ ہے اور کسی نے سودے سلف کے لیے کچھ روپے دئیے نفس ضرور ابھارے گا کہ اس میں سے کاٹ قصور کر کے چرا چھپا کے دو چار آنہ اپنے لیے بچا لو بلا سے دو چار ہی روز کا کچھ خرچ نکل آئے گا تو ضرورت اس پر نفس کا یوں بہکانا سونے میں سُہاگا ہو گیا۔ نہ لقمہ حرام پر نظر گئی نہ چوری کا خیال آیا طمع و حرص نے دونوں آنکھوں پر پٹی باندھ دی اگر عقل نے تھوڑا بہت سمجھایا تو اس کو دشمن سمجھ کر خاک نہ سُنا اور جو نفس نے کہا تھا کر بیٹھے ہاتھ پاؤں زبان سب پیٹ کا گناہ اتنی سی بات میں ہو گیا یہ کہنا کہ پیٹ نہیں مانتا۔

صفحہ 153

مجبوری سے ایسا کرنا پڑتا ہے ایسی بیہودہ بات ہے کہ جس پر بچوں تک کو ہنسی آئے بوا امیر خانم کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ننھے ننھے بچے جن کی ماؤں کے دودھ نہیں ہوتا محتاجی اور ناداری کی وجہ سے انّا رکھ نہیں سکتے پھر عزیز کنبے والے کیا کیا تدبیریں نہیں کرتے اور اس بچے کو پالنے میں تو اب اس سے سمجھ لینا کہ ان لوگوں نے اس بچے کو بالآخر خدا کی شرکت نہیں تھی تو یہ توبہ توبہ انتہا کا کفرانِ نعمت ہے جس دن سے بچا دنیا پر آتا ہے اور جس روز تک دنیا سے جاتا ہے خداوند عالم ہی اس کے ہر طرح کے رزق کا ضامن ہے چاہے گھُٹی اور دودھ ہو چاہے دال روٹی اور اگر ایسا بھی تصور کر لیں تو جب پال پوس کر بڑا کر دیتے ہیں جب تو ماں باپ کو وہ تعلق اور خیال باقی نہیں رہتا اس وقت کون اس کی زندگی اور پرورش کے سامان غیب سے پہونچاتا ہے آدمی کی تدبیر اور کوشش میں اثر دینا سوا خدا کے اور بھی کسی کا کام ہے جب دو چار مرتبہ بری بری باتوں پر عقل کی وجہ سے نظر دوڑائے گا اور اس سے پرہیز کرنے کا ارادہ کرے گا تو خدا کی طرف سے بھی ضرور مدد ملے گی نیک کام کی مدد اس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور بد کام کی شیطان کی جانب سے۔ آدمی فاعل مختار ہے بُرے کام کرے یا اچھے عادت عجب چیز ہے کوئی نماز پڑھتا ہو چالیس دن تک برابر پڑھے دیکھیں تو پھر کیونکر اس کی نماز قضا ہو جاتی ہے اسی طرح سے جب کوئی بُری باتیں اور عادتیں چھوڑنے کا ارادہ کر لے گا تو نیک خصلتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ رفتہ رفتہ وہ چھوٹ جائیں گی اور ان کی عادت ہو جائے گی اب رہا یہ امر کہ گناہ ہو چکا ہے اس کے لیے خدا نے توبہ کا حکم دیا ہے اس کا منتظر نہ رہے کہ جب مرنے کا وقت

صفحہ 154

آئے گا توبہ کریں گے اکثر ایسا ہوا ہے کہ دھوکا رہا ہے اور آج اچھے ہوتے جاتے ہیں کل اچھے ہوتے ہیں کہتے کہتے دم نکل گیا یا چار روز پیشتر زبان بند ہو گئی لیجیے کہیں کے نہ رہے نیک کام کرنے میں جلدی ضرور کرے جہاں تک ہو سکے توبہ ایسی چیز پر وار مارا بخشش کاہے مرنے سے بہت دن پہل کر لے اور جس جس کی خطا قصور ہوا ہو بحل کرا لے گناہ تین قسم کے ہیں پہلے گناہ خدا اور بندے کے جیسے چوری اور زنا دوسرے فقط خدا کے جیسے گانا سُننا کالا پانی پینا جوا کھیلنا جھوٹ بولنا تیسرے فقط بندے کے جیسے کسی مومن کو بیگناہ حلال کرنا اٰذا پہونچانا امیر خامن یہ سُنتے ہی میرے قدموں پر گر پڑیں اور کہا کہ میری بیوی میں تمہارے قربان میری جان اور آبرو بچاؤ مجھ سے بڑے بڑے گناہ ہوئے ہیں میرا بال بال امجدی بیگم کا گناہ گار ہے یہ کہہ کر انّا جی رونے لگیں میں نے خاص اسی غرض سے کہا تھا کہ گو امجدی بیگم اپنے گھر سے آسودہ ہیں اور یہ آن کی انّا ہیں لیکن اس قدر دہان سے تھوڑی مل سکتا ہے کہ سونے کے شیر دہان کڑے بنا سکیں اور گہنے کے علاوہ یہی کڑے کیا کم ہیں ضرور ہی انہوں نے اپنی نادانی اور حماقت سے غبن کیا ہے وہی ہوا کہ پہلے تو انّا جی رویا کیں پھر کہا کہ بیوی مجھ نگوڑی ماری بد نصیب غارت گئی نے اُن کے ہاں کے سودے سلف میں سے نوچ کھسوٹ کر روپیہ جوڑا اور دمڑی مل کی معرفت سے یہ کڑے جوشن طوق بیڑیاں چوہے دتیاں بنوائیں اس میں سب ہی روپیہ وہ نہیں ہے تنخواہ کا بھی ہے انعام اکرام کا بھی ہے خولدار کڑوں کا بھی سونا ہے لیکن اُس نے مل کر سب کو غارت کیا ہے ہے اب کیا ہو گا۔ مجھ سے تو کہا نہ جائے گا۔ میں تم گھبراؤ نہیں اگر خدا نے چاہا اور وہ یہاں آئیں پھر ایک قاعدے سے

صفحہ 155

میں کہہ لوں گی (امیر خانم) میری بیوی میں قربان جیسے مول لے لیا۔ یہ کہہ کر انہوں نے سب گہنا اُتارا اور میرے آگے رکھ کر قدموں پر گِر پڑیں اور کہا کہ بیوی نہ کچھ کہن نہ سُنا یہ سب چیزیں امجدی بیگم کی ہیں خدا اُسے مبارک کرے اُسی کو دے دینا اور بیوی تم مجھے ابھی دعائے توبہ پڑھا دو میں نے وہ گہنا تو اُن کی طرف کھسکا دیا کہ تم لیتی جاؤ توبہ کے بعد اس کو نہ پہننا جب وقت آئے گا اور خدا وہ دن لائے گا میں تم سے لے کر اُنہیں دئیے دوں گی۔ رہی دعائے توبہ وہ میں پڑھوائے دیتی ہوں تمہیں پاک صاف ہونے سے کام ہے ابھی اس طرح ہو جاؤ گی جیسے ماں کے پیٹ سے نکلیں (انا جی) بیوی جی تم خود اس مال کو نہ چھوؤ میں کپڑے میں باندھے دیتی ہوں کسی ہے کہہ کر اُٹھوا دو میں چپ ہوئی انہوں نے منّت خوشامد سے ہاتھ جوڑ کر مجبور کیا بوا رحمت کو بلا کر وہ چیزیں میں نے اُٹھوا دیں امیر خانم نے غسل کی ترکیب پوچھی۔ نہائیں۔ دعائے توبہ پڑھی ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہوئیں چار بجے آدمی کو بلا دیا تھا جب گھر پہنچیں امجدی بیگم اپنی انّا کو لٹی پٹی دیکھ کر گھبرائیں پوچھا خیر تو ہے گہنا کیا ہوا وہ گھبراؤ نہیں موجود ہے کہہ کر بیٹھ گئیں اور میری نسبت دُعاؤں کا تار باندھا امجدی بیگم غور سے سُنا کیں جب وہ یہ تھمیں تو کہا بس ہو چکا کہیں یہ تار ٹوٹے گا بھی یا نہیں تم پہلے بات کا جواب دے لو پھر دُعاؤں کا لگا لگانا اناجی نے کہا کہ بیوی میں کیا کروں دل سے دُعائیں نکلتی ہیں۔ انہوں نے کہا اچھا نکلنے دو یہ کہو کہ کیا کہا (انا جی) بیوی وہ تو راضی ہیں اپنے ابّا جان سے پوچھنے پر رکھا ہے خدا رکھے بوڑھ سہاگن ہو بھلا بے مردوں کی اجازت کے کیونکر بلوا لے خداوندا اُس کے اک اک روئیں میں لاکھ لاکھ دم دینا اور

صفحہ 156

ہمیشہ سکھ چین سے رکھنا میں نے ایسی بچیاں نہیں دیکھیں اس کا سِن کیا ہے دس گیارہ برس کی عمر اس پر ماشاء اللہ ایسی نیک کہ واہ جب سے میں گئی ہوں ایسی اچھی اچھی باتوں کیں کہ میں بن داموں کی لونڈی ہو گئی گہنا پاتا پہننے کو کچھ اسطرح سمجھا دیا کہ دل سے اُتر گیا اور سچ ہے اگر ظاہر میں سونا جھونا پہن لیا تو کیا دل کو پاک صاف رکھنا چاہیے (امجدی بیگم) پھر گہنا اُتار کر ظاہری زینت تو کھو آئیں دل بھی پاک صاف کیا (انا جی) ہاں اس صاحبزادی نے مجھے دُعا پڑھوائی توبہ کرائی اب اللہ نے چاہا تو کبھی اس موئے (ای دیکھو بھول گئی) کا کہنا نہ کروں گی (امجدی بیگم) کون موا کس کا کہنا (انا جی) اے ہے وہی جو سب کو اُبھارتا ہے بُری بُری باتیں سکھاتا ہے لالچ دلاتا ہے (امجدی بیگم) آخر کون (انا جی) شیطان کا سگا (امجدی بیگم) اے بی نام لو تم تو پہلہ بجھواتی ہو ( انا جی) ووئی بیٹا کیا کروں کس طرح نام ہی نہیں یاد آتا کوئی موا مونڈی کاٹا امان مارا ہے۔ امجدی بیگم ہنس کے چُپ ہو رہیں پوچھا کہ اب تم جاؤ گی یا وہاں سے کوئی آئے گا۔ کہا کہ نہیں وہ خود کہلا بھیجیں گی۔ انہیں اپنی بات کا خیال رہتا ہے انا جی کے جانے کے بعد میں نے ابا جان سے امجدی بیگم اور بختاور دولہن کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ نواب صاحب سے پوچھنا دوسرے وقت میں نے نانا باوا سے کہا انہوں نے فرمایا کہ واہ میر ماشاء اللہ بڑے رئیس اس محلے کے تھے بھگدڑ میں تلنگوں نے انہیں مار ڈالا۔ بڑی لڑکی تو اُن کی باہر بیاہ گئی ہے کوئی سید واڑے کے سید ہیں چھوٹی لڑکی یہاں ہو گی اہاہا شاید وہ لڑکی ہے جو ان کے قتل کی خبر سُن کر باہر نکل پڑی تھی کوئی پانچ چھ برس کی تھی، اچھا آنے دو

صفحہ 157

کیا مضائقہ نختاور دولہن میر مبارک حسن کی بیوی ہیں۔ وہ بھی انہیں کے عزیز ہیں۔ یہ سب کے سب اچھے گھرانے کے عزت دار لوگ ہیں۔ میں چُپ ہو رہی بور رحمت کو سوار کر کے اس کے دوسرے دن امجدی بیگم کے لینے کو بھیجا۔ وہ رحمت کو دیکھ کر خوش ہو گئیں اور جلدی جلدی تیاری کر کے آ موجود ہوئیں۔ میں اور اماں جان دروازے سے جا کر ان کو لائے، مسند پر بٹھایا۔ ہم دونوں آدمی سامنے بیٹھے ایک لڑکی کو اماں نے اپنے پاس بٹھا لیا اور ایک کو میں نے۔ کوئی پانچ اور آٹھ برس کی دونوں لڑکیاں تھیں۔ میں نے جو دیکھا تو دونوں ماشاء اللہ غیرت دار اور ذہین معلوم ہوتی ہیں۔ امجدی بیگم نے مجھے ہنس کر پوچھا کہ میری انا کو آپ نے کس سے ڈرا دیا کہ وہ اس کا نام نہیں جانتیں اور ڈرتی ہیں۔ اماں مارا کون ہے؟ میں نے قرینے سے بات سمجھا کر کہا کہ جی نہیں وہ نام بھول گئیں اُس دن ان سے کچھ باتیں ہوئی تھیں اُس میں نفسِ امّارہ کا بھی ذکر آیا تھا۔ (امجدی بیگم) اے ہا یہ نفسِ امارہ کی خرابی تھی اماں مارا۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگیں۔ بختاور دولہن نے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے کہا کہ بیوی نہ مجھے تکلیف آئے اور نہ جانوں میں اپنی دونوں لڑکیوں کو آپ کی خدمت میں سونپنے آئی ہوں۔ انہیں اپنی لونڈیاں سمجھ کر کام خدمت لیجیے تا کہ آپ کے صدقے سے کچھ سلیقہ آ جائے۔ پرائے گھر جانا ہے۔ میں نے کہا کہ یہی دونوں لڑکیاں آپ کی ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ اماں جان بولیں کہ میں نے ایک ایک لڑکی سمجھی تھی بختاور دولہن نے کہا کہ جی نہیں بھلا یہ پہلی ملاقات میں کیونکر ایکا ایکی اپنی لڑکیوں کو لے آتیں وضعداری کے خلاف نہ ہوتا امجدی بیگم ہنسیں اور کہا کہ نہیں بہ بات نہیں ایک تو مجھے آپ سے اجازت لینا منظور تھی دوسرے

صفحہ 158

ان کے باپ یہاں نہیں ہیں۔ میں نے کہا آپ نے بہت بہتر کیا دیر آئے درست آئے۔ انشاء اللہ پھر دیکھا جائے گا اتنی دیر میں کھانے کا وقت آیا دسترخوان بچھا سب نے کھانا کھایا کچھ دیر وہ لوگ لیٹ رہے میں اپنے کاموں میں پھنسی سہ پہر کو چلتے وقت انہوں نے کہا کہ اب جس دن آپ فرمائیے میں انہیں بھیج دوں۔ میں نے کہا آپ کو اختیار ہے میرے کہنے کی کیا ضرورت کہا تو میں انہیں کل کا دن بیچ پرسوں بھیج دوں گی اور ہر طرح مجھے آپ کے حکم پر چلنا منظور ہے جیسا آپ مناسب جانیں اس طرح ان کے ساتھ برتاؤ کریں یہ کہہ کر وہ دونوں صاحب سوار ہو گئیں تیسرے روز پانچ خوان مٹھائی کے اور انا جی دونوں لڑکیاں پہر دن چڑھے آ موجود ہوئیں میں نے نذر دے کر ایک پلیٹ میں سے دونوں لڑکیوں کے مُنہ میں دو ڈلیاں دیں اور دو دو ڈلیاں گھر میں بانٹ دیں۔ آٹھ دس بچی تھیں وہ اُٹھوا رکھیں اور خوانوں میں وہی مٹھائی لگا کر سہ پہر کو ان کے ساتھ کر دی رقعہ میں یہ لکھ دیا کہ یہاں نذر دے کر بانٹ دی ہے آپ اس کو اپنے کنبے میں تقسیم کیجیے میری خوشی پر وہ چلنے کو پہلے ہی کہہ چکی تھیں۔ بختاور دولہن کو کوئی چارہ نہ ہوا۔ خوان کے لیے میں نے ان لڑکیوں کو پڑھانا شروع کیا جب وہ دو چار سپارے پڑھ چکیں تو کام کی طرف متوجہ کیا کئی روز تک تو میں نے ان کو انہیں کی مرضی پر چھوڑ کر آزاد کر دیا جہاں چاہا بیٹھیں جہاں چاہا اُٹھیں۔ جب ہل مل گئیں اور رفتہ رفتہ وحشت و اجنبیت کم ہوئی زبان کھلی۔ بات کا جواب دینے لگیں شرم گئی حجاب دفع ہوا اس وقت میں نے متبرک الف بے استانی جی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی نکالی اور حرف بجھوائے۔ دو تین روز میں زیر زبر پیش تشدید حرفوں کی شناخت ہو جانے

صفحہ 159

کے لفظین بنوائیں جب ہجے کرنے میں قرآن مجید شروع کرا دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندسے بھجوائے اور گنتی بتائی۔ پندرہ دن کے اندر تین مرتبہ امجدی بیگم آئیں۔ چوتھی دفعہ دو لڑکیوں کو ساتھ لائیں جس میں ایک بڑے لمبے قد کی کوئی نو دس برس کی لڑکی تھی امجری بیگم صاحب کی عمر مسا کر کے کوئی اٹھارہ برس کی ہو گی دس برس کی لڑکی انمل ان کے ساتھ دیکھ کر میں نے پوچھا کہ ان کی کچھ تعریف کیجیے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ یہ صالحہ کی اُٹنی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ حضرت صالحہ کا تو ناقہ سنا تھا آج دوسری بات آپ سے معلوم ہوئی۔ ہاں کچھ بتائیے تو سہی یہ کون صاحب ہیں۔ (امجدی بیگمٰ آپ ہنسی سمجھتی ہیں ان کی اماح صالحہ بیگم نے فرض کر کے ان کا نام اُٹنی رکھا ہے وہی میں نے بھی عرض کیا وہ کس طرح سے ان کے آنے دینے پر راضی نہ تھیں میں جبر و ظلم سے لڑ بھڑ کر لے آئی شرماتی تھیں کہ بے موقع اس کو کہاں لے جاؤں گی نونہالوں میں سروردان کا کیا کام۔ میں نے کہا نہیں شرمانے کی کیا بات ہے خوب کیا جو آپ لے آئیں ہاں صالحہ بیگم کون صاحب ہیں (امجدی بیگم)اے وہ تو آپ کو خوب جانتی ہیں اور آپ ہی کے قریب یہیں کہیں رہتی بھی ہیں۔ میر نقش علی صاحب کی بیوی ہیں۔ اخّاہ یہ اُن کی صاحبزادی ہیں (امجدی بیگم) جی ہاں۔ ان کی ایک لڑکی کو دیکھ چکی تھی اس وقت اس کی صورت جو اس لڑکی سے ملائی ماسوا چھوٹے بڑے سن کے کچھ فرق نہ معلوم ہوا ٹھمکے قد کی ان کے ہاں ایک ماما نوکر تھی وہ ہمارے ہاں کی محمدی خانم سے بہت محبت کرتی تھی اس وجہ سے کبھی کبھی اندھیرے اُجالے نکل آتی تھی میں نے کہا کہ ایک دفعہ ان کی چھوٹی بہن کو میں نے دیکھا بھی تھا آپ کے کہنے سے اس وقت خیال آیا بیشک

صفحہ 160

وہ اُن کی تصویر تھی ہاں بیوی تمہارا کیا نام ہے؟ (وہ لڑکی) اجی آپ نے سُنا تو اُوٹنی (میں) نہیں اُوٹنی کیسا نام بتاؤ ماں باپ کی باتوں پر خواہ وہ اپنے حق میں اچھی ہوں یا بری ناراض اور آزردہ نہ ہونا چاہیے۔ اگر انہوں نے پیار سے اُوٹنی کہا تو کیا قباحت ہوئی اس دنیا میں تو تم کو کوئی اُوٹنی نہ رمجھے گا برابر والے کے کہنے پر بگڑنا اور بُرا ماننا خیر اک بات بھی ہے۔ ماں باپ کو تو خُدا نے وہ مرتبہ دیا ہے کہ جس کی کچھ حد نہیں اُوٹنی تو اک پاک اور حلال جانور ہے اگر وہ سورنی بھی کہتے تو تم کو ملال نہ چاہیے تھا۔ وہ لڑکی دیر تک منہ لٹکائے رہی اور امجدی بیگم کا بے تردد وہ حال کہہ دینا شاید اس کو ناگوار گذرا میں نے امجدی بیگم کی لڑکی سے اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے پھر اُن سے نام پوچھا اس نے پھر اُوٹنی کہا اس وقت مجھ کو حیرت ہوئی اور احمدی بیگم سے کہا کہ شاید ان کو اپنا نام معلوم ہی نہیں (امجری بیگم) اے استانی جی مجھے کب معلوم ہے میں نے ان کے باپ کو ہمیشہ کھڑکی میں سے اُوٹنی اور ماں کو اُوٹنی پکارتے سنا اب معلوم ہوا کہ اس کو رنج صدمہ کچھ نہیں تھا خلقت ہی اس کی ویسی تھی اور نام اُسے معلوم ہی نہ تھا۔ میں نے پھر امجدی بیگم صاحب سے کہا کہ آپ نے بھی ان کے نام کو نہیں دریافت کیا۔ (امجدی بیگم) جی دریافت کیوں نہیں کیا صالحہ بیگم نے یہی جواب دیا کہ بیوی نام وام تو کچھ نہیں رکھا اس کے پہلے پہلوٹی کے دو لڑکے تلے اوپر ہو ہو کے جا چکے تھے جب یہ پیدا ہوئی تو سب نے کہا کہ ریت بدل دو اس کا کچھ نام ہی نہ رکھو وہی کیا کہ نام نہ رکھا۔ میں نے کہا اب جو یہ سُن کر لوگ نام رکھیں گے انہیں نے کہا رکھیں اس کی بھی انہیں کچھ

صفحہ 161

پروا نہیں مجھے یہ سُن کر لوگوں کی نادانی پر ایک طرح کا تعجب ہوا کہ یہ کہاں کی ریت نکالی۔ جس سے آدمی کا بچا جانور مشہور ہو گیا ریت بدلنے کی پابندی لازم اور بے نام کے کوئی چارہ نہیں کہا لاؤ اُوٹنی کہہ کر پکاریں آدمی کا تو یہ نام کہیں ہوتا نہیں کام سے کام ہے نام سے کیا کام نکال لیا امجدی بیگم نے کہا کہ آپ بھرتی کر کے نام کچھ رکھ دیجیے گا جب امجدی بیگم نے چلنے لگیں تو میں نے کہا کہ امیر خانم نے آپ کو دودھ پلایا خدمت کی ہے بہت بڑا ان کا حق آپ پر ہے اور کمبخت دنیا میں آ کر جب تک آدمی لکھے پڑھے نہیں آدمی نہیں ہو سکتا ان کو معلوم نہ تھا کہ سودے سلف میں سے دستوری بٹہ لینا حلال ہے یا حرام اگر آپ بے اجازت انہوں نے ایک پیسہ یا ہزار روپیہ یا اس سے کم زیادہ لیا ہو تو آپ معاف کریں (امجدی بیگم) استانی جی میں نے معاف کیا میرے خدا نے معاف کیا میں نے یہ سن کر ایک کاغذ لکھا اور اس پر ان سے دستخط کرائے اپنی اور اماں جان کی رحمت اور ہوا عجوبہ کی گواہیاں کر دیں پھر ان کی سیر چشمی اور فیاضی کا شکریہ ادا کر کے وہ گہنا منگوا کر دیا اور کہا کہ آپ اپنے ہاتھ سے انہیں پہنا دیجیے گا خداوند عالم آپ کو اس حق شناسی اور احسان کی جزائے خیر دے گا وہ بیچاری ڈر کے مارے اسی وجہ سے میرے پاس چھوڑ گئی تجیں کہ جب اس کا پہنا بے اجازت جائز ہی نہیں تو کیوں پہنوں امضدی بیگم نے وہ پوٹلی ”امن چین“ کو دے دی اور رُخصت ہو کر چلیں امان جان نے کہا کہ بختاور دلہن صاحب جب سے لڑکیوں کو پڑھانے بٹھا گئیں اس دن سے انہوں نے ملاقات ہی چھوڑ دی آپ میری طرف سے سلام کے بعد بلانے کا

صفحہ 162

پیام ضرور دیجیے گا اور آپ کے ہاں رسم ہی اگر ایسی ہے تو میں ابھی سے کہے دیتی ہوں کہ آج آپ بھی لڑکیوں کو چھوڑے جاتی ہیں کہیں انہیں کی طرح ہمیں بھول کر نہ بیٹھ رہیے گا (امجدی بیگم) جی نہیں بیگم صاحب خواہ ہم آیئیں خواہ نہ آئیں مگر آپ کے بندہ احسان ہیں اکثر لڑکے ماں باپ کو دیکھ کر اترا جاتے ہیں بختاور دولہن اسی مارے نہیں آئیں کہ دن بھر اس دن ناغہ ہو جائیگی (اماں جان) ہاں ان کا گمان صحیح ہے مگر طاہرہ بیگم کا ماشاء اللہ طرزِ تعلیم اور طریقِ تربیت ایسا تھوڑی ہے کہ لڑکے ماں باپ کو دیکھ کر سہاگ کے مارے جامے سے باہر ہو جائیں۔ آپ اتنی دیر بیٹھیں کسی لڑکی کو یہاں آتے یا کمرے سے کہیں جاتے دیکھا (امجدی بیگم) ہاں بیگم صاحب سچ تو ہے مجھے آپ کے کہنے سے خیال آیا۔ نہ شوکت باہر نکلی نہ حشمت یہ کہ کر امجدی بیگم پلٹ پڑیں اور دبے پاؤں کمرے کے قریب جا کر کونے کی آڑ سے دیکھا تو دونون بیٹھی ہوئی جلدی جلدی اپنا سبق پڑھ رہی تھیں وہ مسکراتی ہوئی پلٹیں اور کہا کہ بس اثر صحبت کا یہ ہے کہ چار دن میں دونوں کو لونڈی کر لیا۔ نہ وہ ضد ہے نہ ہٹ نہ بات بات میں شوخی نہ ذرا ذرا میں ٹھنکنا معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہ لڑکیاں ہی نہیں سبحان اللہ میں نے کہا کہ ابھی کیا ہے اگر خدا نے چاہا تو برس چھ مہینے بعد دیکھیے گا امجدی بیگم انشاء اللہ انشاء اللہ کہتی ہوئی ڈیوڑھی میں گئیں اور سوار ہو کر اپنے گھر سدھاریں آج پہلا دن تھا اس لیے امجگی بیگم صاحب کی لڑکی سے تو میں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ دہ باكل نا سمجھ اوت کم عمر تھی۔ صالحہ بیگم کی لڑکی سے میں نے خواہش کی کہ وہ ترکاری بنائے اور جو جو میں

صفحہ 163

بتاؤں وہ چیزیں ماماؤں کو تول دس سمجھا بجھا کر بھیجا وہاں جا کر پاؤ بھر نمک کا سیر بھر تول دیا اور ڈیڑھ سیر دال کی ڈیڑھ پاؤ دال اور اسی طرح ہر ایک میں ایسی کمی زیادتی کی جس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ تھا اگر میں بختاور دولہن کی لڑکیوں میں سے کسی کہتی تو یقیناً وہ بھی اس طرح نہ دیتیں ماما کو نئی ترکیب سے جو اناج ملا وہ میرے پاس آئی اور سب چیزیں دکھائیں میں نے کہا کہ خیت کیا مضائقہ عادت نہیں ہے جاؤ تم سب دستور حساب سے لے لو ان سے کہا کہ بیوی دو قدم چل کر تم بات بھولتی ہو اور پھر عقل سے بالکل کام ہی نہیں لیتیں۔ اس وقت تو خیر میں نے ماما کے سامنے کچھ نہیں کہا کل میں اس کے سامنے ذلیل کروں گی جو تم نے ایسی بے جوڑ بات کی لے جاؤ ترکاری جلدی چھیلو کہ گوشت بگھارا جائے چاقو وہیں ہے سیدانی صاحبہ وہاں تشریف لے گئیں اور وہیں آلو چھیل کر ایک ہی پتیلی میں ڈال دیے ایک تو چھیلے خوب بعضے آدھے آدھے غائب اور بعض پر چھلکا موجود اور دوسرے لبالب پانی بھری پتیلی میں ان کو رکھ کر چاقو بھی بکھرنے کے لیے بی بھُلکّڑ نے اسی میں ڈال دیا اور بے دھوئے ہاتھ پجامے میں پونچھ لیے۔ میں دور سے ان کی کاریگری اور صفائی دیکھ رہی تھی مگر نماز جو پڑھنے لگی سب بھول گئی وہاں ماما نے گوشت بگھارا بھوننے کے بعد جب ترکاری ڈالنے کا وقت آیا ہاتھ جو ڈالتی ہے اروی آلو ایک ہی میں۔ ہے ہے بیوی یہ کیا غضب کیا توبہ اے لو دونوں چیزیں ملا کر رکھ گئیں۔ اب ایک ایک چنے کو بُوا رحمت جلدی کئیں اور ٹوکری میں پتیلی اوندھی آلو چن کر پتیلی میں ڈالے پہلے

صفحہ 164

آلو چھیلے تھے، اس کے بعد ارویاں۔ آلو پتیلی میں نیچے تھے ارویاں اوپر۔ جب پتیلا اوندھایا گیا تو آلو اوپر ہو گئے اور چاقو بھاری ہونے کے سبب سے پہلے تہہ میں جا رہا۔ جب پانی گرایا گیا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی آ کر بڑی بڑی ارویوں میں چھپ کے بیٹھ رہا۔ بوا رحمت ٹوکری سل پر رکھ کر چلی آئیں۔ محمدی خانم نے آلو کس کر پانی دیا اور پتیلی دوسرے چولھے پر رکھ کر ارویوں کا گوشت بھونا۔ تھوڑے دن رہے ڈولیاں آئیں لڑکیوں کے سوار کرنے کو بوا رحمت اور الفت گئیں محمدی خانم بوا عجوبہ سے یہ کہہ کر ”میری نماز جاتی ہے ذرا ارویاں گوشت بھون کر ڈال دینا۔“ نماز کو گئیں۔ بوا عجوبہ جا بیٹھیں اور ارویاں گوشت میں جاقو سمیت انڈیل دیں۔ جب سب کھانے بیٹھے تو اماں جان نے پہلے نوالے پر کہا کہ ہائیں آج لوہا ارویوں میں کیسا پکا ہے (محمدی خانم) لوہا۔ حضور لوہا کیسا (اماں جان) برابر لوہے کی بو آ رہی ہے۔ محمدی خانم تو چپ ہوئیں میں نے آلو کا پیالہ اُن کے آگے رکھ دیا اور صبح کی دیوانی ہانڈی جو میں نے پکائی تھی منگوا کر کہا کہ آپ اسے نوش کیجیے۔ فرمایا کہ طاہرہ تم تو دیکھو یہ مجھی کو معلوم ہوتا ہے یا حقیقت میں لوہے کی بو ہے۔ میں نے چکھ کر کہا کی جی ہاں آپ کے فرمانے سے کچھ تو مجھے بھی محسوس ہوتی ہے مگر یونہی سی۔ رات کو ابا جان بھی بابر کھانا کھاتے تھے اس غرض سے میں کچھ زیادہ اہتمام سے کھانا نہیں پکواتی تھی۔ یہی بھونا بھُلسا ابالا سُبالا کھا لیا جاتا تھا اس سے ایک تو یہ فائدہ تھا کہ اس کھانے کی بھی عادت نہیں جاتی تھی اور دوسرے زحمت و تکلیف کم پڑتی تھی۔ الغرض یہاں کھانا کھایا ہی جاتا تھا کا باہر اس سے غلام علی نے آواز دی کہ بوا عجوبہ اِدھر آؤ۔ وہ آئیں۔ کہا کہ آج ایک سرے

صفحہ 165

سے ہر چیز میں نمک ڈھیروں پڑ گیا۔ سرکار دسترخوان پر بیٹھے ہیں سالن ہو تو لاؤ۔ باہر کی یہ خبر سُنتے ہی میں سناٹے میں آئی کہ دیکھیے اسی وقت وہاں بھی نمک کو زیادہ ہونا تھا لیکن چارہ کیا تھا۔ چار پیالے دونوں سالنوں کے بھجوائے۔ اتفاق کی بات نانا جان ہی کے پیالے میں چاقو نکلا۔ وہ جو دیکھتے ہیں تو چاقو۔ ہائیں ارے بھئی غلام علی لو یہ چاقو تو لے جاؤ اور کہو کہ چاقو کا سالن کسی کاریگر نے پکایا تو سہی مگر گلا نہ سکا۔ وہ لئے ہوئے ڈیوڑھی پر آیا اور ان کے پیام سمیت جب چاقو گھر میں آیا میں تو کٹ گئی اور محمدی خانم، اماں جان کا لوہا مان گئیں۔ دوڑ کر بلائیں لیں اور کہا کہ بیوی اللہ رکھے خدا نے دماغ آپ ہی لوگوں کے بنائے ہیں۔ دہکھ کر جامہ قطع کرتا ہے ہم سونگھتے سونگھتے مر جاتے تو مصالحے کے آگے لوہے کی بو نہ پہچان سکتے۔ خدا رکھے کھانے کی تمیز کوئی آپ سے سیکھے۔ دوسرے روز امجدی بیگم کا رقعہ امیر خانم لے کر آئیں۔ آج ایک لڑکی اور بڑھی تھی۔ امیر خانم نے کہا کہ کل دلدار بیگم اپنی ددھیال میں تھیں۔ اس سے بیگم فقط سردار بیگم کو لائی تھیں آج ان کو بھی آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ یہ لڑکی برس دن اپنی بہن سے بڑی تھی۔ رقعہ میں لکھا تھا کہ صالحہ بیگم نے اپنی لڑکی کا کچھ نام نہیں بتایا آپ کو اختیار ہے جو چاہے نام رکھ دیجیے۔ میں رقعہ پڑھ کر ہنسی۔ امیر خانم نے پوچھا میں نے کہا کہ ان کے نام کو لکھا ہے۔ (امیر خانم) بیوی اس بیچاری کو تو سب اُونٹی کہتے ہیں امان جان کو جب پیار آتا ہے تو سروروان اور نہیں تو لگا بانس جھنڈا مدار کے نام سے پکارتی ہیں۔ نہیں معلوم ان میں سے شادی کے دن کس نام پر انکا عقد ہو گا۔ میں نے کہا تم ان کی امان سے کہہ دینا کہ خبردار اب ان کو سوا وجیہہ النساء بیگم

صفحہ 166

کے کچھ نہ کہیں اور رقعہ میں بھی لکھ دوں گی۔ اس دن سے وہ وجیہہ انسا مشہور ہوئیں۔ مجھے سب لڑکیوں سے ان کی خدم،ت زیادہ کرنی پڑی اس لیے کہ وہ اپنے قد کی وجہ سے ذرا کم عقل تھیں۔ خدا خدا کر کے چھ مہینے کے اندر ان کو بھی ان سب کے ساتھ غیرت دلا دلا کر ہم سبق کر دیا جس کی خلقت جیسی دیکھی ویسی باتیں پہلے اُسے سکھائیں، راہ پر لا کام لینا شروع کر دیے۔ کسی کے ساتھ ایک ہفتہ کسی کے ساتھ دس دن مجھے سر مغزن کرنا پڑا۔ کچی لکڑی اول تو یونہی جھک جاتی ہے اور گرم کرنے سے تو زیادہ نرم ہو جاتی ہے۔ ماں باپ کا لاڈ پیار مامتا محبت بچوں کے حق میں زہر کا خواص رکھتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایک تو طریقہ اُٹھان اُٹھانے کا معلموم نہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ اب مان کا پیارا ہے۔ دوسرا باپ کا چہیتا وہ اُس کو آنکھ نہیں دکھا سکتی۔ یہ اس کو انگلی نہیں لگا سکتا۔ ہماری ہماری گوئیاں کا سا حال نانی دادی کی محبت اور آفت مان کی زیادتی کا دُکھڑا باپ کا پیارا روتا ہے۔ اور باپ سن سن کر خُوش ہوتا ہے۔ ماں کا لاڈلا باپ کی شکایت ان سے کر کے اپنی داد لیتا ہے۔ وہ نہ کچھ سمجھتی نہ سوچتی ہے۔ بے تکان کہہ بیٹھتی ہے کہ میں ماروں گی۔ گھر میں تو آئیں دیکھو کیسا کچلتی ہوں۔ جھک مارا بُرا کیا تُم ان کے پاس ہرگز نہ جایا کرو۔ وہ اپنے لڑکے کو مارا کریں۔ ”ابا جان اپنے وقت پر دوسرے سے فرماتے ہیں کہ میں ہاتھ جلا دوں گا، ماروں گا۔ پیار میں پیارہان بیٹے ذرا ان کو گالی تو دے لو، ذرا ان کا منہ چڑا لو، ذرا ٹھینگا تو دکھا دو، تعلیم ہوتی ہے تو ایسی ذرا میں نفرت ایسی ہو جاتی ہے کہ گو سے گھا کر دیا مارتے مارتے ادھ موا بنا دیا اور افیم کا انٹا حلق میں اس کے تو پیٹ میں اڑہے مروڑ ہے۔ یہاں بے اٹکلی سے

صفحہ 167

بھوک معلوم ہوتی ہے یہ جوڑا ہے دودھ نہیں چھٹا مونگ کی کھچڑی ٹھونسا دی جو بڑے بوڑھے ہضم نہیں کر سکتے۔ جان پر بنی ہے مگر رو نہیں سکتا۔ جو جو کا ڈر لگا ہے۔ ہوّے کا خوف مارے ڈالتا ہے ہر وقت کا تعلق اور ساتھ کیا کم یے اس پر یہ عنوانیاں اور ستم بری عادت پڑی اور پڑی میں حیران ہوں کہ اور بُری صحنتوں میں جانے سے بچوں کو کیوں روکتے ہیں اور اپنی برسی باتوں پر کیوں نہیں خیال کرتے۔ یہ کیسے غفلت کے پردے ہیں درحقیقت کانی اپنا ٹینٹ نہ دیکھے اور کی پھلی نہارے کوئی ان خدا کے بندوں سے پوچھے کہ بُری صحبت اور کس کا نام ہے ارے کے سب سے پہلے تو صحبت تمہیں سے ہے اس کا یہ رنگ کہ گالی بکنا غیبت کرنا زبان لڑانا جھوٹ بولنا سکھایا جاتا ہے۔ سوچو اور عقل سے کام لو۔ خراب خستہ کر کے بری عادتوں کا عادی بنا کے تو خود چھوڑتے ہو پھر ویسے ہی رنگ کی صحبت وہ کیوں نہ ڈھونڈیں۔ تمہیں نے اکسایا تمہیں نے شہ دی۔ بچوں کا قصور نہیں ساری خطا تمہاری ہے۔ جب بڑے ہو کر وہ بگڑتے ہیں تو قسمت کو پکڑ لیتے ہیں۔ تقدیر کو الزام دیتے ہیں۔ نہ معنی نہ مطلب دیکھیں اتنا بڑا کلمہ منہ سے نکال بیٹھتے ہیں۔ کوئی ان صاحبوں سے پوچھے کہ تقدیر، قسمت نصیبا سوا خدا کے کوئی اور بھی بناتا ہے تو کیا اُسی نے یہ لکھ دیا تھا کہ آپ کے بچے جوئے کھیلیں نجس پانی پئیں، ناچ گانا سنیں، توبہ کریں، توبہ کوئی آدمی تو اپنی بات کر کے پھرتا نہیں۔ وہ تو اتنا بڑا مالک ہے آپ ہی ان چیزوں کو حرام کرے گا آپ ہی ایک ایک تقدیر میں لکھ دے گا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کے کرنے والوں پر گناہ کیسا سزا کاہے کی۔ اسی کے لکھے پر تو عمل کیا، اسی کا تو حکم بجا لائے، اسی کا تو کہنا کیا۔ وہی اوندھے مُنہ جہنّم میں گرائے معاذ اللہ بعض۔

صفحہ 168

وقت ایسی ایسی باتوں پر خیال کرنے سے روئیں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنیہ سی کر گزرے قاعدے اور طریقے سے چلے، کشش اور محنت کرے، ان سب باتون کے بود پھر اگر اولاد ناکارہ اور نالائق رہ جائے تو نصیب کو روئے۔ جہان تک خیال کیا جاتا ہے یہ خرابی اور بے عنوانی اس تعلق کی وجہ سے ہے جو آٹھ پہر چونسٹھ گھڑی ماں باپ کو اولاد سے ہے۔ ناواقفی جہالت گھر والیوں کا زور اس پر اور قیامت صاحبِ اولاد ہو کر وہ نہ اترائیں تو کون اترائے۔ حق بجانب ان کا مامتا سے وہ مجبور اتمہ سے دونا چار چھاتی پر وہ لٹائیں۔ کلیجے سے وہ لپٹائیں محنت ان کی خونِ جگر اُن کا، پیٹ سے انہوں نے نکالا، دودھ ان کا پیے، باپ کا کیا اجارہ اور کون سا حق، پڑھا لکھا ہے جو اس کے خلاف گزرتا ہے گزرے چاہے کانٹوں پر لوٹے چاہے انگاروں پر وہ اپنی ہی کیے جائیں گے ایسی ایسی حالت اور کیفیت میں ضدم ضدا ہو گئی بچے خاک میں مل کے رہ گئے۔ خیر گذری کہ یہ چاروں لڑکیاں میرے ہاں وقت کے اندر آ گئیں گو کہ ان کی ہیں۔ تھوڑا بہت پڑھی بھی تھیں اور اچھوں اچھوں کی صحبت اٹھائی تھی۔ باپ ان لڑکیوں کے اکثر باہر رہا کرتے تھے۔ اس پر تھوڑے ہی دن اور اگر پڑھنے کو نہ بٹھا دی جائیں تو بگڑ جائیں پھر نہ روکے رکیں نہ تھامے تھمیں۔ ذرا ظہور جو ان میں نیک باتوں پر نظر کرنے کا مادہ تھا وہ ان کی ان کے تعلیم پائے ہوئے ہونے کے سبب سے ورنہ تو ان پڑھ اور جاہل ماؤں کے بچے تو توتلے پن ہی سے زبان لڑانے لگتے ہیں۔ کہاں وہ چاروں اور کہاں وجیہہ النساء بیگم۔ مگر ان چاروں پر مجھے وہ محنت نہیں کرنا پڑی جو ان صاحبزادی کے بنانے میں دقت اُٹھائی ناک چنے چبانا پڑے

صفحہ 169

رورودی کوئی دوسرا ہوتا تو دل ہار دیتا، میں نے کہا کہ اِدھر کی دنیا ہو مگر ان کو بھی ادھر سے اُدھر کر کے چھوڑوں گی۔ جب مہینہ بیس دن خوب سر پھرا اور ڈرانے دھمکا کے احمق بیوقوف کہہ کہہ کے تھکی، اور اثر نہ ہوا تو میں نے ان کا جانا روکا نظر بند کیا اچھا خاصا سبق یاد ہے اور دوسرے دن جو گھر سے آئیں چوپٹ پھر سرے سے چلیے نتھنوں میں دم آ گیا تھا۔ اس ترکیب سے آج کا سبق کل جو سُنا اسی طرح از بر فر فر سُنا دیا۔ اہاہا اتنے ہی تجربے پر میں نے ان کی اماں جان سے کہلا بھیجا کہ بیوی اگر آپ کو خالی میرا دماغ جلانا منظور ہے تو مجبوری ہے اور نہیں تو آپ میری مرضی پر لڑکی کو چھوڑ دیجیے خبر نہ ہو جیے چاہے میں بھیجوں اور چاہے نہ بھيجوں پہلے تو صالحہ بیگم صاحب کچھ سوچ سمجھ کر رکھیں (امجدی بیگم) صاحب سے صلاح لی انہوں نے کہا کہ ایک کام کیا ہے تو پورا کرو۔ بیچ ادھڑ نہیں چھوڑ دینے کے کیا معنے۔ استانی جی صاحب سچ کہتی ہیں تب انہوں نے کہلوا بھیجا کہ میں تو آپ کو سونپ چکی آپ کو اختیار ہے جیسے یہ گھر ویسے وہ گھر۔ کھانا دونوں وقت میں بھیج دیا کروں گی میں نے ان کی اس بات کا کچھ جواب نہ دیا اور دو چار دن وہ بھی چپ رہیں پانچویں روز لپٹا ہوا دسترخوان لے کر بختاور دلہن کے ہاں گئیں اور کہا کہ وجیہہ النساء کا کھانا بھجوا دو وہ ہنس کر بولیں کہ آپ کو کچھ خیر ہے کہیں ایسا غضب بھی نہ کیجیے گا ورنہ پڑھانا لکھانا بند کر دیں گی کیا خدا نہ کرے وہ محتاج ہیں جو اسے فاقہ دیں گی۔ صالحہ بیگم چپ ہو رہیں میں نے چار روز میں وجیہہ النساء کا دل ہاتھ میں لے لیا اور کہا کہ دیکھو بُوا اگر تمہارا گھر جانا نہ بند ہوتا تو تم اسی صفحے میں اٹکی پڑی رہتیں یہاں رہنے سے یہ بات حاصل ہوئی کہ

صفحہ 170

چار روز میں ایک ورق یاد ہو گیا۔ تم ماشاء اللہ سب میں بڑی ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو پڑھاؤ نہ یہ کہ ان سے پیچھے پڑی ریں ریں کیا کرو چرخا کاتنا چھوڑو دل لگاؤ چار دن میں کہیں سے کہیں ہو رہو گی لیکن گھر نہ جانا۔ گھر گئیں اور بھول چوک میں گھر گئیں تم نے آزما لیا کہ وہاں جانے سے یا سبق بھی ذہن سے نکل جاتا ہے۔ پھر نہ تمہاری چلتی ہے نہ میری دال گلتی ہے جھک مار کے اُلٹا ورق اُلٹنا پڑتا ہے کوئی آگے بڑھتا ہے تم گھر کی یاد میں پیچھے ہٹتی ہو کسی کا کیا جاتا ہے۔ تمہارے ہی سر دوہری محنت پڑتی ہے۔ مان باپ سے کوئی چھوٹ تو جاتا نہیں۔ جس دن چاہے کھڑے کھڑے چلی جانا وہ بھی جب کہ مُنہ دکھانے کے قابل ہو لے۔ سبق یاد کیے بے کچھ پڑھے ہوئے کون سی صورت لے کے جاؤ گی۔ بڑی غیرت کی جا ہے مگر تمہیں کچھ خیال ہی نہیں اس کان سُنا اُس کان اڑا دیا۔ نانا جان کل تم سب کا امتحان لینے کو کہتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو امتحان میں پورا اترے گا اس کو اس کے درجے کے موافق چیزیں دوں گا۔ اگر امتحان ہوا اور تم پھسڈی رہیں تو کیا ہو گا۔ تم سے چھوٹی وہ چیزیں ہاتھوں ہاتھ لے جائیں گی اور تم مُنہ دیکھتی رہ جاؤ گی۔ محنت کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے اور رات دن پڑھنے میں غلطان پیچاں رہو۔ کتاب کا کیڑا بن جاؤ رح؛ سے سر نہ اٹھاؤ بلکہ یہ غرض ہے کہ رات کو سبق دیکھو بھالو دوسرے دن جتنا پڑھو اُسے خوب یاد کرو اتنا رٹو کہ دل پر نقش ہو جائے تم بُدر بُدر پڑھ کر لفظوں کو کچھ اس طرح مُنہ میں قید کر لیتی ہو کہ سُننے والا سمجھ نہیں سکتا۔ مُنہ کھول کر ٹھہر ٹھہر کر ذرا اونچی آواز میں پڑھا کرو اور یہ این این تو چھوڑ کوئی اور بچّہ بھی تمہاری طرح سے اپنے سبق کو ہزاروں ایں لگا کر

