محمد ارمغان
محفلین
اعمالِ صالحہ کے فوائد حاصل کیوں نہیں ہو رہے؟
ایک دِن دُکان پر کچھ سامان لینے گیا، وہاں پہلے سے موجود ایک گاہک کھڑا تھا، اُس نے دو کلو آٹا لیا پھر کہا کہ مجھے آدھا کلو چاول بھی دے دو۔ دُکاندار نے شاپر (پلاسٹک لفافہ) میں چاول ڈالے اور تولنے کے لیے وزن والے کنڈے پر رکھ دیا لیکن وہ پلڑا جھکا نہیں، تو وہ مزید چاول ڈالنے لگا اور ڈالتا گیا مگر وہ پلڑا جھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، جب چاول وزن سے زیادہ محسوس ہونے لگے تو اُس نے دوسرے پلڑے کی طرف دیکھا تو کہا:
’’اوہو! وَٹّہ تو دو کلو کا پڑا ہے، پلڑا کیسے جھکے؟‘‘
اُس نے وہ دو کلو کا وٹّہ اُٹھا کر آدھا کلو کا رکھا تو اب چاول زیادہ ہونے کی وجہ سے پلڑا فوراً جھک گیا اُس نے زائد چاول نکالے اور وزن پورا کر کے گاہک کو دے دیے۔
ببرکتِ مُرشد یہ بات دِل میں آئی کہ ہم نیکیاں کرتے ہیں مگر فوائد کو نہیں پاتے؟ بڑے بڑے وزنی اعمال مثلاً ہم نماز پڑھتے ہیں اور قرآنِ پاک کہتا ہے کہ نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے(۱)، مگر ہم اتنے عرصہ سے نمازیں پڑھ رہے ہیں ہمیں یہ فائدہ کیوں نہیں مل رہا؟ ہم نامۂ اعمال میں نیکیاں ڈالتے جا رہے ہیں مگر نیکیوں والا پلڑا جھک کیوں نہیں رہا؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ دوسرے پلڑے میں ہم نے بُرائیوں کا وزن زیادہ رکھا ہوا ہے جس کی طرف ہم توجہ نہیں دے رہے اور نیکیاں اس کے مقابلہ میں بہت کم اور ہلکی ہیں۔ جب ہم صدقِ دِل سے توبہ کریں گے تو دوسرے پلڑے کا وزن ختم ہو جائے اور نیکیوں والا پلڑا خود بخود وزنی ہونے کی وجہ سے جھک جائے گا(۲)۔
جب ہم برائیوں سے بچیں گے اور صدق و اخلاص کے ساتھ اعمالِ صالحہ کریں گے تو ہمارے اعمال قبول بھی ہوں گے، اس کے جملہ فوائد بھی حاصل ہوں گے اور روزِ محشر ہمارے نامۂ اعمال کا نیکیوں والا پلڑا بھی وزنی اور جھکا ہوا ہو گا، اِن شاء اللہ العزیز۔
………………………………………………….
حاشیہ(۱):سورۃ العنکبوت:۴۵۔
(۲):دیکھئے سورۃ الانبياء:۸،۹، سورۃ الکہف:۱۰۵، سورۃ القارعۃ:۶-۱۱۔
(فیضِ مرشد، از احقر)