افتخار عارف کا نمبر تیسرا ہے‘

سیما علی

لائبریرین
افتخار عارف کا نمبر تیسرا ہے‘

faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif
faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif
faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif

faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور



faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif
b143f098a0b31e2a76a539e12027397720eeda03.jpg

افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ ٹیلی وژن کے معروف معلوماتی پروگرام کسوٹی میں


مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے کہ بی سی سی آئی نے جن ادیبوں اور شاعروں کو خراب و خوار و خجل و خوشحال کیا اُن میں افتخار عارف کا نمبر تیسرا ہے۔

فیض احمد فیض نے آج سے تیس برس پہلے اُس وقت کے ایک اُبھرتے ہوئے
شاعر کے بارے میں کہا تھا ’افتخار عارف کے کلام میں میرو مِیرزا سے لے کر فراق و راشد تک سبھی کی جھلکیاں موجود ہیں لیکن آپ نے اُن بزرگوں سے استفادہ کیا ہے، کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ لَے اور آہنگ کی طرح کچھ ایسا ہی اجتہاد لُغت اور محاورے میں بھی کیا ہے۔ موضوع کی رعایت سے کہیں کلاسیکی اور ادبی زبان کے شِکوہ سے کام لیا ہے تو کہیں روزمرّہ کی بولی ٹھولی کو شعریت سے پیوند کیا ہے۔ حٰتی کہ غزل جیسی کافر صنف میں بھی کچھ انفرادی بڑھت کی ہے۔

فیض نے یہ بات اُس وقت کہی تھی جب افتخار عارف کا نام صرف مشاعروں اور ادبی جریدوں کی وساطت سے ہم تک پہنچا تھا اور ان کا اوّلین مجموعہء کلام ابھی مرتب ہو رہا تھا لیکن فیض نے اُن کے شعری خمیر کو پہچان لیا تھا اور جو بُنیادی خصوصیات اِس ضمن میں بیان کی تھیں وہ آنے والے برسوں میں واضح سے واضح تر ہوتی چلی گئیں۔

سن دو ہزار پانچ کے ان آخری مہینوں تک جب افتخار عارف کے تین مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں ہمیں فرموداتِ فیض کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فیض صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا تھا ’افتخار عارف بڑے ہو کر کیا کریں گے یا نہیں کریں گے یہ موسیقی کی اصطلاح میں ان کے ریاض پر ہے، ۔۔۔ وہ کچھ اور نہ بھی کریں تو یہ کتاب (مہرِدونیم) جدید ادب میں انھیں ایک معتبر مقام دلوانے کے لئے کافی ہوگی‘۔

آج فیض صاحب کی روح یہ دیکھ کر یقیناً مسرور و مطمئن ہوگی کہ اُن کی خواہش اور ہدایت کے مطابق نوجوان شاعر نے ریاض کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جِس معتبر مقام کی پیش گوئی انھوں نے کی تھی وہ خود چل کر شاعر کے قدموں میں آگیا ہے۔

افتخار عارف کی شاعری پر گذشتہ تیس برس کے دوران بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ چونکہ تراجم کے ذریعے عارف کا کلام امریکہ، برطانیہ، روس اور جرمنی وغیرہ میں بھی متعارف ہو چکا ہے اس لئے انگریزی، روسی اور جرمن میں بھی اس کلام پر تبصرے ہوئے ہیں۔

افتخار عارف کی شاعری پر ملکی اورغیر ملکی مشاہیرِ ادب کی اہم آراء کو اکٹھا کرنا اور اشاعت کی منزل تک پہنچانا یقیناً ایک محنت طلب کام تھا لیکن شیما مجید نے یہ فریضہ پوری دیانت داری سے انجام دیا ہے۔

انھوں نے نہ صرف این میری شِمل، اینا سفاروا اور ڈیرک ماہون جیسے غیر ملکی قلم کاروں کے مضامیں تلاش کئے بلکہ خود پاک و ہند کے گوشے گوشے سے وہ تمام تبصرے اور تقریظیں جمع کیں جو گذشتہ تین عشروں کے دوران وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتی رہی ہیں۔