صفحہ 171

بڑھاتا ہے یا تمہیں نے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ نہ ایں کا کام ہے نہ اون کا۔ تم اپنی بنائی ہوئی لفظین پھر کے لیے رہنے دو میرے قاعدہ میں نہ ملاؤ تین حرف کی لفظ پر پانچ دفعہ ہلتی پو کل میں دیکھ رہی تھی کہ بسم اللہ کو تم نے جس طرح پڑھا یاد ہونے کی وجہ سے این اون تو خیر نہ تھی مگر تمہاری کمر کی مجھے خیر منانا پڑی این اون تو رفتہ رفتہ چھوٹ گیا مگر ہلنا نہ موقوف ہوا۔ آخر میں نے یہ حکم لگا دیا کہ جو جے دفعہ ہلے وہ اوروں کو اتنے سلام کرے اور وہ (خدا تمہارا ہلنا چھڑائے) کی دعا دے دن بھر میں جس جس نے جتنے سلام کیے ہوں بم سے خبر کرے اس کے تیسرے ہی روز شام کی وردی میں معلوم ہوا کہ آج وجیہہ النساء نے دو سلام کیے اور دلدار نے ایک پانچویں روز کچھ نہ تھا خدا نے ان معصوموں کی دعا سُن لی اور وہ عادت بھی چھٹ گئی وجہیں پہلے سب کے پیچھے پیچھے لٹکتی پھٹکتی چلی جاتی تھیں کہتے سُنتے خدا ادا کر کے یہ بل نکلا برابر پہونچ کر اس کا شوق ہوا کہ اب آگے بڑھوں اور اس شوق کو ترقّی ہوئی آپس میں کد پڑی پھر ایک ایک نے جان توڑ توڑ کے پڑھنے اور کام سیکھنے میں زور لگائے ماشاء اللہ سال نہ پلٹے پایا کہ کچھ نہ کچھ ہو گئیں نانا جان نے مجھے امتحان کی نسبت کہتے سن لیا تھا۔ میری خوشی کی وجہ سے چھ ماہی کا امتحان شروع کیا اور اُس میں روپیہ کتابیں قلمدان چاقو قینچی اون کو ریشم کپڑے جو بانٹے سب کے حوصلوں میں اور ترقی ہو گئی حالانکہ امتحان میں خود بھی لیا کرتی تھی اور پندرھویں روز شاباشی مٹھائی دعا تقسیم ہوتی تھی مگر اس امتحان سے اتنا نفع نہ ہوا تھا جو اس سے ہوا وجیہہ النساء کی دیکھا دیکھی اُن لڑکیوں نے بھی گھر کا جانا چھوڑا اور دو و مہینے تک ڈولی کی صورت نہیں دیکھی اُن کی ماؤں نے بھی کلیجے پر پتھر

صفحہ 172

رکھ لیا۔ میں نے جب بُلوایا ٹال دیا۔ جب کہلوا بھیجا عذر کیا۔ دس دفعہ کے بلائے میں ایک مرتبہ کوئی چلا آیا وہ بھی کھڑے تڑے اور اس پر بھی جدا جدا کبھی کبھی سواری بختاور دلہن آ نکلتیں۔ کبھی امجدی بیگم۔ صاحہ بیگم نے تو قدم ہی نہیں رکھا۔ جب سال پلٹا اور ان دونوں صاحنوں سے بار بار سُنا کہ ماشاء اللہ وجہیں اب کوئی چیز ہو گئی اور استانی جی نے اس کی طبیعت عادت خصلت ایسی بدل دی کہ وہ وجیہہ بیگم ہی نہیں معلوم ہوتی تب ان کے آنے کی نوبت آئی اور لڑکی کا امتیاز سلیقہ انداز طریقہ نشست برخاست ادب قاعدہ پڑھنا لکھنا تہذیب محنت دیکھ کر بے تحاشا کھڑے قد سے میرے قاموں پر گر پڑیں اور دُعائیں دے کر اس قدر گڑگڑائیں کہ مجھے شرم آ گئی اور کہا کہ بیگم صاحب بس میری محنت کی داد مل گئی اب آپ کیوں مجھے کانٹوں پر گھسیٹتی ہیں۔ دنیا میں یہی ہوتا ہے ایک کا کام ایک سے نکلتا ہے۔ خدا نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا تھا مگر ذرا سی محنت کے ساتھ محنت اسی نے کی لیجیے آ گیا میں ہزار چاہتی تو کیا خدا سے اس معاذ اللہ کہیں زور چل سکتا ہے۔ جب اس لڑکی کا (جس کی طرف سے ہم سب کو یاس تھی) چار دن میں یہ حال ہو گیا تو ہونہار ہوشیار لڑکیاں ضرور ہی قابل محنت کے ہوتی ہیں اور اس سے یہ بھی بخوبی ظاہر ہو گیا کہ چاہے ماں باپ ہی غفلت کر کے یہ زمانہ ان کا گنوا دیں اور لاڈ پیار کے مارے کام نہ لین محنت سے بوجھ نہ ڈالیں آدمی بنانے پر توجہ نہ کریں ان میں خدا نے سب طرح کی قوت دی ہے۔ جس راہ لے چلو یہ چلیں گی۔ جدھر پھیرو پھریں گی جس طرح چاقو کی قوت قینچی پر کام نہ لینے سے زنگ آ جاتا ہے اور وہ بیکار ہو جاتے ہیں اسی طرح سے ان بچوں میں تیزی عقل جوہر سب ہی کچھ

صفحہ 173

خدا نے کا رسد دیا ہے کام نہ لینے کی وجہ سے تیزی پر مٹھے پن کا اور عقل پر جہالت کا پروا پڑ جاتا ہے۔ بے ہنری سے جوہر نہیں کھل سکتے۔ کُند اور خراب ہو کر رہ جاتے ہیں اور سب اچھی قوتیں سلب ہونے سے ان کے مخالف اور دشمن جو ان کی کمی اور زوال کی راہ دیکھا کرتے ہیں چار طرف سے نرغہ کر کے گھیر لیتے ہیں اور بچے کو دیوانہ کر دیتے ہیں جس طرح عالم کا دشمن جاہل اور محنتی کا کام چور اسی طرح عقل کا دشمن جہل، سستی کی بَیری، چالاکی کی چستی ہے۔ بچوں کا ذکر میں نے اس غرض سے کیا کہ دنیا میں کے سب آنے والوں کا وہ پہلا حصّہ ہے اور اسی حصہ میں ان کے اوسط و انجام کی درستی کا وقت مقرر ہے۔ اگر اس عہد میں ذرا بھی خامی رہ گئی تو آگے بڑھ کر وہی خامی اپنا رنگ ضرور دیکھ لے گی۔ خواہ جوانی میں ہو خواہ بڑھاپے میں۔ یہ جو اکثر جوان اور بوڑھی عورتوں کو ویوانی اور اول جلول دیکھتی ہیں، اس کا وہی باعث ہے جو میں نے عرض کیا بالکل احمقوں اور جاہلوں کا تو ذکر ہی نہیں۔ وہ سب زمانوں میں یکساں رہتے ہیں اور جوانی بڑھاپے میں لڑکیوں سے زیادہ نادانی کرتے ہیں۔ یہ میں نے ان کا تذکرہ کیا جو نام چار کو پڑھے ہیں یا جھوٹ موٹ کی اچھی صحبت اُٹھائی ہے۔ علم ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے کچھ دنیا ہی کے کام نہیں بنتے بلکہ آخرت میں بھی کام آتا ہے۔ جب کے لکھا پڑھا کسی کتاب کا ایک حرف (الف) نہیں پہچان سکتا تو اس کو کیا پہچانے گا۔ حالانکہ جو حق پہچاننے کا ہے وہ ایسا دشوار ہے کہ ہم کیا اور ہماری ہستی کیا ہے لیکن یہاں میری مراد اس معرفت حقیقی سے نہیں ہے بلکہ میرا مقصود یہ ہے کہ ایک

صفحہ 174

تو سن کر کسی بات کو جاننا اور ایک آنکھوں سے دیکھ کر پہچاننا سننے اور دیکھنے مین جو فرق ہے وہ ظاہر ہے تمہارے ان کے مُنہ سے خدائے پاک کا نام سُن کر ہم کو بھی معلوم ہوا کہ کوئی خدا ہے اور حب اپنی آنکھوں سے اس کا کلام پاک دیکھا اور پڑھا ترجمے پر غور کیا اس کے معنی اور مطلب پر نظر ڈالی اپنی بے اختیاری کے آنے اور یے بسی کے جانے پر لحاظ کیا۔ پھر اذا جاء اجلہم پر خیال کیا تو صاف ظاہر ہو گیا کہ جو ہم کو دنیا پر لاتا ہے اور جو ہم کو یہاں سے بلاتا ہے وہی خدا ہے اور کیسا خدا ہے جو ایک اکیلا ہے۔ نہ اس کا سہیم ہے نہ ندیم نہ عدیل ہے نہ نظیر نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ اصلاح مشورے کی حاجت قل ہو اللہ احد پڑھا اور یہ بات حاصل ہو گئی بیگم صاحب اور سب کو جانے دیجیے اگر آدمی عقل و انصاف کے ساتھ کام لے تو ایک آیہ ان اللہ علی کل شیً قدیر سے کیا کیا مطلب نہیں نکل سکتے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ بہ تحقیق خدا کل چیزوں پر قادر ہے اور در حقیقت یہی ہے کہ ہمارا کھانا پینا مرنا جینا ہماری بیماری صحت ہماری آبرو عزت ہماری روح ہماری جان ہمارا لباس ہمارا مکان دھن دولت بال بچے چلنا پھرنا اُٹھنا بیٹھنا عہد و وعدہ سب اسی کے تو قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہی ابر بنائے وہی مینہ برسائے اسی پانی سے کہیں موتی بناتا ہے کہیں اناج اُگاتا ہے ابر کا دوڑتے ہوئے جانا آفتاب کا مُنہ اندھیرے آنا دن کا اجالا رات کے تارے رعد کا غُل بجلی کے اشارے ہوا کا چلنا رُت کا بدلنا بدلی کا اندھیرا فصل کا پھیرا چاند کا گھٹنا بڑھنا دھوپ کا اُترنا چڑھنا غنچے سے پھُول پھُول سے پھل بنانا ایک بیج سے درخت کا نکلنا ساری خدائی کا سنبھالنا ایک دانے سے خرمن کر دکھانا اور پھر ایک ایک

صفحہ 175

کے حلق تک پہنچانا سوا خدا کے کسی دوسرے سے بھی ممکن ہے علم سے تھل کو مدد ملتی ہے زور بڑھتا ہے بے علم کے خالی عقل لڑا کے کام نکالنا بہت مشکل کام ہے جُزبی کوئی ہو گا جو بے پڑھے لکھے ایسا کر سکتا ہو توفیق نیک رفیق ہونے کی تو اور بات ہے اس کی مثال سامنے کی یہ ہے کہ جو باتیں میں نے آپ سے اس وقت کیں یہ آپ کے بھی خیال میں تھیں نہیں تھیں اگر ہوتیں تو وجیہہ النساء کی اُٹھان کا یہ انداز نہ ہوتا آٹھ نو برس کا بچہ ایسا نہیں ہے جسے پورا کلمہ نہ یاد ہو يا دہنا بایاں ہاتھ نہ بتا سکے اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ بوجہ بے علمی اور نادانی کے آپ اس بچی کی واجبی تعلیم بھی نہ کر سکیں جس کے بُرے بُرے نتیجے آپ پر خود اتنی مدت میں ظاہر ہو گئے ہوں گے میں نے جو ٹوٹی ماری اس وقت گفتگو کی یا وجیہہ النساء کو جو چار باتیں آپ سے سوا معلوم ہو گئیں یہ کاہے سے اسی علم کے صدقے سے علم کے معنے جاننے کے ہیں اس میں سبھی طرح کا تو جاننا خواه روزہ نماز ہو خواہ مسئلے مسائل دینداری کی باتیں ہوں یا دنیا داری کی علم بے سیکھے آ نہیں سکتا پس ضرور ہوا کہ میں آپ سے اور آپ مجھے سیکھیں یہی آج تک ہوتا آیا ہے جو نہ جانتا ہو اس کے پوچھنے میں اور جو معلوم ہو اس کے بتانے میں کبھی دریغ نہ کرنا چاہیے جو ایسا کرتے ہیں ان کو مبارک رہے ہم تو اچھی عادت اپنی ماما اصیل کی اختیار کرتے ہیں اور بری بات فرشتہ خان کی نہیں سُنتے چاہے نفس ہو یا شیطان میری اس ساری پریشان تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ آپ مجھ کو بار بار کی منّت و خوشامد سے نہ محجوب کیجیے اور جو کچھ ہوا اس کو خدا کی طرف منسوب کیجیے
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں

صفحہ ۔۔۔ 256

کہیں زیادہ پائیں گے۔ خدا کے صدقے سے یہ بھی ممکن تھا کہ میں آج کے روز وجیہ النسا بیگم کو کچھ زیور یا نقد روپیہ دے کر رخصت کروں کیونکہ اب مجھ سے ان کی جدائی کا زمانہ بہت قریب ہے لیکن روپیہ پیسا ہاتھ کا میل ہے اور یہ بھی خیال تھا کہ یہ غیرت دار بچی شاید میری اس ادا سے دل میں ناخوش ہو یا ان کی اماں جان کو گراں گذرے۔ اس لیے میں نے اس ارادے کو موقوف کر کے ان کے واسطے یہ امر تجویز کیا جو نہ ان کے مزاج اور کنبے کے خلاف ہو نہ روپیہ پیسے کی طرح چار روز میں کہیں کا کہیں ہو رہے۔ جس وقت میں تقریر کو شروع کروں "جس میں خاس کر کے خطاب وجیہ النسا بیگم سے ہو گا اور ضمناً دلدار و حشمت وغیرہ بھی شریک ہیں۔" اگر آپ کے بچے روئیں تو اپنی ماماؤں یا میرے گھر کے آدمیوں کو (جو اسی کے لیے باہر کے دالان میں معین کیے گئے ہیں) دے دیجیے گا تاکہ وہ بہلا لیں اور میری بات سننے میں آپ صاحبوں کو تکلف و تکلیف نہ ہو۔ اگر ایک فقرہ بھی اس کا سننے سے رہ گیا تو میری محنت کی پوری داد نہ ملے گی اور مطلب خبط ہو جائے گا۔ جب آپ کا دل دوسری طرف ہوا، طبیعت ہتٹی، بچا رویا، چار نے اس صدا پر کان لگائے، دس اس کا بھیانک چہرہ دیکھنے کو مڑے، دو پھر کر پوچھنے لگے، چار نے اشارہ کیا۔ لیجیے جس سے خاص خطاب تھا اس کا بھی دھیان بٹھا، چوکنا ہو کر رہ گیا۔ اشارہ دیکھے، لوگوں کے پھرنے پر نظر کرے یا میری سنے۔ محبت اور محنت کی ایک املا ہے۔ میری محنت کو اپنی محبت سے رائگاں نہ کیجیے گا۔ اب میں آپ کی اجازت کی منتظر ہوں تاکہ اپنا راز دل ظاہر کروں۔ ان سب باتوں کو میں نے لکھ بھی لیا ہے اگر آپ سب صاحب دل لگا کے سنیں اور اس لکھے ہوئے کاغذ میں (جو جو اس وقت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 257

اپنے جوش محبت سے میں زیادہ کہوں) ملاتے جائیں تو دونا لطف ہو جائے گا۔ بیگم صاحب نے اٹھ کر کاغذ میرے ہاتھ سے لے لیا اور قلمدان لے کر بیچ دالان میں جا بیٹھیں۔ سب نے بڑے تپاک اور ولولے سے مجھے اجازت دی۔ اور میں شہ نشین کے بیچ والے در میں جا بیٹھی۔ جن جن بیویوں کا سامنا نہ تھا وہ اندر چلی آئیں اور بچوں کو باہر چھوڑا۔ اب ماشاءاللہ دالان کی رونق ہی اور ہو گئی۔ بسم اللہ بسم اللہ کی چوطرفہ سے آوازیں بلند ہوئیں اور میں نے دوزانو ہو کر آنکھیں بند کر کے تاثیر کو رجوع قلب کے ذریعہ سے تکلیف دی اور بعد بسم اللہ و صلوات کے یوں شروع کیا۔ "ہزار ہزار شکر اس خدا کا جو ہمیں دنیا پر لایا اور نبی برحق کی است گردان کر اشرفیت کا جامہ عطا فرمایا۔ زبان کو دل کی عرض بیگی کیا اور دل کو بادشاہ کا مرتبہ دیا۔ چشم و گوش کو دیکھنے سننے کی خدمت دی۔ ہاتھ پاؤں کو چلنے پھرنے کی طاقت، عقل و خرد کو مشیر کار کیا اور قلب و زبان کو خزانہ دار دماغ کو گنجینۂ خیالات بنایا اور تصور و قیاس سے کام لینے کو فرمایا۔ دنیا کی خوبیاں اس آدمی میں بھر دیں جہاں بھر کی صفتیں اس کو عطا کیں اس پر بھی اکتفا نہ کی۔ پیمبروں کے ذریعے سے اس کی خبر لی۔ ہدایت کے لیے ہادیوں کو روانہ کیا۔ رحمت کے بہانے سے کام کیا۔ ہدایت کی وہ راہ نکالی کہ اس کی مٹی آگ میں جلنے سے بچا لی۔ گو کہ وہ سبھی کچھ دے چکا تھا، کوئی کسر نہ تھی لیکن بےعلمی سے آدمی کو کچھ خبر نہ تھی۔ جب علم ہوا تو نیک و نیک و بد جانا۔ چھوٹے بڑے کا مرتبہ پہچانا۔ بچوں میں سوا نیکی کے بدی کا مادہ ہوتا ہی نہیں اور بڑھ کر پیدا ہو جاتا ہے تو دنیا کی ہوا یا صحبت کے اثر یا علم کا وقت ٹل جانے یا شیطان کے بہکانے سے جتنے نبی، پیمبر، مرسل ہدایت کو آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 258

ہیں سبھوں نے رنج پر رنج اٹھائے ہیں۔ بوڑے توتے پڑھانا خدا ہی کے پڑھائے ہوؤں کا کام تھا ورنہ سب کا کام تمام تھا۔ خدا کے دوست حضرت خلیلؑ آگ میں ڈالے گئے، کلیمؑ خدا وطن سے نکالے گئے، حضرت عیسیٰؑ کو دار پر چڑھایا، نوحؑ نے طوفان کا صدمہ اٹھایا، حضرت یونسؑ کا مچھی کے تنگ و تاریک پیٹ (چلتے پھرتے قید خانے) میں بدن گھل کر بہا، حضرت ایوبؑ نے کیا کیا ظلم اٹھائے، صبر کیا کچھ منہ سے نہ کہا، حضرت زکریاؑ کا ذکر دل پر آرے چلاتا ہے، جناب یحیےٰؑ کا افسانہ پتھر پگھلاتا ہے، ہمارے نبی برحقؐ خدا کے حبیبؐ کا دندان مبارک شہید ہوا، ان کے بچوں پر ظلم شدید ہوا، حضرت آدمؑ کے زمانے سے آج تک اور آج سے قیامت تک نصیحت و فہمائش کا سلسلہ چلا آیا اور چلا جائے گا۔ اگر یہ فعل معاذ اللہ برا ہوتا یا نہ سننے اور نہ ماننے کا خیال کیا جاتا تو کاہے کو ہزاروں نبی خدا کی طرف سے آتے اور اپنی اپنی امتوں کو سمجھاتے۔ حجت خدا ختم ہوئی۔ شرط بلاغ تمام مانا اچھے رہے انجام بخیر ہوا جنت پائی نہیں اپنے پاؤں میں کلہاڑی ماری دوزخ کی جاگیر ہاتھ آئی۔ کہنے والے کو حق کا چھپانا حرام ہے اور جاننے والے کو راہ بتانا واجب۔ سبھی قسم کا خشک و تر قرآن مجید میں موجود ہے۔ عمل کرو گے پھل پاو گے، ترک کرو گے پچھتاؤ گے۔ سیدھی راہ منزل مقصد پر پہونچاتی ہے، غولوں کی ہمراہی اونچ نیچ میں ٹھوکریں کھلواتی ہے۔ کوئی عاقبت میں کسی کے کام نہیں آتا۔ یہ اک مشہور بات ہے لیکن جب غور سے اس پر نظر کی جائے تو بالکل واہیات ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص میں طرح طرح کی برائیاں اتفاقات سے جمع ہو گئیں۔ نہ گناہ سے پاک تھا نہ روز جزا کا اندیشہ۔ دغل فصل سے کماتا تھا، حرام کا لقمہ کھاتا تھا۔ دوسرے نے سمجھاتے سمجھاتے اس کی سب بری عادتیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 259

چھڑائیں، نیک راہیں دکھائیں۔ ڈرایا دھمکایا، نشیب و فراز سمجھایا، خود تکلیف اٹھائی، اس سے توبہ کرائی۔ نیک بندوں میں داخل ہوا۔ جنت کے قابل ہوا۔ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہہ ناصح عاقبت میں اس کے کام نہیں آای اور اس کا بگڑا ہوا انجام نہیں بنایا۔ دنیا میں کسی کا کسی کو سمجھانا نہ اپنے فائدے اور ناموری کے لیے ہے بلکہ دوسرے کے نفع اور بہتری کے لیے دنیا ہی مقام امتحان ہے۔ سونے کی کسوٹی پتھری ہے اور آدمی کی کسوٹی دنیا۔ جو کھرا اور پورا اترا، بازار حشر میں پہلے اسی کا سودا ہوا، جو کھوٹا تھا جہنم کی آگ میں تپایا گیا۔ جب ہم کو اتنا برا بیش بہا وقت اس کی سرکار سے عطا ہوا ہے جس کا ایک پل ہفت اقلیم کا خراج دے کر نہیں مل سکتا، کتنے بڑے افسوس کی جگہ ہے کہ ہم اس کو برے کاموں یا فضول باتوں میں گنوا دیں۔ جو کرنا ہے اسی دنیا میں، جو ہونا ہے اسی میں نصیحت ہے تو یہیں تک اور اس پر عمل ہے تو اسی دنیا تک۔ نہ مرے پر کوئی کسی کو سمجھا سکتا ہے نہ کوئی سمجھ سکتا ہے۔ پس اس وقت کی قدر آپ پر فض ہے اور ہم پر واجب۔ اتفاق سے آج کی صحبت ہے نہیں معلوم زمانہ کیا رنگ دکھائے اور انقلاب کیا گل کھلائے۔ اس کو غنیمت جانیے اور مجھے اپنا اک دن بچھڑنے والا دوست سمجھ کر میری باتوں کو گرہ میں باندھیے۔ شاید پھر ایسا دل سوز ہمدرد نہ ملے۔ قدر نعمت بعد زوال تو سبھی کرتے ہیں۔ آپ اپنی عقل و تمیز، دانائی اور قدردانی سے جیتے جی میری باتوں کی قدر کیجیے۔ نعمت تو میں آپ کو نہیں کہہ سکتی کیونکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ ہاں وہ کلمات حق ضرور اک قسم کی نعمت ہیں جو اس وقت میری زبان سے نل رہے ہیں۔ وجیہ النسا تم نے سنا کہ میں نے کیا کہا۔ میری پیاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 260
وجیہن تمہیں اور میری چاروں بہنوں کو خداوند عالم نیک توفیق دے اور تمہارا تھوڑا سا علم برے برے کام دکھائے اور کام آئے۔ دیکھو وہ وقت بہت قریب ہے کہ خدا کے حکم سے ایک نیا بادشاہ تم پر فوج کشی کرے اور تم اس کے پنجے میں گرفتار ہو کر سسرال کے مضبوط قلعے کی چار دیواری میں جاؤ۔ گو وہ جگہ نئی ہونے کی وجہ سے پہلے تمہیں بہت کچھ تنگ و دل بستہ کرے گی۔ وہی حال ہو گا جو نئے پکڑے جانور کا پنجرے میں ہوتا ہے۔ روح پھڑکے گی اور دم گھبرائے گا۔ چار طرف سے لوگ گھیرے ہوں گے لیکن صورت آشنا ان میں ایک نہ ہو گا۔ دعویٰ عزیزداری کا کریں گے لیکن ہوں گے سب غیر۔ بظاہر محبت سے چمکار چمکار کے باتیں کریں گے لیکن نگاہیں سب کی عیب جو ہوں گی۔ کوئی تمہارے قد کی مذمت کرے گا، کوئی صورت پر نام دھرے گا، کوئی ایک ایک خال پر نکتہ چینی کرے ، کوئی چوٹی دیکھ کر پھبتی کہے گا، کوئی کہے گا ہے ہے ماتھا بہت چھوٹا اور تنگ ہے، کوئی کہے گا ناک سوتواں نہیں، کوئی دانتوں کی بتیسی دیکھ کر ہونٹ لٹکائے گا، کوئی پیٹھ کے کُب پر الزام دے گا، ایک گھونگھٹ کو گھوڑے کی اندھیاری کہے گا، ایک بات نہ کرنے پر گونگی کا خطاب دے گا۔ تم ہر گز ہر گز برا نہ ماننا، نہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز تمہاری بنائی ہوئی ہے نہ تمہارے ہاتھ کا کوئی کام ہے۔ گھونگھٹ ہو یا پیٹھ کا کُب، دو روز کے لیے عاریتی ہے۔ رہی اور چیزیں وہ خدا کی بنائی ہیں، وہ خود سمجھیں گے اور اصل مطلب پر پہونچیں گے۔ اپنے منہ پر آپ تھپڑ ماریں گے۔ توبہ کریں گے اگر بندے ہو کر خدا پر نام دھریں گے خود ہی چار غیروں کے ذریعے سے بدنام ہوں گے۔ ہاں اس کی ضرور فکر کرنا کہ تمہاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 261

سیرت، خصلت، طبیعت، عادت پر نہ کوئی عیب لگائے نہ برا بتائے۔ جو بات ہو اعتدال سے، جو کام ہو سمجھداری سے۔ تمہیں ان لوگوں سے دل ملانے اور ایک ہوجانے کی سخت ضرورت ہو گی۔ اور ایکا ایکی ہیل میل اجنبیت کے باعث یا دلھناپے کے سبب سے بہت دشوار ہو گا۔ کیونکہ نہ تم ان کے مزاجوں سے واقف نہ عادتوں سے نہ طبیعتوں سے نہ خصلتوں سے۔ تمہاری اور راہ، ان کی اور راہ۔ تمہیں چاہیے کہ مائیوں بیٹھنے کے دن سے یہ قصد کر لو کہ ہم جو تھے وہ نہیں رہے۔ اچھے ہیں تو غیروں کی اطاعت کے لیے اور برے ہیں تو اپنوں کی شماتت کے لیے۔ وہ کام کیوں کریں جو انجان نام دھریں۔ بدخصلت کے لیے الزام ہے اور سعادت مند کے واسطے دعا۔ نہ تم نفس کو اپنا نفس سمجھا اور نہ مزاج کو مزاج۔ جب تم ساری پیلی کسی کی کنیزی یا اختیار میں دے ڈالی گئیں تو نفس و مزاج کہاں رہے۔ دل ہزار کہے اس کا کہا نہ کرنا۔ شیخی، غرور، مزاج داری، آن بان، غصہ، شوخی ان میں سے ایک کو منہ نہ لگانا بلکہ عاجزی، خاکساری، بردباری، تحمل، خلق، قناعت کے جوہر دکھانا۔ جھک کے چلنا، جھک کے ملنا۔ بڑا بول قاضی کا پیادہ، بری بات آبرو کی دشمن، بڑا نوالہ حلق کا دربان ہے۔ جب تم اپنے نفس کو دوسرے کا پابند کر دو گی وہ خود تم سے کام لینا چھوڑ دے گا۔ جب تم اپنا دل اور کے ہاتھ میں دے دو گی وہ آپ تم پر حکومت نہ کرے گا۔ میاں اور ساس نندوں کا اپنا کر لینا کیا دشوار ہے۔ ذرا سی توجہ درکار ہے۔ عقل سے کوئی مشکل بری نہیں۔ خرد مند کی خالی کوئی گھڑی نہیں۔ سب سے بڑھ کر بری بات یا مشکل اور کٹھن یہ ہے کہ رفتہ رفتہ بڑے بڑے زور لگانے اور تکلیف اٹھانے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 262

کے بعد تمہیں اپنا میاں کے ساتھ ایک محبت ہو گی۔ خبردار زنہار اس محبت کو حد سے نہ برھنے دینا۔ یہی محبت جب مقام معین سے برھ جاتی ہے تو بہت برے برے رنگ دکھاتی ہے۔ محبت دریا کی طرح بڑھتی اور دل آندھی کی طرح آتا ہے۔ جس سے انسان گھبرا جاتا ہے۔ دیکھو اس وقت بہت سنبھلنا۔ بس اتنی محبت کافی ہے کہ اپنی ذات سے ان کو تکلیف یا رنج نہ پہونچے۔ کوئی کام یا بات خلاف مزاج نہ گذرے۔ یہی محبت بڑھ کر تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ رات رات بھر جی جلائے گی، نیند اڑائے گی۔ تم چاہو گی کہ وہ سامنے سے دم بھر اوجھل نہ ہوں اور وہ مرد ذات کماؤ پوت، کبھی گھر میں، کبھی سفر میں، کبھی شہر میں ہیں، کبھی یار دوستوں کی لٹ بھر میں ان کی آزادی لہری بندا بنائے لئے پھرتی ہے۔ تمہاری پردہ نشینی تمہیں قید و بند کئے بیٹھی ہے۔ طرح طرح کے وہم جو بی محبت کے چیلے چاپڑ ہیں چو طرفہ سے گھیر لیتے ہیں۔ دیوانی باؤلی بنا دیتے ہیں۔ کوئی بات اچھی، کوئی خیال نیک دل میں گذرنے ہی نہیں دیتے۔ جتنے خیال آتے ہیں برے، جس قدر منصوبے بندھتے ہیں غلط، جہاں تک گمان ہوتے ہیں فاسد۔ رفتہ رفتہ یہی وہم مرض لاعلاج ہو جاتا ہے، خفقان اور اختلاج ہو جاتا ہے۔ آگے بڑھ کے جنون ہے مالیخولیا ہے، پھر دیوانگی ہے، سودا ہے۔ وہ بات کیوں کرو جو وہم کو راہ ملے اور سڑی سلطان ہونے کی نوبت پہونچے۔ ان کا خیال رکھنا مگر اعتدال کے ساتھ ، محبت کرنا مگر دیکھ بھال کے ساتھ۔ جو کہیں وہ کر دینا، جو دیں وہ لے لینا، انہیں خوش کر کے خوش رہنا، انہیں رنج نہ دینا۔ خود غم سہنا، تھوڑی شے پر قناعت اچھی ، جو بے مانگے ہاتھ آئے بہت سی، چیز دو کوڑی کی جس کے لیے ہاتھ پھیلایا جائے۔ روپے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 263

پیسے کو بےاجازت ہاتھ نہ لگانا۔ گہنے پاتے پر حرصائی بن کر جی نہ دوڑانا۔ نہ ان کے جلد آنے سے کام، نہ دیر کرنے پر الزام۔ کسی بات کا دل میں گھولوا نہ ڈالنا، زبان سے خلاف شان کوئی کلمہ نہ نکالنا۔ بات کی گتھی دل کو الجھا دیتی ہے۔ زبان بڑھ کر رتبہ گھٹا دیتی ہے۔ شکوے شکایت سے دل پھر جاتا ہے۔ زبان لڑانے سے آدمی نگاہوں سے گر جاتا ہے۔ غصہ آتے ہاتھی گھوڑے تو لگتے نہیں۔ ذرا میں آتا ہے اور برسوں کی بنی بنائی بات بگاڑ جاتا ہے۔ اس کو تھامنے والا کوئی نہیں مگر رحم جو عقل بھیج کر اسی وقت بلوا لیا جا سکتا ہے۔ اس سے غصہ یوں بھاگتا ہے جیسے آگ سے شیر یا شیر سے آدمی۔ تم غصہ کو آنے ہی نہ دینا۔ اس کی تدبیر ہے کہ نہ رحم کی جگہ خالی کرو گے نہ غصہ آئے گا۔ جس طرح اکیلے مکان میں ہوا کا گذر ہو جاتا ہے، یہی حال غصے کا بھی ہے۔ دل ہر شخص کا رقیق ہے اور مرد کے بنہ نسبت عورت کا زیادہ۔ پھر کیا ستم ہے کہ دل تو رقیق ہو اور رقت قلب کے لیے رحم لازم۔ یہاں اس کے برعکس معاملہ ہو۔ غصے کی حالت بدلتے ہی اور غیظ و غضب کم ہوتے ہی عرق شرم کی طغیانی ہو جاتی ہے۔ خطا کی ندامت لہو کے آنسو رلواتی ہے اور مہینوں آنکھ چار نہیں کی جاتی۔ وجیہ النسا تمہں جتنا رونا ہو خوف خدا میں رونا اور جتنا ہنسنا ہو اپنے میاں کی باتوں پر ہنسنا۔ طاعت سے خدا خوش ہوتا ہے اور اطاعت سے شوہر۔ اطاعت کے یہی معنی نہیں کہ کبھی کبھار پان بنا دیا، کھانا پکا کر کھلا دیا، پھٹا ادھڑا سی دیا، مزاج کا حال پوچھ لیا بلکہ یہ معنی ہیں کہ ہر حالت میں اس کی خوشی کی پابندی کی۔ اپنے لیے آپ بندا بندی کی۔ ایک پاؤں اشارے پر اٹھایا، دوسرا قدم مرضی پر رکھا۔ چاہے اپنے اوپر شاق گذرے، چاہے گراں مشکل امر ہو کہ آسان۔ وجیہ النسا بیگم یہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 264

وہی جگہ ہے کہ بے اجازت جہاں سے نکلنا نہ ملے گا۔ نام قید کا نہ ہو گا مگر قید ہو گی۔ جس کا دل زخمی ہوتا ہے وہ صید ہو گی۔ سارے گھر پر اختیار اور پھر مجبوری، پوری مالک اور پھر ادھوری۔ خدمت کرو گی اختیار پاؤ گی، حکومت کرو گی نگاہ سے گر جاؤ گی۔ نیابتاً حکومت ہو گی اور اصالتاً خدمت۔ دم مارنے کا وقت نہ ملے گا۔ سانس لی اور بےصبری کا خطاب رکھا ہوا ہے۔ ذرا جلیں اور جہنم کا جیتے جی عذاب موجود۔ الٹی سیدھی سن کر سیدھی رہنا، کبھی بات بڑھ کر نہ کہنا۔ اپنے کام سے کام اچھا نہ دوکھ اچھا نہ الزام اچھا۔ ہر شخص کے کان میں شیطان پھونک گیا ہے کہ ہم ایسے اور ہم ویسے۔ بوجھ بھار میں مدوشاہی پیسے اگر اسی گروہ میں کی تم بھی ایک ہوئیں تو بہت بڑی نیک ہوئیں۔ توبہ توبہ شیطان کی پیرو، اس کے کہنے پر چلنے والی احمق سے بھری، عقل سے خالی میری بہن تم نہ عقل پر ناز کرنا نہ ہنروں پر افتخار۔ خدائے پاک نے ایک پر دوسرے کو فضیلت دی ہے۔ ایک سے ایک کی اچھی خلقت کی ہے۔ حسن ہے تو زوال ہے، کمال ہے تو زوال ۔ پھول ہوں یا خار، خاک میں ملنے کو آئے ہیں۔ چند روزہ زندگی لائے ہیں۔ جب ہستی خود بےمدار ہے تو ہمارا تمہارا کیا اعتبار۔ جب سرا ہی کی بےبنیاد عمارت ہے تو مسافروں کے قیام کی کون سی صورت۔ عالم کو بات بات پر تغیر ہے۔ انقلاب اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ وقت جا کر پھر ہاتھ نہیں آتا۔ اگر تم قارون کا خزانہ اٹھاؤ، سر سے زمین کھودو، زمین آسمان کے قلابے ملاؤ تو بھی بچپنے کا زمانہ، بےفکری کا وقت (بادشاہی کا عالم) اب نہیں مل سکتا۔ صبح دوپہر کو نہیں آ سکتی اور دوپہر شام کو اپنی صورت نہیں دکھا سکتی۔ آج کا سا دن پھر نہ ملے گا اور نہ پھر یہ نیک وقت ہاتھ آئے گا۔ خدا کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 265

کرم سے ہم تم بہم ہیں۔ آپس کی چار صورتیں جمع ہیں۔ جس میں بعض پر گذری ہوئی یہ باتیں ہیں اور بعض پر آنے والی۔ جن پر گذر چکیں وہ اب احتیاط فرمائیں جن پر آنے والی ہیں وہ اپنے دلوں پر لکھتی جائیں۔ دنیا میں آنا عبادت کے لیے ہے۔ عبادت ایک قسم کی اطاعت کا نام ہے۔ جس میں رکوع و سجود و قعود و قیام ہے۔ یہ عبادت خدائے بےنیاز نے محض اپنی ذات پاک کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ جو خلق خدا کرتی آئی ہے۔ اب خیال کرو کہ دنیا میں آنے کا کون سا زمانہ ہے؟ وہی بچپنا، جس میں بادشاہی کے خطاب اور بےفکری کے نام سے موسوم کر چکی ہوں۔ اگر اس بےفکری کے زمانے اور بادشاہی کے وقت میں آنکھ کھولنے اور زبان چلنے کے ساتھ ہی کوئی امر واجب ہے تو وہ اطاعت ہے اور کس کی اطاعت ہے؟ اپنے ماں باپ کی۔ پھر کب تک؟ جب ان کے سایہ سے دوسرے گھر کی دھوپ میں جاؤ، وہاں شوہر کی اطاعت کا زمانہ ہے اور اس کے قدموں تلے آنکھیں بچھانا۔ یہ سرے ہی سے بندگی و فرمانبرداری کا لگا اس لیے لگا دیا ہے کہ انسان خوگر اطاعت و بندگی ہو کر اطاعت مجازی سے اطاعت حقیقی بجا لائے اور جس لیے پیدا ہوا ہے وہ کام انجام کو پہونچائے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جس چیز کی عادت ڈالو وہ پڑتی ہے۔ اس لیے یہ طریقہ اطاعت مقرر ہوا کہ طاعت خدا کی کم سنی ہی سے عادت پڑے اور تسلیم و خاکساری کی خصلت ہو۔ المختصر جو بات تم نے اپنے ماں باپ کے گھر سے میرے مکان (مکتب) تک جاری رکھی ہے اس پر لحاظ رکھنا۔ دوسرے گھر میں جا کر بھول نہ جانا۔ عقل و فراست کا منشا تو یہ ہے کہ وہاں اس کو جوہردار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں

صفحہ ۔۔۔ 266

چیز کو زیادہ کام میں لاؤ نہ یہ کہ اس کے برعکس شیخی اور برابری کی دھن میں بےوقت کا راگ گاو وجیہ النسا بیگم واجب الاطاعت شوہر کے نہال قد کی دوست جانی بن کر پھولوں کی سیج پر آرام کرنا۔ سرکشی و نخوت سے گل رخ کی دشمنی میں کانٹوں پر لوٹ لوٹ کر اپنی نیند نہ حرام کرنا۔ وہم کا لہلہاتا ہوا باغ سبز تم سے طرح طرح کے پھول چننے کو کہے گا، تم انہیں ہاتھ نہ لگانا، نگاہ بھر کہ دیکھنا۔ ورنہ کانٹوں میں الجھ جاؤ گی اور تمام عمر پچھتاؤ گی۔ مرد میں ایک قوت زیادہ ہے جو اس کی مردی کے لیے ضروری تھی، جس سے شجاعت مراد ہے۔ اگر وہی قوت کبھی تہوری کے لباس میں جلوہ گر ہو جائے اور اسے تمہارے مقابلے پر لائے، خبردار اس وقت آنکھ نہ ملانا، سامنے سے ٹل جانا۔ اگر تم نازبرداری کی خوگر اور اپنا کہا کرنے کی عادی ہو تو جس دن تمہیں زرد کپڑے پہنائے جائیں تم اس جوڑے کو بھی اتار ڈالنا۔ اس کے بدلے اطاعت، خدمت، محنت، قناعت، غیرت، مروت، محبت سات پارچہ کا خلعت اپنے لیے عقل کے ہاتھوں نکالنا۔ جس مقام پر مائیوں بیٹھو گی اکثر وہاں کوئی نہ ہو گا۔ اس تنہائی میں اپنی بھلائی کی دعا کرنا، خدا سے التجا کرنا۔ دنیا ہی کے نیک کاموں سے عاقبت بھی بخیر ہوتی ہے۔ زنہار اس خلوت کدہ میں وسوسوں کو نہ آنے دینا ورنہ انہیں کے ساتھ ساتھ شیطان بھی چلا آئے گا اور کام بگاڑ جائے گا۔ تمہیں اکیلا پا کر وہم و وسواس بہت کچھ محبت جتائیں گے، گھوم گھوم کر آئیں گے۔ تم سمجھو گی محبت سے آتے ہیں، میرا دل بہلاتے ہیں۔ وہ عداوت ہے محبت نہیں۔ خبردار ان کے کہے پر نہ آنا، میرا کہا نہ بھلانا۔ وجیہ النسا میں تم سے خوش ہوں مگر میری خوشی سے کچھ مطلب نہ نکلے گا۔ دین و دنیا کا کام میاں کی خوشی سے چلے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 267

میری بھی خوشی اسی وقت کمال کو پہونچے گی جب تمہاری سسرال والے تم سے خوش ہوں گے۔ وجیہ النسا خیال کرو کہ ایک زمانہ تمہارے بچپنے کا کا تھا، ایک وہ وقت تھا جس میں تمہارے ماں باپ نے تمہیں نام رکھا۔ ایک یہ وقت ہے کہ جو ہے تمہیں محبت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس طرح وہ دونوں وقت گذر گئے اس کی بھی عمر تمام ہے۔ اب تم اپنے ان سب خوش ہونے والوں سے نئی جگہ جاؤ گی پھر اس جگہ نئے سر سے تمہارے لیے وہ رکھا ہوا ہے جو کمسنی میں ملتا تھا۔ فرق اتنا ہے کہ وہ ماں باپ کا عطیہ تھا یہ غیروں کا تحفہ سمجھ اور عقل سے کام لینا۔ تم بخوبی جانتی ہو کچھ اوپر تین برس ہمارا تمہارا ساتھ رہا۔ بظاہر تم میں کسر نہیں۔ اچھی اور بہت اچھی۔ اگر پیٹ میں کچھ اور گن نہ بھرے ہوں ان سب کی آزمائش دوسرے گھر جانے پر موقوف ہے۔ جس کا سامان بہت جلد ہونے والا ہے۔ ہمیں الزام سے بچانا، برا نہ کہوانا۔ تمہیں ہم سے جتنی محبت ہے اس سے زیادہ ہمیں تم سے الفت ہے۔ ہم نے تو اپنی دوستداری آج ختم کر دی، کل کے دن تمہاری محبت دیکھنا ہے۔ دیکھیے تم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتی ہو یا تو تحسین آفرین کا دھرا خلعت آای یا طوق لعنت۔ دونوں میں جو چیز آئی گی ہم پر تمہارے برتاؤ کی حالت کھل جائے گی۔ یا اپنے ساتھ تم نے ہماری بھی قلعی کھلوائی، آبرو سی شے گنوائی یا کڑی جھیل کر دھائی چھولی۔ جوہر کھلے عزت بچائی۔ بچوں کے پالنے اور اٹھان اٹھانے کا طریقہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ ابتدائی تعلیم کی چار طرف دھوم ہے۔ کسی کا دل ہاتھ میں لینا مشکل ہے مگر عقل کے ذریعہ سے آسان ہے۔ انس سے مشتق انسان ہے۔ جب خودرائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 268

اور سرکشی، ہما ہمی اور زبان درازی سے بچ کر چلو گی، اپنی خواہش پر اور کی خوشی مقدم کرو گی، دوسرے کا دل ہاتھ میں آ جائے گا۔ تمہاری گرہ سے کیا جائے گا۔ نفس کشی سے آدمی صاحب تاثیر ہو جاتا ہے۔ جس طرح پارہ کشتہ ہو کر اکسیر ہو جاتا ہے جو بات خلاف شرع ہے وہ بے جا ہے جس ناموری میں گناہ ہو وہ نازیبا ہے۔ ہر گز ہر گز تم ایسا حوصلہ نہ کرنا جس کا قول و قرار ہو چکا ہے۔ ڈیل بھر میں زبان حلال ہے۔ اس کا خیال رہے، نشیب و فراز کی جانچ پڑتال رہے۔ بچوں کی محبت کی بھی ایک مقام تک حد ہے۔ اس سے زیادہ کی نہیں سند ہے۔ دیکھو اس محبت کو عقل کے زور سے روکنا ، بڑھے تو ٹوکنا۔ خواہ میاں کے ساتھ ہو یا بچوں کے ساتھ اپنی بات اپنے ہاتھ۔ اسی محبت میں جی کا زیاں ہے اور خون جگر کا نقصان۔ زبان شیریں بادشاہت کا مزہ دکھاتی ہے، چھوٹوں بڑوں کو بندہ بناتی ہے۔ اپنے فائدے کا وہیں تک خیال اچھا ہے کہ دوسرے کا نقصان نہ ہو۔ دنیا عالم اسباب ہے کبھی رنج کے سبب پیدا ہو جاتے ہیں کبھی خوشی کے سامان نظر آتے ہیں۔ نہ ان پر خدا کا بھولنا نہ ان پر پھولنا۔ ادب و تہذیب، رحم و خلق کو اربعہ عناصر بنانا، اپنے مرتبہ کی چوحدی سے باہر نہ جانا۔ خانۂ دل کی صفائی میں آنکھوں سے کام لینا، پلکوں سے جھاڑو دینا، رکھ رکھاؤ سے کام رکھنا، نہ کسی کو برا کہنا نہ نام رکھنا۔ گہنا پاتا گو زینت کا سبب ہے مگر اترا جانا برا ہے۔ تقوائے طہارت، زہد و تقدس کا زیور ہی دوسرا ہے۔ دل خانۂ خدا مشہور ہے، اس کا ادب ضرور ہے۔ جب کسی کے دل میں گھر بنانا پھر اسے نہ ستانا۔ پاک صاف دل کو یوں خدا عزت سے دیکھتاہے جس طرح کوئی اپنا گھر محبت سے دیکھتا ہے۔ دشمن اچھی بات بتائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 269

