اعتراف - نوشی گیلانی

بھولتا کون ہے
وقت کے گھاؤ کو
ہجر کے تندطوفان کی بے یقین لہر میں
وصل کے خواب کی ڈوبتی ناؤ کو
بھولتا کون ہے

بھولتا کون ہے
اپنے قاتل کے خدوخال کو
دُکھ اُٹھاتے دنوں اور ماہ وسال کو
بھولتا کون ہے

بھولتا کون ہے
عمر کی شاخ پر کھلنے والی اس اک اوّلین شام کو
بے سبب جو لگا ہے اِس الزام کو
پھر تِرے نام کو
بھولتا کون ہے ۔۔!​
 
Top