جدید اُردو ادب کا شاید ہی کوئی موقّر قلم کار ایسا ہو جِس نے افتخار عارف کی شاعری پر خیالات کا اظہار نہ کیاہو۔

شیما مجید نے اپنی کتاب میں جن قلم کاروں کی تحریریں شامل کی ہیں ان میں فیض احمد فیض کے علاوہ احمد ندیم قاسمی، ممتاز مفتی، سید ضمیر جعفری، مشتاق احمد یوسفی، صفدر میر، اوپندر ناتھ اشک، فرمان فتح پوری، انتظار حُسین، ڈاکٹر آفتاب احمد، گوپی چند نارنگ، فتح محمد ملک، ظفر اقبال، پروفیسر مجتبیٰ حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، پروین شاکر، عطاالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سیّد، متین فکری، اختر الایمان، سلیم احمد، سردار جعفری، کیفی اعظمی اور انور مقصود سے لے کر حسینہ معین اور شمع زیدی تک ہر عمر، طبقے اور صنفِ ادب سے تعلق رکھنے والے ادباء اور شعراء شامل ہیں۔

faaacf6350afde3ead1e7b25148beeb02d5dbbae.gif
3583479e7664f91725438657238687ec5fab1369.jpg

شیما مجید کی مرتب کردہ کتاب جس میں افتخار پر لکھے گئے اکثر مضامین جمع کر دیے گئے ہیں

این میری شِمل اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:
The theme of suffering, suffering for a noble cause, suffering in the hope that a positive meaning will emerge, has been repeated throughout Islamic poetry for centuries…. Just as Hussain and his family suffered on the waterless battle field. This theme runs through a large part of recent Urdu poetry, particularly that of Iftekhar Arif.
کربلا کا استعارہ کسطرح افتخار عارف کی شاعری کا کلیدی جزو بنتا ہے اس پر این میری شِمل کے علاوہ گوپی چند نارنگ نے بھی اپنے مضمون میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

کلاسیکی رچاؤ کے باوجود افتخار عارف کے موضوعات چونکہ زمانہ جدید سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے انکی تحسین برِصغیر تک ہی محدود نہیں بلکہ ترجمےکی وساطت سے دُنیائے مغرب کو بھی مسحور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


شیما مجیدکی مرتب کردہ ’ جوازِ افتخار‘ کے فلپ پر ڈیرک ماہون کی یہ رائے درج ہے:
Arif is one of those, fortunate to be eminently translatable… these poems belong to the modern world and are acquainted with irony as much as myth.

یہ مجموعہ مضامیں افتخار عارف کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور کچھ ادیبوں اور شاعروں نے اپنے انتہائی ذاتی تاثرات کو بھی زینتِ قرطاس بنایا ہے۔

معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:
’اگر مجھ سے کہا جائے کہ ایک جملے میں افتخار عارف کی تعریف کرو تو میں کہوں گی کہ وہ بڑے ’بزدل، کمزور، بے اعتبار اور بہت اکیلے انسان ہیں۔ نہ وہ کسی کے ہیں نہ انھیں یقین ہے کہ کوئی اُن کا ہو سکتا ہے۔۔۔۔‘

لیکن آگے چل کر حسینہ معین یہ بھی لکھتی ہیں:
’ میں نے اتنی عزت و شہرت اُن ہی کی وجہ سے پائی ہے، انھوں نے مجھے انگلی پکڑ کر آگے بڑھایا ہے۔ قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ بہت سے مشکل مرحلوں میں میری راہنمائی کی ہے‘۔

اس مجموعے میں اُردو کے پینتالیس اور انگریزی کے نو مضامین شامل ہیں۔ کتاب کا ایک حصّہ تصاویر کے لئے وقف ہے جس میں زیرِ بحث شاعر کے بچپن سے لےکر اب تک کی ایسی پچاسی تصاویر شامل ہیں جن میں حالیہ تاریخِ اُردو ادب کے چند یادگار لمحے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں۔
BBCUrdu.com
 
Top