اس پر عمل کرنا تا غم فردا سے رستگار ہو۔ دوست بری بات کو کہے اس پر نہ چلنا کہ خدا کی گنہگار ہو۔ کمال میں چودھویں رات کا چاند ہونا مگر بہت اونچی ہو کر اپنی بات نہ کھولنا۔ پہلی رات کے چاند کی طرح ایسی شہرت نہ چاہنا کہ لوگ انگلیاں اٹھائیں۔ کسی کےذریعے سے الٹی چال نہ چلنا کہ بڑھتے ہوئے رتبے گھٹ جائیں۔ اپنا عیب اور کے عیب کی طرح ٹٹولنا۔ کسی کے ہنر پر اپنے ہنروں کے جوہر نہ کھولنا۔ نہ گپ چپ کے لڈو کھانا نہ بڑھ بڑھ کر زبان لڑانا۔ ہنر پر ناز نہ کرنا۔ پرہیز سے احتراز نہ کرنا۔ دوڑ چلنے سے آدمی گرتا ہے۔ بہت باتوں سے سر پھرتا ہے۔ بناؤ سنگار شوہر کو دکھانا، پہناوا اور روید اچھا رکھنا۔ آپے سے نہ گذر جانا۔ غیرت و حیا کو سہیلیاں بنانا، بےغیرتی کی ایک بات نہ ماننا۔ دل بغلی گھونسا ہے، آنکھ ایک طرح کی دشمن ہے۔ روپیہ پیسہ سانپ کا من خدا کے خوب کو دل سے نکلنے نہ دینا کہ اکیلا پا کر کوئی بری حسرت آ جائے۔ آنکھ کو جھکائے رہنا کہ اونچی ہو کر کوئی فتنہ نہ اٹھائے۔ طبیعت کو بدلنے سے بچانا اور جوانی کی دیگ کو ابلنے سے، خیر سے عافیت بخیر ہے۔ یہاں کی قید پر وہاں کی سیر ہے، نیکی ہی سے انجام بخیر ہوتا ہے اپنا اور دوست دشمن غیر ہوتا ہے۔ نیکی ساتھ جاتی ہے۔ نیکی بیڑا پار لگاتی ہے۔ دنیا مزرعۂ آخرت ہے۔ اچھے اچھے بیج بو جانا۔ عمدہ عمدہ پیڑ لگانا۔ آج ریاضت کر جاؤ گی کل اس کا پھل پاؤ گی۔ بھوت پریت سے نہ ڈرنا۔ غصے کے بھوت سے گریز کرنا۔ اکیلے گھر میں رہنے کا ارادہ نہ کرنا، طبیعت کی برائی کھل جائے گی اور طرح طرح کی دقت پیش آئے گی۔ اکیلا نہ روتا بھلا، نہ ہنستا مشہور ہے۔ گھر کو پہلے سے قبر بنانا کیا ضرور ہے۔ میاں کو ابھار کر ساس سے جدا نہ کرانا آتمہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 270

کی آنچ کو نہ بھڑکانا۔ لڑکوں کو اپنے ساتھ خود سونے نہ دینا۔ لڑکیوں کو باپ سے مانوس نہ ہونے دینا۔ نماز میں میاں کے سامنے نہ جانا آواز نہ سنانا، صورت نہ دکھانا۔ وجیہ النسا میری باتیں گرہ میں باندھو اور ان پر عمل کرنے کا خدائے پاک سے عہد کرو۔ وہی تمہارے ارادے کو پورا کرے گا۔ وہی تم کو توفیق دے نیک دے گا۔ اب میں وہ مناجات پڑھتی ہوں (جو زمانے بھر کی لڑکیوں بالیوں، بچھڑنے والیوں کی طرف سے نیابتاً میں نے کہی ہے) جس کا تمہیں بھی وظیفہ کرنا واجب ہے۔ اور ہر شعر پر آمین کہنا نہایت مناسب۔

مناجات

ہمیں نیک توفیق دے اے کریم
کہ ہے تو سمیع و بصیر و رحیم
بنا ہم غریبوں کا انجام کار
کہ ہے سب طرح کا تجھے اختیار
تری دی ہوئی عقل سے کام لیں
نہ سر پر حماقت سے الزام لیں
کریں یوں مصیبت میں خوش خوش بسر
کہ اپنوں کو شادی ہو دیکھیں اگر
تری دی ہوئی آبرو کھو نہ دیں
گنوا کر یہ موتی سی شے رو نہ دیں
شجر غم کے ہنس ہنس کے کاٹا کریں
عسل تلخ کامی کا چاٹا کریں
برے سمجھیں حرص و ہواؤ ہوس
جو مل جائے اس پر قناعت ہو بس
نہ دل میں بدی ہو نہ کینہ نہ بیر
یہ گھر صاف ہو ہو کے دکھلائے سیر
تصور برے دل میں آنے نہ پائیں
خیال اپنی وسعت دکھانے نہ پائیں
نہ وہم وسواس سے ہم کو کام
پھر سر نہ لیں مول سودائے خام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 271

طبیعت کا نقشہ بدلنے نہ دیں
ذرا نفس کا زور چلنے نہ دیں
نہ شیطان کو ہم دل پہ دیں دسترس
نہ الجھن سے دل کو بنائیں قفس
صفا یوں رکھیں شیشہِ دل کو ہم
کہ ساغر یہ ہو غیرتِ جامِ جم
کدورت سے آئے نہ اس پر غبار
کہ بھر جائے یہ جام اعجوبہ کار
کریں کبر و نخوت نہ ہم بھول کر
نہ بیٹھیں کسی رنج میں پھول کر
نہ چوری چھپے لینے کی ہوئے خو
نہ چھوٹے بڑوں سے ہوں ہم دو بدو
کوئی حرف شکوہ زباں پر نہ آئے
کوئی لفظ بےجا زباں پر نہ آئے
صدا بد کہیں بدزبانی کو ہم
سمجھ لیں برا لن ترانی کو ہم
زباں کے لڑانے کی عادت نہ ہو
کبھی حد سے بڑھنے کی جرأت نہ ہو
جہاں کی بلاؤں پہ صابر رہیں
فلک کی جفاؤں پہ شاکر رہیں
بلا سمجھیں اہل ولا کے لیے
جفا جانیں اہل وفا کے لیے
بری بات کرنے سے نفرت رہے
زباں میں ہمیشہ حلاوت رہے
نہ غصے میں ہو تلخ گوئی شعار
رہے نرمی و آشتی پر مدار
تری یاد سے ہم نہ غافل رہیں
عبادت پہ ہر وقت مائل رہیں
کبھی روئیں ہم تو ترے ڈر سے روئیں
ہنسیں گر تو آپے سے باہر نہ ہوئیں
جلائے اگر آتش رنج و غم
کریں یاد نارِ جہنم کو ہم
کسی طرح کا ہو جلاپا اگر
تو ہونے نہ دے عقلِ دل پر اثر
جو ہو مرگِ اولاد سے دل میں داغ
تو سمجھیں جلا تیرے گھر میں چراغ
نہ بھولیں تجھے بال بچوں میں ہم
ہوں مشہور کنبے کے سچوں میں ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 272

نہ چھوڑیں کبھی تیرا روزہ نماز
رکھیں گرمیِ حشر سے دل گداز
نہ دیں فکر اولاد میں غم کو طول
نہ جائیں تجھے ان کے ماتم میں بھول
نہ پیسے کے ہونے کی پہ پٹ مچائیں
نہ بےکار کی فکر میں تن گلائیں
سوال و طلب اپنا شیوہ نہ ہو
غذا ستنجا ہوئے میوہ نہ ہو
سمجھ لیں تجھے ضامن رزق جب
تو کیوں ہم کسی سے کریں کچھ طلب
نہ تر لقمے تو ہم کو ذلت کے دے
چنے دے مگر ساتھ عزت کے دے
کریں ترک باطل رہے حق سے کام
عطا کر تمیزِ حلال و حرام
حیا آنکھ میں سرمے کی جا رہے
نظر میں گنہ کا نتیجا رہے
وہ روز جزا کا کھٹکا لگا
کریں آئے دن جس سے ہم رت جگا
کسی سے برائی کی عادت نہ ہو
ہر اک نیک خو ہو بری لت نہ ہو
گنہ کوئی چھوٹا بھی سرزد نہ ہو
بلا ہم نہ ہوں بلا رد نہ ہو
نہ طوفان جوڑیں نہ غیبت کریں
نہ ہم مفتری ہوں نہ تہمت کریں
ہم اک طرح کے پیچھے آگے رہیں
بدی رونے سے دور بھاگے رہیں
ملیں جس سے کنبے میں دل سے ملیں
چنیں غیر باتوں میں وہ گل کھلیں
بہو بیٹیوں میں وہ روشن ہو نام
کہ شرمائے گردوں پہ ماہِ تمام
کچھ اس طرح حق بات کہہ جائیں ہم
کہ مر کر بھی دنیا میں رہ جائیں ہم
ہمارے کہے کے اثر کم نہ ہوں
یہ باتیں جہاں میں رہیں ہم نہ ہوں
نہ ہم ہمارے طریقے رہیں
سب اس طرز کا ہم کو موجد کہیں
اطاعت کے انداز سکھلا کے جائیں
ہم اس طرح گھر کر کے دکھلا کے جائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 273

کہیں اف نہ ماں باپ کے جبر پر
صلہ نیک لیں تجھ سے اس صبر پر
دل و جاں سے حق ان کا جانا کریں
ترے بعد بس اس کو مانا کریں
نہ شک لائیں احکام قرآن میں
نہ فرق آئے ہم سب کے ایمان میں
بِدا ہو کے جب دوسرے گھر میں جائیں
سلیقے سے سو گھر دلوں میں بنائیں
کریں شوہروں کا نہ ہم حق تلف
اطاعت سے ہو ان کی اپنا شرف
نہ بے پوچھے ان کے قدم اک اٹھائیں
نہ بے حکم ماں باپ کے گھر میں جائیں
بچائے رہیں ان کی عزت کو ہم
لٹائیں نہ ان سب کی دولت کو ہم
نہ دیں ہاتھ سے اپنی عزت کبھی
ڈھٹائی سے بدلیں نہ ہم مت کبھی
نہ نامحرموں پر کریں اک نگا
نہ ہم دین و دنیا میں ہوں رو سیاہ
سدا نقدِ عصمت بچائے رہیں
کلیجے سے یہ شے لگائے رہیں
چلیں ان کی مرضی پہ لیل و نہار
نہ نکلے زباں سے "نہیں" زنہار
کریں ان کو یوں اپنا مختار ہم
کہ مالک ہوں وہ اور نمک خوار ہم
ہوں دل سے ہماری وہ باتیں پسند
کہ منہ دیکھتی ہی رہیں ساس نند
بگڑ کر زباں کو بگڑنے نہ دیں
الجھ کر گرہ دل میں پڑنے نہ دیں
نہ تر دامنی سے ہو چشم اپنی نم
نہ سوکھے لہو خوف سے دم بدم
جو اولاد ہو صالح و نیک ہو
نہ دو چار دس پانچ ہوں ایک ہو
نہ ہوں چھپ کے بھی جرم پر ہم دلیر
رہیں فقر و فاقے میں نیت کے سیر
بجا لائیں آنکھوں سے ہم ان کے کام
نظر ان کے رخ پر رہے صبح و شام
مروت نگہ کی نگہبان ہو
حجاب اپنی آنکھوں کا دربان ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 274

کریں ان سے جب بات ہنس کر کریں
بگڑنے سے خوش ہوں نگہ سے ڈریں
وفاداریوں کے دکھائیں چلن
کریں شکریہ ان کے سرّ و علن
نہ بگڑیں نہ روٹھیں نہ غصہ دکھائیں
کبھی آنکھ پھیریں نہ تیوری چڑھائیں
رکھیں سوکھے ٹکڑوں پر تر زباں
گزی گاڑھے کا وصف ہو بر زباں
ادب سے جھکائے رہیں اپنے سر
بری ان کی حرمت ہو پیش نظر
خوشی سے کریں گھر کے سب کام کاج
نہ جھٹکیں نہ پٹکیں نہ ہوں بد مزاج
اگر دل کچھ اپنی نزاکت دکھائیں
تو ہم صبر کی سل کا پتھر لگائیں
ہر اک واں کی ایذا ہو راحت ہمیں
نظر آئے عسرت بھی عشرت ہمیں
چنے ان کی محنت کے خوش ہو کے کھائیں
غذا کی طرح ہاتھ منہ دھو کے کھائیں
ہر اک راز شوہر پہ دیں اپنی جان
نہ نام ان کا رکھیں نہ ہوں بد گمان
عزیز ان سے کپڑا نہ گہنا کریں
جو لیں دیں وہی کھایا پہنا کریں
مصیبت رہے یا فراغت رہے
ہماری مگر ایک حالت رہے
ہزار آفتیں جھیل کر جائیں ہم
نہ میکے میں اک بات دہرائیں ہم
سدا نفس کو اپنے مارا کریں
نہ شوہر کا صدمہ گوارا کریں
جواب اس کو دیں ہنس کے حسب الطلب
رہے آنکھ نیچی کریں بات جب
نہ فرمائشوں کی ہو عادت ہمیں
رہے ضد اور ہٹ سے نفرت ہمیں
نہ صورت نہ سیر پہ ہو ہم کو ناز
بہت دیکھے بھالیں نشیب و فراز
وہ ہو اپنا رکھ پت رکھا پت پہ دھیان
نہ بگڑے کبھی خواب میں بھی زبان
کسی رنج میں سامنا ہو اگر
تو شوہر کے آگے نہ ہوں ہم نڈر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 275

طبیعت کو اپنی سنبھالے رہیں
بہت اپنی حد دیکھے بھالے رہیں
ترے اور تیرے نبیؐ کے طفیل
نہ ابرو پہ بل ہو نہ تیور پہ میل
مرض ہو نہ جھک کا نہ بکواس ہو
نہ آزار ہو وہم و وسواس ہو
نہ ہم اپنے شوہر کی لیں بد دعا
حیا دین و ایمان سمجھیں سدا
تو ہی سہل کر یہ کڑا امتحاں
کہ جا پہونچیں منزل پہ ہم خستہ جاں
نہ ہے عقل کامل نہ صائب ہے رائے
تو ہی نت نئی آفتوں سے بچائے
مساوات کا ہو نہ سودا ہمیں
نہ دے خار حسرت کا پودا ہمیں
محبت سے ان کی نڈر ہوں نہ ہم
کبھی مطمئن عمر بھر ہوں نہ ہم
گرا دیں جو نظروں سے ہم کو کبھی
تو سمجھیں کہ معراج حاصل ہوئی
عتاب ان کا سمجھیں عنایت مدام
لرز جائیں جب لیں وہ غصے سے کام
رہیں سبز و تر ان کے سائے سے ہم
نہ دکھ دیں اشارے کنائے سے ہم
کبھی طعنہ مہنہ نہ ان سے کریں
ہنسی سے مریں اور خوشی سے بھریں
یہ سمجھیں دھنی ہیں نصیبے کے ہم
وہ پہونچا دیں ہم کو جو سوئے عدم
بری بدنصیبی کی ہے یہ بھی بات
کرے بعد شوہر جو بی بی وفات
وہ ہے زندگی بے حلاوت کمال
صدا جس میں خون جگر ہو حلال
نہ ہم رانڈ ہو کر جہاں میں رہیں
نہ ہم چھوت ہونے کی ایذا سہیں
نہ چوڑی نہ نہ مہندی نہ مسی سے کام
نہ صحنک نکلنے میں نے کوئی نام
جیے کیا نہ پوچھی گئی جب کہ بات
ہو بیوہ کو کیا خاک لطفِ حیات
ہے بعد اپنے شوہر کے جینا ستم
نہ ہو ہم کو بے وارثی کا الم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 276

مشیت سے تیری تو چارا نہیں
مگر ایسا جینا گوارا نہیں
تو ہے جانتا خوب بیوہ کا حال
کہ رہتی نہیں دل میں جائے ملال
خدا سہاگن اٹھانا ہمیں
نہ شوہر کا مرنا دکھانا ہمیں
کفن میں ہوں مہندی لگے اپنے ہاتھ
نہ چھوڑے مگر دیکھنے والا ساتھ
میاں پر جو آئی ہو بیوی پر آئے
تو ہی اس کو سب آفتوں سے بچائے
جہاں زندگی میں جہنم نہ ہو
مکان عیش کا خانۂ غم نہ ہو
رہے مرتے مرتے سہاگ اور راج
نہ سر پر سے اٹھ جائے سر پر کا تاج
بدل ہے قبول اپنا مرنا ہمیں
مگر رانڈ بیوہ نہ کرنا ہمیں
کریں ہم جو دار محن سے سفر
تو ہو اپنے شوہر کے پیروں پہ سر
یہ بن بیاہیوں کی مناجات ہے
جو بات ان کی رکھ لے تو کیا بات ہے
پئے روحِ پاکِ جنابِ بتولؑ
دعائیں یہ کر طاہرہ کی قبول

میرے پڑھنے میں تو سناٹا پڑا تھا۔ وہ عورتیں جن سے کسی وقت چپ بیٹھا ہی نہیں جاتا اور بکنے کے عیب کو عیب نہیں جانتیں، چپ تھیں۔ مناجات کا تمام ہونا تھا کہ ان کے بھر ہوئے دل اور ڈبڈبائی آنکھیں ابل پڑیں۔ تھراتی کانپتی آوازوں سے آمین آمین کہہ کر جو رونے لگیں تو بہتوں کی ہچکیاں بندھ گئیں اور اکثر بےہوش ہو گئیں۔ بیاہیوں اور بن بیاہیوں کا ایک عالم تھا۔ مجھے بھی جوش رقت اس قدر ہوا کہ آنسوؤں کا سہرا بندھ گیا، جس کا دیر تک تار نہ ٹوٹا اور رہ رہ کر اپنے انجام کا خیال یا خطاؤں کا ملال دل و جگر کو اس طرح دکھا جاتا تھا کہ پھر وہی محفل کا حال ہو جاتا تھا۔ بڑی دقت سے رقت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 277

کم ہوئی اور بازارِ گرم سرد۔ میں نے اٹھ کر چنگیر سے پھولوں کا ہار اٹھا کر وجیہ النسا بیگم کو پہنایا اور خدا حافظ و ناصر کہہ کر گلے سے لگایا۔ پان خاصدان سے دیا پھر تو سب نے باری باری رخصت کیا۔ وجیہ النسا کا تڑپنا اور بلبلانا ایک افسانہ ہے جس سے دل ملول ہو گا اور بات کو طول۔ خلاصہ یہ ہے کہ سارے براتی اس دولہن بننے والی کو بیچ میں لیے چار طرف سے گھیرے ہوئے دروازے پر آئے اور دوبارہ گلے لگا لگا کر سوار کرایا۔ حشمت و شوکت، دلدار و سردار کے قلق و اضطراب کی کہانی دل دکھاتی اور جگر برماتی ہے۔ کئی وقت کھانا نہ کھایا اور رو رو کر آنکھیں سجائیں۔ درحقیقت ساتھ ایسی ہی چیز ہے جس کے چھٹنے سے دل کو تاب نہیں رہتی۔ آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ تین روز میں نے ان کے دل کی بھڑاس نکلنے دی۔ چوتھے روز پڑھانے میں لگے ہاتھ میں نے یہ بھی سبق دے دیا کہ تین دن ہم نے تمہاری خاطر سے کچھ نہ کہا اب تم ہماری خاطر کرو۔ آج سے رونا دھونا موقوف کرو۔ کیا تم ہمیشہ دنیا کو ایک چال پر چلتا ہوا جانتی ہو اور انقلاب کی قائل نہیں۔ اپنی فکر کرو۔ دوسرے کے چھٹنے کا ملال اسی وقت چاہیے کہ جب ہم خود نہ چھٹنے والوں میں ہوں۔ کوئی پا برکاب ہے اور کوئی مسافر۔ تمہارے بھی پاتراب کا زمانہ بہت قریب ہے۔ یہاں سے گھر اور گھر سے پرگھر جاؤ گی۔ نہ ہمیں نہ اپنے ماں باپ کو پاؤ گی۔ اس آنے والی جدائی کا پہلے سے ماتم کر لینا۔ جب اس کی گھڑی سر پر آ جائے تو نہ رونا۔ خبردار اب آنکھوں میں آنسو نہ دیکھو۔ ہائے وائے کی آواز نہ سنوں۔ اپنے کام میں لگو، سبق یاد کرو۔ رو رو کر کب تک جل تھل بھرو گی۔ کیا ساری محنت برباد کرو گی۔ زندگی ہے تو ہزار دفعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 278

وجیہ النسا کا سامنا ہو گا۔ دنیا کے پردے کی جدائی ایسا اوٹ نہیں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب کہو گی تمہیں بھجوا دیں گے یا انہیں بلا دیں گے مگر ہم وعدہ نہیں کرتے ۔ کیونکہ اب وہ دوسرے کی تابعدار ہیں اور خود بےاختیار۔ یہی مجبوری اور بےبسی تمہارے لیے بھی آنے والی اور اپنی کمزوری دکھانے والی ہے۔ صبر سے کام لو، خدا سے دعا کرو سب کے بچھڑے وہی ملاتا ہے۔ قیدیوں کو قید سے چھڑاتا ہے۔ لڑکیاں غور سے میری باتیں سنا کیں۔ ٹھنڈی سانسیں بھرا کیں۔ جب میں نے اپنے ملال کا ذکر کیا اور عدم توجہی پر ان کو الہنہ دیا اس وقت گھبرائیں، تھرا کر زبان پر لائیں کہ استانی جی ہم سے قصور ہوا، معاف کیجیے۔ اب روئیں تو قسم لیجیے۔ یہ کہہ کر آنسو پونچھ ڈالے۔ کئی روز وجیہ النسا کی خالی جگہ دیکھ کر میرا دل بھر بھر آیا مگر ضبط کر کے رہ گئی۔ رجب میں وجیہن کے پھول کھلے، نئے نئے دوست ملے۔ آپس میں میل جول اور میاں بیوی کی موافقت کی خبر سن کر میں نے خدا کا شکر کیا اور اپنی محنت کی داد ملنے سے دل بڑھا۔ حوصلے کے ساتھ بچوں کو پڑھانا شروع کیا کیونکہ جو کچھ ہے وہ علم ہے۔ علم خدا سے ملائے، علم شیطان سے بچائے۔ علم شمشیر عقل کا صیقل ہے۔ علم انسان کے لیے جوہر اول، علم ہی کے ذریعے سے وجیہ النسا نے سسرال میں کام کیا۔ مجھے شاباشی دلوائی، اپنا نام کیا۔ بےعلم رہتیں، ماں باپ کو بدنام کرتیں۔ بے ڈھنگے پن سے کس کا گھر بھرتیں۔ میری بہنو علم سیکھو، علم سکھاؤ۔ وقت جاتا ہے جلد ہوش میں آؤ۔

رباعی

لو ہو چکی بیوی کہانی میری
لونڈی ہوں گر اک بات بھی مانی میری
قربان گئی تم سے محبت ہے مجھے
دل میں رکھو تم بھی یہ نشانی میری

تمت بالخیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 351


کھڑکی والے چوطرفہ سے آ گئے انہوں نے ایک ایک سے بکھان کرنا شروع کیا۔ ساجدہ کو غصہ آیا۔ دوڑ کر قرآن مجید اٹھا لائیں۔ جب وہ کہتے کہتے تھکیں، ذرا چپ ہوئیں۔ انہوں نے قرآن شریف ہاتھوں پر بلند کر کے کہا ۔ صاحبو یہ کلام خدا ہے اگر میں جھوٹ کہتی ہوں تو یہی کلام مجھے سے سمجھے۔ یہ بالکل جھوٹ کہتی ہیں۔ خواہ مخواہ بہو کی ابتدا سے اتنی سی بات پر دشمن ہو گئی ہیں کہ وہ گھر سے اپنی چھوٹی میں عابدہ کو برات کے روز ساتھ لائی تھیں۔ ان کو خبط نے گھیرا ہے کہ خدا نہ کرے وہ لڑکی بھابھی نے حرام سے جنوائی ہے۔ جب تو پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس خیال کو اس قدر بڑھایا کہ وہ آج تم سب کے سامنے پہاڑ بن کر آیا۔ اس بےچاری بےگناہ معصوم بچی کا جلن کے مارے ٹمکنا نام رکھا ہے۔ میں اس کلام پاک کی قسم کھاتی ہوں کہ میری بھابھی جو حوض کے پاس سر جھکائے کھڑی ہیں، طاہر ہیں، طیب ہیں، پاک ہیں، بےگناہ ہیں اور میرے میاں بھی ایسے ہی ہیں۔ انہیں اپنی ماں اور بڑی بہن کی جگہ جانتے ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں۔ یہ جھوٹی ہیں، جھوٹی ہیں، جھوٹی ہیں۔ بیگم صاحب جوتا لے کر مارنے دوڑیں۔ ساجدہ بھی کچھ اور کہا چاہتی تھیں کہ میں نے دوڑ کر منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ چار طرف سے توبہ توبہ کی آواز بلند ہوئی ۔ سب کے سب بیگم صاحب کی تعریف کرنے، مجھے برا بھلا کہتے اپنے اپنے گھر گئے۔ میں قرآن مجید اور اٹھانے والی کو لے کر جب پلٹی تو دیکھا کہ دروازے کی اوٹ میں چھوٹے بڑے مولوی صاحب بھی کھڑے ہوئے سن رہے تھے۔ سب عورتوں کا جانا تھا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 352


کہ وہ تھُڑی تھُڑی تھُڑی کرتے بیوی کے منہ پر تھوکنے کو چلے ۔ انہوں نے اس کے پہلے اپنا حربہ کیا۔ زور سے چیخ ماری پھر ایک دو ہتڑ میاں کے منہ پر یہ کہہ کر لگایا کہ ارے مردے یہ سارا فساد تیرا ہی ہے۔ نہ تو بہو کی جنبہ داری کرنا، نہ یہ نوبت پہونچتی۔ برے کی جانوں پر میرا صبر خدا کا قہر۔ یہ کہہ کے اس قدر پلٹیں کہ سر سے پاؤں تک لہو لہان ہو گئیں۔ سارے گھر کو انہوں نے گہرے گہرے زخم لگائے تھے۔ تقدیر نے انہیں کے ہاتھ سے ان کو بھی گھائل کرایا۔ یہاں تک نوبت پہونچی کہ غش آ گیا اور گریں۔ اب نہ لڑکی جاتی ہے نہ لڑکا، داماد اور میں تو دشمن ہی تھے۔ جب کوئی نہ بڑھا اور ابا جان باہر چلے گئے، میں نے دو بارہ جا کر جو دیکھا تو ان کے زمین پر پڑے رہنے سے میرا دل ہل گیا اور کلیجہ منہ کو آیا۔ رحمت اور اعجوبہ کو بلا کر ہوشیار کیا۔ پلنگ پر لٹایا، گرم پانی کراکے بدن پونچھا۔ جابجا پن کپڑا باندھا۔ جوڑا بدلا۔ بختاور اور رحمت کو وہاں چھوڑ کر میں نماز کو چلی آئی۔ نماز پڑھ کر پھر گئی۔ کئی روز الٹ پلٹ کی جب جا کر خدا خدا کر کے وہ اٹھنے بیٹھنے کے کام کی ہوئیں۔ وے مارنے یا کھڑے قد گر پڑنے سے سر میں بڑی چوٹ آئی تھی۔ الغارون خون بہا صبح کو سارا سفید سر جو بگلے کا پر تھا گل انار دیکھا۔ اس چوٹ کی وجہ سے دماغ بہت ضعیف ہو گیا۔ ایک تو بڑھاپا اس پر خون کی بربادی۔ آخر کو یہ ہو گیا تھا کہ پہروں چپ چاپ بیٹھی رہتی تھیں اور ذرا چیخ کے بات کرنے سے سر اور بھیجے میں درد ہونے لگتا تھا۔ باوجود ان باتوں کے بھی انہوں نے میرے کلیجے کو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 353


نہیں چھوڑا۔ منظور تھا کہ ہزاروں چھید بنا کر بھڑوں کا چھتا کر دیں یا دل کا غبار چھاننے کو میرے دل کی چھلنی بنائیں۔ ہاں داماد سے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے ایک ہی دفعہ کے دھمکانے سے ڈر گئیں کہ سچ مچ کہیں یہ اپنا سر نہ پھوڑ ڈالیں۔ غریب کی جورو تو میں ہی تھی اور غریب بھی کیسے جو اتنی بڑی بات سن کر منہ سے نہ بولے۔ چپ کھڑے دیکھا کئے۔ ٹال کر باہر چلے گئے۔ الٹوانسی دیکھیے کہ اس ڈھنڈھورے کا صدمہ ان کے دل پر ایسا ہوا کہ مجھ سے اور زیادہ رک گئے۔ نہ پوچھا نہ گچھا، نہ تحقیق کی نہ تصدیق۔ اب رات کو سبق بھی ہو چکتا ہے تو کمرے ہی میں پڑے رہتے ہیں۔ جب آدھی رات کے قریب میرے سو رہنے کا یقین ہو لیتا ہے تب گھر میں تشریف لاتے ہیں۔ میں نے پکڑ دھکڑ کر بڑی دقت سے آٹھ روز ساجدہ بیگم کو روکا پھر میاں کے ساتھ سسرال میں اٹھ گئیں۔ اسی آٹھ روز کے اندر بیگم صاحب نے پانچ چار مرتبہ مورچے بندی کر کے مجھ پر چڑھائی کی مگر میں اپنی صحنچی کے قلعے سے باہر نہ نکلی۔ ساجدہ کے جانے کا کوئی دوسرا یا تیسرا دن تھا کہ شہریار دولہا ان کے پٹارے صندوق لحاف، توشک، کپڑے، لتے،گٹھری، مٹھری لینے کو آئے۔ مزدور ساتھ لائے تھے سب کو ایک جگہ جمع کرنے اور باندھنے بوندھنے میں کچھ دیر ہوئی کہ بیگم صاحب لاٹھی پکڑ کر کنوئیں پر آ کر بیٹھ رہیں۔ رحمت، اعجوبہ، بختاور اور شہریار دولہا ان چاروں آدمیوں نے مل کر صندوق پکڑوا کر باہر پہونچایا۔ وہاں آدمی تھے انہوں نے مل کر مزدوروں کے سر پر رکھا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 354


وہ ادھر گئے یہ میرے پاس آئے۔ کہا کہ بھابھی بیگم نے آپ کو بندگی کہی ہے اور کہا ہے کہ جب سے آئی ہوں آنکھیں ڈھونڈھتی ہیں۔ اس قدر جی گھبراتا ہے کہ قابل بیان کے نہیں۔ آپ ہی میں ہر وقت دھیان لگا ہے۔ بچے الگ یاد آتے ہیں۔ میں ان سے یہ کہہ رہی ہوں کہ میری طرف سے سلام کہنا اور کہنا کہ بہن گھبرانے اور بےچین ہونے کی کیا بات ہے ۔ میں خدا کے فضل سے سب طرح اچھی ہوں۔ ہر وقت کے ساتھ سے دو ایک روز البتہ الجھو گی اور پھر دل لگ جائے گا۔ گھبراؤ نہیں۔ جب جی چاہے چلی آنا۔ لکڑی مارے کہیں پانی تو جدا ہوتا نہیں۔ تم بےکار کارِ رنج نہ کرو۔ ہنسی خوشی رہو۔ رفتہ رفتہ بہل جاؤ گی۔ یہ سنتے ہی بیگم صاحب نے کنوئیں کی جگت پر سے آوازہ پھینکا کہ سیئاں بھئے کتوال اب ڈر کاہے کا۔ سب کو ڈھکیل آپ ہی اکیل۔ خوب کھل کھیلو، گل چھرے اڑاؤ، دل کھول کر آنکھیں سینکو۔ ارے ہم تو جانتے ہی تھے کہ یہ جوڑ توڑ فرفند غضب کے ہیں۔ اس موئی مردی سے کہو جس کی موٹی سمجھ پر نمپبئی پردے پڑ گئے ہیں۔ ہائے کیا آنکھوں میں خاک جھونکی جاتی ہے۔ کیا ستم ہے موئے نکٹے بیغرتو، ناشاد، نامرادو، خدا تم پر اپنا قہر نازل کرے۔ اس رسوائی اور بدنامی کے بعد بھی باز نہیں آتے اور اپنی ہی کیے جاتے ہو۔ دیدوں کا پانی ڈھل گیا، غیرت اڑ گئی، شرم کو موت آ گئی۔ نہ مردے بگڑنے پر برا مانتے ہیں نہ اپنے ہتکنڈے چھوڑتے ہیں۔ میں نے ایسے دیدہ دلیل غارتی نہیں دیکھے۔ ان کی صفائیوں پر جھاڑو پھر، ان کی گرمیوں پر بجلی گرے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 355


ان کی خواہشوں پر قہر ٹوٹے، ان کی محبتوں پر آگ لگے۔ سر پر چڑھ کر ستم توڑتے ہیں۔ ڈھٹائی تو دیکھو، کان پر جوں نہیں رینگتی۔ جوان بنے ہیں پھٹ پڑیں یہ جوانیاں۔ انوکھے یہی دونوں مردے تو جوان ہیں اور کوئی دنیا میں جوان تھوڑی ہوتا ہے۔ یہ قہر اپنی جانوں پر نہیں توڑتا۔ ان کی لہلہاتی جوانیاں مٹیں، اٹھتی ہوئی امنگیں مٹی میں ملیں، انہیں ڈھائی گھڑی کی موت آئے، ان کے دل کی حسرت خاک میں مل جائے۔ میں تو سنتے سنتے ان کلمات کی عادی ہو گئی تھی، دوسرے بےغیرت تھی۔ شہریار دولہا کو جو غصہ آیا، منہ سرخ ہو گیا۔ رحمت نے جلدی سے پان دے کر انہیں گھر سے نکالا۔ بو اعجوبہ نے رونا شروع کیا۔ رحمت سر پکڑ کر رہ گئیں۔ بختاور پہلے تو سنا کی آخر کو تاب نہ لا سکی۔ پیٹتی ہوئی ان کے پاس گئی اور کہا کہ بیوی تمہاری زبان کو خدا بند کرے کیوں صبر سمیٹتی ہو۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ تمہارے مزاج کو خدا بدلے میں نے ایسے آدمی نہیں دیکھے۔ ارے یہ تم بیوی ہو ہم باندیوں سے بھی بدتر۔ تمہاری غیرت کہاں اڑ گئی۔ مرنے کے قریب آئیں، سر ہلنے لگا، ہاتھ پاؤں میں رعشہ پڑ گیا اب بھی موا غصہ کم نہیں ہوتا۔ خدا کی مار ایسے غصے پر۔ تم کو تو کیا کوسوں پھر نہ کوئی بات چیت نہ گناہ نہ قصور۔ بیٹھے بیٹھے ایک فتنہ اٹھا لیا۔ دل سے ایک بات بنا لی اور اس کا گھولو ڈال دیا۔ روز ایک نیا شوشہ چھوڑتی ہو۔ بیٹھی ہیں اپنے کونے میں، خبر سارے گھر کی۔ کیا دور سے بیٹھی شست لگاتی اور بال باندھی کوڑی اڑاتی ہو۔ اگر خدا نہ کرے (شیطان کے کان بہرے) سچ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 356


ہوتا تو نہیں معلوم کیا غضب جوتتیں۔ بیگم صاحب مجھے چھوڑ کر اس کے پیچھے لپٹ گئیں اور دھوکا دے کر اس زور و شور سے اس کے لکڑیاں ماریں کہ سارا بدن لہولہان ہوا ور سر پھٹ گیا۔ کمبخت تیورا کر گر پڑی۔ رحمت دوڑیں اور جلدی سے سر کا لہو بند کیا اس پر ہاتھ رکھا۔ اعجوبہ عابدہ کو بٹھا کر آگ لائیں، ریشم جلا کر بھرا، پھر پلنگ پر لے جا کر لٹا دیا۔ خون کی طرح سے اس کے آنسو بھی جاری تھے۔ بیگم صاحب سر پھوڑ کر خون بہتا دیکھ کر اپنے ٹھکانے پر چلی گئیں۔ یہاں دو روز برابر اسے سینکا، سہلایا، دوا درمن کی، دودھ پھٹکری پلائی، مومیائی کھلائی۔ تیسرے روز اس میں ذرا طاقت آنا تھی کہ وہ اٹھی تو باہر نکلتی ہی تھی رینگتی ہوئی چوکی پر پہونچی۔ رو رو کر سر دکھایا، اپنا حال سنایا۔ تین برقنداز اس کے ساتھ دیوڑھی پر آئے اور ایک نے (ارے مولبی صاحب ہو کہہ کر) پکارا۔ وہ وقت باپ بیٹوں کے مدرسے جانے کا تھا۔ نہ ڈیوڑھی پر کہار تھے نہ آدمی۔ اس بھیانک آواز پر میرے کان کھڑے ہوئے۔ رحمت سے کہا کہ دیکھو یہ کون گستاخ مولوی صاحب کا نام بےادبی سے لے رہا ہے۔ وہ پردے کے پان گئیں اور پوچھا کون ہے کہا کہ ہم ہیں سپائی رحمت کیوں بھائی کیا ہے کہا کہ ارے وہیں سے کاہے کاہیے چچیاوت ہو۔ مولبی صاحب کا بھیج دو۔ جمادار تھانے پر سے آئے ہیں۔ یقین ماننا کہ تھانے کا نام سنتے ہی میرے تو ہوش و حواس جاتے رہے۔ جب تک کچھ کہوں کہوں رحمت نے کہہ دیا کہ بھیا وہ تو نوکری پر سدھارتے ہیں۔ کہا اور کوؤ اور بھی گھر ماں ہے کہ ناہیں۔ (رحمت) نہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 357


بھائی مرد دجمی جم ہیں اس نے کہا کہ اس بڑھیا کو کاہے ٹھونک ڈالا۔ اس کا سر پھٹ گوا۔ اپنے گھر ماں حکومت کرت ہو، نہیں جانت ہو کہ انگریجی جمانہ ہے۔ لے ترت پھرت باہر کھٹیا بھیجو، کسی اروسی پروسی کو بلائے لیو کہ وہ لکھا جائے۔ مار بڑھیا کا بوگرانکس گوا۔ دیکھو تو کا ہوت۔ میں تو یہ سنتے ہی سناٹے میں آ کر رہ گئی اور رحمت میر روشن علی صاحب کی طرف چلیں۔ بیگم صاحب نے دور سے دیکھ کر پوچھا کہ وہاں کہاں جاتی ہے۔ کیا ہے ۔ انہوں نے جلدی جلدی سب کہہ کر کہا کہ میر صاحب کو بلانے جاتی ہوں۔ یہ سن کر آپ بو اٹھیں کہ میر صاحب آ کر کیا دونا کر لیں گے۔ کون مردا آیا ہے، میں آپ جاتی ہوں ۔ یہ کہہ کر چلیں، میں دوڑی، ہاتھ جوڑے، منت کی مگر انہوں نے ایک سماعت نہ کی۔ دروازے پر جا کر اکڑو بیٹھ کر کہا کہ کون ہے۔ برقنداز تو پردے سے ملا کھڑا ہی ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ ارے ایک بیر تو کہہ دیا گوا کہ سپاہی ہیں سپائی۔ سرکاری ملاجم۔ جس بڑھیا کے کھون نکلاہتا وہ رپٹ کہس ہے۔ تہکیکات کو آئے ہیں۔ کاہے اس غریب کو مارا۔ پران نکس جات ہو تو مجا ہوت (بیگم صاحب) مردار، حرامزادی، نمک حرام، مرنے جوگی، چڑیل، گالیاں دیتی تھی۔ خوب کیا مارا۔ کسی کے باوا کا اجارہ ہے۔ اپنا گھر ہے، اپنی لونڈی (برقنداز) لو صاحب لکھو۔ (جمعدار) آپ نے مارا (بیگم صاحب) ہاں (جمعدار) یہ آپ کی لونڈی ہے (بیگم صاحب) ہاں میری لونڈی ہے (جمعدار) کیوں مارا (بیگم صاحب) گالی دی تھی، بد زبانی کی تھی اور کیوں مارا (جمعدار) کیوں بدزبانی کی تھی۔ کیا سر پھرا تھا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 358


یا دیوانی ہو گئی تھی (بیگم صاحب) میری بلا جان، دل چل گیا تھا یا سڑن ہو گئی تھی (جمعدار) اوہو سیدھی طرح بات کا جواب دیجیے۔ کوئی خواہ مخواہ کسی کو برا بھلا نہیں کہتا۔ آپ نے کچھ کام کے لیے کہا تھا (بیگم صاحب) نہیں (جمعدار) کچھ اس سے خطا ہوئی تھی، اس پر آپ خفا ہوئیں (بیگم صاحب) نہیں (جمعدار) اس کے پہلے رات کو تو آپ نے نہیں کچھ کہا سنا تھا (بیگم صاحب) نہیں (جمعدار) کبھی اور بھی اس نے گالیاں دی تھیں (بیگم صاحب) نہیں (جمعدار) آج ہی پہل کی (بیگم صاحب) ہاں (جمعدار) بھلا گھر میں اور کون کون ہے (بیگم صاحب) رحمت ہے اعجوجہ ہے چھوچھو ہے ناشاد بہو ہے (جمعدار) ناشاد بہو کس کا نام ہے (بیگم صاحب) میری بہت ناشاد نامراد ہوئی، چمرخ آزار بھری پری زہر بھری ناگن (جمعدار) کیوں کیا وہ کبھی ہنستی نہیں یا آپ نے یہ خطاب دیا ہے (بیگم صاحب) جو چاہا ہے کیا ہے تم کون (جمعدار) جی نہیں۔ یہ میں نے اس غرض سے پوچھا کہ ناشاد نامراد بہو دنیا میں کسی کا خطاب نہیں سنا۔ نئی بات ہے۔ کیونکر نہ پوچھی جائے۔ (بیگم صاحب) ہم نے خطاب دیا ہے (جمعدار) اسی طرح سے نا جس طرح اس بڑھیا نے خواہ مخواہ آپ کو گالیاں دی تھیں یا کسی خطا پر (بیگم صاحب) ایک بات ہو تو کوئی کہے۔ ہزاروں خطائیں ہیں۔ ایک پرسوں نرسوں ہی خطا کی تھی جو یہ کھوجڑے پیٹی جل ککڑی اس کی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 359


سگی بہن بن کر طرف لینے مامی پینے اور مجھے سمجھانے کو آئی تھی۔ (جمعدار) کیا سمجھانے (بیگم صاحب) میں اپنی بہو پر خفا ہو رہی تھی کہ اس نے منع کیا (جمعدار) کاہے کو منع کیا (بیگم صاحب) میرے بکنے اور خفا ہونے کو (جمعدار) چپکے سے ، تو کیا برا کیا، خیر اچھا پھر جب آپ کو غصہ آیا اس پر اس نے کیا کہا (بیگم صاحب) روکا، مزاحم ہوئی (جمعدار) ہنس کر بہت اچھا۔ میرا سر سہی۔ پھر کیا ہوا (بیگم صاحب) پل آئی ، بھڑ پڑی۔ غصہ تو تھا ہی جب اس قدر سر چڑھی تو میں نے ڈھکیل دیا یہ کنویں پر گری اس کی لکڑی سر میں لگی۔سر پھٹ گیا (جمعدار) ابھی تو آپ کہتی تھیں اس نے گالیاں دیں اب آپ سمجھانے کو کہتی ہیں۔ دونوں میں سے سچ کون سی ہے (بیگم صاحب) دونوں سچ ہیں (جمعدار) یہ تو ممکن ہی نہیں یا اسے سچ کہیے یا اسے (بیگم صاحب) نہیں وہی سچ ہے (جمعدار) یعنی پہلے والی کہ اس نے بے سبب گالیاں دیں (بیگم صاحب) ہاں (جمعدار) گالیوں کے بعد کیا ہوا (بیگم صاحب) میں نے لکڑی ماری (جمعدار) خوب ابھی تو کنوئیں نے لکڑی ماری تھی، اب آپ نے لکڑی ماری ۔ اچھا ایک لکڑی ماری (بیگم صاحب) ہاں (جمعدار) کہاں (بیگم صاحب) سر پر (جمعدار) ہاں ٹھیک زبان بھی تو سر ہی میں ہے۔ تو ایک لکڑی ایسی پڑی کہ اس کا سارا بدن چورا ہو گیا۔ (بیگم صاحب) بدن اس کا ہمیشہ سے چکنا چور ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 360


(جمعدار) یہ کیا سدا سے یوں ہی ہے۔ (بیگم صاحب) ہاں ہاں میرا نمک پھوٹ کر نکلا ہے (جمعدار) افو۔ آپ کا نمک بہت شور ہے۔ اچھا تو میں یہی سب لکھتا ہوں اور آپ کو پیشی پر صاحب مجسٹریٹ بہادر کے اجلاس پر چلنا ہو گا (بیگم صاحب) میری بلا جائے، جس کو غرض ہو یہاں آ کر پوچھ گچھ لے۔ کچھ میں نے چوری کی ہے یا برا کام۔ یہی نا کہ لونڈی کو مارا اور لونڈی بھی کون کہ اپنی تم کوئی اجادار ہو۔ صاحب کے یہاں چلنا ہو گا۔ بڑے آئے صاحب والے۔ خدا کی شان ہم کو حکومت جتانے اور زور دکھانے چلے ہیں (جمعدار) حضرت چاہے اپنی لونڈی ہو چاہے بےگانے کی۔ آپ نے مارا کیوں اور پھر اس طرح کہ لہولہان ہو گئی۔ سارا بدن پھوٹ گیا۔ اگر مر جاتی (بیگم صاحب) مر جاتی کیا دل لگی ہے۔ مر جانا اور مر جاتی تو کیا ہوتا جوتی سے اور اب مر جائے گی تو کوئی کیا کر لے گا (جمعدار) اچھا اس تقریر سے تو کوئی کام نہیں ۔ رحمت کو بھیجیے گا گواہی لکھی جائے (بیگم صاحب) گواہی شاہدی کیسی۔ رحمت گواہی دے سکتی ہے۔ مجال پڑی ہے۔ ہمارے گھر میں رہے اور ہماری گواہی دے (جمعدار) اچھا آپ ہی بتائیے رحمت کون ہے (بیگم صاحب) بہو کی ماما (جمعدار) ہاں خوب یاد آیا۔ یہ بہو کو آپ نے کیاکہا تھا جو بختاور کو برا معلوم ہوا (بیگم صاحب) کہا کیا تھا۔ سچ کہا تھا۔ (بختاور) بالکل جھوٹ کہا تھا۔ اسی پر تو مجھے اور زیادہ آگ لگی (جمعدار) بختاور سے۔ تم چپ رہو(بیگم صاحب وہ سچ ہی سہی مگر کچھ کہیے تو کیا کہا تھا (بیگم صاحب) خدا اسے غارت کرے اس نے میری بیٹی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 101

کو گاؤں گائیں سے کیا علاقہ۔ اس کے علاوہ وہ گاؤں اس خدمت کا صلہ ہے جو مسند قضا پر بیٹھ کر بجا لائی جاتی تھی مور ضعیف سے کہیں پہاڑ کا بوجھ اٹھا ہے۔ بھلا میں اور وہ عہدہ گو وہ خدمت اب آپ سے متعلق نہیں اور نوابی جا چکی لیکن پھر بھی خلق خدا کے ہزاروں کام آپ سے نکلتے ہیں تو کیا بعد آپ کے دشمنوں کے میں بھی ان کاموں کے انصرام کی قابلیت رکھتی ہوں نہ نماز پڑھا سکتی ہوں نہ مسئلہ بتا سکتی ہوں۔ دروازے پر جنازہ رکھتا ہے اور مرا مردہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔ نہ جمعہ جماعت کے قابل نہ وعظ نصیحت کے لائق۔ پھر لے کے کیا کروں۔ اس کے سوا جب مجھے اپنی زندگی پر خود ہی اعتبار نہیں ہےاور بعینہ مثل آپ کے میرا حال بھی یہی ہے۔ سن تمام ہونے کو آیا۔ دنیا کی سیر ختم ہو گئی۔ نہ جوانی ہے نہ بچپنا۔ دونوں مرحلے گزر گئے۔ پھر باقی کیا رہا بڑھاپا۔ اس کو آئے بھی مدت گزر گئی۔ میری آپ کی عمر میں کچھ یوں ہی سا فرق ہے۔ دو یا ڈیڑھ برس کا چھوٹاپا یا بڑھاپا ہو گا۔ اباجان کی شادی کے بعد آپ پیدا ہوئےہیں۔ یہی ہمارے گھر میں دہری شادی تھی۔ یہ عذر بھی فقط آپ کے خیال کے بموجب میں نے پیش کئے ورنہ اصل یہ ہے کہ کسی عمر کے انسان کو اپنی زندگی پر بھروسہ نہیں۔ مجھے آپ نے کیونکر زندہ جاوید سمجھ لیا۔ ہزاروں غنچے بے کھلے مرجھا گئے ہیں۔ ہزاروں بچے بے پروان چڑھے موت کے پنجے میں آ گئے ہیں۔سینکڑوں لہلہاتے پھول خزاں کے ایک ہی جھونکے میں ہوا ہو گئے ہیں اور ہزاروں جوان معقول بڑھتے بڑھتے دفعتاً فنا ہو گئے ہیں ۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ پہلے میرا ہی جانا ٹہرا ہے۔ (مولوی صاحب) فاطمہ بیگم تمہاری ساری تقریر گو کہ صحیح ہے مگر میں اس کو نہیں سن سکتا، کہنا تمہارے اختیار میں ہے اور عمل کرنا میرے بس میں ہے۔ حق سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اپنے ارادہ کو کل ان شاءاللہ

ریختہ صفحہ 102
ضرور پورا کروں گا۔ پھر تمہیں اختیار ہے چاہے خود لو چاہے کسی کو دے دو۔ (استانی جی) چچا جان میرا تو کوئی جھوٹوں بھی اپنا نہیں۔ جو کچھ ہے اللہ رکھے طاہرہ ہے۔ لڑکی سمجھئیے لڑکا سمجھئیے اس کے سوا نہ کوئی میرا ہے نہ میں کسی کی ہوں۔(مولوی صاحب) ہاں سچ ہے۔ اس میں کسی کو کلام ہی کیا ہے۔ پھر اگر تم نہ لو طاہرہ بیگم کے نام اس کا کاغذ کرا دو۔ (استانی جی) یہ بات آپ نے البتہ میرے دل کی فرمائی۔ مولوی صاحب یہ سن کر مسکرا دئیے اور کہا کہ بہت بڑا مرحلہ اس وقت طے ہو گیا۔ لو اب میں جاتا ہوں۔ بیوی نے سلام کیا۔ وہ رخصت ہو کر باہر سدھارے۔ میں نے جا کر کھانا بھیجا۔ رات گذری صبح سویرے مولوی صاحب کا آدمی آیا، نانا جان گئے۔ راحت نگر کا خاغذ میرے نام ہو گیا۔ اباجان اس کا انتظام کرنے لگے۔ سال قریب ختم تھا۔ اٹھنّی باقی تھی کارندہ ہوشیار۔ پہلے تو اس نے بڑے داؤ پیچ کئے اڑنگے مارے۔ اباجان نے رفتہ رفتہ اس کے ہاتھ سے سب کام نکال لیا اور روپیہ وصول کر کے حساب سمجھا۔ سال تمامی کا کاغذ دستخط کرنے کو میرے پاس بھیجا۔ میں وہ کاغذ لئے ہوئے ان کے پاس چلی گئی اور کہا کہ حضرت آپ ہر طرح مالک اور مختار ہیں۔ میرے دستخط کی کیا ضرورت ہے۔ انھوں نے ہر گز نہ مانا۔ شاید مولوی صاحب میرے ہی دستخط کے منتظر تھے ادھر میں نے نام لکھ کر کاغذ ہاتھ سے رکھا ہے کہ خدا بخش روتا پیٹتا آیا ۔ اباجان گھبرائے ہوئے باہر گئے ۔ پوچھا معلوم ہوا کہ شب کو ایک مرتبہ مولوی صاحب نے جی برا کیا۔ صبح کو کہیں ایسا درد اٹھا کہ دوپہر ہوتے ہوتے انتقال کر گئے۔ مولوی کمال الدین صاحب کے گھرانے میں یہی حضرت باقی تھے ۔ بعد ان کے ان کے گھر کا چراغ گُل تھا۔ لیکن استانی صاحبہ کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا۔ہاں کچھ دیر چپ رہیں۔ اباجان اور نواب صاحب ادھر گئے۔

ریختہ صفحہ 103
وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مولوی صاحب اباجان کے نام وصیت کر گئے ہیں۔ اور خدا بخش سے( جو ان کا پرانا خدمگار اور رازدار تھا) فرما گئے تھے کہ پہلے نواب دولہا صاحب کو لانا کاغذ دینا جو وہ کہیں اس پر عمل کرنا۔ دفن کے بعد جب اباجان آئے تو وہ کاغذ میں نے بھی دیکھا لکھا تھا کہ نواب دولھا صاحب میرے یہ چار پانچ آخری کام ہیں ۔ اس کے بعد پھر میں آپ کو تکلیف نہ دوں گا۔ مجھے میرے بزرگوں کے پہلو میں دفن کیجئیے گا۔ قبر کو پختہ نہ کرئیے گا۔کوئی تاریخ اس پر نہ لگائیے گا۔ مکان باغ دکانیں سب طاہرہ بیگم کو دیجئیے گا۔ ہبہ نامہ میری جا نماز میں ہے۔ جس کو میں امتحان قران مجید کے روز سے لکھ چکا ہوں۔ تیجہ چالیسواں اور ان کے درمیان و بعد کی تقریبوں میں پہلے قران خوانی ہو پھر ذکر رسول و آل رسول فاتحہ ہو یا درود خلاف شرع شریف نہ ہو۔ خدا بخش کو خدمت میں رکھئیے گا ۔ اس کاغذ کو پڑھ کر مجھے رونا آ گیا۔ اور یاد آیا کہ چار روز ادھر مولوی صاحب یہیں بیٹھے ہوئے مسکرا مسکرا کر میرا قران مجید سن رہے تھے۔ آج منوں مٹی کے نیچے دبے پڑے ہیں۔ ہائے دنیا کی بے ثباتی اور ہماری غفلت اور کم التفاتی نواں برس میرے لئے بڑا رنج و ملال کا سبب ہوا۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا مولوی صاحب کے لئے دعائے خیر و اعمال نیک کئے۔ حالانکہ وہ معصوم صفت فرشتہ خصلت تھے ۔ نہ انھیں میری دعا کی ضرورت تھی نہ استغفار کی حاجت۔ لیکن آدمی کو آدمیت فرض ہے۔ اور کچھ نہ ہوا ہو گا ، ان کے مرتبہ ہی میں ترقی ہو گئی ہو گی۔ دنیا میں تو کسی قسم کی نیکی مجھ سے ان کے ساتھ نہ ہوسکی تھی بلکہ اس کے برعکس معاملہ تھا ۔ اب بے روپے پیسے کا سلوک یا احسان کرنا اور خالی زبان ہلانا کیا ایسا دشوار امر تھا جو دریغ کیا جاتا۔ کئی قران بخشے

ریختہ صفحہ 104
نمازیں پڑھیں۔ انھیں کی جائداد سے خیرات کی صدقہ کیا۔ مجلسیں کیں۔ چالیسویں کی تقریب میں ان کے بہت سے شاگرد آئے جن میں دو چار مالدار بھی تھے۔ انھوں نے مقبرہ بنوانا چاہا۔ اباجان نے ان کا فرمان دکھایا۔ خلاف وصیت ہونے سے سب چپ ہوئے۔ جب قبر پکی کرنے کی اجازت نہ تھی تو مقبرہ کیسا۔ کئی روز مہمان رہ کر آگے پیچھے رخصت ہوئے۔ کنوار کے ہلکے ہلکے گلابی جاڑوں میں لال بخار پھیلا اور کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں وہ گیا نہ ہو۔ کوئی آدمی ایسا نہ تھا جسے نہ آیا ہو۔ ہمارے ہاں بھی اپنی باری سے آیا اور دو دو چار چار آدمی ایک ہی دفعہ ماندے ہوئے۔ مجھے اور استانی جی کو جمعہ کے دن بخار چڑھا دوپہر کو نماز پڑھتے پڑھتے وہ لوٹ پوٹ ہوئیں۔ انھیں بیٹھی ہوئی دبا رہی تھی کہ میرے ہاتھ پاؤں ٹوٹنا شروع ہوئے پہلے بند بند دکھا سنسنی اٹھی۔ پھر جُھر جھری معلوم ہوئی۔ سردی لگی۔ آخر کو کلیجہ تھرتھرانے لگا۔ پھر اس قدر کپکپی بڑھی کہ سارا بدن ٹوٹ گیا۔تھیلے میں ہڈیاں بھری معلوم ہوتی تھیں۔ کوٹھے سے اترنا دشوار ہوا۔ گرمی کے باعث سے جاڑوں کی چیزیں مچانوں پر یا صندوقوں میں تھیں۔ وہاں دھرا کیا تھا جو اوڑھ لیتی۔ اس خیال سے کانپتی تھرتھراتی نیچے اتری ۔ مگر معاذ اللہ اتنی ہی دیر میں قریب تھا کہ دم نکل جائے۔ لرزے نے بھونچال کی صورت دکھا دی۔ گرتی پڑتی صحنچی کے قریب پہنچ کر بوا رحمت کو آواز دی کہ جلدی دوڑو میں گرتی ہوں۔ وہ ننگے پاؤں ٹھوکریں کھاتی آئیں۔ بغلوں میں ہاتھ دے کر سنبھالا۔ بوا اعجوبہ نے دیکھا وہ دوڑ پڑیں۔ دونوں نے داہنے باہنے سہارا لگایا۔ خیراتن نے جب تک بچھونا کیا میں لڑکھڑاتی وہاں تک پہنچی اور کچھ جلدی اوڑھاؤ کہہ کر سمٹ سمٹا کے لیٹی۔ سردی کے مارے

ریختہ صفحہ 105
پیٹ سے گھٹنے لگا کر گولا لاٹھی ہو گئی۔ لیکن میرے کانپنے سے بوا رحمت اچھل اچھل پڑتی تھیں۔ جو جس کو گرا پڑا ملا اس نے چڑھانا شروع کیا۔ کوئی دُھسّا ڈال گیا۔ کوئی کمبل۔ ایک بوغ بند اوڑھا گیا۔ ایک قالین۔ اماں جان نے جو اپنے کمرے میں سے یہ دوڑ دھوپ دیکھی گھبرا کے پوچھا کہ ارے خیر تو ہے۔ یہ گھر بھر کے بچھونے کیوں اٹھائے جاتے ہیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ چھوٹی بیگم کے دشمنوں کو بڑی شدت سے جاڑے کا بخار آیا ہے۔ وہ جلدی سے کوٹھری میں گئیں ۔ ماماؤں کو بلا کر مچان پر سے لحافوں کا گٹھر اتار۔ گھبرائی ہوئی کمرے میں یہ کہتی آئیں کہ ارے یہاں کیوں لٹا دیا۔ رحمت نے کہا کہ حضور ان کے دشمنوں سے چلا تو جاتا نہ تھا پھر کیا کرتے۔یہ سن کر وہ پلنگ پر آئیں۔ مجھ پر غالیچہ اور کمبل لدا ہوا دیکھ کر خفا ہونے لگیں کہ دیوانیو تم ذرا میں بوکھلا کیوں جاتی ہو۔ سامنے مچانوں پر لحافوں کا انبار لگا ہے۔ زمانے بھر کا آخور لے کر میری بچی پر ڈال دیا۔میں ابھی یہ سب باتیں سنتی ہوں اور دل اسی طرح کلیجے کے ساتھ کانپ رہا ہے۔ انھوں نے وہ سب چیزیں ہٹا کر تلے اوپر دھسے پر دو کمبل ڈالے اور سب طرف سے دبا کر بیٹھیں۔ تھوڑی دیر میں وہ سردی خدا خدا کر کے کم ہوئی میں نے اماں جان سے کہا کہ نہیں معلوم استانی جی کے پاس کوئی ہے یا اکیلی ہیں۔ کہا کیوں۔ میں نے کہا کہ انھیں بھی بڑی شدت سے تپ چڑھی ہے۔ اے ہاں میری اماں جان میں آپ پر سے قربان، ایک لحاف کوٹھے پر بھی بھیج دیجئیے۔ استانی جی پر بھی یہی الا بلا پڑی ہے۔ بے روئی دار کپڑے کے جاڑا نہ جائے گا۔ کسی سے کہئیے کہ ہر وقت ان کے پاس رہے۔ میری ساری جان ان میں لگی ہے۔ اماں جان نے اسی وقت اپنا لحاف نکلوا کر کہا کہ جاؤ استانی جی کو اوڑھاؤ اور ایک آدمی وہیں رہے۔ خبردار جو انھیں اکیلا چھوڑا

ریختہ صفحہ 106
میں اسی کی منتظر تھی۔ یہ سنتے ہی میری آنکھ بند ہو گئی اور ایسی غفلت آئی کہ پھر مجھےاپنے تن بدن کی خبر نہ رہی۔ تیسرے روز بخار کا زور کم ہوا۔ نہیں معلوم نماز کیونکر پڑھی اور کس نے پڑھوائی۔ چوکی پر کون لے گیا۔ پہرا کس نے دیا خبر کس نے لی راحت کس نے دی اماں جان بے چری ہم دونوں کے الٹ پلٹ رکھ رکھاؤ دوا درمن آگے تاگے میں ایسے پھنسیں کہ ان کی عادتوں میں فرق آ گیا۔ خلاف وقت کھانے اور رات بھر جاگنے سے بالکل پست ہو گئیں۔ آخر کو ایذا نہ سہہ سکیں۔ ان کے برا چاہنے والے بھی پڑ گئے۔ چوتھے روز جب میں چھی طرح سنبھلی تو لیٹے لیٹے پیٹھ دکھنے لگی تھی۔ پسلیوں میں درد تھا۔ چاہا کہ اٹھوں۔ بوا رحمت اور اعجوبہ نے مل کر اٹھایا۔ گاؤ سے لگ کر بیٹھی۔ دیر تک یہ لوگ دھر ادھر کی باتیں کیا کئے۔ استانی جی کی خبر پوچھی۔ کہا کہ اچھی ہیں۔ بخار اتر چلا ہے۔نہ وہ غفلت ہے نہ حالت۔ کم کم حرارت ہے۔ میں نے کہا کسی طرح مجھے اس کے پاس لے چلو۔ سب نے کہا کہ واہ بیوی بیگم صاحب سنیں گی تو مار ہی ڈالیں گی۔ ہمیں اپنا سر کورے استرے سے منڈوانا منظور نہیں۔ ایک تو یونہی بخار سے سب بال اتر رہے ہیں آپ چھیلا بھونا کسیرو بنانا چاہتی ہیں۔ دائی بندی میں نہ حال ہے نہ طاقت۔ خدا نہ کرے چوٹ چپیٹ لگ جائے یا حرج سے بخار بڑھ جائے تو ہم کیا منہ دکھائیں گے۔کیونکر جواب دہی کریں گے۔ یہ تو ہم سے نہ ہو گا اور جو کہئیے بجا لائیں۔ آج ان کے بیریوں کی طبیعت کچھ سست ہے۔ اس سئ لیٹی ہوئی ہیں۔ نہیں تو اب تک چار پھیرے کر گئیں ہوتیں۔ ان کی تلملاہٹ دیکھی تھوڑی جاتی تھی۔ وہ تو یہ کہئیے کہ خدا نے فضل کیا آپ نے آنکھ کھولی بات کی ان کے دل کو قرار آ گیا۔ تین دن برابر پلک سے پلک تو انھوں نے لگائی نہیں۔ کوٹھے سے

ریختہ صفحہ 107
یہاں آتی تھیں۔ یہاں سے کوٹھے پر جاتی تھیں۔ خدا ان کو اچھا رکھے۔ ہمیں تو کھٹکا ہے کہ ان کے دشمن کہیں لت پت نہ ہو جائیں۔ بوا رحمت یوں مجھے بہلا رہی ہیں کہ ایک ماما نے بے تحاشہ کہہ دیا کہ بیگم صاحب کو وہ بخار چڑھا ہے کہ چنے ڈالو تو بھن جائیں۔ (رحمت) بوا ابھی تو میں وہاں سے آئی ہوں۔ خدا نہ کرے اور منہ پھیر کر اشارے سے منع کیا۔ وہ کچھ گھبرا کر کہنے لگی کہ جی ہاں نہیں وہ تو اچھی ہیں۔ خیراتن البتہ کل سے گری ہیں۔میں نے کہا کہ اماں جان کہاں ہیں۔کہا حضور مجھے نہیں معلوم۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے آڑ میں ہو گئیں۔ میں سب سمجھی اور پیشاب کو اٹھی۔ وہاں سے اماں جان کے کمرے کا رُخ کیااب بوا رحمت کا کچھ زور نہ چلا۔ مجبور ہو گئیں اور بازو تھامے وہاں تک لائیں۔ جب میں پہنچی تو دیکھا کہ بھینسوں بخار چڑھا پڑی ہلہلا رہی ہیں۔ دو آدمی دو طرف سے دبائے بیٹھے ہیں۔جن میں سے نورن کا منہ تمتمایا ہوا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسے بھی بخار چڑھ آیا۔ ایک آدمی رہ گیا۔ وہ اٹھ گئی۔ میں جا بیٹھی اور پاؤں دبانے لگی۔ بوا رحمت اپنی صحنچی میں گئیں ۔ بخار چمٹ گیا۔ اعجوبہ کوٹھری سے اناج نکال کے لائیں۔ دال دھونے کو مٹکے سے پانی لینے گئیں۔ ہاتھ ڈالنا تھا کہ سردی معلوم ہوئی۔ سب چھوڑ چھاڑ اوڑھ لپیٹ کے لیٹ رہیں۔ محمدی خانم وضو کر رہی تھیں کہ پانی نے کاٹا۔ جب تک اٹھیں بخار نے پچھاڑ دیا۔ ایک گرا دوسرا گرا اس کی خبر آئی اس کی دردی سنی۔ دو روز میں سارا گھر جنگل اور گھر والے شیر ہو گئے۔ اب اپنی اپنی جان کی پڑی ہے۔ ایک ایک پڑا اچھل رہا ہے ۔ کوئی روکنے تھامنے والا نہیں۔ آپ ہی اچھلتے ہیں آپ ہی گرتے ہیں۔ تمام گھر کا گڑگودڑ تقسیم ہو گیا۔ باہر کے آدمی آ کر سب کو برابر لٹا کر دریاں چاندنیاں اوڑھا گئے۔ سردی تو کم ہوئی

ریختہ صفحہ 108
مگر ایک ایک بیمار کے لئے ایک ایک خبر گیر چاہئیے تھا۔وہ کہاں۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ پیاس سے حلق میں کانٹے پڑ گئے۔ نہ خود ہلا جاتا ہے نہ کوئی اور پانی ٹپکانے والا ہے۔ جو ہے وہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ جو ہے بے آگ جل رہا ہے۔ نفسی نفسی کا عالم ایک ایک کو جان دوبھر زندگی دشوار غفلت میں پیشاب نکل نکل گیا۔سارا گھر قلتین بنا۔ نانا جان ما شاء اللہ اچھے تھے ایک ایک کو دیکھتے بھالتے پھرتے تھے۔ آدمیوں سے کہا کہ سارا گھر ایک سرے سے بیمار ہو گیا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔ جہاں سے بنے مامائیں لاؤ۔ وہ دو چار گھڑی بعد ہاتھ جھلاتے چلے آئے۔ کہا کہ حضور مامائیں تو نہیں ملتیں۔ تمام شہر میں بخار نے زور باندھ رکھا ہے۔ اس کے ڈر کے مارے کوئی نہیں نکلتا۔ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ایک دو اس بلا میں مبتلا نہ ہوں۔ جو بچے ہیں وہ ان کی تیمارداری میں ہیں۔ سانس تک تو لے نہیں سکتے، نوکری کون کرے۔ باری باری ایک ایک جاتا ہے اور خالی پلٹ آتا ہے۔ مولوی صاحب کے آدمی خدا بخش نے کہا کہ حضور مجھے تو ایک ماما ملتی تھی میں خود نہیں لایا۔(ناناجان) رے بھائی کیوں۔ کہا کہ میں نے اس سے پوچھاا کہ تجھے بخار تو نہیں آیا۔ اس نے سر ہلایا۔ میں نے سوچا کہ نہیں آیا ہے تو اب ضرور آئے گا۔ ایسا نہ ہو کہ کام لینے کے عوض کام دینا پڑے۔ دوسرے ایک اکیلی اتنے بیماروں کی کیا خبر لے سکتی ہے۔ نانا جان نے فرمایا کہ بھئی اسی طرح کوئی اور مل جاتی۔ تمہاری انجام بینی نے اور ستم ڈھایا۔ بندہ ء خدا جاؤ بھی جلدی لاؤ ۔ جیسا کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔ اس وقت تو ایک سہارا ہو جائاے گا۔ جب تک وہ بیمار پڑے گی ایک آدھ لوٹ پوٹ کے اٹھ کھڑا ہو گا۔ وہ بیچارا پھر دوڑا گیا اور آ کر کہا کہ لیجئیے حضور جو میں نے عرض کیا تھا وہی ہوا نا۔ اب جو جا کر پکارتا ہوں تو کوئی خبر نہیں ہوتا۔ دن کو رات کا سا

ریختہ صفحہ 109
سناٹا پڑا ہے۔دروازے کو جو ٹھیلا، کھل گیا۔ اندر گیا دیکھا تو گوڈر میں گلہری کی طرح کھیل رہی ہے۔ اوڑھا لپیٹ کر دبکا آیا۔ جب اچھلنا کودنا کم ہوا وہ یہ سن کر افسوس کرتے اندر آئے اپنے ہاتھ سے جو پانی انڈیلنے لگے سبودان پر سے ٹھلیا زمین پر آ رہی۔ سر سے پاؤں تک چھینٹیں پڑیں۔ طہارت مزاج میں بہت تھی اور وہ جگہ ان کے نزدیک نجس۔ نہیں معلوم پانی پیا بھی کہ نہیں ، باہر جا کر لنگی باندھ جھٹ حوض میں کود پڑے۔ غوطہ مار کر جو نکلے تو بخار موجود تھا۔ افیمی ذرا پانی سے بہت ہچکچاتے ہیں لیکن وہ نماز وہ طہارت کے بڑے پابند تھے۔ وہی ان بیماروں کے ایک سہارا تھے۔ ان کو بھی بخار نے نہ چھوڑا۔اب تو قیامت ہی کا سامنا تھا۔ خدا بخش نے چہرے سے پہچانا کہ یہ سرخی بے وجہ نہیں۔ سرکار کچھ رنگ لایا چاہتے ہیں۔ حرارہ لانے کا یقین ہونا تھا کہ آگ سے بھر کر دو طرف دو انگیٹھیاں رکھ دیں۔ کمرے کے دروازے بند کئے۔ موٹے توے کی چلم بھر کر پیچوان لا کر لگا دیا۔ پنکھے پر سے دُھسا مالیدہ کا لا کر پیروں پر ڈالا۔ بدن پونچھ کر جلدی جلدی کپڑے بدلوائے۔ بھلا توبہ ان تدبیروں سے بخار کہیں رکنے والا تھا۔ نام خدا مرد تھے اور مرد بھی بہادر۔ بڑی دیر تک ٹالا پھر ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے کے خیال سے جیسے ہی پلنگ پر لیٹے کہ اس نے قابو پا لیا۔ اللہ دے اور بندہ لے اس شدت سے بخار چڑھا کہ دور دور گرم انجروں کی آنچ آتی تھی۔ غفلت ہذیان ہاتھ پاؤں ٹوٹنا سر کا درد ایک بات ہو تو سہار ہو سکے ۔ باہر ہر وقت مردانہ رہتا تھا سب نے مل کر الٹ پلٹ کی ۔ دوسرے روز آنکھ کھولی مگر آٹھ پہر کے بخار میں پلنگ سے اترنے کے کام کے نہ رہے۔ ان کو بخار آئے دوسرا دن تھا اور مجھے ساتواں روز کہ گاؤں پر

ریختہ صفحہ 110
سے اباجان کی علالت کا خط آیا۔ میرا رینگنا تھا کہ گرے پڑوں کی خبرگیری مجھ سے متعلق ہوئی۔ ان کا آگا تاگا لے کر استانی جی کی یاد آئی۔ طاقت نہ ہونے سے گر پڑنے کا خیال تھا لیکن تمنائے زیارت اور آرزؤئے خدمت لونڈی باندی کی طرح دونوں طرف سے سنبھال کر مجھے کوٹھے پر لے گئی۔ جا کر دیکھا تو بخار تو دھیما تھا مگر غفلت سے آنکھوں پر ویسے ہی جھپان پڑے تھے۔ تن بدن کی خبر نہ تھی۔ خدا کی قدرت تھی کہ رات دن میں خیراتن یا اعجوبہ اس قابل ہو جاتی تھیں کہ کھسک کھسکا کر ان کے پاس جاتیں ار نماز کو اٹھا بٹھاتی تھیں۔ کبھی خود بیوی ہی کی آںکھ کھل جاتی تھی۔ نماز قضا نہیں ہونے پائی۔ دیر سویر البتہ ہو گئی۔ آج میں نے نماز ظہر کو اٹھایا ار سات سلام پڑھ کر دم کئے۔ ان کی محبت میں ان آیات کا یاد آنا تھا کہ پھر تو میں نے سب کے اوپر پڑھنا واجب کر لیا۔ ان کی برکت اور تاثیر سے وہ غفلت بھی اتری اور تپ بھی کم ہوئی۔ مجھے نسخہ ہاتھ لگا جس پر تین دفعہ پڑھی وہ سنبھل گیا۔ پڑے پڑے اٹھ بیٹھا۔آٹھویں دن استانی جی بھی اس لائق ہو گئیں کہ سہارے سے کچھ دیر بیٹھیں۔ ایک آدھ بات کی، پان کھایا اپنے پاؤں سے پیشاب کو گئیں۔ تیمم کر کے تھوڑا سا قران شریف پڑھا۔ وظیفہ ناغہ ہونے کا بڑا صدمہ تھا۔ غفلت برطرف ہوتے ہی تسبیح ہاتھ میں آئی۔ استغفار شروع کی۔ تسبیحات اربعہ اور درود شریف اس کثرت سے پڑھتی تھیں کہ گنتی نہ ہو سکتی تھی۔ چھٹے ساتویں آٹھویں دن اپنی اپنی مدت بیماری ختم کر کے سب سنبھلے۔ پہلے رینگے کھسکے بیٹھے پھر اٹھ کر چلنے پھرنے لگے۔ آخر کو اپنے کام میں مشغول ہوئے۔ محل میں سب کا اچھا ہونا تھا کہ باہر والوں کو بخار نے پکڑا۔ یہ الٹی چال تھی۔ باہر سے اندر آتا ووہ پہلے گھر میں آیا۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 361


کے سر کا تاج چھینا۔ اس کے میاں سے محبت بڑھائی۔ آفت توڑی (جمعدار) توبہ توبہ یہ کہیے اسی پر آپ کو غصہ آیا تو آپ کا حق بجانب ہے۔ ہاں بہو آپ کی ہیں کس گھرانے سے ؟ (بیگم صاحب) جی بڑے لمبے گھرانے کی، جو تاڑ سے بھی سوا ہاتھ اونچا ہے (جمعدار) آخر کون (بیگم صاحب) جی نواب مرزا سبحان اللہ خان صاحب بہادر (جمعدار) ارے رے رے تو تو آپ بالکل غلط کہتی ہیں۔ سیداے دیکھیے نام بھول گیا، صادق صاحب کی صاحبزادی تو نہیں (بیگم صاحب) ہاں ہاں (جمعدار) بس بس معلوم ہوا کہ آپ کو خلل دماغ ہے (بیگم صاحب) میرے دشمنوں کو خلل دماغ ہو تمہیں ہے (جمعدار) پھر اور کیا کہا جائے آپ جھوٹ تہمت لگاتی ہیں اور غلط بتاتی ہیں۔ یہ سنتے ہی میری جان میں جان آئی۔ رحمت سے کہا کہ لو یہ پان لے جاؤ اور کہو کہ آپ زیادہ تکلیف نہ کیجیے۔ حال تو معلوم ہی ہو گیا ہے۔ بختاور کو اندر بھیج کر اپنی چوکی پر جائیے۔ ہم کسی مرد کو آپ کے ہاں بھیج دیں گے اور چپکے سے کہنا کہ ان کی باتوں پر آپ نہ جائیے۔ رحمت بھرا پرا خاصدان لے کر جمعدار کے پاس گئیں۔ پردے سے نکال کر بختاور کو دیا اور پیام پہونچایا۔ جمعدار بیچارے برے نیک آدمی تھے۔ مان گئے۔ ایک پان کھا کر خاصدان پھیرنے لگے۔ رحمت نے کہا کہ خاصدان آپ لیتے جائیے وہاں سے خالی کر کے بھیج دیجیے گا اور اس وقت آپ کی کیا خاطر ہو سکے۔ ہمارے گھر میں تو کوئی حقہ بھی نہیں پیتا۔ جمعدار بیچارے کسی طرح سے خاصدان اپنے ساتھ لے جانا پسند نہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 362


کرتے تھے۔ رحمت کے اصرار پر لے گئے۔ خدا خدا کر کے جان میں جان آئی۔ نانا باوا کی بیماری کی خبر لے کر آدمی آیا تھا۔ وہ باہری باہر برقندازوں کو دیکھ کر بھاگا ابا جان اور ان کے چار پانچ دوست یہ سنتے ہی دوڑے۔ اس وقت پہونچے کہ جمعدار پھاٹک سے نکل چکے تھے۔ حال پوچھا۔ سب بیان کیا۔ انہیں اس قدر غصہ آیا کہ تھر تھر کانپنے لگے۔ خدا بخش سے کہا کہ پنس کہار لاؤ اور خود دروازے پر آ کر پکارا۔ میں نے آواز پہچان کر رحمت کو بھیجا۔ جب تک پردہ ہو باہر میر روشن علی صاحب آئے۔ ابا جان سے پوچھا خیر تو ہے یہ برقنداز کیوں آئے تھے۔ مجھ سے تو چھو چھو نے کہا ابا جان نے کیفیت بیان کی۔ ہمارا مکان بھی سسرال سے دور نہ تھا۔ پردہ ہوا، رحمت انہیں گھر میں لائی۔ باہر کا کمرہ کھلوا دیا۔ ان کے دوست اندر بیٹھے۔ اندر آ کر انہوں نے سلام لے کر مجھے گلے سے لگایا اور کہا کہ طاہرہ تم پر برا ظلم ہو گیا اور چھوٹؤں نہ کہلوا بھیجا تمہاری احتیاط نے ہمیں نہایت پریشان کیا۔ اس وقت کے ملال نے کلیجہ کو دو پارہ کر دیا۔ ساری دنیا نگاہ میں اندھیر ہے۔ افسوس ہم نے تو اپنے نزدیک مولوی صاحب کے گھر کو امن و عافیت کی جگہ تجویز کی تھی۔ یہ خبر نہ تھی کہ قید خانے سے بدتر اور کسی خرابے سے بڑھ کر ہے۔ لاحول ولا یہاں کے مرد کس دل و جگر کے آدمی ہیں کہ مطلق حس نہیں ۔ اس بےپروائی اور غفلت کی کچھ انتہا ہے۔ مردوں کو ہونٹ ہلانا دشوار، عورتوں کے یہ کردار۔ ابھی جمعدار نے مجھے بیگم صاحب کی تقریر لکھی ہوئی دکھائی۔ سبحان اللہ کیا کہنا وہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 363


میرے دوست تھے۔ مجھے دیکھ کر منفعل ہوئے اور مسودہ پھاڑ ڈالا۔ اگر میں اس وقت نہ آتا تو غضب ہو جاتا۔ ایک تو بےہودہ حرکت اس پر یہ جرأت۔ تم پر یہ طوفان جوڑا ، داماد کا الگ دل دکھایا۔ اماں جان ان کی یہ باتیں سن کر بولیں کہ طوفان شیطان کیسا، آنکھوں دیکھا ، پٹ پڑا مجھے کانوں سننے دے۔ یہ بھی وہ مثل ہوئی، آپ اپنے گھر میں تھے کہ یہاں پھر آپ کو کیا معلوم مردوں کا کیا قصور۔ جان بوجھ کر مکھی نہیں کھائی جاتی۔ کچھ تو انہوں نے بھی دیکھا ہے جو ہم کو کہنے سے نہیں روک سکتے۔ بھلا کوئی عقل کی بات ہے کہ جھوٹ سچ کوئی کسی پر تہمت جوڑ دے گا اور وہ جڑوا لے گا۔ خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا۔ ایسی نموہی بھی نہیں کہ بات کرتے شرماتی ہیں۔ کیونکر جواب دیتیں۔ یہ گھر چڑھ کر لڑنے کا کون سا دستور ہے۔ خدا پناہ میں رکھے بھئی واہ پچ لیتے غیرت نہیں آتا الٹا گلا دباتے اور آنکھیں دکھاتے ہیں۔ اباجان تو یہ سنتے ہی بید کی طرح کانپنے لگے اور منہ سرخ ہو گیا۔ کچھ کہنے کا ارادہ کیا تھا کہ میں نے اٹھ کر قدموں پر سر رکھ دیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میرے اباجان میں آپ کے قربان۔ آپ نہ کچھ خیال فرمائیے اگر اس وقت آپ نے غصہ کیا تو میری ساری محنت خاک میں مل جائے گی اور پھر یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ عورت کے منہ لگے، غصہ کیا، یہ ہوا، وہ ہوا۔ بات بڑھے گی، رنج پھیلے گا۔ جو طعنے نہیں سنے ہیں وہ سننا پڑیں گے۔ میری محنت و مشقت پر خیال فرما کر صبر کیجیے۔ آپ گھڑی بھر کو آئے ہیں۔ آپ کی بلا بیچ میں بولے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 364


میں جس قابل ہوں خدا خوب جانتا ہے۔ برا کیوں مانیے مجھے ملال و رنج نہ ہونے کا یہی تو سبب ہے کہ جو بات کہی جاتی ہے وہ مجھ پر شایاں نہیں بالکل اوپری اوپر معلوم ہوتی ہے۔ نہ کوئی تک ہے نہ جوڑ نہ میل ہے نہ لگاؤ۔ خدا و رسول کو بھی تو لوگ کہتے ہیں۔ زبان خلق سے دنیا میں رہ کر بچنا بہت مشکل بات ہے۔ جھوٹ سچ ایک دن خود ہی کھل جائے گا۔ حق کا راضی کدا ہے وہی میرا حامی و مددگار ہے۔ اسی کا بھروسہ ہے۔ آپ اتنی سی بات پر برافروختہ ہو گئے۔ مجھے سنتے سنتے کئی مہینے گذر گئے۔ اور وہ سنا جو نہیں سننا چاہیے تھا۔ پتھر میں سے بھی آواز نکلتی، مگر میں نے دم نہیں مارا۔ اتنے بڑے صبر کے بعد ذرا سی بات پر اس ریاضت کو برباد کر دینا یقیناً آپ بھی میرے لیے مضر سمجھیں گے۔ دنیا چند روزہ ہے۔ آخر کب تک یہ کاہش رہے گی۔ میں تو دل سے ٹھانے بیٹھی ہوں کہ اگر سو برس جیوں اور اسی طرح کے روز سامنے ہوں تو بھی جی نہ چراؤں، ہونٹ نہ ہلاؤ۔ برابر صبر کرتی چلی جاؤں۔ تھورے دن کی کسر ہے یا اس سرے یا اس سرے۔ میری اس تقریر کا بیگم صاحب نے تڑق کر یہ جواب دیا کہ تو کوسنے والی مٹے۔ چند روزہ تیری زندگی ہو۔ میرا صبر تیری جان پر ٹوٹے۔ یہ سنتے ہی اباجان کھڑے ہو گئے اور کہا کہ رحمت للہ پردہ کر دو میں باہر چلا جاؤں، مجھ سے نہیں سنا جاتا۔ انہوں ے دوڑ کر بوغ بند کا پردا کیا۔ اباجان کانپتے ہوئے باہر چلے گئے۔ میں نے بھی بہ مصلحت نہیں روکا۔ ان کے جانے کے تھوری ہی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔۔ 365


دیر بعد خدا بخش آیا اور کہا کہ سواری لایا ہوں۔ سرکار کے دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ آپ کو یاد کرتے ہیں۔ بیگم صاحب نے فرمایا ہے کہ ابھی سوار کرا لاؤ۔ میں نے کہا کہ رحمت جاؤ خدابخش سے کہو کہ بھلا اس طرح میں منہ اٹھائے کیونکر جا سکتی ہوں۔ آج معلوم ہوا ہے۔ تیاری کر لوں۔ دنیا کی چیزیں پڑی ہیں۔ رکھ دھر لوں۔ ابا جان سے پوچھ لوں تو جاؤں۔ کل سواری لانا۔ رحمت نے یہی جا کر کہا۔ وہ پلٹ گیا۔ تھوڑا سا دن باقی ہے ۔ ابر آیا ہوا ہے۔ اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ ڈیوڑھی سے (میں آؤں کی) آواز آئی۔ رحمت نے آواز پہچان کر کہا کہ آئیے۔ شہریار دولہا گھر میں آئے۔ مولوی صاحب آگے آگے تھے۔ دونوں صاحب آ کر دالان میں بیٹھے۔ ابھی کچھ باتیں نہیں ہوئی ہیں کہ صابرہ کے اباجان بھی تشریف لائے۔ ڈیوڑھی کا میرے کمرے سے سامنا تھا۔ پہلے وہ اپنی طرف گئے۔ پھر یہاں آئے۔ جب وہ آ لیے تو اباجان نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے مدرسے میں برقندازوں کے آنے کا حال سنا۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ میں نے بختاور کو بلا کر ان کا سامنا کرا دیا۔ اس نے ساری روداد بیان کی۔ شہریار دولہا۔ ارے یہ کل کا ذکر ہے جب میں جا چکا ہوں۔ بختاور ہاں مولوی صاحب۔ بھئی شہریار دولہا تم نے کیونکر سنا۔ انہوں نے کہا کہ جی میں نے قاری مینڈک کی مسجد پر سنا تھا۔ مولوی صاحب نے منہ پیٹا اور کہا کہ افسوس ہم سا سخت جان کوئی دوسرا دنیا میں نہ ہو گا۔ یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ زور شور سے مینہ پڑنے لگا۔ چوبائی ہوا کا سناٹا چوطرفہ کی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 366


بوچھار، سارا گھر شرابور۔ جب تک اٹھاؤ اٹھاؤ، یہ بھیگا، وہ بھیگا، اتنے ہی میں نماز مغرب کا وقت آ گیا۔ مولوی صاحب نے سب کے ساتھ کمرے میں نماز پڑھی۔ میں نے دالان میں۔ اچھی خاسی رات آ گئی اور خوب اندھیرا ہو گیا مگر مینہ اسی طرح سے چھاجوں برس رہا ہے۔ کھانے کا وقت آیا۔ سب نے میرے ہاں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ رحمت اماں جان کو کھانا دینے گئیں۔ آنے جانے میں اتنی بھیگیں کہ جہاں جاتی تھیں وہ زمین تر ہو جاتی تھی۔ ہوا نے اور ھبی دلوں کو کنپوا رکھا تھا۔ آدھی رات کے قریب جب وہ زور شور کم ہوا تو ابا جان عبا اوڑھ کر باہر نکلے۔ انگنائی میں کچھ سنتے ہی پلٹ پڑے اور بیٹے داماد کو ساتھ لے جا کر سنوایا۔ اماں جان بار بار یہی کہہ رہی تھیں کہ مردوں نے ایکا کیا ہے ۔ مسکوٹ ہوتی ہے، کھچڑیاں پکتی ہیں۔ آج کھانا بھی وہیں زہر مار ہوا۔ لونڈی کو اپنا صدقہ بھجوا دیا۔ مجھے چھُتیل بنانے والے اڑیں، خدا اس مجمع کو توڑے۔ شہریار دولہا اکتا کر باہر ہی باہر سالے سسرے سے رخصت ہوئے۔ دونوں نے منع کیا مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ اسی حالت میں گئے۔ بھیگنے کی تکلیف گوارا کی مگر جلنے کی ایذا نہ اٹھا سکے۔ ہم سب اپنے اپنے مقام پر صبر شکر کر کے سو رہے۔ شہریار دولہا اس اندھیری میں گئے نہ سسرے کو خیال آیا کہ لالٹین دے کر کسی آدمی کو ساتھ کر دیں نہ سالے کو توفیق ہوئی۔ میرے بولنے اور کہنے کا موقع نہ تھا۔ اباجان اگر اپنے کمرے میں سلا رکھتے تو کیا تھا۔ مگر وہ بجی بجد نہیں ہوئے اور نہ انہیں اصرار دنیا داروں کا سا آتا تھا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 367


خیر وہ بیچارے جاتے جاتے نالے پر پہونچے۔ نالہ اس وقت اندھیرے میں بھی آنکھیں دکھا رہا تھا۔ یہ اٹکل سے پل کا اندازہ کر کے اپنے نزدیک پل پر چڑھے اور وہاں پانی نے کات کر ایک نشان ڈال دیا تھا، جو پل معلوم ہوا۔ پانی بانسوں چڑھا تھا۔ جیسے ہی قدم رکھا، نالے میں جا رہے۔ پیرنا آتا تھا، گرتے ہی غوطہ کھا گئے پھر ابھرے پھر غوطہ کھایا اور اسی طرح ڈوبتے اچھلتے دور نکل گئے۔ زندگی باقی تھی، ہنوز دریا تک نہیں پہونچے کہ راہ میں ایک جگہ ڈوب کر جو اچھلےکسی نے ہاتھ میں ببول کے درخت کا ٹہنا دے دیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے۔ اس ٹہنے کا ہاتھ آنا تھا کہ یہ اس میں لٹک رہے اور جب ذرا ظہور حواس آئے تو دوسرے ہاتھ سے بھی اسے مضبوط پکڑا۔ جس وقت یہ بےہوش ہو کر گرے تو فقط کیچڑ تھی۔ پانی اتر چکا تھا۔ گھر میں جو قیامت برپا ہو گئی وہ بھی عجیب و غریب ہے۔ سچ ہے "کر تو کر نہیں خدا کے غضب سے ڈر" رات کو پہلے تو ان کا انتظار ہوا، پھر کھا پی کر سب سو رہے۔ ساجدہ بیگم کے نندوئی اپنی صحنچی میں تھے کہ بیوی نے جگا کر کہا "میں کمرے میں بچھونا بچھاتی ہوں، وہاں چلے آؤ۔ صحنچی ٹپک نکلی نیند خراب ہو گی اور بچھونے لت پت۔ پہلے تو انہوں نے کچھ اعتنا نہ کی۔ کروٹیں لے کر سویا کیے۔ جب آنکھوں اور منہ پر بوندیں ٹپکیں تو بے چین ہوئے اور گھبرا کر اٹھے۔ بچھونا لپیٹ کر تختوں پر پھینکا۔ خود گرتے پڑتے کمرے میں جا کر ساجدہ بیگم کے پہلو میں لیٹ رہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 368


بیوی نیند میں اٹھ کر آئی تھیں۔ بے خبر سو رہی تھیں ورنہ میاں کو اپنی طرف کھینچتیں۔ ادھر تو اندھیرا، اُدھر نیند اور نیند بھی جوانی کی۔ ان کے فرشتوں کو خبر نہیں کہ کس کے پاس لیٹا ہوں۔ چین سے سو رہے۔ تھوڑی سی رات باقی ہے کہ ساجدہ بیگم کی ساس کی آنکھ کھلی۔ سناٹا پڑا تھا۔ ابر گھرا تھا، اندھیرا پھیلا تھا کہ آنکھ کو اپنا ہاتھ نہیں سجھائی دیتا تھا۔ پان کی انہیں بہت عادت تھی۔ اٹھیں پان کھایا، لڑکے کا خیال آیا، ہواے کے مارے ہوئے چراغ بھی خاموش تھے۔ فرض کر کے آگ نکالی۔ دیا سلائی جلائی، چراغ روشن کیا۔ کمرے میں آئیں۔ دیکھا تو ساجدہ بیگم سردی کے مارے گنڈلی منڈلی بنی پڑی ہیں اور دوسرا بھی کوئی پلنگ پر ہے۔ ادھر جا کر جو منہ دیکھتی ہیں، بیٹے کی جگہ داماد وہ بھی ہماری ساس کی حقیقی بہن تھیں۔ چراغ پھینک پائنچے چھوڑ پیٹنا شروع کیا جیسے بےصبرا جاہل مردے پر دوہتڑوں سے پیٹتا ہے۔ کمرے میں سب کی آنکھ کھل گئی۔ لاڈلی بیگم، ساجدہ بیگم، سرفراز دولہا گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہے۔ کوئی کہتا ہے سانپ نے کاٹا، کوئی کہتا ہے گر پڑیں چوت لگی، کوئی کہتا ہے بچھو نے نہ ڈنک مارا ہو۔ ایک ایک گھبرا کر پوچھتا ہے۔ انہیں پیٹنے اور چیخنے ہی سے فرصت نہیں۔ محبت کے مارے جب بےچارے داماد نے ہاتھ پکڑے اور انہوں نے کہا کہ دور ہو مجھے ہاتھ نہ لگا۔ بیٹی سے دشمنی، ماں سے محبت، تیری اوقات پر لعنت۔ اس وقت سبھوں نے کان کھڑے کیے۔ اس ہنگامے میں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 369


اب تو سارے گھر کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں سب کے سب گھس آئے۔ کسی نے چراغ جلایا۔ آنکھیں کھلیں۔ میاں نے پوچھا۔ انہوں نے بےتقیہ کہہ دیا کہ یہ مُردا اور مُردی ایک ساتھ سو رہے تھے۔ یہ سنتے ہی سرفراز دولہا کے تو ہاتھ پاؤں میں تھرتھری پڑ گئی اور ساجدہ مٹی کی تصویر ہو کر رہ گئیں۔ کاٹو تو لہو نہیں۔ لاڈلی بیگم کو سناٹا جب ماں کو بہت بیتاب دیکھا تو کہا کہ چلو اچھا چیخو پیٹو تو نہیں۔ جو حال ہے کھل جائے گا۔ مجھ سے سوتاپا کر کے کوئی جا کہاں سکتا ہے۔ تنگی کا ناچ میں نچا دوں۔ جب ہٹی کٹی برابر کی دھنی، زور لگانے کو موجود ہے تو تمہاری بلا غم کرے، صبح ہونے دو دیکھنا کیا قیامت ڈھاتی ہوں۔ زمان و آسمان نہ ایک کر دوں تو اپنا نام بدل ڈالوں۔ تم کیوں جان دیے دیتی ہو۔ ادھر مولوی صاحب کو حرارت۔ ملعون، مردود و بدخصلت، بےغیرت، ناشایستہ، نامعقول، نالائق، مہمل، لغو دونوں کو خطاب دیے۔ ادھر ماں بیٹیوں کی چڑھائی۔ ان دونوں پر رہ رہ کر آرے چلتے تھے۔ بس نہ تھا کہ اپنی جانیں دے دیں۔ زمین پھٹ جائے اور کسی طرح سما جائیں۔ ایک رنگ آتا تھا، ایک جاتا تھا۔ دل و جگر تھرتھراتے تھے۔ ہاتھ پاؤں سنسناتے تھے۔ صبح ہوتے ہوتے دونوں گھل گئے۔ برس دن کے بیمار سے بدتر ہو کر رہ گئے۔ نماز کے وقت سے شہریار دولہا کی تلاش میں آدمی نکلے۔ ڈھونڈھیا پڑی، کنوؤں میں بانس ڈالے گئے۔ ہمارے ہاں بھی آدمی آیا۔ روز روشن ہو گیا اور ان کا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ ۔۔۔ 370

پتا نہیں جب تک وہ آئیں آئیں ماں بیٹیوں نے ان بےچارے بےگناہوں کو گُو سے نکال کر مُوت میں ڈالا۔ ایک صاحب آتی ہیں، قہر سے گھورتی ہیں، دوسری اٹھتی ہیں غضب کی نگاہ کرتی ہیں۔ وہ غریب سر جھکائے ایک حالت سے اپنے اپنے پلنگوں پر مٹی کے کھلونے کاغذ کی تصویریں بنے بیٹھے ہیں۔ وہاں شہر یار دولہا کو دھوپ کی حرارت سے جو راحت پہونچی، آنکھ کھلی، اٹھے، گرتے پڑتے خدا کا شکر کرتے کیچڑ میں لت پت گھر پہونچے۔ دروازے میں قدم رکھتے ہی آفت کا سامنا تھا۔ ماں بہن چیختی ہوئی دوڑیں اور ہے ہے ہے ہے کر کے دونوں طرف سے ان کو گھیر لیا۔ وہ منہ کھول کر آنکھیں پھار کر کبھی ہکا بکا ہو کر ادھر دیکھتے ہیں کبھی اُدھر۔ کچھ حال نہیں کھلتا۔ فقط نوچ کھسوٹ ہو رہی ہے۔ اتنے میں سرفراز دولہا اپنے مقام سے اٹھ کر ہاتھ جوڑے ان کے آگے گئے اور کہا کہ بھائی صاحب للہ انصاف کیجیے۔ خدا اور رسول شاہد ہیں کہ میں بے خبر اور لاعلم تھا۔ اصل بات یہ ہوئی (اپنی بہن سے پوچھیے) کہ انہوں نے مجھے جگایا۔ صحنچی ٹپکی، کمرے میں اندھیرا تھا یا نہیں۔ ٹٹولتا ہوا گیا۔ بھابھی کے پلنگ پر سو رہا۔ خدا اور رسول کی قسم جو مجھے معلوم ہوا ہو کہ کس کے ساتھ سوتا ہوں، کون ہے۔ مگر سویا تو کیا وہ میری حقیقی بہن ہیں ۔ اگر آپ بھی نہ سنیں گے تو واللہ باللہ میں اپنی جان دے دوں گا۔ شہریار دولہا بڑے سمجھدار آدمی تھے۔ کہا کہ بھئی جھک مارنے دو کسی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ تم کیوں اس قدر بےتاب ہوتے ہو۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 371


بےقرینے بات پر بھلا مجھے کیوں یقین آنے لگا۔ ہر بات ایک کینڈے سے مانی جاتی ہے۔ آج کی رات کے علاوہ ان لوگوں سے پوچھو کہ بات چیت سے چشم و ابرو سے اور بھی تم نے کوئی بات دیکھی بھالی تھی۔ ہر گز نہیں دیکھی۔ پھر اس طوفان و آفت میں دفعتاً ایسا طوفان بےتمیزی کیوں اٹھنے لگا۔ بھلا کوئی عقل کی بات ہے۔ بخدا مجھے ہر گز باور نہ آئے گا اگر کوئی قرآن کا بھی جامہ پہن کر کہے۔ نہ تم ایسے جاہل کہ حرام حلال نہ پہچانو، خدا سے نہ ڈرو، ناک کٹنے کی بدنامی کی پروا نہ کرو۔ نہ میری بیوی ایسی دلیر و بےشرم کہ اتنی بڑی حرکت کر گزریں۔ بکنے دو جو بکتا ہے۔ اپنے منہ سے بکتا ہے۔ سرفراز دولہا یہ سنتے ہی ان کے قدموںمیں گر پڑے اور کہا کہ بھائی صاحب ان لوگوں نے اتنی ہی دیر میں مجھے نیم جان کر دیا تھا۔ آپ کے قسم کھانے سےمیری روح تازہ ہو گئی۔ شہریار دولہا اپنے کمرے میں گئے، وہاں بیوی کو دیکھا کہ سناٹے میں بیٹھی ہیں، دونوں آنکھوں سے دو نہریں جاری ہیں۔ وہ قریب گئے اور کہا کہ تمہیں کچھ خبر ہے یہ کیا حماقت ہے۔ رات بھر میں تم نے اپنے تئیں ہلاک کر ڈالا۔ ذرا آئینہ لے کر اپنے چہرے کا حال دیکھو۔ تم عورت ہو کر اپنے معاملے میں عقل سے سے کام لو اور میں مرد ہو کر بات کو نہ سوچوں۔ بےوقوفی کر بیٹھوں۔ جاؤ ہاتھ منہ دھوؤ، آدمی بنو۔ تمہاری عفت و پاکدامنی کی میں خود قسم کھاتا ہوں۔ یہ سن کر کسی قدر ان کا بھی اطمینان ہوا۔ رونا دھونا موقوف کر کے ہاتھ منہ دھویا اور لاڈلی بیگم کے پاس جا کر ہزاروں قسمیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 372


کھا کر کہا کہ اگر تمہیں اب بھی یقین نہ آیا ہو تو میں قید لگا کر (جے دن کے لیے تم کہو) بری چیز اٹھا لوں وہ بھی کسی قدر آدمی تھیں اور عقل بھی جو ان کی تھی یا ظاہر داری ہی کے طور پر سہی مگر ان کو منع کیا اور کہا نہیں بھئی مجھے یقین آیا، قسم اقسام کی کچھ ضرورت نہیں۔ ساجدہ اٹھ کر ساس کے پاس گئیں (وہ ہماری ساس کی بہن تھیں) اور اسی طرح سے ان کو یقین دلانا چاہا۔ وہاں بھلا کب اثر ہوتا تھا۔ مجبور ہو کر اٹھ آئیں۔ مجھے شہریار دولہا کے رات کو گھر نہ پہونچنے کی خبر سن کر ایک تردد تھا۔ جیسے ہی ابا جان جانے لگے میں نے نانا باوا کی بیماری کا حال بیان کر کے اذن مانگا۔ انہوں نے کہا کہ شوق سے جاؤ۔ آج جمعہ ہے میں بھی بعد نماز شہریار دولہا کے وہاں ہوتا ہوا نواب صاحب کو دیکھنے جاؤں گا۔ ان کے جانے کے بعد میں نے صابرہ کے اباجان سے اجازت لی اور پھر اماں جان کے پاس گئی۔ انہوں نے سلام لیا نہ بات کا جواب دیا۔ میں اٹھ آئی۔ گٹھریاں، پقچیاں بندھوائیں، بچھونے بدلوائے، لڑکیوں کو نہلوایا، آپ نہائی، کپڑے بدلے پھر نماز کو چلی ہوں کہ خدا بخش نے آواز دی۔ بوا رحمت گئیں کہا صاحبزادی سے پوچھو کہاروں کو بلاؤں۔ میں نے کہا میرا دل لگا ہے تم کٹرے سے شہریار دولہا کی خبر لاؤ جب تک میں نماز سے فرصت کروں۔ خدا بخش ادھر گیا میں نماز پڑھنے لگی۔ جب شہریار دولہا کو میری خبر منگوانے کا حال معلوم ہوا باہر نکلے کہا کہ میں خود چلتا ہوں۔ وہ ٹھہرا رہا۔ نماز پڑھ کر سُورے تمام کر کے میں بیٹھی تھی کہ شہریار دولہا آئے۔ ساری اپنی اور بیوی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 373


کی کیفیت بیان کر کے کہا کہ اباجان بھی گئے تھے اور وہ بھی سن آئے۔ مجھ کو ایک سکتہ سا ہو گیا اور دیر تک حیرت و سکوت میں بیٹھی رہی۔ رحمت نے کہا کہ بیوی اس کا اچنبا کیا جو پر کو کنواں کھودتا ہے، آپ ہی ڈوب مرتا ہے۔ میرے جانے کے خیال سے شہریار دولہا بہت کم ٹھہرے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ شب کو ان پر یہ حادثہ گذرا۔ گھر پر جا کر تیل مالش بجھوائے۔ پردہ ہوا۔ نانا جان کے پاس گئی۔ ان کی عجیب حالت دیکھی۔ مجھے گئے پندرھواں دن تھا جو انہوں نے رحلت فرمائی۔ بہت بڑے شفیق کا سایہ اٹھا لیکن میں نے انتہا سے زیادہ صبر کیا۔ ان کے مرنے کی خبر سن کر ساجدہ بیگم بھی اور لوگوں کی طرح سے تیجے میں آئیں۔ گو کہ اٹھارہ انیس روز اس بات کو گذر گئے تھے لیکن ان کے منہ پر ویسی ہی مردنی پھری ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کئی برس بیمار رہ کر اتھی ہیں۔ حقیقت میں بےعیب کو عیب لگانے کا بےانتہا صدمہ ہوتا ہے۔ ان کی عقل سالم تھی۔ دوسرے میں دولہن بنی صاحب کے افیون کھا کر جان دینے پر بہت کچھ رد و قدح کر چکی تھی۔ تھوڑے سے خون ہی خشک ہونے پر خیریت گذری۔ جمعہ کو ہماری خوشدامن صاحب صبح سویرے آئیں۔ ابھی لوگ نہیں اتھے ہیں۔ اپنے پرائے سب جمع ہیں۔ ماتم پرسے کے بعد ایک دفعہ انہیں بندگی کرنے کو میں اٹھی اور ساجدہ بیگم کو بھی اشارہ کیا۔ وہ کسی سے باتوں میں لگی تھیں۔ مجھے آنکھوں سے بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ جب کہہ سن چکیں تو کہا کہ بھابھی آپ جائیے میں نہیں جاوں گی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 374


اماں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ کیا خاک جاؤں۔ ان کی بےجا باتوں کا خیال ان کی زیادتیوں کا ملال کسی وقت دل سے نہیں نکلتا۔ ایسا نہ ہو کہ جابےجا کوئی لفظ بھری محفل میں میرے منہ سے نکل جائے اور اپنے بیگانے نام دھریں۔ کیا کم ذلت اٹھا چکی ہوں کہ آگے اور حوصلہ کروں۔ مجھے وہاں لے جا کر ذلیل نہ کروائیے۔ ان کے آنے کی تو خبر سن کر دل میں پنکھے لگ گئے۔ آگ بھڑک اتھی۔ سامنے جا کر نہیں معلوم زبان قابو میں رہے نہ رہے، کیا ہو کیا نہ ہو۔ بھری ہوئی تو ہوں کچھ کہہ بیٹھوں، ابل پڑوں تو اس سے فائدہ ہی کیا۔ میں اپنا منہ جھلسے ایک کونے میں پڑی رہوں گی۔ تین چار پہر کا راستہ ہے۔ سمجھانا بجھانا نامناسب تھا۔ میں انہیں ان کی خوشی پر چھور کے وہاں سے اماں جان کے پاس گئی۔ سلام کیا انہوں نے گلے سے لگایا۔ بلائیں لیں، دعا دی۔ مجھے تعجب ہوا کہ آج خلاف عادت یہ مہربانی کیسی۔ پھر خیال گذرا کہ چار غیروں کے دکھانے کو عقل نے کہا کہ تھانے والے لوگوں سے زیادہ اور کون غیر و اجنبی ہو گا۔ ذہن نے سمجھایا کہ ذرا غور تو کرو، فکر جو کرتی ہوں تو وہ اماں جان ہی نہیں۔ ہائیں یہ کیا ہو گیا۔ نہ وہ جھومنا ہے نہ ٹھسا، نہ غرور نہ سکوت، نہ ابرو پر بل نہ ماتھے پر شکن، نہ وہ غصہ نہ بانکپن۔ حیران پریشان ہو ہو کر دیکھتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جب ادھر ادھر سے آ کر ان کو دیکھا ہک ہک ہو کر رہ گئی۔ کھانے کے وقت تک آٹھ دس مرتبہ ان پر نظر پڑی۔ ایک نہ ایک سے بات کرتے دیکھا اور بات تھی قاعدہ کے ساتھ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 375


جس طرح بڑے بوڑھے چھوٹوں سے ایک محبت اور لطف سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ جب دسترخوان بچھا اور سب کے ہاتھ دھلائے گئے تو اتھ کر بڑے دالان میں آئے۔ ابھی کسی نے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ ایک ایک کا منتظر بیٹھا ہے۔ میں کھڑی ہوئی۔ دسترخوان کی سب چیزوں کا شمار کر رہی ہوں کہ کہیں کچھ کم و زیادہ تو نہیں ہے کہ ہماری اماں جان اٹھیں اور مجھے بلا کر سہار دے کر کانپتے پاؤں سے کھڑی ہوئیں۔ پھر کہا کہ بیویوں میں اپنی بہو کی حد سے زیادہ گنہگار ہوں۔ آپ سب صاحبوں کے سامنے حلف کی رو سے قسم کھا کے کہتی ہوں کہ اس بچی پر جو میں نے جبر و ظلم کیا، بدعت و عداوت کی وہ قیامت کے دن مجھے طرح طرح کے عقوبت و عذاب میں مبتلا کرے گی۔ جب تک یہ میرا قصور نہ بخشے، میں بخشے جانے کے قابل ہی نہیں۔ اب میری آنکھیں کھلیں، غفلت کا پردہ اٹھا۔ اس خالق عادل نے اپنے اختیار و قدرت کا نمونہ مجھے دکھایا۔ بیبیوں میں نے اس بےگناہ پر خدا واسطے جھوٹ کا پل باندھ کر عیب تھوپا تھا۔ چار ہی دن اسے نہ گذرے تھے کہ میری لڑکی پر وہی آفت آئی اور کس طرح کہ اسے اور اس کے نندوئی کو ایک پلنگ پر کرامت بیگم، میری چھوٹی بہن نے دیکھا۔ اب اس سے بڑھ کر کیا ہو گا۔ دونوں کی یکجائی کی وہ صورت پھر ساس کی شہادت۔ لیکن میں اپنے خدا کے صدقے جاؤں جس نے میرے ڈرانے اور راہ پر لانے کو یہ کرشمۂ قدرت دکھایا اور پھر دونوں کو بےقصور و بےگناہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 376


بھی ثابت کرا دیا۔ اگر میں اپنی بہو طاہرہ بیگم کو عیب نہ لگاتی تو میری لڑکی پر بھی کبھی یہ آفت نہ آتی۔ سچ ہے اس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ بیبیوں اپنے خدا کو مان کر مجھے قبر میں پاؤں لٹکائے جان کر میرے بڑھاپے پر ترس کھا کر تم سب مل کر طاہرہ بیگم سے میری خطا معاف کرا دو۔ میں توبہ کرتی ہوں۔ مرتے مرتے اپنے قول سے اب نہ پھروں گی اور اس کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ یہ کہہ کر اماں جان کانپنے لگیں اور ایک طرف جھکیں جیسے کوئی گرنے کو ہتا ہے۔ میں نے چاہا کہ سنبھال کر بٹھا دوں۔ وہ بیٹھتے بیٹھتے میرے قدموں پر گریں اور مہمانوں کو سعی شفارش کے لیے آواز دی کہ بیبیوں اپنے بچوں کا صدقہ جب تک یہ دل سے معاف نہ کر لے تم گواہی نہ دینا۔ میں پاؤں نہ چھوڑوں گی، نہ قدموں پر سے سر اٹھاؤں گی۔ سب کے سب بلبلا کر دوڑے۔ میں عجیب مصیبت میں تھی۔ ہزار ہزار جتن کئے، انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے اس طرح مضبوط مجھے پکڑا تھا کہ ہل نہ سکی۔ پاؤں چھوڑنا کیسا۔ برابر کہے جاتی ہوں وہ نہیں مانتیں۔ جب سب نے گواہی دی اس وقت سر اٹھا کے بلائیں لے کر کہا کہ یہ بھی تیرا ہی ظرف تھا۔ میری طاہرہ خدا تجھے ہمیشہ اسی طرح عیش و راحت سے رکھے۔ میں ان کے قدموں پر گرنے کو جھکی وہ نگاہ سے پہچان گئیں اور جلدی سے روک کر دیر تک مجھے گلے سے لگائے رہیں۔ میرا منہ ان کے سینہ پر تھا، کانوں میں ان کے دل دھڑکنے کی برابر آواز آ رہی تھی اور کلیجہ ہل رہا تھا۔ یہ سب صورتیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 377


ان کے انتہا سے زیادہ مضطرب اور خوف زدہ ہونے پر گواہی دے رہی تھیں۔ جب مجھے سینے سے جدا کیا تو قسم دے کر کہا کہ بس بٹیا اب مجھے گنہگار کرنے کی تدبیر نہ کرنا۔ میں ہر گز اس قابل نہیں کہ تم نجس پیروں پر اپنا پاک سر جھکاؤ۔ جب سب کھانا کھا چکے تو بیگم صاحب نے اپنی لڑکی کی عصمت و عفت کی گواہی پر روداد بیان کی کہ "بیبیوں میرے ہاں ایک ماما ہیں، فہیمن نام، جنہیں اب سب چھوچھو کہتے ہیں۔ ساجدہ بیگم کو انہوں نے پالا ہے۔ ساجدہ دودھ پیتی ہے اور یہ اسے لے کر باہر دروازے پر بیٹھی کھلایا کرتی ہیں۔ مہینوں یہ صورت رہی۔ نہ یہ کسی سے بولتی ہیں نہ بات کرتی ہیں، نہ کوئی راہ گیر ان کو چھیڑتا چھاڑتا ہے۔ مکان سرِراہ تھا۔ ایک دن یہ لڑکی کو لیے بیٹھی ہیں اور اب اس کا سِن کوئی چار پانچ برس کا ہے کہ ایک کانا مردوا غارت ہوا جو دنیا کی ہر چیز کو ایک نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آ کر کھڑا ہو گیا، کھڑے کھڑے چلا گیا۔ دوسرے دن پھر آیا۔ چھیڑ کر بات کی۔ لڑکی کو بیچ میں ڈالا چیز بست دینے لگا۔ پھر ساجدہ کو گود میں لینا شروع کیا۔ شدہ شدہ فہیمن سے بات چیت ہونے لگی۔ آخر کو راہ و رسم پیدا ہوئی۔ کوئی برس دن تک اس ناشاد شہدے نے یوں ہی اوقات اپنی ضائع کی۔ اب ساجدہ پردے بھی بیٹھیں اور چھوچھو کا نکلنا بیٹھنا بھی موقوف ہوا، مگر اس بندہ خدا نے آنا نہ چھوڑا۔ جب دیکھو دروازے پر ڈٹا ہے۔ جب سنا چوکھٹ پر حاضر۔ ڈیوڑھی پر موجود بے تنخواہ طلب کا آدمی۔ کسی سودے سلف کے لیے اگر فہیمن نکلیں تو ایک آدھ بات ہو گئی ورنہ کچھ اس سے بھی مطلب نہیں۔ فقط حاضری دے رہا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 378


ہماری چھوچھو کے میاں مر چکے تھے۔ رانڈ تھیں۔ سِن بھی کچھ ایسا نہیں گیا گذرا تھا۔ کوئی تیسویں میں تھیں۔ جب کئی مہینے اسے پہرہ دیتے کٹے، ایک دن چھوچھو کے دل میں آیا کہ میں اس سے پوچھوں کہ بندۂ خدا تو جو دن بھر یہاں دھنّا دیے بیٹھا رہتا ہے اخر اس سے مطلب کیا۔ پھر کچھ سوچیں اور نہ پوچھا۔ دو چار روز بعد دل کڑا کر کے ایک دن پوچھ بیٹھیں۔ اس نے کہا کچھ نہیں۔ انہوں نے منع کیا کہ پھر یہاں نہ آیا کرو۔ نہیں معلوم وہ اپنے دل میں کیا سمجھا کہ بے اختیار ہو کر کہنے لگا کہ تم برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں کیوں برا ماننے لگی۔ کہنے لگا کہ میں تمہاری آنکھوں پر عاشق ہوں۔ یہ سننا تھا کہ دنیا ان کی نگاہوں میں اندھیر ہو گئی۔ گھر میں آئیں اور مجھ سے کہا میں بگڑنے لگی۔ برا بھلا کہہ کر ان سے کہا کہ آدمی سے کہہ کر اس کو راضی کرا دو۔ دو چار لکڑیوں اور دھموکوں میں سیدھا ہو جائے گا۔ دلاور علی اچھی طرح سے خبر لے لے گا۔ رات کو مولوی صاحب سے میں نے ذکر کیا۔ انہوں نے ہنسی ہنسی کہیں یہ کہہ دیا کہ اب تمہاری آنکھوں سوا پھوڑ ڈالنے کے اور کسی کام کی نہیں رہیں۔ یہ دیوانی بیوی سمجھیں کہ (مولوی جھوٹ تو بولتے نہیں) سچ کہتے ہیں۔ افوہ ذرا ان کے دل گردے کو دیکھو۔ کسی مرد کی کیا جان تھی کہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے۔ وہ یہ سنتے ہی اٹھی ہوئی سیدھے تکیے پر چلی گئیں اور بیری میں سے دو شاخی ایک ٹہنی چاقو سے کاٹ لائیں پھر اس میں سے نوکیں نکال کر ایک ہاتھ سے اوپر وار کو پپوٹے اٹھائے اور دوسرے ہاتھ سے بےتردد بھونک لیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 379


دونوں ڈھیلے نکل پڑے۔ پر ضبط کیسا اور صبر کہاں کا ایک چیخ زمین ایک آسمان تھی۔ میں دوڑی۔ جا کر دیکھا۔ پٹم بیٹھی تھیں۔ چارہ کیا تھا۔ صبح تک کے لیے بیٹھے رہے۔ جو جو سمجھ میں آیا، کیا، پر اثر نہ ہوا۔ پھر حیدر گنج میں نئی نئی اسپتال کھلی تھی، وہاں بھجوا دیا۔ پندرہ بیس روز رہیں۔ خدا خدا کر کے اچھی ہوئیں۔ دکھ درد گیا۔ ساجدہ میں پوری پوری خصلتیں بوا فہیمن کی ہیں، جس کی دوا ایسی غیرت دار پاک صاف ہو اس کی ک ھلائی کہاں تک نیک بخت اور پارسا نہ ہو گی۔ اگر میں بدنصیب اپنی بےگناہ بہو سے برائی نہ کرتی تو کاہے کو میری بچی پر عیب لگتا۔ اس دن تک میں چھوچھو کی آنکھیں جانے کو مرض و عارضہ سمجھتی تھی۔ آج معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی آنکھیں ہوں کھوئیں۔ گو ایک قسم کی بےوقوفی چھوچھو نے ضرور کی۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ لاعلم تھیں۔ مگر جب ان کی جرأت پر نظر جاتی تھی تو بےاختیار دل سے تعریف نکلتی تھی۔ سارے مہمانوں میں دیر تک اسی بات کا چرچرا رہا اور چھوچھو کو دعائیں دیا کیے۔ ہم کو تو ہفتے اتوار کے شروع ہونے کا خیال نہ تھا مگر اور لوگوں کے وسواس کرنے سے یہ انتظام کیا تھا کہ فاتحہ سویرے سے ہو جائے۔ ادھر ایک بجے لوگ نماز پڑھ پڑھ کر بیٹھے ادھر میں نے فاتحہ دلوا دی۔ تین نہیں بجنے پائے تھے کہ مہمان سوار ہونے لگے۔ جب سے میری شادی ہوئی تھی اپنی اماں کو میں نے بیوی اماں اور ساس کو بیگم اماں کہتی تھی۔ علی الخصوص اس مقام پر جہاں یہ دونوں صاحب جمع ہو جاتے تھے۔ تین بجے کے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 380


بعد بیگم اماں سوار ہوئیں۔ چالیسویں تک عورتوں میں سے سوا بختاور اور مردوں میں بجز چھوٹے مولوی صاحب کے اور کوئی نہیں آیا گیا۔ جب تاریخ چہلم مقرر کر کے دوبارہ اطلاع دی گئی تو بیگم اماں نے کہلوا بھیجا کہ گو میں تیجے میں شریک ہو چکی ہوں چالیسویں میں آنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ایک ضرورت سے فرض کر کے آؤں گی۔ چالیسویں میں بیگم اماں جب آئیں تو اپنی بہن کو لیتی آئیں۔ یہاں تک کہ رات کو کھانے اور نماز سے فرصت ہوئی۔ سب ایک جا بیٹھے۔ اس وقت اماں جان نے کہا کہ میری بہن نے ایک خواب دیکھا ہے جو سننے کے قابل ہے۔ ہاں کرامت بیگم بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑے عالی شان مکان میں میں نے دیکھا کہ کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی کچھ باتیں کر رہی ہیں۔ دور سے دیکھ کر ایک نے مجھے اشارہ سے بلایا، دوسری نے کہا کہ بوا تم کچھ جانتی بوجھتی بھی ہو یہاں ان کا کیا کام ہے۔ کیوں بلاتی ہو۔ میں یہ سنتے ہی قریب پہونچی اور چاہا کہ بیٹھ جاؤں۔ ایک نے کہا کہ بیوی ہمارے اوپر مصیبت آئے گی۔ جواب مانگا جائے گا۔ ہمارے مالک کا حکم نہیں۔ آپ یہاں نہ ٹھہریے۔ ہاں تھوڑی دور پر آپ بائیں ہاتھ جا کر ایک دروازے میں چلی جائیے۔ ادھر آپ کے ڈھب کے لوگ ملیں گے۔ گو ادھر بھی آپ کی ایک لڑ ہے، لیکن ہم بٹھا نہیں سکتے ۔ میں شرمندہ ہو کر دروازے کی راہ ادھر گئی۔ اب جو دیکھتی ہوں تو کچھ میرا ہی سا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 381


مکان ہے اور بہت سے آدمی بھرے ہوئے ہیں۔ مجھے کسی نے کوٹھے کا رستہ بتا دیا۔ برآمدے پر جا کر میں کمرے میں چلی گئی۔ دروازہ کھلا جو دیکھتی ہوں خوب مینہ برس رہا ہے۔ سامنے دریا بھرا نظر آئی دیتا ہے۔ پانی اس کا ایک طرف بہہ رہا ہے۔ پھر کیا دیکھتی ہوں کہ میرا لڑکا ڈوبتا اچھلتا چلا جاتا ہے۔ دل بھر آیا اور چیخ کر روئی۔ یا اللہ بچانا۔ یا اللہ بچانا کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اور قصد کیا کہ اپنے تئیں میں بھی پانی میں گرا دوں۔ پھر جو نظر پڑی تو دیکھا کہ وہ ایک درخت میں الجھ کر رہ گیا۔ دل کو چین آیا۔ اس کے باپ سے کہنے کو چلی کہ جلدی اپنے لڑکے کی خبر لو۔ دروزہ بند کر کے مڑتی جو ہوں دیکھا کہ جس کمرے میں کوئی نہ تھا، وہاں سب کے سب سردی کے مارے گھس آئے اور ایک پلنگ پر میری بہو اور داماد پڑے سو رہے ہیں۔ مجھے اس خواب میں بہت ہی غصہ آیا۔ چیخی پیٹی، سارا گھر اکٹھا ہو گیا۔ ایک ایک سے وہ حال کہا۔ تو تو میں میں میں صبح ہو گئی۔ لڑکے کا پتا نہیں۔ پھر کیا دیکھتی ہوں کہ وہ کیچڑ میں لت پت سامنے کھڑا ہے۔ میں اور میری لڑکی اس کے جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ گئی۔ اس کی بیوی کا گلا شکوہ کر رہے اور نام دھر رہے ہیں۔ اس کے ڈوبنے کا ملال ہے نہ ترنے کا خیال۔ بیٹے کی مامتا میں بہو کا دکھڑا رو رہی ہوں۔ وہ گردن جھکائے چپ کھڑا ہے کہ ایک دفعہ دروزے پر غل ہوا۔ در و دیوار کاپنے، زمین تھرائی، پاؤں لرزے، زلزلہ سا آیا، ایک ہنگامہ مچ گیا۔ لمبے لمبے قد کے پانچ چار


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 382


آدمی بھیانک چہروں اور ہیبت ناک شکلوں کے میرے گھر میں گھس آئے اور کون ہے کدھر ہے یہ ہے وہ ہے کہتے ہوئے چوطرفہ چاروں کے چاروں چکر کرنے لگے۔ پانچویں نے اشارے سے مجھے اور میری لڑکی کو بتا دیا۔ ان چاروں نے ہم دونوں کو باندھ لیا اور لے چلے۔ ہزار ہزار پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو بھائی، ہم نے کیا خطا کی۔ وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور ایک ٹوٹے سے ڈھابے میں لے جا کر بند کر دیا۔ اپنی اپنی جگہ پر وہاں اور بھی بہت سی عورتیں تھیں۔ بھکراہند، سیلن، بدبو، سڑاہنڈ سارے میں پھیلی ہوئی۔ اونچی نیچی زمین، نہ اوڑھنا نہ بچھونا۔ چھت کھڑے ہونے پر سر کچلتی ہے۔ کمان سی دھنیاں سر پر چلی آتی ہیں۔ دیواریں چار طرف سے منہ میں خاک جھونک رہی ہیں۔ کڑیاں اپنی زبان میں کڑی سناتی ہیں۔ نہ روشندان، نہ کھڑکی، نہ ٹاٹ، نہ چٹائی، اونچی زمین تکیے، نیچے بچھونا۔ چلنے میں ساری دنیا کا نشیب و فراز طے کرنا پڑتا تھا۔ سانس لو تو دماغ سڑتا تھا۔ دم کھینچو تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بیٹھنے سے دل بیٹھا جاتا تھا۔ اندھیرے سے قبر کی تاریکی مات، ہیہات، خدا کی ذات۔ پھرو تو سر پھرے، چکر آئے۔ لیٹو تو چھت سر پر آئے۔ خوف کا مکان، ڈر کا مقام، آفت کا گھر، قیامت کی جگہ ۔ ہے ہے کچھ نہ پوچھو، خیال کرنے سے بدن کے روئیں کھڑے ہوتے ہیں۔ میں ایک کونے میں زانو پر سر رکھ کر بیٹھ رہی۔ لڑکی ایسی چھوٹی کہ پھر یاد تک نہ آئی۔ اپنے حال پر بیٹھی رو رہی ہوں کہ ہائے وائے کی آواز آئی۔ ٹٹولتی ہوئی اس


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 383


صدا پڑ گئی مگر ڈرتی تھی۔ جیسے ہی اس آہ کرنے والے کے قریب پہونچی اس نے ڈر کر وہ چیخ ماری کہ میں خود اچھل پڑی۔ کون کون کی دونوں طرف سے آوازیں آئیں۔ جب ایک پر دوسرے کی دشمنی نہ ثابت ہوئی تو درد دل بیان ہونے لگے۔ قرینے اور آواز سے معلوم ہوا کہ بڑی باجی ہیں۔ پوچھا ہے ہے باجی تم کب سے ہو۔ کہا کہ بہن کیا پوچھتی ہو بہت دن سے ہوں۔ میں نے کہا کہ آخر یہ کون سی جگہ ہے۔ کہا کہ قید خانہ ہے۔ جو کسی پر عیب تھوپتا یا تہمت لگاتا ہے وہ یہاں قید کیا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے کس پر عیب لگایا۔ انہوں نے کہا تمہارے بیٹے اور اپنی بہو پر۔ میں نے کہا ہے ہے یہی حال تو میرا بھی ہے۔ اب ہم دونوں بہنیں وہاں زندگی کے دن پورے کرنے لگے۔ آٹھویں روز ایک صاحب تشریف لائے اور مجھ سے میرے جرم کی کیفیت بیان کر کے کہا تو اس لیے قید کی گئی ہے کہ اگر زندگی میں بہو داماد سے قصور بخشوا لیا تو بہتر ہے، عقبےٰ میں کام آئے گا نہیں تو اس خرابے میں خرابی سے ایک دن جان جائے گی اور وہاں نہیں معلوم کیا کیا سزا پائے گی۔ میں رونے لگی اور ان سے کہا کہ بہت اچھا آپ مجھے چھوڑ دیجیے تو میں آپ کا کہا کروں۔ وہ بندۂ خدا غائب ہو گئے۔ اب جو میں دیکھتی ہوں تو باجی نہیں ہیں۔ ادھر ڈھونڈھ، ادھر ڈھونڈ پھرتے پھرتے بڑی دور نکل گئی۔ وہاں کچھ روشنی دکھائی دی۔ ایک روشندان پایا۔ اس میں سے دیکھتی جو ہوں تو وہی باغ ہے اور


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 384


وہی سب عورتیں۔ ایک نے مجھے دیکھ کر کہا کہ دیکھو وہ ہماری بی بی کی گنہگار جھانک رہی ہیں۔ اس نے کہا کہ بہن ہو گا بھی ادھر نہ دیکھو۔ ایسا نہ ہو کہ بی بی سن پائیں۔ کہا سن پائیں گی تو کیا ہو گا۔ وہ ذرا آ لیں دیکھو میں ابھی تو سامنا کرائے دیتی ہوں۔ وہ بگڑ کر بولیں کہ دیکھو بہن نیکی ایسا نہ ہو کہ اس وقت بیوی کا مزاج راہ پر نہ ہو۔ تمہارا کہا اکارت جائے۔ وہی کہاوت نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم۔ اس نے کہا بہن عقل اگر میرا کہا نہ کریں گی تو بڑے ابا (صبر) سے نہ کہہ دوں گی کہ وہ چھوتے چچا خلق کو سمجھا دیں گے۔ یہ کہہ کر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ پھر کیا دیکھتی ہوں کہ ساجدہ میری بہو ان سب کے بیچ میں اس طرح گھری ہوئی کھڑی ہے جیسے پروانوں میں شمع۔ عقل نے اشارہ کیا، نیکی نے میری سعی کی۔ ایک لمبا سا مردوا سوکھا ساکھا چپ چاپ ساجدہ کے پہلو سے لگا ہوا کھڑا تھا۔ نیکی نے اس سے کہا کہ بڑے ابا ذرا چچا جان سے کہہ دیجیے کہ وہ بڑھ کر سمجھا دیں۔ ایک بےچاری کا کام ہو جائے۔ انہوں نے اشارہ کیا۔ فوراً ساجدہ آگے بڑھیں۔ میں خطا بخشوانے کو تو ان صاحب سے سن ہی چکی تھی اور اس کی بےگناہی کا بھی کامل یقین تھا۔ ہاتھ جوڑ کر داد خواہ ہوئی۔ اس نے شرم سے سر جھکا کر کہا آپ پریشان نہ ہوں، میں نے معاف کی ، میرے خدا نے معاف کی۔ یہ سنتے ہی مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ پھول گئی اور ساری ایذا بھول گئی۔ وہ خرابہ بہشت شداد سے اچھا ہو گیا۔ مڑی ہوں کہ وہی صاحب پھر آئے اور کہا کہ چلو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 385


تمہاری قید کی بیڑی کٹ گئی۔ میں نے ان سے نام پوچھا۔ کہا مجھے احسان کہتے ہیں۔ باہر آتے ہی اتنے دنوں کی تکلیف جسم و دماغ سے ایک ہی ہوا کے جھونکے میں نکل گئی اور میں اس باغ میں پہونچی۔ سب نے مل کر مجھے میرے مکان میں پہونچا دیا۔ وہاں جیسے ہی جاتی ہوں کہ داماد کا سامنا ہوا۔ ہاتھ جور کر ادھر بھی خطا معاف کرانے کو بڑھی۔ وہ بیچارہ خود ہی محجوب ہو کر افسردہ تھا۔ الٹا آپ ہی عذر خواہ ہوا اور میرے ہاتھ کھول کر کہا کہ حضرت آپ کا قصور بخشا، اب آپ مجھے گنہگار نہ فرمائیے۔ میں خوش ہو کر اس کو دعائیں دیتی اتھی تھی کہ سامنے سے بہو کو دیکھا کہ وہ مسکراتی ہوئی نند کا ہاتھ ہاتھ میں لیے یہ کہتی چلی آتی ہیں کہ واہ اماں جان آپ اپنی رہائی کی خوشی میں ان کو وہیں چھوڑ کر چلی آئیں۔ میں سچ کہوں مجھے اس وقت تک لڑکا لڑکی کچھ نہیں یاد تھے۔ اس کی صورت دیکھ کر خیال آیا کہ اے ہے سچ تو ہے میری بھول پر کیا مصیبت ٹوٹی تھی کہ چلتے وقت احسان سے اس کے چھوڑ دینے کو نہ کہا۔ خیر خدا کا شکر ہے کہ میری بچی پر بھی نیک بہو نے ترس کھایا۔ خوشی میں آ کر اس کے گلے لگنے کو جو جلدی جلدی چلی، پائنچوں میں پیر الجھا، گری اور آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کو دیکھ کر مجھے اپنے لڑکے کا لڑائی والے روز کیچڑ میں بھر کپڑے پہنے صبح کو آنا یاد آیا۔ اس سے بلا کر پوچھا ۔ اس نے وہی خواب کی سرگذشت بیان کی۔ دوسرے روز سوار ہو کر باجی کے یہاں گئی۔ یہ اس کے ایک روز پیشتر یہاں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 386


آ چکی تھیں۔ مجھ سے کہہ کر داماد کو بلوایا اور اسے بہزار منت و سماجت راضی کیا۔ میں نے اپنا خواب ان سے کہا۔ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے۔ میں قید تھی کہ تم آئیں پھر میاں احسان نے مدد کی۔ طاہرہ کے صدقے سے نجات پائی۔ یہ تو اپنے یہاں سے فارغ البال اور آزاد ہو کر گئی تھیں۔ مجھے یہ صلاح دی کہ چالیسویں میں چل کر میری طرح سے تم بھی ساجدہ سے قصور معاف کراؤ اور اپنا خواب سناؤ۔ میں نے داماد سے تو خطا بخشوا ہی لی تھی، آج بہو کی باری ہے۔ آپ سب صاحب اگر میری مدد کریں تو جہنم میں جلنے سے بچ جاؤں۔ نہیں معلوم ساجدہ بیگم کہاں ہیں۔ دو چار بول اٹھیں کہ یہ ہیں، یہ ہیں۔ وہ بیچاری یہ کہہ کر بڑھیں کہ میری بیبیو! خدا کے واسطے انہیں جانے نہ دینا۔ میں آئی۔ جا کر قدموں پر گریں۔ وہ رونے لگیں۔ دونوں ہاتھوں سے سر اٹھا کر کہا کہ اماں جان بس ہو چکا۔ خطا اور قصور کیسا اور اگر ہے بھی تو جان و دل سے میں نے بخشا۔ خداوند عالم آپ کی عقبےٰ بخیر کرے اور دنیا میں کسی طرح کا رنج نہ دے۔ یہ سارا سچا خواب ایسا نہ تھا کہ دہری تہری شہادت پر بھی کوئی اس پر شک شبہ کر سکے۔ چار طرف سے اللہ اکبر، سبحان اللہ کی صدائیں اور تیری قدرت کے صدقے، تیری شان کے نثار کی آوازیں دیر تک آیا کیں۔ ایک دوسرے سے کہہ کہہ کر اس کی خاوندی اور کنبہ پروری پر جھومتا تھا۔ کسی نے سجدہ کیا، کسی نے درود پڑھا، کوئی خوشی میں آ کر ساجدہ کے گلے سے لپٹ گیا، کوئی اس کے ہاتھ چومتا تھا، کوئی محبت کی نظر سے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 387


دیکھتا تھا۔ مجھے بھی آج کے خواب سننے سے ساجدہ کے پاک صاف ہونے پر فقط خوشی ہی نہیں ہوئی بلکہ دل سے ایک بڑا خیال دفع ہوا جو بیگم اماں کے قلب ماہیت ہو جانے سےمیرے دل میں نانا باوا کے تیجے والے دن سے کریدنی کر رہا تھا۔ خدا کا شکر کہ اتنی سی بھی میرے تردد کی بات میرے بندہ پرور مالک کے خلاف گذری اور کچھ دن نہ کٹے تھے کہ اپنے تفضل و عنایت سے مجھے ہر طرح کے غم و الم اور تکلیف و ایذا سے بچا دیا۔ خدانخواستہ اگر میں بےصبر ہو جاؤں تو نہ روز جزا صلہ ملنے کی امید وار ہو سکتی تھی اور نہ یہ عجیب و غریب سیر دیکھنے میں آتی۔ جو سوا کدا کے دوسرا دکھا ہی نہیں سکتا تھا۔ درحقیقت اس کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ روز کی یہ مصیبت انگیز نا میرے امکان سے باہر تھا اور اس پر صبر کرنا محال۔ لیکن اس نے فضل کیا اور اپنے صدقے سے یہ نیا تماشا دکھایا۔ دنیا میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ بوڑھا آدمی جس کی عقل زائل ہو چکی، عادت بگڑ چکی، دل میں گتھی پڑ چکی، شیطان پٹی پڑھا چکا، اپنے خیالوں پر یقین آ چکا ہو ، وہ یوں سنبھل جائے۔ ایسا بدل جائے۔ یہ سارا نتیجہ میرے صبر دکھانے اور بد دل نہ ہونے کا تھا۔ سچ ہے نیک کام کا نیک انجام۔ محنت کے بعد راحت اور رنج کے بعد خوشی ضرور ہوتی ہے۔ خداوندا تو سب کو مصیبت میں بد دل اور بےصبر ہونے کی آفت سے بچانا اور عقل و تحمل سے کام لینے کی ہدایت فرمانا۔ میں دل ہی دل میں یہ دعا کر کے بیگم اماں کے پاس گئی۔ بیوی اماں بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ساجدہ بھی تھیں سب


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 388


کے سب باتیں کیا کیے مگر خواب کا خیال دل سے نہ جاتا تھا۔ جب باتوں میں رات زیادہ آئی میں نماز کے خیال سے سونے کو یہ کہہ کر چلی کہ صبح کو آنکھ نہ کھلے گی۔ پھر تو سب ادھر ادھر ہو گئے اور اپنی اپنی جگہ جا کر سو رہے۔ صبح کو بعد نماز جب سب پھر ایک جگہ ہوئے تو امجدی بیگم اور بختاور دولہن نے خالہ جان سے پوچھ کر وہ خواب یاد کر لیا۔ فاتحہ کے بعد جب سوار ہونے لگے تو بیوی اماں نے سمدھن سے کہا کہ تاجدار دولہا کو بھیج دیجیے گا۔ کئی روز سے نہیں آئے ہیں۔ ان سب کے جانے کے بعد میں نے دوسرے روز اباجان سے سسرال جانے کی درخواست کی۔ اسی دن داماد بھی آئے۔ انہوں نے بھی کہا الغرض کچھ اوپر ایک مہینہ رہ کر میں سسرال میں آئی۔ اب تو زندگی جس خوبی اور لطف سے کٹی ہے اس کا شکر ادا کرنا میرے امکان سے باہر ہے۔ سب کو نئے نئے خطاب ملے۔ اپنے اپنے درجے کے موافق مرتبے بڑھے بڑے۔ مولوی صاحب جناب قبلہ و کعبہ اور ہمارے میر صاحب چھوتے مولوی صاحب مشہور ہوئے۔ یا تو میں چمرخ مقات ڈانگر تھی یا نازنین اور کامنی سے نامزد کی گئی۔ اعجوبہ تھل تھل اور بھسکو سے شاندار بنی۔ زحمت سے رحمت پھر بوا رحمت ہوئیں۔ چھو چھو سور داس اور پٹ پڑ سے چھو چھو بی کہی جانے لگیں اور بختاور بدنیصیب بدیمن سے ایک دن پھر بختاور قدم کی گئیں۔ پھر یہی نہیں پھیر بدل ہوا بلکہ سب کے ساتھ محبت کو بھی ترقی ہوئی اور ایک ایک کا پاس خیال بھی نہایت مناسب طور سے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ۔۔۔ 389


ہونے لگا۔ اس اس خوبی اور بزرگی سے انہوں نے ہم سب کی رکھیا کی ہے کہ اس کا شکر زبان سے نہیں ادا ہو سکتا ہے۔ بیگم اماں کی وہ محبت اور عنایت جب یاد آتی ہے، اس وقت کو بھی دل بےتاب ہو جاتا ہے۔ کئی برس تک جو انہوں نے دفعہ دفعہ اتفاقات سے میرے ساتھ برے سلوک کئے، اس کے بدلے اور معاوضے میں تھوری ہی مدت کے اندر جو انہوں نے نیکیاں، محبتیں، اخلاص، پیار، خاطرمداارت بے حد و بےانتہا کی تو ان سب کا ایک پہاڑ بن گیا جو کسی وقت اور کسی طرح میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا۔ اور وہ متفرق برائیاں ایک ایک کر کے اگر کبھی سامنے بھی آ جاتی تھیں تو آنکھوں میں بالکل نہیں سماتی تھیں۔ کیونکہ پہاڑ کے آگے ایک پرکاہ کی حقیقت اور زیادہ کے آگے کم چیز کی ہستی کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ زمانہ ناپائدار نے ان کی جدائی کی تدبیر ٹھہرا کر دغا دی۔ زندگی مستعار نے وفا نہ کی۔ اس عیش و عشرت میں مجھے تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ انہوں نے ایک ہفتہ علیل رہ کر عارضہ تپ محرقہ میں انتقال فرمایا۔ شاید کوئی چھ پہینے وہ بعد نانا جان کے زندہ رہی ہوں۔ مجھے اپنی ساس کے مرنے کا بہت غم ہوا۔ تعلق و محبت یا ان کی بزرگی و سرپرستی کی وجہ سے نہیں، بلکہ دو سبب سے۔ ایک تو پہلاسبب کہ ان کے جبر، ظلم، شدت، زیادتی پر میرا صبر کرنا اور اسی صبر کرنے سے خدائے برتر کی سرکار میں میرا مرتبہ جو بڑھ رہا تھا۔ اس کا موقوف ہو جانا کوئی صبر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 390


کرنے والا نہ رہا نہ مرتبہ بڑھوانے والا۔ خدا انہیں بخشے۔ انہیں کے صدقے سے یقیناً پروردگارِ عالم نے مجھے صابروں میں لکھ لیا ہو گا اور بہت بڑا صلہ دیا ہو گا۔ مجھے اس کا نہیں معلوم، اندازہ نہیں کر ستکی لیکن میرے حوصلے اور گمان و خیال سے کہیں زیادہ ہو گا۔ یہی ایک بات کیا کم ہے کہ خدائے برحق ہر وقت میرے ساتھ تھا۔ جس کے سبب سے شیطان اور میرے نفس نے مجھ پر کبھی قابو نہ پایا۔ ان اللہ مع الصابرین۔ دوسرا سببِ غم ان کے دل اور عادت بدل جانے کے بعد محبت و الفت کرنے کی حالت میں دفعتہً ان کا ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانا تھا۔ ان دونوں غموں کو جس نے میرے دل سے نکالا وہ یا تو خدائے قہار کا خوف تھا یا یہ خیال کہ الحمدللہ وہ دنیا سے پاک و صاف اٹھیں۔ نہ میری مشغول الذمہ رہیں، نہ داماد کی گنہگار۔ جیسا ان کا انجام بخیر ہوا ہے خدا جملہ جہان کی عورتوں کا انجام بخیر کرے۔ بھائی بندوں کا گناہ ہم چشموں کی خطا روز محشر بےانتہا ذلت دلوائے گی۔ خدا ہمیں ایسی توفیق اور عقل رسا عطا کرے کہ ہم ان باتوں پر اپنے دنیا سے جانے کے پہلے ہی نظر کر کے اپنا کہا سنا بخشوا لیا کریں اور کسی کا بوجھ کسی طرح کا جھگڑا اپنی گردن پر نہ لے جائیں تاکہ وہاں خالق عادل کے سامنے چار ہم چشموں میں ان کے گنہگار بن کر خفت و ندامت نہ اٹھائی۔ بحمد و آلہ ہماری خوش دامن صاحبہ کی وفات سے جز و کل گھر کا انتظام ہمارے اختیار میں آیا۔ غمی کی سب تقریبیں کیں۔ یہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 391


سال کچھ ایسا کٹا کہ اس میں اکثر چاہنے والے جدا ہوئے جس میں بعض کی جدائی عارضی تھی اور بعض کی دائمی۔ اسی سال کے آخر ہماری دو نانیوں نے اسی تپ میں انتقال کیا۔ اسی سال مولوی صاحب نے ہجرت کر کے مدینۂ منورہ کا سفر کیا۔ اسی سال بیوی اماں بیمار ہوئیں اور ان کے بھائی نقل مکان اور تبدیل آب و ہوا کے لیے اپنے گاؤں پر لے گئے۔ کئی مہینے رہیں، دوسرے سال وہ بیچارے اپنا مقدمہ ہرجانے سے زیر بار ہو کر بہن کو پھر گھر پہونچا گئے۔ جب ان پر مہاجن نے اپنے قرضے کا دعویٰ کیا تو وہ ندامت کے مارے نہ گئے۔ وہاں عدم پیروی میں مقدمہ ہر گیا۔ مہاجن نے وارنٹ و قرقی ساتھ نکلوائی۔ یہ بیچارے چھپ کر وہاں سے لکھنؤ چلے آئے۔ اس نے مکان، گاڑی خانہ، پانچ چار دوکانیں، اسباب نقد جنس قرق کرا کے ڈگری کرایا۔ خرچہ اور باقی کے روپے کے لیے وہ ڈگری منتقل کرا کے لکھنؤ میں آیا۔ وارنٹ بھی ساتھ تھا۔ یہ ناواقف ایک دن راہ چلتے چلتے مٹ بھیڑ ہو گئی۔ وہ ان کی تلاش میں تو پھرتا ہی تھا۔ پکڑے گئے۔ بہ زبردستی اس کو لے کر گھر پر آئے۔ اباجان گاؤں پر سدھارے تھے۔ ماموں جان سب کو باہر ٹھہرا کر اندر گئے۔ بہن سے ذکر کیا۔ گاؤں پر کا روپیہ آیا رکھا ہوا تھا اور کئی برس کا تھا۔ لیکن انہوں نے ایک تو اباجان کے نہ ہونے سے دوسرے میری امانت کے خیال سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بھائی روپیہ تو موجود نہیں، ہاں اسباب حاضر ہے۔ مکان ہے، گہنا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 392


اس میں سے جسے وہ قبول کرے، تم معاملہ کر لو۔ وہ گئے اور اس سے بیان کیا۔ مہاجن ایک لالچی تھا اور لکھنؤ میں ایک مکان کی برسوں سے تمنا بھی رکھتا تھا۔ گہنے پاتے کا تو صاف انکار کیا۔ مکان پر اس شرط سے راضی ہوا کہ کچہری کا خرچہ اور اپنے آنے جانے کا خرچ تین روپیہ سیکڑا کا سود پہلے قرضے کا باقی روپیہ، نقصان ہر جا سود در سود۔ اگر ان سب کا ایک کاغذ پندرہ روز کی میعاد کا لکھ دو تو خیر ان کو تو غرض ہی تھی جو جو اس نے کہا قبول کرتے چلے گئے۔ اصل کا تو ہزار ہی روپیہ تھا اس نے ایک ایک کے دس دس جوڑ کر کم کو زیادہ کر کے پورے پانچ ہزار کا پکا کاغذ کر لیا۔ انہوں نے لکھ دیا کہ اگر یہ روپیہ پندرہ دن کے اندر نہ پہونچے تو مکان پر قبضہ کر لینے کا اختیار ہے۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ مکان پانچ ہزار کا ہے یا زیادہ کا۔ وہ کاغذ لے گیا۔ یہ گھر میں آئے، بہن سے بیان کیا۔ وہ سناٹے میں آئیں اور ارادہ کیا کہ کسی طرح سے گاؤں پر اس بات کی خبر پہونچے۔ پاسی آٹھویں روز خیر خبر کو آتا جاتا تھا۔ وہ بھی جب اباجان کو وہاں زیادہ دن رہنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس فصل میں اناج کٹ رہا تھا۔ سب اپنی اپنی محنت مزدوری میں لگے تھے۔ پندرہ دن میں دس دن گذر گئے اور کوئی نہ آیا۔ اس وقت اماں جان نے بےتاب ہو کر بھائی سے کہا کہ یا تم خود چلے جاؤ یا کسی کو گاؤں پر بھیج کر اپنے بھائی کو بلواؤ۔ دن کم رہ گئے۔ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور کف افسوس ملنا پڑے۔ اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 393


ایسا نہ ہو کہ مکان قبضے سے نکل جائے۔ سستی اور کاہلی اچھی نہیں۔ میں نے تم سے مکان کو جو کہا تھا تو اس سے کیا یہ مطلب تھا کہ تم جا کر اس کو اقرار نامہ لکھ دو کہ پندرہ دن میں ہم تجھے قبضہ دے دیں گے۔ گھر سے نکل جائیں گے۔ جو تو چاہنا سو کرنا۔ تم نے یہ بھی نہ دیکھا کہ پچاس ہزار کی عمارت ہم ہزار روپیہ پر لکھے دیتے ہیں اور پھر کس طرح کہ بالکل بے سمجھے بوجھے ۔ کاش کہ تم کہنے سے پہلے مجھی سے پوچھ لیتے۔ وہ چپ بیٹھے سنا کیے۔ پھر کہا کہ میں جاؤں گا تو آپ اکیلی ہو جائیں گی اور کسی کو بھیجنا چاہیے۔ غرض اس دن تو کوئی نہ ٹھہرا، دوسرے دن ایک روپیہ پر ایک آدمی کو مقرر کر کے روانہ کیا۔ آٹھ پہر کا راستہ تھا وہ یہاں سے چلا اور تیسرے دن گاؤں پہونچا۔ شام کو جب اباجان آئے تو ان کو رقعہ دیا۔ انہوں نے فوراً جواب لکھ کر پاسی کو اسی وقت دوڑایا۔ وہ راتا رات چل کر صبح دم آ پہونچا اور رقعہ دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ جو روپیہ تمہارے پاس طاہرہ بیگم کے رکھے ہیں اس میں سے ہزار روپیہ دے کر مکان کی جان بچاؤ۔ اماں جان نے یہ سن کر فوراً ہزار روپیہ ماموں جان کو گن دیے ۔ وہ روپیہ لے کر باہ ر جا کر بیٹھ رہے۔دینا تھے پانچ ہزار، ملے ہزار۔ مہاجن پاس جا کر کیا کہیں۔ بہن سے ہزار روپیہ کو کہہ چکے تھے۔ نہ یہاں آنے کا موقع تھا نہ مہاجن کے پاس جانے کا ۔ اس الجھن میں وہ کچھ ایسے مضطرب اور پریشان ہوئے کہ وہ ہزار روپیہ بھی لے کر شہر سے اسی دن نکل گئے اور


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 394


ایسے مفقود الخبر ہوئے کہ پھر کسی نے لکھنؤ میں انہیں نہ دیکھا۔ وہاں اباجان پاسی کو بھیج کر بھی اطمینان سے نہ بیٹھ سکے۔ صبح سویرے سب کام اسی طرح سے چھوڑ کر سوار ہو آئے۔ پورا پندرھواں دن تھا کہ شام کو یہ گھر پہونچے۔ دیکھا تو بیوی نہایت افسردہ اور مغموم بیٹھی ہوئی ہیں۔ پوچھا خیر تو ہے۔ کہا کہ خیر کیا تمہارے لکھنے کے بموجب میں نے ہزار روپیہ انہیں دیے۔ وہ کل سے غائب ہیں کہیں پتا نہیں۔ آج صبح کو رحیم بخش کی زبانی معلوم ہوا کہ آپ نے ہزار روپیہ دیے، کاغذ پانچ ہزار کا ہوا ہے۔ یہ سن کر میرے ہوش و حواس جاتے رہے اور اس وقت سے طرح طرح کے وہموں میں گرفتار ہوں۔ ان کے نہ آنے سے اور بھی الجھن ہو رہی ہے۔ اباجان باہر گئے۔ رحیم بخش سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ مجھے اس کا مقام نہیں معلوم۔ دو گنوان سنتا ہوں، وہیں آ کر اترا ہے۔ اباجان نے پنیس نکلوائی، دوگنوین گئے۔ بارہ بجے تک ڈھونڈھا، کہیں پتا نہیں۔ آخر عاجز ہو کر پلٹ آئے۔ اماں جان نے کہا کہ کسی قانونی سے پوچھو۔ اباجان نے فرمایا کہ نہ مجھ سے کسی کچہری کے ملازم سے ملاقات ہے نہ وکیل سے راہ و رسم۔ کہاں جاؤں اور کیا کروں۔ دوسرے رات کے بارہ بج گئے۔ اس وقت کس کے پاس جاؤں اور کوئی کیوں اپنے گھر سے نکلنے لگا۔ وہ بھی سمجھ کر چپ ہو رہیں۔ صبح سویرے نماز سے فرصت کر کے اباجان میرے پاس آئے اور سب حال بیان کیا۔ میں نے کہا اگر پانچ ہزار روپیہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 395


دے کر اپنی بات اور بزرگوں کی چیز قبضے سے باہر نہ جائے تو بہت اچھا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہزار روپیہ تو وہ لے جا چکے اور وہ بھی تمہارے، اب کہاں سے آئے۔ میں نے کہا کہ جو کچھ آپ کے پاس جمع ہے وہ لیجیے۔ باقی کی فکر کیجیےی۔ کچھ میرے پاس ہے۔ سب ملا کر اس کی جمع نکل آئے گی۔ وہ یہ سن کر سواور ہو کر گھر پہونچے۔ آدمی سے سنا کہ مہاجن آیا تھا اور کہہ گیا ہے کہ میں کل دو دفعہ آ چکا۔ آج پھر اطلاع دے چلا۔ اب کچہری جاتا ہوں۔ اباجان نے رحیم بخش سے پوچھا کہ کل کس وقت آیا تھا۔ کہا کہ جی مجھے نہیں معلوم۔ فرمایا کہ تم کہیں کام کو گئے ہو گے۔ کہا کہ جی میں دروازے کے باہر تک تو نکلا نہیں کہ پھر وہ کس وقت آیا جو تمہیں معلوم نہ ہوا۔ تم نے نہ کہا بندۂ خدا میں یہاں سے ہلا تک نہیں اور تو صریحاً جھوٹ کہہ رہا ہے۔ کہا کہ جی یہ تو میں بھول گیا۔ عمر بھر میں اس روز اباجان کو اس قدر غصہ آیا جو اس سے فرمایا کہ تم سٹھیا گئے ہو۔ عجیب لرپنے کی حرکت کی ہے۔ پھر گھر میں جا کر روپیہ نکلوایا۔ سو اوپر چار ہزار روپیہ تھا۔ چار سو اماں جان سے لیے۔ ڈیڑھ سو اپنے پاس تھے۔ پانسو مجھ سے طلب کیے۔ سب ملا کر کچہری جانے کا سامان جلدی جلدی کر ہی رہے ہیں کہ شیخ مختار احمد صاحب آئے۔ اباجان کو پریشان دیکھ کر حال پوچھا۔ سب سن کر کہا کہ گاڑی منگوائیے۔ میں آپ کے ساتھ چلوں۔ میرے ایک دوست وکیل ہیں۔ ان سے وہیں صلاح مشورہ کر لیا جائے گا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 396


اباجان ان کو ساتھ لے کر کچہری گئے۔ رحیم بخش کو ساتھ لیا اور کہا کہ جب مہاجن کو دیکھنا، ہمیں دور سے دکھا دینا۔ رحیم بخش چاروں طرف مہاجن کو ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اور کہیں پتا نہیں ملتا۔ اباجان شیخ صاحب کے ساتھ وکیل صاحب کے پاس گئے اور سب حال دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ بےاطلاع نامہ آئے یا کاغذ دیکھے ہم کچھ رائے نہیں قائم کر سکتے۔ شیخ صاحب نے کچھ اور کہنے کا ارادہ کیا کہا بس صاحب ایک دفعہ تو آپ کو سمجھا دیا ہم آپ کی طرح بےکار نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ کی ٹھک ٹھک میں اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں صاحب مایوس ہو کر اٹھ آئے۔ رحیم بخش کو ڈھونڈھ کر پوچھا کہ ارے بھئی کہیں اسے دیکھا۔ کہا جی ابھی تو نہیں ملا ایک ایک کو گھور رہا ہوں۔ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ مجبوری کی حالت میں وہیں کھڑے ہو رہے۔ دیکھا کہ ایک گول مول چاروں چولیں برار کا آدمی سر پر پھٹا ڈوپٹہ لپیٹے، میلی دھوتی باندھے، موٹے گاڑھے کا مرزائی پہنے رحیم بخش سے کچھ پوچھ رہا ہے اور وہ اقرار انکار پر الٹا سیدھا سر ہلا رہے ہیں۔ شیخ صاحب وہاں گئے۔ کچھ سن کر قرینے سے دریافت کیا کہ ہو نہ ہو یہی مہاجن ہے۔ میاں رحیم بخش نے تو اس کو پھر اڑایا تھا۔ شیخ صاحب اسے الگ لے گئے اور پوچھا کہ تم اس آدمی سے کیا پوچھتے تھے۔ اس نے کیفیت بیان کی۔ شیخ صاحب نے کہا بھئی تمہیں ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تو دیوانے ہو گئے۔ کب سے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ تمہارا کہیں پتا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 397


نہیں ۔ رات کو سارے گنوین کی خاک چھانی۔ چلو اپنا روپیہ لو وہ ایک دفعہ لوٹ گیا، مچل گیا کہ واہ کیسا روپیہ؟ روپیہ تو میں ہر گز نہ لوں گا۔ وادا (وعدہ) ٹل گیا، وکت (وقت) نکل گیا اب مکان میرا ہو چکا۔ میں عدالت سے مدد لے کر اس پر کبجہ (قبضہ) کرنے جاتا ہوں۔ یہ سنتے ہی شیخ صاحب گھبرائے۔ اباجان کو اشارے سے بلا کر اس کی تقریر سنوائی۔ ان کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ بیچارے سیدھے آدمی۔ نہ قانون جانیں نہ قاعدے، نہ کبھی کچہری گئے نہ دربار۔ گھبرا کر پھر انہیں وکیل پاس گئے اور کہا کہ جناب وہ مہاجن آیا ہے۔ روپیہ نہیں لیتا اب کچھ تدبیر کرنا چاہیے۔ آپ مہربانی فرما کر ذرا اس سے دو باتیں کر لیجیے۔ کاغذ بھی ملاحظہ کیجیے۔ وعدے میں فقط ایک رات گذری ہے وہ بھی لاعلمی سے۔ روپیہ کس نے لیا، دینا پڑا ہم کو۔ آدھی رات گئے تک اس کا مکان ڈھونڈھا کسی طرح نہ ملا۔ اس میں ہماری کیا خطا ہے۔ وکیل صاحب خبر بھی نہ ہوئے کہ بکتے کیا ہو۔ جب انہوں نے نذرانے کے پانچ روپیہ ہاتھ میں تھمائے اس وقت سر اٹھا کر کہا کہ آپ نے کیا کہا ذرا پھر تو کہیے۔ انہوں نے دہرایا، پھر سن کر فرمایا کہ تمسک کتنے کا ہے۔ کہا کہ پانچ ہزار کا۔ فرمایا اڑھائی سو روپیہ محنتانہ قانونی ہوا، وہ عنایت کیجیے تو کچھ کارروائی کی جائے۔ پچاس لے لیجیے۔ نہیں سو لیجیے۔ ڈیڑھ سے لیجیے۔ نہیں دوسو روپیہ دینے کہے۔ اس وقت کہا کہ خیر آپ کی خاطر ہے مگر نذرانہ کا پچاس روپیہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 398


اور دینا ہو گا۔ اگر بےلڑائی جھگڑے آپ کا مکان بچ گیا تو۔ جھک مار کر وہ بھی دینے کو کہے۔ اس وقت ایک آدمی سے کہا کہ آ کے ساتھ جاؤ۔ اباجان سے کہا کہ دور سے اس مہاجن کو انہیں بتا دیجیے گا اور ہمارے روپئے یہاں رکھتے جائیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ میں لائے دیتا ہوں آپ خاطر جمع رکھیے۔ ابھی لیجیے۔ کہا کہ تو معاف کیجیے، فرصت نہیں۔ یہ کہہ کر منہ پھرا لیا۔ آخر چپکے سے گن کر دو سو چہریدار نذر کیے۔ اس وقت وہ شخص پھر اٹھا اور کہا کہ چلیے۔ راہ میں اپنی مٹھائی کا بھی دعویٰ کر دیا اور ثبوت دعویٰ میں بہتیری دلیلیں بھی پیش کر کے آخر کو پانچ قبلوائے۔ اباجان نے دور سے اسے دکھا دیا اور بموجب حکم ان درمیانی کے خود بیچ سے نکل گئے بلکہ سامنے سے ٹل گئے۔ وہ بندہ خدا وہاں گیا۔ باتوں باتوں میں اس سے خوب سیل کر کے نام دریافت کیا۔ پھر کرید کرید کر سارا حال پوچھا۔ پھر کچھ کان میں پھونک کر مگھ کبوتر کی طرح لگا لے چلا۔ یہ دونوں صاحب بھی الگ الگ ساتھ تھے۔ وکیل صاحب نے دیکھتے ہی لالہ صاحب کی خوب آؤ بھگت کی۔ دعویٰ کے دائر کرنے کی نسبت پوچھا۔ اس نے سب بیان کر کے کاغذ سامنے رکھا۔ کہا اس کے دیکھنے کی تو مہلت نہیں۔ زبانی کہو۔ کان میں اس دلال نے کہا کہ کچھ نذر دو تو کاغذ دیکھیں۔ اس نے دھوتی میں سے بہزار خرابی اٹھنی نکال کر دکھلائی۔ دلال نے نیلی پیلی آنکھیں دکھا کر کہا کہ واہ اتنا تو ہم بھی کبھی نہ لیتے۔ ارمان کیسے سیٹھ ہو


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 399


تمہیں شرم نہیں آتی کہ اتنا بڑا مقدمہ اور اول درجے کا وکیل۔ آٹھ آنے پیسے بہت کہنے سننے سے دو چونیاں دو دفعہ میں کر کے اس نے اور بڑھائیں۔ کاغذ اور وہ ان کے ہاتھ میں دیا۔ لے کر پڑھا، کچھ منہ بنایا، کچھ صورت بگاڑی، کچھ ہنسے، کچھ افسوس کیا پھر کاغذ اس کو دے کر کہا کہ تم نے اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ مکان کسی کا، یہ کاغذ لکھا کسی نے۔ کیا عدالت میں ایسا بھی اندھیر ہے کہ ایک کا مال دوسرے کو اٹھا دیا جائے اور تمہارے بدلے میری گردن پر چھری پھیر دی جائے۔ ابھی صاحب مکان آئے تھے اور وہ عذرداری کو کہتے ہیں۔ مجھ سے تو محنتانہ نہیں چکا، کسی دوسرے وکیل کی تاک میں گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر جھگڑا تو سارٹیفکٹ کا ہے، کیونکہ چھ مہینے کے اندر وہ نہیں ملتا۔ جب سارٹیفکٹ مل لے تو جن صاحب پر تمہارا روپیہ ہے، ان کی رشتے کی پھوپھی زاد بہن کا اپنے متوفی بات کی جایداد میں حق ثابت ہو۔ ابھی پہلی ہی بسم اللہ غلط ہے۔ نیو نہیں تو عمارت کاہے پر اٹھاؤ گے۔ جڑ نہیں تو شاخیں کس میں نکالو گے۔ اس کاغذ کو بتی بنا کر رکھ چھوڑو اور ہولی دیوالی نکال کر دیکھ لیا کرنا۔ دل خوش ہو جائے گا۔ تم اتنے دن سے لین دین کرتے ہو یہ کاغذ کرایا ہے، جس پر صاحب جائداد کے مہر و دستخط ایک طرف، نشانی تک نہیں۔ جاؤ اور شہد لگا کر چاٹو۔ یہ کہہ کر گھن گرج ایک قہقہہ لگایا۔ وہ ایسا گھبرایا کہ دانت نکال کر قدموں میں گر پڑا۔ گڑگڑا کر ہاتھ جوڑے۔ پہلے تو خوب ٹیڑھے ترچھے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 400


ہوئے، خوب گہکے گرجے، ڈرانی آوازیں نکالیں۔ جب دلال نے ہاتھ جوڑے اور اپنی طرف سے جھپا جھپ پچاس کے سو اور سو کے دو سو کر دیے اس وقت لٹکے ہونٹ اوپر چڑھا کر کہا کہ پھر لاؤ جلدی دلواؤ۔ مہاجن بھی بوکھلا کر پرمیشر کی قسم سے دو سو کا پکا وعدہ کر لیا تب خداخدا کر کے وکیل صاحب راضی ہوئے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم نے روپیہ ہمارے حق کا کم دیا ہے۔ ہم ادھر سے بھی لیں گے۔ تم نہ کھنسانا نہ کنمنانا۔ وہ راضی ہوا۔ دلال صاحب دوڑے گئے اور سبق پڑھا کر اباجان کو لے گئے۔ پہلے تو یہ بھی دونوں صاحب تنتے کھنچتے رہے ۔ آخر کو معاملہ ہو گیا۔ دوسو روپیہ مہاجن سے لیے۔ اڑھائی سو اباجان سے اینٹھے۔ کاغذ اور رسید شیخ صاحب کے حوالہ کی۔ روپیہ اس کو سونپا۔ دلال نے الگ گھاتا پایا۔ ایک بجے اباجان گھر پر آئے۔ سب کیفیت بیان کی۔ اماں جان اپنے بھائی کو چاہتی تھیں مگر اس حرکت سے بےانتہا ناخوش ہوئیں۔ بیماری سےاٹھ کر یہ غم ایسا اتھایا کہ پھر بیمار پڑ گئیں۔ اور قریب مرگ ہونے کی حالت میں اپنے اوپر نذر مان کر حج واجب کر لیا۔ بارے خدا خدا کر کے چھ سات مہینے کے بعد اچھی ہوئیں۔ غسل صحت کیا۔ طاقت آنا تھی کہ تیاری سفر شروع کر دی۔ شعبان کے عید والے دن ناناجان کی پنشن سے معرفت بابو دین دیال صاحب کے ثلث کٹ کے دو سو روپیہ اماں جان پر مقرر ہوئے۔ وہی بذریعہ حیات نامہ اپنی بسر اوقات کے لیے وہاں بھیجنے کو کہہ کے باقی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 401


سارا بھرا پُرا گھر مع عابدہ بیگم اور اپنی پنشن کے مجھے عنایت فرما کے شبرات کی سترھویں کو دونوں صاحب سدھارے۔ عابدہ بیگم کوئی آٹھ سات برس کی تھی۔ نہ اس کو اس قدر ملال ہوا کہ تڑپتی، بلبلاتی، روتی، پیٹتی نہ اماں جان کو مطلق رنج ہوا ۔ اباجان کو چونکہ ان کے ارادے کا حال معلوم تھا اس وجہ سے بہت کچھ سمجھایا کہ طاہرہ بیگم کی جدائی ہمارے واسطے کیا کم ہے کہ تم عابدہ کو بھی چھوڑے جاتی ہو۔ انہوں نے ہر گز نہ مانا اور کہا کہ میرے پاس سے یہاں اچھی طرح رہے گی۔ اماں جان باارادۂ ہجرت گئی تھیں۔ حتماً قصد آنے کا نہ تھا۔ مجھے ان کے ارادے سے بالکل خبر نہ تھی۔ لیکن انتظام، اہتمام، طریقے، قاعدے البتہ مجھے آگاہ کر رہے تھے کہ شاید اب ان کا ارادہ پھرنے کا نہیں ہے۔ ان کے ج انے کے بعد بوا چھوچھو، بختاور اور اعجوبہ نے انتقال کیا۔ خیراتن اور محمد خانم، رحیم بخش ان کے ساتھ گئے۔ لونڈیاں نانا جان کے مرنے کے ساتھ ہی تین تفرقہ ہو گئیں۔ جس کا جدھر سینگ سمایا چلی گئیں۔ بیری والی حویلی، کوٹھی والا مکان، محل سرا، بغیہ، دیوان خانہ بالکل خالی ہو گئے۔ رحمت، راحت، وزیرالنسا، محبت ان چار آدمیوں کو خدمت عابدہ بیگم اور صابرہ بیگم پر اور باہر خدا بخش اور غلام علی کو ایک دو روز کے واسطے چھوڑ کر میں سسرال گئی اور میر صاحب سے کہہ سن کر صلاح مشورہ کر کے وہاں سے اٹھ آئی۔ مکان انہیں رمال صاحب کے حوالے کیا۔ اس میں ایک کرایہ دار کو انہوں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 402


اتار دیا۔ اس درمیان میں میں نے اپنا ذکر بےمحل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ ان تین چار برس کے عرصہ میں خداوند عالم کی سرکار سے دو لڑکیاں اوپر تلے اور دو جوڑواں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ سب ملا کر پانچ تھیں۔ عالیہ، آمنہ، راضیہ، صادقہ ان چاروں لڑکیوں کے نام تھے۔ عابدہ اور صابرہ ملا کر چھ بچے میرے گھر کی رونق اور میرے پہلو کی زینت تھے۔ خدا کا دیاسر آنکھوں پر اس کی دین اس کی مصلحت جو عنایت کرے۔ مجھے تو رنج تھا نہ ملال بلکہ ان ہر ایک کے پیدا ہونے پر اس کا شکر بجا لائی۔ مجال نہ تھی جو یہ کہتی کہ لڑکا عنایت کر۔ ہنسی خوشی ان کی خدمت اور پرورش میں مصروف ہوئی۔ لیکن میر صاحب کو ان لڑکیوں کے دنیا پر آنے سے باطن میں نہایت رنج ہوا۔ میں ان بچوں کو اور وہ اپنے اس ملال کو پالنے لگے۔ گو مجھ پر ظاہر نہیں کیا لیکن قرینے سے مجھ پر یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ انہیں کوئی نہ کوئی رنج ہے۔ گو اس کی وجہ نہ ظاہر ہوئی۔ شادی کے بعد سے میں نے کوئی دقیقہ اطاعت و فرماں برداری، گرہستی اور گھرداری کا اپنے نزدیک اٹھا نہیں رکھا۔ کیونکہ استانی فاطمہ بیگم صاحبہ کی نصیحتیں مجھے خوب یاد بلکہ دل پر نقش تھیں۔ لیکن میں نے اپنے میاں کو اپنی جانب بہت کم ملتفت و مخاطب پایا۔ چونکہ ابتدا ہی سے ان کی طبیعت کا یہ انداز تھا اس وجہ سے مجھے تمیز نہ ہوئی، نہ لڑکیوں کو اس عدم التفاتی کا سبب خیال کر سکی۔ دل ہی دل میں بخیال آزمائش جب اور لوگوں کی نسبت ان کی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 403


طبیعت کے لگاو کو جانچا تو کچھ اپنا ہی سا رنگ نظر آیا۔ یہ صورت اور میرے اطمینان کا باعث ہو گئی۔ ثآبت ہوا کہ مجھ اکیلی ہی سے ان کا یہ حال نہیں بلکہ اپنے عزیزوں اور ماں باپ، بھائی بہن سے بھی کچھ یہی نقشہ ہے۔ تب میں سمجھ گئی کہ ان کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے۔ نہ کھوج کرنا چاہیے، نہ خیال۔ پھر میں نے اس کی کریدنی کرنا بالکل چھور دی اور جھوٹوں بھی خیال نہ کیا۔ عالیہ اور راضیہ کے بعد جب پھر چھٹی لڑکی ہوئی اور عابدہ سمیت ساتویں تو میر صاحب کی توجہ اور کم ہو گئی۔ ایک تو ان کی توجہ سرے ہی سے نہ تھی اور جو تھی وہ ایسی تھی کہ دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس میں جو رتی ریزے برابر اور کم ہو گئی وہ بھی بالکل نہ دکھائی دی۔ اور میں اس کو ہمیشہ ان کی عادت پر محمول کرتی رہی۔ ادھر لڑکیاں چلی آتی تھیں اور ادھر وہ توجہ چلی جاتی تھی۔ اس لڑکی کا نام زکیہ رکھا گیا۔ اس کا دنیا میں آنا تو بالکل ان کی توجہ کا جانا تھا۔ خیر گزری کہ یہ لڑکی کوئی پندرہ سولہ مہینے کی تھی کہ میر صاحب کے والد ماجد کا خط طلب مدینہ منورہ سے آیا جس میں ان کی بیماری کا حال لکھا تھا۔ میرے لے لے کرنے سے آمادہ تو ہوئے مگر گھر سے جو کبھی نہ نکلے تھے اور یہ اتنا لمبا چوڑا سفر خشکی و تری کا تھا، اس سے منہ چھپاتے اور جی چراتے تھے۔ پورا مہینہ سمجھاتے سمجھاتے گذرا۔ آخر کو راضی ہوئے لیکن ساتھی اس کے یہ بھی کہا کہ دو تین مہینے بعد جاؤں گا تاکہ حج


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 404


و زیارت سے مشرف ہو ں۔ جب تک جائیں جائیں کہ بیمار پڑ گئے۔ وہاں خدا کی قدرت سے مولوی صاحب اچھے ہو گئے۔ جب ان پر خدا نے فضل کیا تو ایک خط اور آیا لیکن ان کے بلانے چلانے کو کچھ نہیں لکھا تھا۔ یہ خط اباجان کا تھا۔ اس خط کو پڑھ کر میر صاحب کچھ سر بگریبان ہوئے اور گو طاقت نہیں آئی تھی مگر تہیہ کر کے ماہ مبارک کے آخر آخر روانہ ہو گئے۔ جتنے دن وہ سفر میں رہے، مجھے تھوڑا سا وقت ملا جو لڑکیاں قابل تعلیم ہو چکی تھیں، ان کی بسم اللہ کر کے عابدہ بیگم کے سپرد کر دیا۔ عابدہ بیگم ماشاءاللہ میری ہر ایک بات کی پوری تصویر تھی۔ صابرہ کی صورت مجھ میں ایسی نہیں ملتی تھی جیسی عابدہ ہم شکل تھی۔ میں نے اس بات کا انتظام کر لیا کہ کسی لڑکے نے میرے یہاں زبان نہیں کھولی مگر یہ کہ پہلے اللہ کہا ہو۔ دنیا جہاں کے لرکے ماں باپ کے نام سے اپنے کلام کی ابتدا کرتے ہیں۔ میرے بچوں میں سے کسی نے نہ میرا نام لیا نہ اپنے باپ کا۔ یہی ایک امر ان کے حافظے اور ذہن وغیرہ میں برکت کا بہت بڑا سبب ہو گیا۔ برے مشکل مشکل سبق جن سے نہ زبان آشنا تھی نہ وہ شناسا تھے مگر بہت جلد پڑھ لیتے تھے اور کسی طرح دقت نہ پڑتی تھی۔ کہاں عربی اور کہاں بچوں کی زبان۔ فرق زمین و آسمان لیکن میں اس نام پاک کے صدقے جس کی برکت سے کوئی اڑی نہ رہی۔ میں نے کچھ کھیل نکالے تھے جو زبان کھلنے کے ساتھ ہی ان کے آگے رکھ دئے جاتے تھے۔ جس میں کسی کھلونے کا نام ابجد تھا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 405


کسی کا ہوز اور اسی طرح پر کوئی الف تھا کوئی بے، کسی کا نام ایک تھا کسی کا دو۔ اور وہ کھلونے لکڑے کے ایک دفعہ بنوا لیے تھے۔ شکریہ بھی حروف و اعداد کی سی تھیں۔ چسنی، جھنجنے کے عوض میں الف، بے سے کھیلتے تھے۔ اور ایک دو سے آخر تک ان کے کھلونے تھے۔ نہ میرے بچے گودیوں میں بہت رہے نہ جُوجُو پُو جُو، کوے ہوے، بھل بندر سے ڈرائے گئے۔ پھول پان سے بچے جن کی الٹ پلٹ الگ تھلگ سے چاہیے، گودیوںمیں ہر وقت ٹنگے رہنے سے بالکل مرجھا اور کمھلا جاتے ہیں۔ دودھ پلانے کے زمانے سے بعد تک اور اس کے پہلے گھٹی دینے کےوقتوں میں اس بات کا ضرور لحاظ چاہیے کہ حد سے زیادہ نہ ہو جائے۔ بچوں کا سارا پیلا جسم ہی کیا ہوتا ہے نہ کہ پیٹ پھر اس میں بھی معدہ وہ بھی دنیا میں کسی سے کسی چیز کا عادی نہیں۔ ایسی اندھیری کوٹھری میں ذرا سمجھ بوجھ کر ہاتھ ڈالنا چاہیے۔ رفتہ رفتہ بڑھانے کا مضائقہ نہیں اور گھٹی تو ایک قسم کی دوا ہے۔ پھر دوا کی جو مقدار بڑے بوڑھوں کے لیے وہ بھی ظاہر ہے۔ بچے تو بچے ہی ہیں۔ پیٹ بھرنے کے واسطے دودھ بھی ایک اندازے سے دیا جائے۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ دن بھر میں دس دفعہ بچہ روئے تو دس ہی دفعہ دودھ دیں۔ رونے کی بھی چلائی دنیا پر آ کر نہ روکیا کیا اختیاری بات ہے۔ ایک ذرا میں وہی دودھ (جو اکسیر و امرت کا حکم رکھتا ہے اور ہزار نعمتوں سے افضل سارے میووں سے بڑھ کر ہے) نتھنوں کی راہ سے نکل جاتا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 406


ابکائیاں ہیں اور متلی ہے۔ نہ بیچارہ قے کرنا جانے نہ آئے۔ لیکن دودھ اگل رہا ہے۔ حالانکہ وہ فعل طبیعت کا ہے کہ اس نے زیادتی وغیرہ کی وجہ سے نہیں قبول کیا مگر تکلیف تو بچے پر ہے۔ اس کی وجہ سے ماں کو بھی ایک قسم کی ایذا ضروری رکھی ہوئی ہے۔ پھر سرے ہی سے کیوں نہ ڈھنگ سے چلیں۔ دائی جنانے والی جس کو صاحبان علم و فہم نے قابلہ کا خطاب عنایت کیا ہے ایسی ناقابل اور بےعلم ہوتی ہے کہ جس کی ھد نہیں۔ میں نے اپنی صابرہ کے پیدا ہونے سے پہلے دائیوں کو بلانا اور امتحان لینا شروع کر دیا تھا۔ آٹھ دس روز کے عرصے میں ایک سندر نامے دائی البتہ کسی قدر میری مرضی کے موافق نکلی۔ کیونکہ اپنے فن میں بالکل بےبہرہ اور نادان نہ تھی۔ ہاں ذرا مزاج کی جھلی تھی۔ اس سے لوگ اس کو کم بلاتے تھے۔ چکٹ لگائے پھٹے حالوں سے جب وہ میرے سامنے آئی تو میں پہلے فقیرنی سمجھی۔ جب معلوم ہوا اور امتھان کے بعد وہ میرے کام کی بھی نکلی تو اسی وقت میں نے اس کو ایک جوڑا دو روپیہ دے کر کہا کہ اب تم زندگی بھر کو ہماری ہو چکیں۔ اس نے دعائیں دیں۔ میں نے دو چار باتیں ضروری اس سے اور پوچھیں جن میں کچھ حاملہ کے کھانے پینے اور کچھ چلنے پھرنے سونے بیٹھنے کے متعلق تھیں اور کچھ اسی کی ذات سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک آدھ بات کا تو اس نے معقول جواب دیا اور جو نہ جانتی تھی اس کا انکار کیا۔ میں نے ہمیشہ کے لیے اسے پاک صاف رہنے اور ہاتھ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 407


ناخن کٹوانے نرم و ملائم رکھنے کے نسبت تاکید سے کہا۔ مجھ سے نہ بیچاری نے بدمزاجی کی نہ بگڑی۔ خوشی خوشی جو کہا قبول کیا۔ بلانے کا قول و قرار لے کر رخصت ہو گئی اور پھر وہی ہمارے ہاں وقت پر آئی۔ بیسیوں میں جب مجھ ایسے صاحب غرض کو ایک عورت ہاتھ لگی تو بےغرض لائق ڈاکٹر یا حکیم جب امتھان لیں گے تو میں جانتی ہوں ایک بھی پوری نہ اترے گی۔ درحقیقت جب تک قابلہ نہ ہو اس نازک کام کے قابل ہی نہیں۔ مگر وہ تو حلال خوریوں کی طرح سے گھر اور محلے بٹے ہوتے ہیں جو قدیم سے آتی ہے وہی آئے گی۔ چاہے کچھ جانے اور چاہے نہ جانے۔ حمل کے زمانے سے پیدائش کے وقت تک اور پھر دودھ پینے کے ہنگام سے چلنے پھرنے کے زمانے تک بری بڑی نگہداشت دیکھ بھال، روک تھام کرنا پڑتی ہے۔ دانت نکلنے کے بعد سے پھر ذرا آسانی ہو جاتی ہے۔ زبان کھلتے ہی تعلیم و تربیت کا وقت ہے جو ہوشیار ماں عقل سے کام لے کر اسی وقت سے استاد بن بیٹھتی ہے اور سکھانے بتانے کا لگا لگا دیتی ہے جس سے مکتب یا مدرسے جانے کے وقت تک وہ طرح طرح کی خوبیوں اور نیکیوں سے اپنے بچے کو آراستہ کر لیتی ہے۔ میں نے اس باب میں خاص میں بھی ضروری باتیں لکھ رکھی تھیں جن کو حسب وعدہ یہاں نقل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن میں جو دیکھتی ہوں تو یہ حصہ بہت بڑھ جائے اور جو اس سے خاص


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 408


متعلق ہے وہ ناتمام رہے گا۔ اس لیے میں اس ذکر بےمحل کو یہاں موقوف کر کے اپنے مطلب کو شروع کرتی ہوں۔ اگر میری بہنوں نے اس حصے کے لیے بھی خواہش ظاہر فرمائی تو ترتیب دے کر پھر حاضر کر دوں گی۔ تھوڑا بہت تو اب بھی نکال سکتی ہیں جو میں نے جابجا دونوں حصوں میں لکھا ہے۔ ہاں نقص اتنا ہے کہ ایک سلسلے سے نہیں ہے۔ اس خیال سے ان صاحبوں کی قدر و خواہش پر یا خود ہی زمانے کے ہاتھوں سے فرصت لے کر میں ان شاء اللہ مسلسل لکھنے کا بھی وعدہ کرتی ہوں۔ خدائے پاک اس کے بھی مرتب ہونے کا وقت لا کر مجھے اپنی ہم قوم اور ہم وطن بہنوں کے حق خدمت سے ادا کرے۔ الغرض میں عابدہ اور صابرہ کی تعلیم میں اور وہ دونوں اپنی چھوٹی بہنوں اور بھانجیوں کی تعلیم میں مصروف تھیں کہ میر صاحب کا ایک خط آیا جس سے حال انتقال جناب مولوی صاحب معلوم ہوا۔ برسم تعزیت تقریب ماتم میں سب عزیز و غیر جمع ہوئے۔ باوصف اطلاع امجدی بیگم کے ہاں سے کسی کا نہ آنا خبر سن کر ٹال جانا میرے تردد کا سبب ہوا۔ آدمی بھیجا کچھ حال اچھی طرح سے نہ کھلا۔ تب میں نے بوا رحمت کو بھیجا وہ دن بھر رہ کر جب آئیں تو معلوم ہوا کہ وہ مکان پر نہ تھیں۔ خبر کرنے والا کسی آدمی سے کہہ آیا تھا۔ اس نے تذکرہ بھی نہ کیا۔ رحمت کی زبانی سن کر ان کو سخت قلق ہوا۔ آدمیوں پر خفا ہوئیں کہ تم اسی وقت ہم سے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 409


خبر دینے کیوں نہ آئے۔ رحمت سے عذر کیا اور کہا کہ میری طرف سے بقسم کہنا کہ مجھے اصلاً نہیں معلوم ہوا ورنہ میں سر آنکھوں سے آتی۔ مجھے مولوی صاحب کے انتقال کرنے سے نہایت صدمہ ہوا۔ خدا ان کو بخشے اور آپ کو صبر عطا فرمائے۔ جب رحمت دن بھر مہمان رہ کر آنے لگیں تو کہا کہ میری طرف سے بندگی اور معذرت کے بعد کہہ دینا کہ جمعہ یا جمعرات کو میں ضرور آؤں گی۔ اور بختاور دولہن سے بھی کہلوائے بھیجتی ہوں کیا عجب کہ وہ بھی آئیں۔ اگر یہ سانحہ نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی ہم دونوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور آتا کیونکہ آپ سے ایک ضروری بات عرض کرنا ہے۔ اور بے آپ کے وہ گتھی سلجھے گی نہیں۔ ہم تو پندرہ روز رہے اور بختاور دولہن مہینہ بھر سے ہیں۔ روز یہی ذکر ہوتا تھا مگر نہ فیصلہ ہونا تھا نہ ہوا۔ رحمت نے پوچھا کہ آخر وہ بات تو معلوم ہو کیا ہمارے سننے کی نہیں۔ امجدی بیگم نے کہا کہ کیوں ہے کیوں نہیں۔ مگر بوا شیطان کی آنت ہے ذرا سی بات نہیں کہ تم کھڑی رہو اور میں جھٹ سے کہہ دوں۔ اب ایک ہی دفعہ سن لینا۔ رحمت سوار ہو آئیں اور سب حال بیان کیا۔ کوئی دو چار روز گذرے تھے کہ دونوں نند بھاوجیں اپنی اپنی رونی صورت بنائے ہوئے ڈولی سے اتریں۔ سلام بندگی ، گلے ملنے کے بعد کہا کہ استانی جی صاحب دیکھیے اب آپ کی بات کا دس گیارہ برس بعد ظہور ہوا۔ سطوت آرا بیگم بھی کوئی دم میں آتی ہی ہوں گی۔ میں نے کہا خیر تو ہے۔ کیا جاتی دنیا دیکھی میرا گھر اور ان کا قدم کیونکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 410


مانوں۔ میری باتوں سے گھن کھاتی ہیں۔ صورت سے نفرت کرتی ہیں۔ وہ اور میرے یہاں آئیں۔ آخر ایسی ان کے دشمنوں پر کیا گاڑھ پڑی۔ بختاور دولہن ہنسنے لگیں اور کہا کہ جی ہاں کچھ تو ایسی کٹھن ہے جو ان کا بل نکلا۔ یہ ذکر تھا کہ ان کی سواری آئی۔ ڈولی ہی سے ہنستی کھل کھلاتی اتریں اور بندگیوں کا تار باندھ دیا۔ پھر قریب آ کر دہنا قدم مانگا۔ پھر تعریفیں شروع کیں۔ میں نے گلے سے لگا کر بٹھایا اور ہنس کر پوچھا کہ کچھ کہیے تو سہی۔ زیادہ ہنسنے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ میرے منہ میں تو کچھ نہیں لگا۔ وہ اس بات پر اور زیادہ لوٹیں اور کہا کہ جی ہاں آپ کے منہ پر تو کچھ نہیں لگا آنکھوں میں موہنی تو ضرور ہے۔ اور آپ کا حکم آپ کی زبان سے نکل کر اس طرح سے دلوں میں مضبوط بیٹھا ہے کہ عزیزوں کے لاکھ لاکھ زور لگانے سے بھی نہیں نکل سکتا۔ نہیں معلوم کون سی ساعت اور کیسی گھڑی تھی جو آپ نے وہ کاغذ کرایا۔ بیوی سارے کنبے میں ایک ایک سے کہتی پھرتی ہوں کوئی نہیں سنتا ۔ جو ہے نہیں، جو ہے انکار۔ نہ خوشامد منت کو مانیں نہ قرابت و ملت کو جانیں۔ ٹکڑا توڑ کر صاف ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں کہ ہم تو شادی نہ کریں گے چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے۔ نہ بگڑنے سے ڈرتے ہیں نہ برا ماننے کا خیال کرتے ہیں۔ لڑکی جن کر کس غضب میں جان پڑ گئی۔ جی چاہتا ہے زہر دے دوں یا گلا دبا کر سلا رکھوں۔ تمام زمانے میں لڑکے والے پیام دیتے ہیں۔ اسم نویسی بھیجتے ہیں۔ میں بد نصیب لڑکی والی ہو کر ایک ایک کے گلے لگاتی پھرتی ہوں اور کوئی جھوٹوں نہیں قبول کرتا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 411


یہ میرے اس بڑے بول کا نتیجہ ہے جو اصغر کی شادی میں بولی تھی۔ قاضی کا پیادہ ہو کر میری جان کے پیچھے پڑ گیا۔ الٹی سری ٹیک کرتی ہوں۔ کنیزی میں دیتی ہوں کوئی بات نہیں پوچھتا میری شامت اعمال سے اس میں بھی پنجاہ عیب شرعی نکل آئے۔ اپنوں کے صاف جواب سے اور تلملاتی ہوں۔ میں نے کہا کہ آخر بلبلاہٹ کاہے کی۔ آٹھ نو برس کا سن ایسا سن نہیں ہے کہ جلدی پڑ جائے۔ کہا کہ جی ہاں یہ تو بجا ہے۔ مگر تہ دلی جو نہیں ہوتی اطمینان ہو جائے کہ بات ٹھہر جائے پھر چاہے دس برس بعد ہو۔ وہاں پہلی ہی بسم اللہ غلط ہے۔ جو ہے اوں ہوں کے سوا کچھ جانتا ہی نہیں۔ سارا کنبہ ایک دل ایک زبان ہو گیا۔ میں اکیلی ٹٹروں ٹوں رہ گئی۔ آپ میری طرفداری کیجیے۔ مدد فرمائیے۔ تو کام بنے۔ میں نے کہا میری شراکت تو اس وقت کام دیتی کہ میں کچھ قابلیت رکھتی ہوتی، کچھ دباؤ ہوتا۔ یہ بات تو ہے نہیں۔ وہ سب عہد کر کے لکھا پڑھی کے علاوہ خدا کو بھی درمیان دے چکے ہیں۔ اگر میں آپ کی خاطر سے اٹھ بھی کھڑی ہوں تو وہ نہ کہیں گے کہ تم کون ہو جو ہمارا عہد تڑواتی ہو۔ آپ خود اس بات کو سمجھیے کہ جب آپ کی بات نہیں سنتے، کہا نہیں مانتے تو مجھ غیر کے کہنے سننے پر کیوں عمل کریں گے۔ اور میں کہوں تو کس منہ سے جس منہ سے پابند کرایا اسی منہ سے ان کو قول سے پھرنے کو کہوں۔ زبان کے نیچے دوسری زبان بھی نہیں ورنہ یہ کام میں اسی سے لیتی۔ اگر آپ نے کوئی تدبیر ایسی ٹھہرائی ہو جس سے ان کا عہد بھی رہے آ پ کا کہا بھی ہو جائے تو اسے بیان کیجیے۔ (سطوت آرا بیگم)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 412


نے کہا کہ جی سب سے بڑھ کر تو یہ صورت تھی کہ میں نے توبہ کرنے کو کہا۔ اور ان کے عہد نامہ میں شرکت قبول کی۔ سب کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ دو چار نے تو یہ کہا کہ اس وقت نہ سوچیں۔ آج تم کو غرض ہے اس وقت ہم کو تھی۔ نہ تم نے ہماری بات مانی نہ ہم تمہاری مانتے ہیں۔ چلو فرصت دونوں پلے برابر۔ ایک بیوی نے کہا کہ صاحب ان سب باتوں کے علاوہ تمہارے مزاج سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔ تم انتہا سے زیادہ منہ پھٹ، اجٹ، اکھڑ، ہوائی دیدہ، طوطا چشم اور اکھل کُھری ہو۔ ایسی ہی کچھ تمہاری لڑکی بھی ہو گی۔ جیسی ماں ویسی بیٹی۔ جیسا سوت ویسی پھیٹی۔ بڑے بڑے نام لے کر کیا کریں گے۔ انہیں ناموں کے ساتھ تو بڑی بڑی زبانیں بھی ہیں۔ یہ ڈر کیا کچھ کم ہے۔ دوسری بولیں کہ ہوں گی کیسی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی۔ جیسی ہیں بہت اچھی ہیں۔ یہ ٹانگ کھولو تو لاج وہ کھولو تو لاج۔ وہ بُری اٹھان اٹھائی گئی ہے کہ نوج کوئی اٹھائے۔ ایک کلے دراز نے بےتکان کہہ دیا کہ اگر موتیوں میں سفید اور سونے میں پیلی کر کے دو اور میرے لڑکے کے برابر جواہر تول دو، پاندان کی تنخواہ کرو، جہیز سے سارا گھر بھرو تو بھی میں شادی نہ کروں۔ حلال خوری کی لڑکی بیاہ لاؤں اور تمہاری لڑکی سے نہ کرنا ہے نہ کروں۔ چاہے لڑکیوں کا اوڑا پڑ جائے، کال ہو۔ آپ ہی بتائیے کہ یہ سن کر لڑکی اجیرن ہو جائے کہ نہ ہو جائے۔ استانی صاحب یہ ساری آپ کے کرتوب ہیں کہ مجھ نگوڑی ماری کو چھوت سے بدتر کر دیا۔ حلال خوری


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 413


سے گئی گذری۔ میں نے کہا بیگم صاحب میرا تو نام آپ بےواسطے کو لیتی ہیں۔ میں بیچاری کہاں اور وہ کہاں۔ نہ میں سکھانے گئی نہ پڑھانے۔ کہا کہ جی ایک ہی دفعہ آپ کی پٹی پڑھانا عمر بھر کو کافی ہو گئی۔ میں نے کہا یہ حلال خوری کی لڑکی کون سی بیوی پسند کرتی ہیں۔ کہا کہ جی میری بڑی باجی جان جن میں خون ملا ہے۔ ایک پیٹ سے نکلی۔ ماں کی جگہ ہیں۔ اوروں کی کون کہے۔ پھر مزا یہ کہ سب کی دیکھا دیکھی لہو لگا کے شہیدوں میں ملتی ہیں۔ عہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں۔ روز کی ٹھک ٹھک آئے دن کی ڈانڈا مینڈی تو انہیں سے ہے۔ نہ اس شادی میں شریک تھیں نہ کاغذ دیکھا۔ فقط سب کو ایک منہ دیکھ کر آپ بھی انہیں کی شریک ہو گئیں۔ بھلا اور توجا سے بھی کہتی ہیں۔ یہ میری بچی میں کیڑے ڈالنے والی کون۔ کیا کہوں بڑی ہیں۔ نہیں میں بھی اس کا مزا چکھا دیتی۔ میں نے کہا کہ خیر اب زیادہ نہ گڑگڑائیے ورنہ سچ مچ لڑکی کھٹائی میں پڑ جائے گی۔ تھوڑے دن کانوں میں تیل ڈال کے بیٹھ رہیے۔ بولیں کہ واہ استانی جی صاحب یہ تو آپ نے خوب کہی۔ میں بہتیری سوں کھینچوں، خبر نہ ہوں جب دل بھی مُوا مانے۔ ادھر رات کو سونے لیٹی اور وہی خیال سامنے آیا۔ یاس نے اپنی مردنی بھری صورت دکھائی اور جی ڈرا۔ پھر نیند کیسی، سونا کہاں۔ رات رات بھر پھڑکتے گذر جاتی ہے۔ پلک سے پلک نہیں لگتی۔ چھاتی پر کھانا دھرا رہتا ہے۔ دن کو قسم لیجیے جو میں نے کئی مہینے سے کچھ کھایا ہو۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 414


ایک وقت کی غذا گئی وہ بھی قدرے قلیل۔ تانبے تاثیر نام چار کے دکھانے کو کچھ کھا لیتی ہوں کہ جی ہے تو جہان اور تو اور مبارکہ باجی کو دیکھیے۔ میرا خیال نہ کریں اپنے بھائی کی تو بات مانیں۔ سب سے زیادہ یہ ہوا کہ گھوڑے پر ہیں۔ میں نے چاہا تھا کہ اصغر کے ساتھ شادی ہو جائے۔ پیام دیتے ہی انہوں نے وہ وہ باتیں کہیں کہ کلیجہ پھٹ گیا۔ مگر کروں کیا۔ خدا کسی کو بےبس اور مجبور نہ کرے۔ ہر پھر کے اسی پر نگاہ جاتی ہے۔ جب کہتی ہوں آنکھ پھرا لیتی ہیں۔ میں اس بےمروتی کی بھی قائل ہوں۔ ایک بات تھی ہو گئی۔ اے ان لوگوں نے تو اس طرح مضبوطی سے اس کی آڑ پکڑی ہے کہ گویا ان تلوں میں تیل ہی نہیں تھا۔ دیکھیے بیٹھی ہیں میں ان کے منہ پر کہتی ہوں کہ سب سے بڑھ کر مجھے ان سے گلا ہے۔ اللہ ہم عذر کرتے ہیں، ہاتھ جوڑتے ہیں، روتے ہیں، تڑپتے ہیں، اس غم میں گھل گئے، روز کی کوفت کھائے جاتی ہے، مرے جاتے ہیں اور انہیں ہمارا خیال نہیں۔ ایسا بھی انسان کو دل پتھر کر لینا نہ چاہیے۔ آدمی کو آدمیت شرط ہے۔ میں کچھ جواب نہیں دینے پائی تھی کہ بختاور دولہن خود بول اٹھیں کہ بیوی اس میں ہمارا کیا قصور۔ تمہیں سے سیکھا ہے تمہیں پر چھانٹیں گے۔ کیوں ہماری بات تم نے خاک میں ملائی۔ کیوں اپنا کہا کیا۔ اس دن کا کیا آج آگے آیا۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کا معاملہ ہے۔ اپنی اس روز کی باتوں کا حال ہمارے دل سے پوچھو۔ تم ہنس ہنس کر چرکے لگاتی تھیں اور ہم دل ہی دل میں زخمی ہو رہے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 415


نہ وہ زخم بھریں گے نہ دل صاف ہو گا۔ استانی جی کا اختیار لڑکیوں پر ہے۔ اصغر کیش ادی کے بارہ میں وہ کیوں کر کہنے لگیں۔ لڑکیوں کے بارے میں ان کی صلاح میں اگر نہ لوں تو میری نالائقی اور اصغر کے بارے میں وہ دخل دیں تو ان کی بزرگی۔ میں نے کہا کہ ہاں سچ ہے۔ مجھے کیا دخل۔ دو میں تیسرا ، آنکھ میں ٹھیکرا۔ آپ جانیں ، وہ جانیں۔ لڑکیوں پر جب ہی تک زور تھا کہ وہ میرے پاس تھیں۔ اب نام خدا وہ سمجھ دار ہوئیں۔ شادی بیاہ کے وقت آئے۔ اگر حق ہے تو ماں باپ کا صلاح ان کی مشورہ ان کا مان پان بہت ہے۔ اتنا کہہ دینے ہی سے میرا کلیجہ ہاتھوں بڑھ گیا۔ نہ وہ دن ہے نہ زمانہ۔ مولی اپنے پتوں میں گرفتار میں ان بچوں کا آگا تاگا لوں، گھر کا کام دھندا کروں کہ صلاح مشورہ دوں۔ اس کے علاوہ وہ دل دماغ ہی نہیں رہا کہ کہیں جانے آنے کے قابل ہیں۔ جب اپنا اختیار تھا، خود مختار تھے۔ اب دوسرے کے قبضے میں ہیں۔ اس زمانے میں اگر شادی کا گھولوا پڑتا، ایر پھیر ہوتا تو تڑپڑ سلجھ بھی جاتا۔ نہ یہ کٹھن ہوتی نہ الجھن۔ اب کیونکر جائیں اور کیا کریں۔ اگر میرے ہی اوپر دارومدار ہے تو اتنے دنوں اور صبر کیجیے کہ میر صاحب آ لیں۔ ان کی بےاجازت ایک قدم تو اٹھا نہیں سکتی۔ سطوت آرا بیگم تو یہ سن کر چپ ہوئیں۔ بختاور دولہن نے کہا کہ استانی جی صاحب یہ تو آپ نے بہت بری سنائی۔ میں بھی ایک غرض لے کر آئی تھی۔ آپ کی شاگردوں کی بات ٹھہری ہوئی ہے۔ تین برس گذر گئے۔ بیچ میں ان کے ہاں غمیاں ہو ہو گئیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 416


بات بڑھتی چلی گئی۔ اب خدا خدا کر کے یہ سال امی جمی سے کٹا ہے وہ لوگ بہت مصر ہیں کہ اور کچھ نہ ہو تو منگنیاں کر لو۔ میں نے تنگ آ کر اقرار کر لیا۔ گھر والے سیاں باہر ہیں۔ خیر ہو ہوں چاہے نہ ہوں، آپ تو خدا رکھے موجود ہیں۔ ان کی ایسی ضرورت نہیں۔ اب میرے عذر وہ کسی طرح نہیں سنتیں اور کیونکر سنیں۔ انہوں نے تو اپنی پسند کے موافق نسبت میرے یہاں ٹھہرائی بیچ میں کود پڑیں۔ ان کی ممانی لڑکا ماشاءاللہ پڑھا لکھا بہت ہے۔ چھوتے سے سن میں نام خدا اس نے بڑا نام کیا ہے۔ اس کی باتیں سن سن کے انہوں نے کنوؤں میں بانس ڈالے۔ غیرت کو سلام کر کے صلح کا پیام دیا۔ اگلی پچھلی لڑائی کو لیپ پوت برابر کر ڈالا۔ ہیل سیل کر کے راہ رسم بڑھا دی۔ آمد و رفت شروع ہوئی۔ خود دس دفعہ گئیں۔ دو دفعہ سمدھن کو بھی جانا پڑا۔ لیجیے راہ کھل گئی۔ پھر لڑکا بھی بلایا گیا۔ خاطر مدارات سے آنکھوں پر بتھایا۔ تعریفیں کر کر کے بچے کو دیوانہ کر دیا۔ پھر تھوڑے دن بعد بتولوں میں بندۂ احسان بنا کے دل ہاتھ میں لے کے کہا کہ بیٹا گھڑی دو گھڑی واسطے روز آ جایا کرو۔ آنکھیں ڈھونڈھا کرتی ہیں۔ جب وہ روز آنے لگا تو اپنی بڑی لڑکی نازنین بیگم عرف پھُند کو اس کے سامنے کر کے کہا کہ اسے پڑھا دیا کرو۔ لیجیے دس بیس سبق ہوئے۔ رفتہ رفتہ دونوں کی شرم کم ہوئی۔ ہواؤ ٹوٹا، آنکھیں لڑنے لگیں۔ یہ خبر ہمارے سمدھی کو ہوئی۔ وہ بہت بگڑے اور لڑکے کو جھڑکا، خفا ہوئے، راہ روکی۔ ایک آدمی اس پر تینات (تعینات) کیا کچھ سے کچھ ہو جانے کے خیال سے دولہا والوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 417


مشاطہ برابر ایرے پھیرے کر رہی ہے۔ میں آپ سے پوچھنے آئی تھی کہ جو دن تاریخ ٹھہرا دیجیے میں ان سے کہلوا بھیجوں اور سب باتوں پر تو وہ راضی ہیں لیکن منگنی کرنے پر اڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بجد ہونے سے مجبور ہو کر میں نے بھی ہامی بھر لی۔ تکلف کرنے کو منع کرا بھیجا ہے۔ سمدھی باہر جانے کو ہیں۔ چاہتے ہیں کہ میرے سامنے بات پکی ہو جائے۔ میں نے کہا کہ میری مجبوری تو ظاہر ہے کسی طرح گھر سے نکل نہیں سکتی۔ دن تاریخ ابھی دیکھے دیتی ہوں۔ میرے نزدیک تو اس منگنی ڈھگنی سے شادی کر لینا بہتر تھی۔ ایک ہی دفعہ دونوں کی شادی رچا دیتیں۔چھٹی ہو جاتی۔ یہ بار بار جھگڑا پھیلانا بات بڑھانا تو اچھا نہیں۔ ایک دن دونوں دولہا آئیں، دونوں دولہنوں کو بیاہ لے جائیں۔ نہ دہرا خرچ ہو گا نہ دہری زحمت کرنا ضرور ہے۔ پھر یہ کیا فرض ہے کہ دو دفعہ ایک بات کی جائے۔ (بختاور دولہن) جی ہاں میں بھی یہی چاہتی تھی مگر ان لوگوں کی ضد سے کچھ نہیں بن پڑتا۔ لیکن چاہے بگڑیں چاہے روٹھیں آپ نہ بیٹھیں گی تو شادی بھی اٹھ رہے گی۔ اس میں کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ نہیں سمجھا کے کہلوا بھیجیے۔ اب ایسا کیا اندھیر ہے کہ وہ اتنی سی بات نہ مانیں گے )بختاور دولہن) نہ مانیں گے نہ سہی، کچھ جبر ظلم تو ہے نہیں۔ گوں ہوں کریں نہیں جانے دیں گے۔ گرے پڑے کا تو سودا ہے نہیں کہ خواہ مخواہ گلے منڈھ دیں۔ دن بھر ایسی ہی ایسی باتیں رہیں۔ پھر دونوں وقت ملتے تینوں صاحب سوار ہو گئیں۔ چند روز نہ گذرے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 418


تھے کہ نند بھاوجیں پھر آئیں اور کہا کہ ہم نے کہلوا بھیجا تھا سمدھن بہت اچھلیں کودیں، جو منہ میں ایا مشاطہ کو برا بھلا سنایا، مجھے صلواتیں سنائیں، اسم نویسی کی دھجیاں اڑائیں۔ ان کے میاں ایک معقول آدمی تھے، انہوں نے بیوی کی روک تھام کر کے کہ اکہ تم اس قدر جامے سے باہر نہ ہو۔ میں خود جاؤں گا اور طے کر لاؤں گا یا تم سوار ہو کر جاؤ۔ چڑیا ہاتھ سندیسا، کاگوں ہاتھ سلام کچھ ٹھیک نہیں۔ مشاطہ یوں ہی ادھر ادھر کیا کرے گی۔ اس کے کہنے پر نہ جاؤ۔ دیکھو تو وہ کیا عذر پیش کرتی ہیں۔ اگر ان کا کہنا جا سے ہے تو نہ سننا بےجا ہے۔ بارے وہ بھی کچھ سمجھیں کہ بنی بنائی بات بگڑی تہے۔ نئے رزشتے میں گتھی پڑتی ہے۔ لاؤ میں ہی چلی جاؤں۔ کل صبح کو کہلوا بھیجا پھر خود آئیں۔ میں نے صاف صاف ان سے سب حال کہہ دیا کہ یہ یہ نہ ہو گا اور یہ ہو گا۔ مگر دو چار مہینے کے بعد۔ اس کی وجہ پوچھی میں نے آپ کے نہ شریک ہونے کا حال بیان کیا۔ پھر وہ بات تو گئی گذری وہ آپ کا حال پوچھنے کو میرے پیچھے پڑ گئیں۔ چلتے وقت پتا نشان پوچھا کہا کہ میں بھی کل ضرور ان کے ہاں جاؤں گی۔ عجب نہیں جو آتی ہوں۔ ذرا کھانا ان کے ہاں دن چڑھے کھایا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے دیر ہو گئی۔ دوپہر کو بختاور دولہن کی سمدھن افضل بہو صاحب آئیں۔ یوں دل کھول کر مجھ سے ملیں جیسے کوئی برسوں کا بچھڑاہوتا ہے۔ بڑی دیرتک میں انہیں اور وہ مجھے دیکھا کیں۔ جب ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ ایک نے دوسرے کو اپنا اپنا پتہ نشان دیا تو معلوم ہوا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 419


کہ ہمارےان کے دور کا رشتہ بھی ہے۔ اماں بیوی کے ماموں زاد بھائی جو باہر چلے گئے تھے، یہ ان کی سوتیلی بہن کی بیٹی تھیں۔ پھر تو اور زیادہ ہیل سیل ہوا اور اپنا گھر سمجھ کر دو روز تک رہیں۔ تیسرے روز آپس میں اقرار مدار ہو کر وہ لوگ ادھر گئے اور میں اپنے کاموں میں مصروف ہوئی۔ تھوڑا سا دن باقی تھا کہ ہرکارہ خط لایا۔ کی مہینے سے خط پتر نہ آنے سے کچھ خیر خبر نہیں معلوم ہوئی تھی۔ خط کھول کر جو پڑھتی ہوں تو غم نامہ ہے۔ خط کاہے کو ہے۔ ایک صفحہ میں ہماری اماں بیوی کی وفات کی سنانی اور دوسرے میں اباجان کی علالت کا حال۔ خط پڑھ کر دیر تک سناتے میں رہی۔ پھر مولوی صاحب اور اماں بیوی کی خوش نصیبی پر عش عش کیا کہ سبحان اللہ اچھی جگہ ان کی تقدیر میں موت لکھی تھی۔ مٹی عزیز ہوئی۔ دو سانحے ایک دفعہ ہو جانا اور اس پر بیدل اور پریشان نہ ہونا ذرا مشکل بات تھی۔ مگر جو خدا سے ڈرتے اور اس کی عظمت و جلالت پر خیال کرتے ہیں وہ کیسی بڑی مصیبت ہو اسے بڑا نہیں جانتے۔ پیدا کرنے والے ہی کو مٹانے والا اور بنانے والے کو ہی بگاڑنے والا سمجھتے ہیں۔ نہ میں باخدا تھی نہ خدا شناس۔ لیکن خدا بخشے استانی جی کو یہ ان کی صحبت و تربیت کا اثر تھا جو بہت بڑا صدمہ بھی میرے دل کو دکھا نہیں سکتا تھا۔ ان دونوں بزرگوں کے لیے اعمال نیک سے ہدیہ اور تحفہ میں روانہ کر ہی رہی تھی کہ پورے ایک مہینے دس روز بعد ایک خط اور آیا جس میں اباجان کے دنیا سے سدھارنے کا حال لکھا تھا۔ ان کی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 420


بیماری ہی سن کر دل کہہ چکا تھا کہ اب ان کا خدا حافظ ہے اور یہ جدائی بہت بڑا طول کھینچتے معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ پ ہلے سے اس کا یقین ہو گیا تھا اور وہ یقین کسی قدر مغموم کرنے پایا تھا جو صبر نے تسکین کے کلمات سنا دئیے تھے۔ اس وجہ سے اس خبر کے سننے سے چناں رنج نہیں ہوا۔یہ ایسی سنانی تھی کہ جس کے سننے سے تاب ضبط باقی نہ رہتی۔ مگر کدا کے صدقے جائیے جس نے میرے پاؤں راہ رضا میں ڈگنے سے بچا لیے۔ فقط دل ہل کر اور کلیجہ تلملا کر رہا گیا۔ اسی خط میں ایک کنارے باریک قلم سے جناب میر صاحب کا یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ بعد چہلم میرا ارادہ روانہ ہونے کا ہے۔ اس خط آنے کے پورے دو مہینے بعد میرے یہاں طیبہ لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کے بڑے نہاں کے دن میر صاحب مدینہ منورہ سے حاجی اور زائر ہو کر آئے۔ ایک مہینے کا طیبہ کو وہ پیٹ میں چھوڑ کر گئے تھے۔ کچھ کم سال بھر کا سفر اتنے دن کی جدائی پھر آئے تھے تو بچوں سے خوشی خوشی ملتے یا مجھ سے بہ محبت پیش آتے۔ وہاں اس کے برعکس ظہور ہوا۔ طیبہ کے پیدا ہونے کی علامت دیکھتے ہی انہوں نے بےاختیار لاحول بھیجی اور پھر اس زور سے کہ کمرے کے اندر زچہ خانے میں میں نے بھی سنی ۔ یہی لڑکیوں کا غم وہ لے کر گئے تھے، یہی لے کر وہ واپس آئے۔ جہاں پہونچ کر طیبہ کی خبر ولادت سنتے ہی وہ ملال پاؤ بھر سے سوا پاؤ ہو گیا۔ ادھر تو اتنے دن کی جدائی اور عدم تعلق سے ایک طرح کا کھنچاؤ اور علیحدگی طبیعت میں پیدا ہوئی اور اُدھر تنہائی کی عادت پڑی سونے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 421


میں سہاگا بی طیبہ بیگم ہو گئیں۔ اب تو ہر ایک بات اور ہر ایک نظر سے دلی نفرت ٹپکنے لگی۔ کبھی رو میں مکان کو چڑیا خانہ، کبھی چیونٹیوں بھرا کباب کہا۔ پھر دو ہی چار دن کے بعد گھوڑیوں کا طویلہ ہو گیا۔ ایک طرح سے یہ ان کا کہنا بھی سچ تھا کہ سوا ان کے اتنے بڑے گھر میں کوئی مرد نہیں۔ پانچ چھ مامائیں، آٹھ سات لڑکیاں، دو انائیں، ایک میں سب ملا کر سولہ سترہ عورتیں اور ایک مرد۔ جب جڑواں لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں تو میں نے ایک انا نوکر رکھ لی تھی۔ دو لڑکیوں کے پیٹ کے موافق دودھ نہ تھا۔ دوسری انا طیبہ کے لیے بلوائی تھی۔ اس کے پیدا ہونے کے پہلے دونوں سانحے ایسے عظیم گذرے تھے کہ میرا خون خشک ہو جانے سے دودھ بالکل ہی جاتا رہا تھا۔ میر صاحب کی کج خلقی اور بارے کا اجٹ پنا ان نئی اناؤں تک پر گراں گزرتا تھا۔ لیکن میں وہ بے رخیاں دیکھ کر باتیں سن کر ٹال ٹال جاتیت ھی۔ کوئی تدبیر یا علاج میرے امکان میں نہ تھا۔ کہ اسے کر گزرتی۔ زیادہ خیال دوڑانے اور لمبے چوڑے تصور سے کام لینے کا نتیجہ اپنا جی جلانا اور کوفت کھانا ہے۔ لیکن یہ کون کہتا اور کس کا منہ پڑتا۔ آخر کو انہوں نے جلتے جلتے گھر چھوڑا اور نانا جان کے کمرے میں باہر رہنا اختیار کیا۔ فقط دو وقت آ کر کھانا کھا جاتے ھے۔ بعد کھانے کے اتنا بھی ٹھہرنا گراں گزرتا تھا کہ ہاتھ دھوئیں، پان کھائیں۔ دستر خوان پر سے جو اٹھے تو سیدھے باہر جا کر حوض پر بیٹھے کلی غرارہ کیا، منہ دھویا، کوٹھے پر کمرے میں چلے گئے۔ چھوٹے چھوٹے بچے چاند سی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 422


صورتیں، گورے چٹے، گل گوتھنا سے، مٹر مٹر دوڑتے پھرتے ہیں۔ خدا کی قدرت کا زندہ باغ کھلا ہوا ہے، گھر آباد ہے اور وہ کبھی کن انکھیوں سے نہیں دیکھتے۔ نگاہ بھر کر دیکھنا یا پیار دلار کیسا۔ سمجھدار سبق پڑھ رہے ہیں، اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ اول تو گھر میں آتے ہی نہ تھے۔ اور اگر آئے بھی تو جدھر وہ سب ہوئے ادھر رخ نہ کیا۔ آنکھ پھیرے منہ پھرائے دسترخوان پر چلے آئے۔ گردن جھکا کر جلدی جلدی تلے اوپر پانی کے سہارے دو چار نوالے حلق کے نیچے اتارے اور بلا کاٹی۔ ایک دن بگڑ کر کہا کہ میرے ساتھ تم چینگی پوٹوں کو لے کر دسترخوان پر نہ بیٹھا کرو۔ مجھے کھانا حرام ہو جاتا ہے اور کچ کچ سے دلی نفرت ہے۔ یہاں تو یہ فکر تھی کہ کسی طرح ان کا دل ملے، خون میں جوش آئے۔ انہوں نے ہمارے نخل آرزو کی جڑ ہی کاٹ دی۔ اب دو دسترخوان بچھنے لگے۔ ایک پر عابدہ، صابرہ سب کو لے کر بیٹھتی تھیں، ایک پر ہم دونوں آدمی۔ پھر باہر رہنا بھی دو وقت گھر میں آنے کی وجہ سے نہ اچھا معلوم ہوا۔ اس کسر کو بھی مٹا کر گاؤں چلے گئے۔ حج سے آ کر اید کوئی مہینہ بھر وہ رہے۔ اس میں بیسیوں طرح کی بےلطفیاں اور بدمزاجیاں کیں۔ مگر میں نے دم نہ مارا۔ جب بختاور دولہن کی لڑکیوں کی شادی ٹھہری اور وہ پھر بلانے آئیں تو میں نے انہیں کے ہاتھ سے اپنے جانے کے بارے میں اجازت لینے کا ایک رقعہ لکھوا بھیجا جس کے جواب دینے کے بعد انہوں نے یہ بھی لکھا کہ لڑکیوں کو بھی لیتی جانا۔ شاید ایک آدھ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 423


کو فرزندی میں وہاں کوئی لے لے، جو بلا کم ہو جائے وہی غنیمت ہے۔ ساتھا روہن سے تمہاری جان تو چھوٹے۔ میرا گھن کھانا تو کم ہے۔ یہ فقرے کوئی دوسرا پڑھ کر نہیں معلوم کیا حال کرتا اور کس قدر ملال ہوتا۔ مگر مجھے بالکل رنج نہ ہوا۔ ہاں وہ رقعہ احتیاط سے رکھ چھوڑا اور جانے کی تیاری کرنے لگی۔ دو دن باقی اور بہتیرے کام ، جلدی جلدی پھیلا ہوا کام سمیٹا۔ گڑگودڑ لپیٹا، نہائی دھوئی، عابدہ اور صابرہ کو نہلایا۔ دست بقچے میں دو دو جوڑے رکھ کر ایک پٹارے میں بند کیے۔ نماز کو چلی ہی تھی کہ بیری والی حویلی ایک کرایہ دار کو پسند آئی۔ باہر ہی باہر شاید پہلے پوچھ گچھ گئے تھے۔ آج انہوں نے سرخط اور ایک مہینے کا پیشگی کرایہ بھیجا۔ بوا رحمت نے تین روپیہ اور کاغذ مجھے دیا۔ پوچھنے سے حال کھلا میں نے جانے کی بوکھلاہٹ میں اور کچھ نہ دریافت کیا نہ کچھ سوچی نہ سمجھی۔ صندوقچی میں دونوں چیزیں رکھ کر نماز پر کھڑی ہو گئی۔ سوار تو ڈیوڑھی میں موجود ہی تھی۔ بعد نماز میں سوار ہو کر وہاں گئی۔ ارادہ دو ہی تین دن رہنے کا تھا۔ مگر انہوں نے مجھے روک لیا۔ عابدہ بیگم سردار کی چوتھی والے روز چلی آئیں۔ میں وہاں رہ گئی۔ یہاں بیری والے گھر میں جو صاحبب آ رہے تھے ان کی چاروں لڑکیاں اور بیوی سوار ہو کر ایک روز ہمارے ہاں آئیں۔ عابدہ بیگم نے خاطر مدارات اور آؤ بھگت سے دن بھر رکھا۔ چاروں لڑکیاں نہایت شوخ، طرار، چلبلی، کپڑے لتوں سے درست تھیں۔ سانولے رنگ، کتابی چہرے، کھڑے نقشے، سڈول ہاتھ پاؤں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 424


ٹھکے قد، گول گول بدن۔ سب سے اچھی اور چھوٹی جمیل النسا تھیں جن کا سن کوئی چودہ پندرہ برس کا تھا۔ کتابی چہرہ، چھوٹا ماتھا، کھلا ہوا گیہواں رنگ، پیاری سوتواں ناک، بےرس کی بڑی بڑی آنکھیں، پتلے پتلے ہونٹ، سفید سفید دانت، دہانہ چھوٹے سے منہ کی ایک ڈبیہ تھی جس میں بتیس چھوتے بڑے موتی بھرے تھے، اکہرا بدن، میانہ قد، صاف چمڑا ہونے کے علاوہ کچھ خلقی دھان پان بھی تھیں۔ اور آئے دن کی بیماریوں سے اور بھی لاغر ہو گئی تھیں۔ لیکن صاف ستھری، بنی سنوری رہتی تھیں۔ اور اوڑھنے، پہننے، رنگنے، بندھنے کا بہت شوق تھا۔ اور بہنوں کے نقشوں کو تو چیچک نے بگاڑ دیا تھا، جابجا سے اونچے نیچے ہو گئے تھے۔ رنگتیں کلجھویں پڑ گئی تھیں، مگر ان کا چہرہ ان آفتوں سے بچا ہوا تھا۔ جب ہمسائی جانے لگیں تو عابدہ بیگم سے کہا کہ میری بچی ہم جس محلے سے اٹھ کر آئے ہیں وہاں کھڑکیوں ہی کھڑکیوں دس بارہ مکانوں میں چلے جاتے تھے۔ وہی خصلت لڑکیوں میں بھی ہے۔ جہاں یہ اپنا کام دھندا کر چکیں اور ان کا دم الجھا، عادی ٹھہریں اس محلے کی۔ یہاں ایک مکان میں بند ہو کر اس قدر پھڑپھڑاتی ہیں کہ میں خود بوکھلا جاتی ہوں۔ اپنی رعیت سمجھ کر ہم پانچ چھ دموں کو قید سے چھڑا دو تو بڑا احسان ہو گا یا لونڈیاںمول لے کر آزاد کر دیں۔ عابدہ نے ان کے گھگیانے اور دانت نکالنے پر کہا کہ آخر کچھ تو کہیے تو سہی۔ معلوم بھی تو ہو۔ میرے امکان میں جہاں تک ہو گا میں آنا کانی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 425


نہیں دوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اور کچھ نہیں فقط روز آنے کی اجازت دو۔ راہ ہم خود پیدا کر لیں گے۔ وہ ہنس کر بولیں کہ بھلا یہ بھی کوئی بات تھی جس کے لیے آپ اتنی پریشان ہوتی تھیں۔ آپ کا گھر ہے شوق سے آئیے۔ وہ دعائیں دے کر چلی گئیں۔ لڑکے سے دو مزدور اسی وقت پکڑوا بلائے اور باورچی خانے کی کوٹھری میں کھڑکی تڑوائی۔ جب مزدور بنا بنو کر جا چکے ہیں اس وقت لکڑیاں لینے کو دولت کوٹھری میں گئی، دیکھا تو واہ واہ دیوار میں بھمبھاقا بھی ہوا اور پیوند بھی لگا۔ اس نے آ کر عابدہ بیگم سے کہا۔ یہ اٹھ کر دیکھنے کو گئیں۔ کھڑکی دیکھ کر ماتھا کوٹا کہ ہے ہے یہ کیا ظلم کیا باجی اماں آ کر مجھ پر بہت خفا ہوں گی۔ بھئی واہ یہ دوستی مجھے نہ بھائی۔ دولت ذرا ہمسائی کو بلاؤ تو سہی اس نے آواز دی۔ ہنستی ہوئی سب کی سب کوٹھری کے اندر آگے آگے وہ یہ کہتی ہوئی آئیں کہ موئے مزدورر بیچ میں اڑ گئے تھے۔ پہلے لڑکے سے چھ آنے پر راضی ہوئے اب آٹھ آنے مانگتے تھے۔ سمجھایا، نہ مانا، آخر کو آٹھ ہی آنے میں نے دیے۔ میری دل کی آرزو تو نکل گئی۔ پردا الٹ کر آنے ہی کو تھیں کہ کسی نے آواز دی۔ دیکھو یہ دو روپیہ کو میں نے کھڑکی منگوائی، کیا پیاری کھڑکی ہے۔ نہ بہت بڑی نہ چھوٹی، ایک ذرا جھک کر آدمی بخوبی آ جا سکتا ہے۔ عابدہ بیگم سر جھکائے ان کی یہ باتیں سنا کی۔ پھر کہا کہ آپ نے بھی غضب کیا۔ دولہا ابا گھر میں جمی جم ہیں، باجی اماں شادی میں سدھاری ہیں۔ کہاں آپ نے آنے کو پوچھا، کہاں بیچ میں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 426


رخنہ نکال دیا۔ وہ گھر میں آ کر مجھ پر بہت آزردہ ہوں گی۔ بیگم صاحب دوڑ کر اس سے لپٹ گئیں اور گلے سے لگا کر کہا کہ میری جان میں قربان اگر تمہاری باجی اماں راضی نہ ہوں گی تو میں جیسی دیوار تھی ویسی ہی بنوا دوں گی۔ تم خاطر جمع رکھو، ڈرو اور کڑھو نہیں۔ ان کی آنکھ میں مروت تھی۔ دوسرے دن ایک بڑی بوڑھی نے گڑگڑا کر کہا ۔ عابدہ چپ ہو رہیں۔ جب شادی میں آئی تو دیکھا کہ عقیل النسا، جمیل النسا، شکیل النسا تینوں بہنیں عابدہ بیگم کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی جمیل النسا اٹھیں اور دوڑ کر گلے سے لپٹ گئیں۔ خیر صاحب سلامت کے بعد میں نے عابدہ بیگم سے کہا کہ کچھ ان صاحبوں کی تعریف کرو۔ وہ کچھ بولیں نہ تھیں کہ جمیل النسا پٹ سے بول اٹھیں کہ ہم سے پوچھیے آپ کے زیر سایہ رہنے والے دعا گو، نمک خوار۔ میں چپ ہو رہی۔ جب وہ باورچی خانے میں جا کر غائب ہو گئیں تو م یں نے پوچھا کہ یہ ادھر سے کہاں راہ انہوں نے نکالی۔ عابدہ بیگم تو شرم کے مارے کچھ نہ بولیں۔ دولت نے سارا قصہ بیان کیا۔ بہن کے درمیان ہونے کے علاوہ خلاف انسانیت بھی تھا۔ جو میں کھڑکی چھوپنے یا بند کرنے کو کہتی ۔ گو کھڑکی ایک فساد کی راہ ضرور تھی مگر چارہ کیا تھا۔ میں بھی عابدہ کی طرح چپ ہو رہی۔ اتنی باتیں ہوئی تھیں کہ اب کی دفعہ پانچ عورتیں آئیں۔ دو سے پھر بغلگیر ہونا پڑا۔ تین بیبیاں جانب کار تھیں۔ دو انجان۔ قرینے سے معلوم ہوا کہ ایک ماں چار بیٹیاں ہیں۔ کھڑکی تو ہو ہی چکی تھی۔ اسی کے ذریعے سے راہ و رسم


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 427


اس قدر بڑھا کہ دن بھر ان کی نشست ہونے لگی۔ سب سے زیادہ جمیل النسا بیگم نے مجھ سے ربط ضبط بڑھایا۔ تھوڑے ہی دن میں عابدہ بیگم سے بھی۔ سوا انہوں نے خون ملا لیا اور اس قدر خلا ملا ہوا کہ میں شمع تھی وہ پروانہ، میں گل تھی وہ بلبل۔ جب ایک آدمی اس طرح گر پڑ کے ملے گا تو دوسرا کہاں تک کھنچے گا۔ مجھے بھی جھک مار کے ان سے بلطف و محبت پیش آنا پڑا۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے نزدیک ایک روح دو قالب سمجھنے لگیں۔ ہر وقت کا بیٹھنا، اتھنا، کام کاج کی شرکت، جان توڑ توڑ کر ان کا سختیوں میں پل پڑنا، میری بھی تالیف قلب کا سبب ہو گیا اور خواہ مخواہ کی محبت کرنا پڑی۔ سب پر طرہ یہ ہوا کہ انہوں نے مجھ کو احدی اور سست بنا کر سیرمنش اور میرزا پھوہا کر دیا۔ کسی کام میں ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھیں۔ میں بیگم اور وہ داروغہ تھیں۔ اس درمیان میں دو چار مرتبہ میر صاحب اور گاؤں پر سے آئے اور روپیہ لائے۔ دو، دو، چار، چار روز رہ کر چلے گئے۔ جمیل النسا بیگم کو گاؤں مکان، باغ ، دکانیں، محل سرا سب کا حال جب اچھی طرح سے معلوم ہو گیا اس وقت دل میں یہ خطور پیدا ہوا کہ یہ مال ان کے میاں کا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھا بھی۔ میں صاف دل کی آدمی دوسرے اپنا بتانے میں ایک طرح کی فوقیت اور ایک عنوان سے بیگانگی اور غیریت پیدا ہوتی تھی۔ بےتامل سارا مال تال میر صاحب کا بتا دیا۔ وہ سن کر دل میں لے رہیں اور میرے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 428


عیش اور چین کرنے پر انہیں دل خصومت پیدا ہوائی۔ اس دشمنی کو جس نے اور زیادہ زور پہونچایا وہ میر صاحب کی مجھ سے التفاتی اور کم توجہی تھی جس کو وہ بخوبی سن چکی تھیں۔ لیکن باوصف ان خیالوں کے انہوں نے اپنی محبت کی حرکتیں اور دنیاداری کو بال بھر کم نہیں ہونے دیا۔ دوستی کے پردے میں انہوں نے میرے ساتھ یہ دشمنی کی کہ وہ میر صاحب کو صاحب مال اور جائداد والا سمجھ کر اس کے در پے ہوئیں کہ کسی طرح یہ سونے کی چریا میرے پھندے میں پھنسے جس کے لیے انہوں نے فکر کرتے کرتے اپنے تئیں بیمار ڈال دیا اور ادھر بیٹھے بیٹھے سستی اور کاہلی کی مجھے بیماری ہو گئی اور کسی مرض کی روا نہ رہی۔ برسوں کیع ادت کا دفعتہً چھٹ جانا بری خرابی کا سبب ہے۔ مجھے اپنی عادت بگڑنے کے رنج و فکر کے علاوہ ان کی بھی خیر منانا پڑی۔ کیونکہ میں بے ہاتھ پاؤں کی ہو کر رہ گئی تھی۔ ذرا مزاج میں الکسی جو آئی وہ سستی پر اور بھی روغن قاز ہو گئی۔ بندہ بشر بعض وقت انسان کا ٹکڑا توڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہی کچھ خیال کر کے عابدہ اور صابرہ میں سے ایک نہ ایک جمیل النسا کا نائب بن کر میرے کام کرنے لگا۔ لیجیے اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانا ہو گیا۔ منظور تو یہی تھا کہ کوئی ہاتھ بٹائے، کام دھندا چلائے۔ اوپری دل سے انہیں روکتی اور منع کرتی تھی، جس کی انہوں نے سماعت نہ کی۔ میں اسی طرح سے پھر میرفرش کی میر فرش بنی رہی۔ وہاں انہوں نے بیمار ہو کر بھی میری


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 429


خبر گیری نہ چھوری۔ دو وقتہ گرتی پڑتی ہوئی روز آتی تھیں اور اپنا واور کر جاتی تھیں۔ جوان آدمی ، مزاج میں حرارت، امنگ کے دن، طبیعت میں زور اس پر دل کی دشمنی۔ آخر کو برداشت نہ کر سکیں۔ پڑے پڑے ایک رات کو سوچیں کہ اس دل مسوسنے اور جی جلانے سے کام نہ چلے گا کچھ ہاتھ پیر ہلانا چاہییں۔ اسی ادھیڑ بن اور سونچ بچار میں آٹھوں پہر رہنے لگیں۔ دیکھیے اس موئے کمبخت شیطان کی بدذاتی سستی کی بیماری تو مجھے ہو ہی چکی تھی، اس نے انہیں یہ سبق دیا کہ کسی جتن سے خاک دھول کھلا کر انہیں اچھی طرح سے بیمار کر ڈالو اور جب لپ پت ہو جائیں تو دوا کے بہانے کچھ دے دو۔ بدپرہیزی کی چوٹیں الگ کرتی جاؤ۔ اے لیجیے یہ خطرہ دل میں گذرنا تھا کہ ان کی مراد آئی۔ تمام عمر جو چیزیں نہیں کھائی تھیں، انہوں نے اس کا تار لگا دیا۔ جھوٹ موٹ کی تو بیماری تھی۔ یہ نسخہ ہاتھ لگتے ہی اچھی بھلی ہو گئیں اور قاعدہ ہے کہ جو بیماری سے اٹھتا ہے دنیا کی چیزوں پر اس کی نیت دوڑتی تہے۔ آج تیل کا پکوان چلا آتا ہے اور کل گڑ کی تل شکری، جوار کے لڈو، پرسوں باجرے کی ٹکیاں نکال بٹھا کے فصل رت کی تبدیلی، ہوازدگی موجود۔ اس پر یہ الم غلم بلا بوغمہ ٹھوسانا چار ہی پانچ داؤں چلے تھے کہ میں چوپٹ گری اور نزلے نے بگڑ کر جان پر بنا دی۔ میر صاحب کو کہلوا بھیجا۔ بہانہ سمجھ کر ٹال گئے دوا ہو تو کس کی۔ نہ حکیم نہ ڈاکٹر۔ مرض نے بڑھنا اور طاقت نے گھٹنا شروع کیا۔ دس بارہ دن خوب بگار کر بنانے کی فکریں شروع


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 430


ہوئیں اور وہ دوائیں دیں جن سے بدپرہیزی ہزار درجے اچھی تھی۔ اس پر طرہ غذہ کی مخالفت صریحاً دیکھتی ہوں کہ گھی مضر زہر سے بدتر ہے مگر وہ مصر ہیں کہ حکیم صاحب کا حکم ہے شوق سے کھاؤ۔ واہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ادھر تو مرض سے طاقت گھٹ، بیماری زور توڑے ادھر غذا سے بھی توڑی جاؤ۔ تانبے تاثیر گھی ضرر کیا کرتے گا بے اس کے چار دن میں جھلنگا ہو جاؤ گی۔ ان کی دیکھا دیکھی صابرہ اور عابدہ بھی لپٹ گئیں۔ یہاں ایک تو آدھی سیسی سے بات کرنا دشوار دوسرے حلق پکا پھوڑا ہو رہا ہے۔ آنکھ بھوں سے لاکھ انکار کرتی ہوں، سنتا کون ہے۔ کھلائے پر کھلایا۔ اے بیوی اس نے حلق سے اترتے ہی اپنا کام کیا۔ چار پہر نہ گذرے تھے کہ مرض دونا ہو گیا۔ اب تو ان کی توجہ سے بخار بھی آنے لگا۔ اور انہیں کی معرفت سے ورم بھی نازل ہوا۔ اٹھوارے میں سوج پھول کے کپا ہو گئی۔ گھر والے سب کہتے پھرتے ہیں پانی پھرا پھانی پھرا روحت آئی افاقہ ہوا۔ میرے گرنے کے ساتھ ہی سب کی عقلیں بھی اوندھی ہو گئیں۔ مہینہ بھر نہ گذرا تھا کہ پلنگ سے اترنا اپنے پاؤں سے چوکی پر جانا، خود کروٹ لینا محال ہوا۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ میں وہ ہوں ہی نہیں۔ بیماری ماں کے پیٹ سے ساتھ لائی تھی۔ مہینہ اور سال کیسا۔ بالکل چھٹی والے دن کی بیمار معلوم دیتی تھی۔ چلنا پھرنا، بات چیت کرنابالکل بھول گئی۔ عابدہ بیگم جب بہنوئی کو خط لکھنے کی صلاح لیتی تھیں، بیگم صاحب منع کرتی تھیں اور کہتی تھیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اوشو

لائبریرین
افسانہ نادر جہاں


صفحہ ۔۔۔ 431


لکھ کر خواہ مخواہ اپنی بات کھونا ہے۔ خط جائے گا جواب نہ آئے گا پھر کیوں لکھو۔ میری تو صلاح نہیں آگے تمہیں اختیار ہے اور اس کے علاوہ خدا نہ کرے وہ بیماری ہی ایسی کیا ہیں، کون سی دشمنوں کو سخت بیماری ہے جس سے گاڑھ پڑ گئی اور کٹھن ہو گئی۔ کیا کوئی ماندہ نہیں ہوتا۔ چار دن میں خدا نے چاہا تو اچھی ہو جائیں گی۔ اول تو وہ آئیں گے نہیں اور شاید دل میں آئی ، چلے آئے تو کیا ہو گا۔ باہر کمرے میں جا کر بیٹھ رہیں گے، جیسے کنھیا گھر رہے، ویسے رہے۔ بدیس نہ تیرہ ستلی کی گرہ سے کام ہی کیا نکلے گا۔ اگر کچھ سمجھتے ہوتے تو نہیں معلوم تم کیا کیا ناز کرتیں۔ وہ خدا کا بندہ منہ نہیں لگاتا، بات نہیں پوچھتا۔ یہ دن رات دولہا ابا، دولہا بھائی جپا کرتی ہیں۔ مجھے ایک طرفہ محبت سے بھی نفرت ہے۔ ایسی ایسی باتیں کر کے عابدہ کا ناطقہ بند کر دیتی تھیں۔ مطلب یہ تھا کہ اچھی طرح کام تمام ہو جائے پھر کوئی آئے گا تو کیا بنائے گا۔ ایک دن اتفاق سے لیٹے ہی لیٹے ضعف و نقاہت کی وجہ سے مجھے غش آ گیا۔ دہنے بائیں سب لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ صابرہ رونے لگی، عابدہ اپنے کمرے سے دوڑیں، رحمت پائنتی بیٹھی ہوئی تلوے سہلا رہی تھیں۔ عابدہ بیگم کو دیکھ کر کہا کہ صاحبزادی اب کیا قیامت کے دن میاں کو اطلاع کرو گی۔ اس کی منتظر ہو کہ خدا نہ کرے حشر ہو چکے تب خبر دو۔ کیسی صلاح اور کیسا مشورہ، تم ابھی ابھی لکھو کہ ان کے دشمنوں کا غیر حال ہے۔ دیکھنا ہے تو دیکھ جاؤ۔ حیلہ بہانہ کیسا۔ قسم کھا کر لکھو کہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 432


دائی بندی کی چھت سے آنکھیں لگ گئی ہیں۔ دشمن بیری دو چار روز کے مہمان ہیں۔ جلد آئیے کہ کسی اچھے حکیم کی دوا کی جائے۔ چُٹ پُٹ سے کچھ نہ ہوگا۔ روز طبیعت بگڑتی جاتی ہے اور تھوڑے دن دشمن ہوا کھاتے ہیں۔ عابدہ بیگم نے رو رو کر اپنے بھائی کو خط لکھا۔ وہ لکھ رہی ہیں کہ جمیل النسا آئیں۔ گھور کر دیکھا مگر منع نہیں کیا۔ ایک تو اب انہیں میرے جیتے بچنے کا یقین نہ تھا، دوسرے بےپوچھے گچھے بیچ میں بول اٹھنا بےموقع تھا۔ ناگوار طبع ضرور گذرا مگر یہ چوٹ کھا بدیں۔ لیکن اب اس کی فکر ہوئی کہ ان کے آتے کے ساتھ ہی ادھر پیام سلام شروع کر دیا جائے اور ایک نئے عشق میں مبتلا کر لو تاکہ ان سے جو ذرا ظہور منہ دیکھے کی محبت ہے وہ اپنا کام نہ کرنے دے۔ جب تک وہ خط جائے جائے اور وہ آئیں آئیں یہاں ایک علامہ کٹنی جمیل النسا کی استانی کی وساطت سے چھوڑ دی گئی جس نے سب کے پہلے دروازے کے اوپر میر صاحب سے ملاقات کر کے اپنا باخدا ہونا ظاہر کر دیا۔ اس وقت تو وہ گھبرائے ہوئے تھے۔ اچھی طرح اس کی باتیں دل میں نہیں جپھیں۔ جب وہ مجھے دیکھ بھال کر حکیم کی تلاش میں باہر نکلے، اس وقت اس کو خوب موقع ملا۔ کانپتے ہوئے سر اور لڑکھڑاتی زبان سے میرا نام لے لے کر دعائیں دیں اور آپ ہی بھوت پریت، جن آسیب کے زور و طاقت کو بیان کر کے کہا کہ اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں۔ اگر دوا کے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 433


ساتھ دعا، تعویذ بھی ہوتا جائے۔ کلام خدا میں بڑا اثر ہے۔ آدمی کے ہزاروں دشمن ہیں۔ بیٹا مجھے تو جھپٹیا معلوم ہوتا ہے اور اس کو کوئی ایک مہینہ سات روز گذرے بھی ہیں۔ ہو نہ ہو منگل کا دن تھا، زکام سے ہل ہوئی، ہوا تو تھی ہی ہوازدگی کے بہانے اس نے اپنا کام کیا۔ اور آتا تو کوئی تین چار مہینے سے تھا۔ پہلے دل ان کا دنیا کے کاموں سے پھیرا، ہاتھ پاؤں بھاری ئے، ایک جگہ سست بنا کر بٹھایا، آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈالا۔ پھر جابجا بدن پر قبضہ کیا، پھر سر پر سوار ہوا، سب طرف سے غافل کر کے مبھوت بنا کے ہوا اور پانی میں مل کر پیٹ میں پہونچا۔ اب تو نس نس میں سما گیا، رگ رگ میں بھر گیا۔ نہ ورم ہے، نہ بخار، نہ درد ہے ، نہ آزار۔ کہیں اس کی گرمی ہے، کہیں زیادتی۔ آنکھوں پر جھپان پڑے رہتےہوں گے، مطلب یہ ہے کہ سوا میرے کسی اور کو نہ دیکھیں۔ زبان کو بالکل بند اور بےقابو کر دیا ہو گا کہ کسی سے گھر میں بات نہ کر سکیں اور اگر کبھی کچھ کہتی ہوں گی تو سمجھائی نہ دیتا ہو گا۔ اس مردے نے تو اپنی زبان سکھا دی ہے نا پھر جن کی زبان بیچارے آدمی کی جانیں۔ اگر کسی وقت آنکھ کھل جاتی ہو گی تو معلوم ہوتا ہو گا کہ خون کا کٹورہ ہے۔ جسے دیکھے سے ڈر لگتا ہے۔ بابا تم بچے ہو کیا جانو۔ نہ یہاں عقل کام دیتی ہے، نہ علم۔ جو جانتا ہے وہ جانتا ہے۔ یہ بڑا موذی پکا جن ہے۔ میں ہی اس کو خوب جانتی ہوں۔ کئی دفعہ سامنا ہو چکا ہے۔ ابھی چار روز کی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 434


بات ہے کہ تمہارے مکان میں جو کرایہ دار رہتے ہیں ان کی پری زاد، حور صورت، نوجوان بچی کو اس نے دھر پکڑا تھا۔ میں ہی سار کی تھی جو اس سے اس کا پیچھا چھوڑایا۔ جان بچا کر یہاں آیا۔ ہزار بسوہ وہی ہے۔ اگر یہ سب علامتیں ہوں تو اور خداکرے وہ نہ ہو مجھے بھی تو ناکوں چنے چبانا پڑیں گے۔ لیکن اب کی موئے کو جیتا چھوڑتی بھی نہیں۔ جہاں ملے گا سدا کے لیے خاک در خاک کردوں گی۔ یہ بہو بیٹیوں کا جتانے والا غارت ہو، خدا اس کا منہ کالا کرے، موا نکٹا، بےغیرت، ایک ایک پر عاشق ہوتا پھرتا ہے۔ کہیں مل جائے تو مزا چکھا دوں۔ بڑا دھڑکا مجھے اس بچی کا ہے کہ اس کا کورا پ نڈا، چاند سی شکل، تیرہ چودہ برس کا سِن، پھول سا بدن، بھولا بھالا چہرہ، سادی وضع، اچھوتی طرح ہے۔ کہیں یہ آگ کا سوختہ اندھیرے اجالے اس کے برا چاہنے والے کو آنچ نہ پہونچائے۔ میں قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں۔ آج مری کل دوسرا دن۔ شیطان کے کان بہرے، اگر یہ نگوڑا اچھال چھکا ہاتھ نہ آیا اور میرے بعد اسے ستایا تو پھر کون اس موذی کی روک تھام کرے گا۔ جو چاہے زک پہونچائے، جو چاہے رنگ دکھائے۔ زندگی میں اس کی دردسا بنالوں نہیں قبر میں تڑپوں گی۔ زمین سے پیٹھ نہ لگے گی اور ایک حساب سے اس موئے کا بھی حق بجانت ہے۔ خدا نے میری اس پیاری جان کو بنایا ہی ایسا ہے۔ اس کی صورت کا کیا پوچھنا، جس کے دیکھنےکو ہر صبح و شام آفتاب و مہتاب آئیں اور


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 435


دو وقتہ اپنے دل کی لگی بجھائیں۔ جب ایک دو روز کو بھی چاند نہیں آتا ہے اسی غم میں گھٹ جاتا ہے۔ ماں باپ ہر ہر قدم پر آنکھیں بچھاتے ہیں، عزیز صدقے قربان جاتے ہیں، غیر جی جان سے پیار کرتے ہیں، اپنی جانیں ایڑی چوٹی سے نثار کرتے ہیں۔ مرد تو مرد میں عورت ہو کر اس بڑھاپے میں ٹھوکریں کھاتی دو وقتہ روز دیکھنے کو جاتی ہوں۔ ایک آدھ بات کی پاس بیٹھی آس پاس پھری بلائیں لیں دعائیں دیں اور چلی آئی۔ جس دن نہ جاؤں دیوانی ہو جاؤں۔ خدا اس کے حسن و جمال میں دن دونی رات چوگنی بڑھتی کرے۔ عورتوں کی ناک اور لکھنؤ کی جان ہے۔ جس محفل میں بٹھا دو سارا گھر اس کے گرد آ بیٹھے۔ کیا اچھا نصیبہ اس کا ہو گا جس کے گھر یہ پری بیاہ جائے گی۔ میر صاحب اس دورنگی تقریر سے بڑھیا کے سحر میں پھنس کر بیچ ادھڑ میں لٹک گئے۔ حکیم کی طرف جاتے ہیں تو یہ ہاتھ سے نکلی جاتی ہیں۔ ان کو پکڑتے ہیں تو حکیم صاحب کے ہاں جانا رہا جاتا ہے۔ چونکہ ان کی باتوں میں مزا اور جادو بھرا تھا، یہی مناسب سمجھے کہ ان علامتوں کو پہلے دیکھ کر بڑی بی سے کچھ کہہ سن لوں پ ھر حکیم صاحب کے پاس جاؤں۔ یہ سوچ کر انہیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور گھر میں تشریف لائے۔ مجھے نہیں خبر مگر بڑی دیر تک انہوں نے مجھے دور سے دیکھا اور جانچا پھر سب حال پوچھا۔ بڑھیا کے کہنے کو بلا تشبیہ آیت و حدیث سمجھ کر کوٹھے پر گئے اور صاف صاف کہہ دیا کہ آپ نے جو جو فرمایا وہ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 436


سب ٹھیک پایا۔ یہ بھی خیال نہ کیا کہ منہ پر تعریف کرنے سے اترا جائے گی۔ وہ مسکرائی اور کہا کہ ہاں جانی ہم نے بال دھوپ میں تھوڑی سفید کیے ہیں۔ خیر اب تم ہمارے کہنے پر عمل کرو گے؟ بولے جی ہاں۔ کہا تو اچھا اب ہم کل آئیں گے، یہ وقت تو ہماری پیاری جانی کی زیارت کا ہے۔ اس وقت تو دنیا اندھیر ہے، کچھ نہیں سوجھائی دیتا۔ اندر سے دل لوٹ رہا ہے، آنکھیں بےنور ہو رہی ہیں، ایک نظر اسے دیکھ کر آنکھیں سینک آئیں تو دل ٹھہرے اور آنکھوں میں نور آئے۔ میر صاحب تعریف سن کر لوٹ پوٹ تو ہو گئے ہیں مگر شرم کے مارے کچھ کہتے ہیں بنتا۔ بات ہونٹوں تک آ آ کر پلٹ جاتی ہے۔ بڑھیا تاڑ گئی ہے کہ تیر نشانے پر بیٹھ چکا، لیکن دل کا مضبوط ہے، اس سے اثر نہیں ہوتا یا انیلا اور گیگلا ہے، کہتے شرماتا ہے اور اصل میں بھی یہی دونوں باتیں تھیں۔ اس وقت تو بڑی بی یہ کہتی ہوئی چلیں کہ اس موئے دل نے مجھے اور تبنگ کر رکھا ہے، کیا مجال ہے جو ذری دیر ہو جائے۔ ادھر وقت آیا اور اس نے بلبلانا تڑپنا پھڑکنا شروع کیا۔ سچ ہے محبت بری بلا ہے۔ گھر کے جانور تک تو اس پر دم دیتے ہیں۔ ہر وقت اسی میں آنکھیں لگی رہتی ہیں۔ کیوں نہ ہو، خدا کی قدرت کا وہ بھی تو نمونہ ہے۔ اس پر سیرت ایسی ہنس کر بات کرنے کا وہ ڈھنگ کہ ہنستی کلی بکستا پھول شرمائے۔ طوطے کے پنجرے کے پاس گئی اور وہ قید غم سے آزاد ہو گیا۔ کیا کیا پر کھول کھول کر بولتا ہے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 437


کیسا باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس کے آئینہ سے گال سامنے آئے اور توتا طوطی بن گیا۔ بکری (میں میں) کر کے جان دیے دیتی ہے ۔ ادھر کھول دیا اور اس کے ساتھ ہوئی۔ رات بھر پائنتی پڑی قدموں پر لوٹا کرتی ہے۔ ایک بات ہو تو کہوں۔ غیروں کو اپنا کر لینا کوئی اس سے سیکھ جائے۔ کمرے سے زینے تک جاتے جاتے بڑی بی نے میر صاحب کو یہ سب سنایا۔ دس دفعہ اٹھیں، دس دفعہ بیٹھیں۔ خدا خدا کر کے دفع دفان ہوئیں۔ ان کا جانا اور میر صاحب پر آفت آنا۔ سرشار اور بےخود ہو کر رہ گئے۔ ذرا ظہور اسی کا خیال تھا۔ اس کا سامنے سے ٹلنا اور ان کا رنگ بدلنا۔ الٹی پلٹی سانسیں لینے لگے اور چپکے چپکے ہاے کے نعرے شروع ہوئے۔ بری خرابی اور دقت سے رات کاٹی ۔ صبح کو وہ آفت ناگہانی کی طرح پھر موجود۔ دس باتیں ادھر کی کہیں۔ ایک آدھ بات میرے نفع کی بھی کہہ دی۔ پھر ایک تعویذ دیا کہ اسے پانی میں گھول دینا۔ دہی پانی پلانا۔ کچھ روک ٹوک نہیں۔ جس کا چاہے وہ پانی پیے۔ اثر انہیں کو ہو گا کیونکہ انہیں کے نام پر لکھا گیا ہے۔ شام کو میں ایک گنڈا دوں گی وہ ان کی کمر میں باندھنا۔ کل ایک سری منگا رکھنا مگر کالی بکری کی ہو۔ پانچ روز دو وقتہ آ کر بڑی بی نے گنڈا تعویذ کیا، بکری کی زبان میں کیلیں ٹھوکیں، ایک نقش زمین میں دفن کیا پھر گلے کے تعویذ دیے۔ دہلیز کے نیچے کچھ گڑوایا، کورا چراغ جلوایا، چولہے میں ایک اینٹ دبوائی جس پر ہر وقت آگ سلگا کی۔ پھر کہا میں سنا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 438


خبردار کسی کاغذ پتر کو کھول کر نہ دیکھنا ورنہ الٹ ہی پڑے گا۔ پھر مجھ سے کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ ادھر تو قاعدے سے علاج شروع ہوا۔ حکیم صاحب نے ہندی کی چندی پوچھی، بال کی کھال کھینچی۔ مطلب پر پہونچ کر ہی پوری تشخیص سے علاج کیا۔ جو دوسرے ہی روز سے نفع دکھانے لگا۔ نام ہوا بڑی بی کا۔ میر صاحب کو ان کا ایسا اعتقاد جما کہ پتھر کی لکیر ہو گیا۔ جو جو انہوں نے کہا وہ کیا۔ کیسی شرع ترا، کیسا علم و فضل، ایک پری کی محبت میں دیوانے ہو گئے۔ پہلے تو بڑھیا لینے کے نام سے کانوں پر ہاتھ رکھا تھا جیسے ہی میرے سنبھلنے کی خبر پائی اور اس نے اینٹھنے کا رنگ باندھا۔ یہ ہوتا اور وہ ہوتا، چلہ کھینچا جاتا، زکوٰاۃ دے کر میں ایک عمل تمام کر ڈالتی تو ہمیشہ کو نجات ہو جاتی۔ پہلے تو میں اسے بند کروں گی۔ ذرا وہ نہا کر پاک صاف ہو جائیں تاکہ اس کا زور کم ہو اور دوبارہ قابو نہ چلے۔ پھر شیشے میں اتار کر وزن ہلکا کروں گی۔ دوسرا چھو نہیں سکتا۔ ہاتھ لگایا اور غضب آیا اور پھر خود دریا پار لے جاؤں گی اور رات کو بارہ بجے توپ آؤں گی۔ بڑی محنت ہے، کچھ ٹھکانا ہے میرا سن اس کھکیڑ اٹھانے کا تھوڑی تھا لیکن کیا کروں ان بی صاحبزادی نے نہ مانا۔ جاؤ جاؤ لے لے کر کے مجھے یہاں بھیجا۔ اپنی محبت کی وجہ سے یری جان عذاب میں ڈالی۔ اس کا بھی میری محبت پر دوکھ ہے۔ ان سے کیا مطلب نہ ان پر مرتی نہ ایسا ہوتا۔ اب تو ہاتھ ڈالا، ادھورا کیونکر چھوڑا جائے۔ پھر ان کا سامنا کرنا ہے۔ کچھ بنتا نہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 439


بعضی بات ایسی گو مگو کی ہوتی ہے کہ نہ کہتے بنتا ہے نہ سکوت کرتے۔ اچھا پھر ایک کام کرو۔ کاغذ لو میں جو جو چیزیں لکھوا دوں وہ چیزیں منگوا دو۔ مجھے یہ درد سری کہاں کہ ایک ایک سودا خریدتی پھروں۔ اپنی ٹانگیں توڑوں۔ میر صاحب حکم کے بندے تھے۔ قلم دوات لے بیٹھے۔ کاغذ اٹھا، لکھنا شروع کیا۔ کورا نین سکھ کا تھان، آدھ پاؤ پھول دار لونگیں، کافور (کی پوری چکتی کہیں سے ٹوٹی پھوٹی نہ ہو)، پاؤ بھر گوگل کوڑیا لوبان، اگر کا عطر جس میں اور کوئی چیز ملی نہ ہو۔ اسی طرح خالص مشک کا عطر چار چار تولہ، چنبیلی کا دو سیر تیل جس کے پھولوں میں ڈنڈیاں نہ ہوں، دھوئے تل، موم کی شمع، چکنی مٹی کے چالیس چراغ، سیر بھر روئی جو کنواری کے ہاتھ کی دھنکی یا تومی اور کاتی ہوئی ہو، سوا پاؤ بتاسے، سوار پاؤ برفی، روز کے حساب سے دو سیر بیسن، سوا پاؤ چھوٹی الائچیاں، پانچ آنے روز کے حساب سے چراغی، تلخ بادام کی لکری جس سے گنڈلی کھینچی جائے گی، سفید بےداغ شیشہ، شعلہ لکڑی کی ڈانٹ، من بھر کوئے، دس سیر آٹا یا میدہ، ڈھائی سیر گھی۔ الغرض سب ملا کر کوئی ساتھ روپیہ کا ننھا سا لٹکا تھا۔ میر صاھب چیزوں کے نیچے رقمیں بھی لکھتے چلے گئے اور بوکھلاہٹ کے مارے ایک کے دو دو جوڑ گانٹھ کر پانچ اوپر سوا سو کا حساب لگایا پھر اس کی مشکلوں کو دیکھ کر یہ سہل معلوم ہوا کہ میرے سر کے جن اتارنے کے واسطے یہ رقم خرچ کے کاغذ پر ان کے نام لکھ دیں۔ اس لیے گھر میں سوا سو روپیہ لے جا کر پانچ جیب خاص


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۔۔۔ 440


سے ملا کر ہاتھ جوڑ کر ان کے آگے رکھ دیے۔ خوشی خوشی نذر دی اور کہا کہ ہم سے تو کچھ نہ ہو سکے گا۔ آپ سامان کر لیں۔ کسی بات میں اگر کچھ کسر رہ جائے گی تو ساری محنت اکارت ہو گی۔ پہلے تو وہ ہلتے سر کو اور ہلایا کیں پھر الٹا احسان کا چھپر رکھ کر منہ بنا کر وہ پوٹلی اتھا لی، گھر میں جا کر چرندم خورندم کر ڈالا۔ ان کے نزدیک چلے بیٹھیں، پورے ایک مہینہ گیارہ روز بعد بڑی بی تشریف لائیں۔ مسا کر کے کوئی دو پیسہ بھر چنبیلی کے تیل کی ایک شیشی جس میں ایک حصہ مرچوں کا پانی بھی ضرور تھا، میر صاحب کو دے کر کہا کہ اسے رکھو اور حال کہو۔ بیوی نہیاں۔ انہوں نےکہا کہ جی ہاں پرسوں انہوں نے غسل صحت کیا۔ بڑی بی نے سر ہلایا۔ یعنی ہمیں معلوم ہے۔ ان بندہ خدا کو ان کے اس علم و خبر پر اور زیادہ یقین بڑھا۔ پھر ہنس کر کہا کہ اپنے ہاتھ سے بارہ قطرے اس تیل کے ان کی چندیا پر ڈال دینا۔ معلوم ہو گا کہ آگ لگ اٹھی۔ وہ گھبرا کر ان کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ بھاگ کر یہاں آئے گا۔ سوا اس شیشے کے اور کہیں جگہ نہ پائے گا۔ میں اس کا منہ ادھر کئے ہوشیار بیٹھی ہوں۔ لے جلدی جاؤ۔ ابھی مجھے برے برے کام ہیں۔ وہ بوکھلائے گھر میں آئے اور تیل میرے سر میں لگایا۔ تیل کا پڑنا تھا کہ سچ مچ معلوم ہوا کسی نے آگ لگا دی۔ سارا سر جلنے لگا۔ ہزار ہزار ضبط کرتی ہوں، نہ ہو سکا۔ آخر کو کہہ بیٹھی کہ یہ کیسی بلا سر میں جھونک دی۔ وہ یا تو تالو میں تیل کھپا اور سر سہلا رہے تھے، یہ سنتے ہی شیشی لے کر کافور ہوئے۔ بڑی بی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 111
باہر سدھارا۔ تقدیر میں تو یونہی لکھا تھا۔ وہی آٹھ سات روز ڈیوڑھی پر بھی سناٹا رہا۔پلیٹیں لکھ لکھ کر باہر بھیجیں اور وہ دو دو تین تین روز پی پی کر جی اٹھے۔ اتنے دن نہ حکمِ حیدر کی رات کو آواز آئی نہ دن کو جائزے کی ہانک پکار سنی۔ پندرہ روز بعد اباجان گاؤں پر سے آئے ۔ آٹھ دن کے لئے گئے تھے وہ بخار میں کٹے۔ مجبوری سے ایک اٹھوارے اور رہے۔ گھر میں آ کر سب کا پتلا حاؒ دیکھا۔ میں ان کی زیارت کے لئے کوٹھےس ے اتری۔ دیر تک گاؤں کی خبر بیان فرمایا کئے۔ میں نے بخار کا حال پوچھا۔ کہا کوئی گھر ایسا نہیں جس میں ایک آدھ کی جان نہ گئی ہو۔ مجھے یہ سنتے ہی سناٹا ہو گیا اور کان میں کسی نے یہ بات کہہ دی کہ اور سب تو اچھے ہیں مگر استانی جی کا مزاج ابھی راہ پر نہیں آیا۔ میں نے ٹال کر اور سنی کو ان سنی کر کے اباجان سے اور باتیں شروع کر دیں اور دل کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ ضعیف آدمی ہیں بخار آیا اس شدت سے جیسی طاقت ویسی حالت ۔ مرض جانے کے بعد بھی رفتہ رفتہ طبیعت سنبھلے گی۔ اس میں وہم و وسوسہ کیسا۔ خدائے پاک کی ذات سے نیک امید رکھنا چاہئیے۔ اباجان نے استانی جی کی طبیعت کو پوچھا۔ میرے دل میں اس وقت یہ خیال جما ہوا تھا کہ دیکھئیے اب یہ اچھی ہوتی بھی ہیں یا نہیں۔ بے تحاشہ منہ سے نکلا سنبھلی تو ہیں مگر مگر کہہ کے رکی۔ دل ہی دل میں زبان کو نفرین کی کہ ہماری خوشی اتنا برا کلمہ کہنے کی کب تھی۔ دل کہتا تھا کہنے دیا ہوتا۔ غلط ہی کیا ہے۔ ان خیالوں میں میرے چہرے کا رنگ اڑنے لگا۔ اباجان نے فرمایا کہ مگر کیسا۔ کیا خدا نکردہ کچھ نوع دگر حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں بخار تو کم ہو گیا۔ وہ غفلت بھی نہیں۔ مگر بڑھاپے میں طاقت بڑی مشکل سے آتی ہے۔ اندیشہ ہے تو اسی بات کا

ریختہ صفحہ 112
(اباجان) اٹھتی بیٹھتی ہیں؟ (میں) جی ہاں۔ ابھی وہیں سے آتی ہوں۔ قلم دوات پاس رکھا تھا۔ کچھ سوچ سوچ کر لکھ رہی تھیں۔ کانپتے ہاتھ سے گو نہیں لکھا جاتا تھا لیکن نہیں معلوم کیسا ضروری کاغذ ہے جو اس حالت میں اس کا لکھنا فرض ہے۔ آپ کے آنے کی خبر سن کے میں ادھر چلی آئی۔ ورنہ ارادہ تھا کہ ان سے کاغذ لے لوں اور عرض کروں کہ اگر ایسی ہی ضرورت ہے تو مجھ سے لکھوائیے آپ بتاتی جائیے۔ بار بار میری طرف دیکھنے سے یہ بھی مجھے یقین ہے کہ وہ کاغذ میرے ہی لئے لکھا جاتا ہے۔ اباجان نے فرمایا کہ نہیں تم نہ کہنا ۔ شاید وہ کاغذ اس وقت تمہیں دکھانا مصلحت نہیں سمجھتی ہیں۔ ورنہ خود ہی دیتیں۔ کوئی بات ہو گی۔ اگر تم سے لکھوانا ان کو نہیں منظور ہے۔ کہنے پر بھی نہ دیا تو مانگنے سے کیا حاصل ہوا۔ بعضی بات پہلے چھپائی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ظاہر کی جاتی ہے۔ شاید ایسا ہی کچھ معاملہ ہو۔ میں نے جی درست کہہ کر ان کا ارشاد قبول کیا اور اباجان کے ساتھ آیا ہوا اسباب اٹھوانے لگی۔ وہ صندوقچہ کھول کر کاغذ دیکھنے میں مشغول ہوئے ایک کاغذ پڑھ کر مجھے پکارا میں قریب گئی فرمایا "کہ راحت نگر میں مولوی صاحب نے اپنے نام سے جو پروا بسایا ہے کنویں وہاں سے دور ہیں اور جھیل بھی فاصلہ پر ہے۔ پانی لانے کی اسامیوں کو بڑی دقت ہوتی ہے۔ جتنا ان کو وقت ملا تردد کیا۔ میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ یوسف نگر میں ایک بڑا کنواں بن جائے۔ گو چھوٹے چھوٹے دو تین کنویں بنا لئے گئے ہیں مگر ان کا پانی پھر بھی دوپہر تک کام آتا ہے۔ زیادہ بھرا اور ٹوٹا کام بگڑنے کے خیال سے میں اپنی یاداشت میں اس کو لکھ لایا ہوں۔ میں نے کہا آپ کو اختیار ہے جیسا مناسب جانئیے۔ فرمایا کہ میرے نزدیک تو نہایت مناسب ہے

ریختہ صفحہ 113
کیونکہ اس وقت تھوڑا سا روپیہ لگا دینے سے ہمیشہ کے لئے چھٹی ہوتی ہے اور پھر اسامیان اس بات پر بھی راضی ہیں کہ سالانہ ٹپوں پر اضافہ کر دیجئیے۔ سرکاری روپیہ تھوڑے ہی دنوں میں پٹ جائے گا۔آ ٹھ دن میں چار جاندار اسامیاں میں نے وہاں اور بسائیں۔ گو اس وقت روپیہ خرچ ہوتا ہے مگر ایسے کام میں جو نہایت ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حقیقت میں یہ کنواں بہت نفع دے گا لیکن آپ کو خود تکلیف کرنا ہو گی۔ فرمایا کہ ہاں بے اس کے تو میں بنواؤں گا بھی نہیں۔ زمین کا دیکھنا فرض ہے مٹی کی شناخت واجب۔ کھاری طبقہ ہے تو کس کام کا جہاں سخت مٹی ہو وہاں کھدوانا چاہئیے اور سخت مٹی بھی چکنی نہ کنکریلی۔ سب سے مقدم تمہاری اجازت تھی۔ دوسرے ابھی بیماری کی شدت ہے نہ مزدور ملتے ہیں نہ بیلدار۔ اس وجہ سے میں چلا آیا ورنہ میرا ارادہ تو ابھی کام چھیڑ دینے کا تھا۔ ۔ تمہاری اجازت تحریر ے ذریعے سے بھی منگوا سکتا تھا۔ یہ سن کر میں پھر وہاں سے اس اسباب کے دیکھنے کو گئی جو گاؤں پر سے آیا تھا کہ دیکھوں سب قرینے سے دھر دیا گیا۔ کوٹھری میں گئی ہوں گی ایک طرف کا اسباب دیکھ کر برابر کیا ہے دوسری طرف کا باقی ہے کہ بوا اعجوبہ نے (صاحبزادی صاحب کی) آواز دی۔ گھبرا کر باہر نکل آئی۔ پوچھا خیر تو ہے۔ کہا استانی صاحبہ بلا رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اپنے اباجان کو ساتھ لیتی آئیے۔ میں اسباب ٹھور ٹھکانے لگانے کو کہہ کر اباجان سے یہ عرض کرتی ہوئی ( کہ استانی صاحب آپ کو بلاتی ہیں) کوٹھے پر گئی دیکھا تو اسی طرح دیوار سے لگی بیٹھی ہیں۔ میں نے کہا آپ لیٹی نہیں۔ فرمایا کہ بیٹا لیٹے لیٹے تو کمر دکھ گئی اب ذرا راحت ملی ۔ پیٹھ سیدھی ہوئی ہے۔ لیٹوں گی۔ کیا نواب دولھا صاحب آئے ہیں؟ (میں) جی ہاں انھیں کے تو پاس گئی تھی فرمایا کہ ہم نے بھی تو بلوایا تھا، کیا کچھ کام میں ہیں۔

ریختہ صفحہ 114
(میں) جی نہیں کہہ تو آئی ہوں کچھ لکھ رہے تھے۔ صندوقچہ کھلا تھا کاغذ پھیلے تھے۔ سینت سمیٹ کر آتے ہی ہوں گے۔ کہا ذرا دیکھو تو۔ میں بہت اچھا کہہ کر چلی ہی تھی جو انھوں نے زینے پر سے آواز دی کہ اعجوبہ ذرا استانی جی صاحب کو میری بندگی عرض کرو اور کہو کہ میں حاضر ہوں۔ کیا حکم ہے۔ بیوی نے چادر اوپر ڈال لیا اور منہ پھیر کر کہا کہ آئیے۔ وہ کوٹھے پر آ کے ان کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھے ۔ فرمایا کہ " میں نے آپ کو اس غرض سے تکلیف دی ہے کہ آج خود بخود کچھ میری طبیعت سنبھل گئی۔ بوڑھا آدمی اگر بیمار پڑ کر سنبھلے تو اس کو لازم ہے کہ جو جو اس کو کہنا سننا ہو کہہ سن لے۔ یہ وقت غنیمت اور اتنی مہلت اس کی عنایت ہے۔ عوام اسی کو سنبھالا کہتے ہیں۔ طاہرہ بیگم سے تو کہنا نا مناسب ہے۔ ایک تو ذرا میں یہ رو دیں گی دوسرے پھر آپ ہی سے کہیں گی لٰہذا میں آپ ہی کو کیوں نہ تکلیف دوں۔ وہ کہنا یہ ہے کہ میری کھاروے کی بقچی میں میری حق حلال کی کمائی سے بچا کھچا روپیہ جس قدر ہے اسی میں میرا دفن وفن کیجئیے گا۔ روپیہ تھیلی میں ہے اور تھیلی کفن میں۔ کفن پر مکہ معظمہ کی ایک چادر لپٹی ہے۔ اگر ہرواڑ میں وہ جگہ جو اماں جان کی پائینتی ہے خالی ہو تو فہو المراد ورنہ اور جہاں مناسب جانئیے گا توپ دیجئیے گا۔دادی جان کی قبر کے سرہانے وار دیوار پر ( فاعتبر و یا اولی الا بصار) لکھا ہے۔ چند ظالموں کے ہاتھوں سے انھوں نے شہادت پائی تھی ان کے پہلو میں اماں جان کی قبر ہے اس پر بھی تاریخ لگائی گئی ہے مگر درخت میں۔ ہمارے خاندان میں نہ قبر پکی ہوتی ہے نہ تاریخ لگائی جاتی ہے لیکن دادی جان کی قبر پر محلے والوں نے تاریخ لگائی اور قبر پختہ کرائی۔ پھر اماں جان کے انتقال کے بعد اباجان کے ایک دوست تاریخ کہہ لائے تھے۔ مروت سے دور تھا کہ ان کی خاطر نہ کی جاتی۔ اس لئے وہ بیری کے درخت میں لٹکوا دی گئی۔ نہیں معلوم

ریختہ صفحہ 115
بیری ہے یا نہیں اس لئے میں نے دادی جان کی قبر کا نشان بتا دیا۔اماں جان آلی زچہ تھیں جو اپنے بچے سمیت دنیا سے سدھاریں۔ آخری مصرع قطعہ تاریخ کا یہ ہے ۔ ع ۔ بچے سمیت قبر میں آرام کیجئیے۔ الغرض ان قبروں کے دائیں بائیں بھی اگر جگہ مل جائے تو بہتر ہے ورنہ مقدر۔ تلقین بھی آپ ہی پڑھئیے گا۔ طاہرہ بیگم کی دلداری اور دلاسا آپ ہی کے ذمے ہے۔ بیماری میں میری نماز بے وقت اور غلط ادا ہوئی ہے۔ مہینہ بھر کی نماز پڑھوا دیجئیے گا ۔ کسی ضرورت سے نہ روپیہ آپ دیجئیے گا نہ کسی اور سے لیجئیے گا۔ جو کچھ ہو اسی میں۔ نہ میری عزیز اقارب ہیں نہ کنبہ قبیلہ۔ صف لے کر بیٹھنے والی تو اللہ رکھے موجود ہے۔ مگر صف بچھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب دنیا کے ڈھکوسلے ہیں۔ ہمارے ساتھ ان کا بھی خاتمہ ہونا چاہئیے۔ گھر میں بھیڑ بھڑکاا ور قبر سونی۔ تدبیر وہ کرنا چاہئیے کہ لحد میں کچھ کام آئے۔
روشنی رات کو تربت پہ گئی سب بیکار
ہم جہاں سو رہے تھے وہاں تو اجالا نہ ہوا
اس کے لئے جو صدقہ خیرات چاہئیے آپ خود جانتے ہیں۔ کہنے کی کیا احتیاج۔ دنیا میں مرنے کا جو ہانسا تماشا کیا جاتا ہے میری موت کو اس سے بچائیے گا۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ جن کو میں نے یاد کر کے ایک کاغذ پر لکھ بھی لیا ہے۔ اور وہ کاغذ یہ ہے۔ دنیا کے مردوں میں سوا آپ کے میرا کوئی کفیل و شفیق نہ تھا۔ اس لئے میں نے وصیت بھی آپ ہی کے نام کی۔ خدا وند عالم آپ کو اس کا اجر نیک اور جزائے خیر دے گا۔ جنازے کے ساتھ بھی کسی قسم کا تکلف نہ ہو۔ آپ کو خدا نے بڑا نام دیا ہے اور نواب صاحب تو نام خدا پوتڑوں کے رئیس ہیں۔ ان کے گھر سے کسی لاش کا بیکسی اور فقیری سے اٹھنا ان کے کسر شان کا سبب ہے۔ اس لئے آپ رات کے پردے میں کے جا کر زمین میں ڈال دیجئیے گا۔ میرے کہنے پر عمل ہو جائے گا اور آپ پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھائے گا۔

ریختہ صفحہ 116
امورات شرعی کا لحاظ البتہ مقدم ہے۔ شہادت نامے پر چند گواہیاں موجود ہیں۔ باقی نام آپ لکھ دیجئیے گا۔ مگر انھیں لوگوں کے جو ظاہر میں نیک اور سعید معلوم ہوتے ہیں۔ حتی الامکان ان نوجوانوں کے نام جن کے مزاج میں تقویٰ طہارت ہو (ایسے دس آدمی) اور قسم کے پچاس بوڑھوں سے بہتر ہیں۔ اس میں جہاں اور گواہیاں ہیں میرے مرحوم شوہر کی بھی گواہی ہے۔ جب وہ ماندے پڑے میں نے بے ان کے کہے مہر معاف کر کے کہا کہ میرے شہادت نامے پر گواہی کر دو۔ انھوں نے خود گواہی کی اور اپنے کئی دوستوں سے جو ان کے ہم خیال اور نیک اعمال تھے گواہیاں کرا دیں اور میری خوش فہمی کی دیر تک تعریف کیا کئے۔ جو جیسا ہوتا ہے ویسوں سے ملتا ہے۔ان کی صحبت میں اچھے اچھے لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کی موت جوانی میں بڑی مصلحت سے آئی۔ دنیا میں آ کر جو کام کرنے کے ہیں وہ کر چکے تھے کوئی ارمان و آرزو دل میں نہ تھی۔ شادی کے بعد صاحبِ اولاد ہونا بڑی خوش نصیبی ہے۔ ان کے دو بچے تھے۔ جو ان کے بعد میری پیشانی کے لکھے ہوئے حکم کے زور سے دنیا پر نہ رہ سکے۔ خدا معلوم آگے بڑھ کر ان کے مزاج میں یہی نیکی اور خوبی رہتی یا کچھ بدل جاتا۔ مرنے کے زمانے تک تو وہ نہایت ہی متقی اور پرہیز گار زاہد و ابرار تھے یہی سبب تھا جو موت نے بھی انھیں پسند کر لیا۔ ہم ان کے بعد تینتیس برس جئیے گو لطف زندگی کا ان کے بعد نہ تھا لیکن چارہ کیا تھا۔ کسی قابل ہوتے تو پوچھے نہ جاتے۔ تم۔ نہ چراغ میں تیل ہے نہ بتی اس پر ناساز ہوا مخالف زمانہ پھر بچنا دشوار ہو یا نہ۔ نواب دولہا صاحب یہی میرے چند ضروری اور آخری کام تھے جو عرض کئے۔ شاید کاغذ میں کچھ اور

ریختہ صفحہ 117
بھی ہوں تو ایک نظر اسے بھی دیکھ لیجئیے گا۔" اباجان دیر تک خاموش بیٹھے رہے پھر یہ کہا کہ استانی صاحب یہ آپ کیسی باتیں کرتی ہیں۔ آپ خیال تو کیجئیے۔ بخار اس فصل میں کس کو نہیں آیا۔نہ شہر بھر کے گھر بچے نہ کسی گھر کے آدمی۔ اس گھر میں سب ماندے تھے کچھ اچھے ہو گئے کچھ باقی ہیں۔ مرنا تو سب کے واسطے ہے آپ کو اپنی موت کا کیونکر یقین ہو گیا۔ اگر موت آنے کا وقت ہی معلوم ہوتا تو کار خانہء دنیا درہم برہم ہو جاتا۔ آپ یہ کیا فرماتی ہیں۔ (استانی جی) نواب دولہا صاحب موت کا ایک وقت معین تو ضرور ہے۔ اب رہا معلوم ہونا یا نہ ہونا ۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ ایک بچہ بھی اس سے انکار نہ کرے گا۔ بے شک نہیں معلوم کب موت آئے گی اور کب دنیا کی قید سے چھڑائے گی۔ لیکن اسباب و علامات بھی تو کوئی شے ہیں۔ عقل بھی تو کوئی چیز ہے۔ خدا کو کس نے دیکھا ہے اور بے دیکھے کیوں پہچانا جاتا ہے۔ جو آپ وہاں فرمائیے وہی جواب اس کا سمجھ جائیے۔ اس کے علاوہ میں یہ کہتی ہوں کہ غفلت کے پردے پڑ جانے کا اور خیال نہ کرنے کا تو ذکر ہی نہیں۔ باقی تھوڑی بھی عقل صرف کرنے سے بہت سا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔ بے توجہی اور کم التفاتی کی دوسری بات ہے۔ قرینے سے اصل مطلب تک پہنچنا اور اس سے نتیجہ نکال لینا کیا مشکل ہے۔ ابا جان نے فرمایا کہ آپ جو چاہیں فرمائیں۔ مگر کوئی قرینہ آپ کے مرنے پر دلالت نہیں کرتا۔ علامت اور سبب سب کے سب اچھے ہیں۔ خدا آپ کی عمر میں برکت دے اور ان پاک قدموں سے ہمارا گھر روشن رکھے۔ اب نہ کچھ ارچٓشاد کیجئیے گا۔ (استانی جی) اچھا بہت اچھا اب میں کچھ نہ کہوں گی مگر آپ یہ کاغذ ضرور لیتے جائیے یہاں کہیں گر ور پڑا تو میرا مطلب خبط ہو جائے گا۔ اباجان وہ پرچہ لے کر چلے گئے۔ میں اس وقت سر جھکائے عجب

ریختہ صفحہ 118
طرح کے اندوہ میں مبتلا تھی۔ دل تو امنڈا ہوا آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی۔ ہاتھ پاؤں سرد کلیجے میں درد۔ اک رنگ آتا ہے اک جاتا ہے۔ دم الجھ رہا ہے جی بے چین ہے۔ چہرہ فق منہ پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔آنکھوں کے آگے کچھ اور ہی سامان۔ لاکھ لاکھ دل کو سنبھالتی ہوں نہیں سنبھلتا۔ ٹالتی ہوں نہیں ٹلتا۔ وہی بُرا بُرا تصور ہے اور رہ رہ کر یہی خیال ہوتا ہے کہ استانی جی جھوٹ کبھی بولی نہیں۔ کہیں خدا نہ کرے شیطان کے کان بہرے۔ ایسا ہی تو نہ ہو۔اسی ادھیڑ بن میں مجھ کو اس قدر تحیر ہوا کہ مبہوت ہو گئی۔ استانی صاحبہ نے دو تین مرتبہ پکارا مجھے خبر نہ ہوئی۔چونکہ بالکل پاس بیٹھی تھی انھوں نے ہاتھ سے ٹہوکا دیا کہ طاہرہ بیگم ہائیں بیٹا بیٹھے بیٹھے سو رہی ہو۔ نیند آئی ہو تو آرام کرو۔ میں نے گھبرا کر کہا کہ جی نہیں مجھے تو نیند نہیں آئی۔ مگر دل سو رہا ہے اس کی وجہ سے آنکھ بھی بند ہوئی جاتی ہے۔ (استانی جی) ذرا منہ دھو ڈالو۔ شاید دل پر کچھ گرمی ہو۔ دو گھونٹ پانی کے پی لو۔ ابھی دشمن ماندے پڑ چکے ہیں۔ اچھی طرح طاقت تو آئی نہیں۔ دوسرے تمہارا دل یونہی ضعیف ہے۔ شاید میری باتوں سے تمہیں رنج ہوا اور انھیں نے اپنے اثر کو پھیلا کر تمہارا ننھا سا دل گھیر لیا۔ بیٹا ماشاء اللہ تم خود سمجھدار ہو ، خیالی باتوں پر یقین کرنا نہ چاہئیے۔ میرے سن ، عمر ، مصلحت کا مقتضا یہ تھا جو میں نے کیا۔ یہ کیا ضرور ہے کہ وہ ابھی ہو بھی جائے۔ اور میں نے سچ کہا ہو۔ بعض گمان سچ بھی ہوتے ہیں تو یہ کیا ضرور ہے کہ اس میں کا یہ بھی گمان تھا۔ تم اپنے دل میں رنج نہ کرو۔ میں نے تمہارے دل بہلنے اور غم غلط کرنے کے لئے کچھ لکھا ہے۔ وہ فرصت کے وقت دیکھ لینا اور اس پر عمل کرنا۔ نادان دوست کا تو ذکر نہیں کہ اس سے دانا دشمن بہتر ہے۔ تم میری شفیق حال اور سچی دوست ہو اور ماشاء اللہ غیرت دار اور عقلمند ۔ مجھے تمہاری

ریختہ صفحہ 119
ذات سے توقع نہیں کہ تم بے صبری اور نا فہمی کر کے مجھے ایذا دو گی۔آنکھوں دیکھی محبت تو سب ہی کرتے ہیں مگر محبت وہی ہے جو حاضر غائب ایک سی ہو۔ ہم کو اپنے بزرگوں کے فرمانے کا لحاظ اس وقت تک ہے ان کے بعد بھی وہ بات نہیں کی جو ان کے خلافِ مرضی تھی۔ دنیا میں غم ایک ایسی نعمت ہے کہ سب ہی کا تو اس میں حصہ ہے۔ طمع بہت بری چیز ہے کسی کا غم آپ ہر گز نہ لیں دنیا میں۔( چند چیزوں کے علاوہ کمی بیشی کے سوا) جو آیا ہے دنیا کی سبھی چیزوں میں تو حصہ لے کے آیا ہے۔ ایک حال ایک احوال ایک جگہ سے آنا ایک مقام پر جانا بیماری صحت عشرت دولت شادی بیاہ مرنا جینا نیند بھوک آؒ اولاد کنبہ قبیلہ گھر بار خوشی غم حصہ رسد سب ہی کے لئے تو ہیں۔ پھر کیا ضرار ہے کہ ہم اپنے اوپر ایک نئی طرح کا بوجھ اور اٹھا لیں۔ غم ہو یا خوشی جب ہمارے لئے بھی مقدر ہے تو کسی دوسرے کی خوشی اور غم سے کیا کام اور اگر بشریت یا تعلق سے ہو بھی تو ایک حد سے یہ نہیں کہ کسی کی محبت میں خدا کو بھول جائے یا کوئی بات ایسی کرے کہ بھلے کے بدلے برا ہو۔ جب کوئی کسی کے غم پر ( کسی وجہ سے) زیادہ صدمہ کرتا ہے تو سبھی طرح کی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کبھی کلمہء کفر منہ سے نکل جاتا ہے کبھی صاحبِ غم پر برا اثر پڑتا ہے کبھی دوستی میں دشمنی ہو جاتی ہے کبھی اپنی جان کا ضرر ہوتا ہے، میں نے اکثر لوگوں کو مردے پر اس قدر روتے پیٹتے اور نوحہ و بین کرتے دیکھا ہے کہ میرے تو روئیں کھڑے ہو گئے۔ ہر ہر فقرے اور ہر ہر لفظ سے خدا کی شکایت نکلتی ہے۔ ہاتھ منہ ٹوٹتا ہے عقل سلب ہو جاتی ہے۔ نیک کام جو اس کے لئے کرنا واجب اور فرض ہیں ناتمام رہ جاتے ہیں۔ رونے پیٹنے سے فرصت کسے جو مردے کے لئے توبہ استغفار کرے۔ وہاں تو ضروری یہ سمجھا جاتا ہے

ریختہ صفحہ 120
کہ موت روشن ہو اور وہ روشنی چاہئیے اس کی قبر کا اندھیرا بڑھا دے، کوئی اناج کی کوٹھری میں کھڑ بڑ کر رہا ہے کوئی مہمانوں کی خاطر مدارت کے سامان میں ہے کوئی ڈولیاں اتروانے پر اڑا کھڑا ہے۔کوئی صفِ ماتم پر زندوں کے لئے بستر شادی بچھا رہا ہے۔ موت کی روشنی اتنی دیر ہے کہ منہ ڈھکا ہے۔ جھوٹ موٹ کی گریہ اور ناگوار آوازیں آ رہی ہیں۔ خوفِ خدا کا تو رونا ہے نہیں۔ یہ تو اس مردے کی جان کو رو رہے ہیں۔ خدا سے تو اس وقت ان بن ہے۔ توبہ توبہ لڑائی پڑی ہے۔ بیٹھے بٹھائے ہوئے کو اس نے اٹھا لیا۔ چاہنے والے کو بلا لیا۔ کمانے والا گیا۔ گذرا چہیتا چھین لیا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ سر سے بڑے کا سایہ اٹھ گیا یا بھری گود خالی ہو گئی۔بچوں کی چل پون ماما اصیلون کی بے تکی ہانکیں مہمانوں کی چُہلیں آئے گئے کی گپیں ہیں چہل پہل ہے بھیڑ بھڑکا ہے۔ سارا گھر بھرا ہے قبر پر خاک اڑ رہی ہے۔ یہاں کی یہ گہما گہمی وہاں کا وہ سناٹا۔ زڑوسی پڑوسی اپنے بیگانے آئے بلائے کی آؤ بھگت میں گھر والے پھنسے ہوئے ہیں۔ مردے ہی کی تو خبر لینا چاہئے اور وہ خبر یوں لے کہ جب تک لاش نہ اٹھے اس کے سرہانے بیٹھا قران پڑھے، دعا و استغفار کرے۔ لاش اٹھ جانے پر اس کے رونے پیٹنے کے بدلے خدا کے خوف کا خیال کر کے اس کے غضب اور مردے کے گناہوں پر نظر کر کے بخشش کی دعا مانگے۔ خیرات کرے صدقہ دے۔ مومنین و محتاجین کو کھلائے مساکین کو مدد پہنچائے بھوکے کو کھانا ننگے کو کپڑا دے۔ حد سے زیادہ آہ و زاری مردے کے حق میں نہایت مضر ہے۔ مرنے پر تو کسی کو ایذا دینا کوئی خدا کا نیک بندہ پسند نہ کرے گا۔ جوان ہو یا بوڑھا ہر ایک اسی کی امانت ہے اور
 
Top