اعتدال اپنا۔

رشید حسرت

محفلین
سُناؤں گا تُمہیں اے دوست میں فُرصت سے حال اپنا
مہِینہ چین سے گُذرا، نہ دِن، گھنٹہ نہ سال اپنا

تُمہارے ہِجر و حرماں سے کہُوں کیا حال کیسا ہے
سمجھ لِیجے کہ ہونے کو ہے اب تو اِنتقال اپنا

نہِیں ہوتا تو ہم کب کا جُھلس کر راکھ ہو جاتے
ہمارے کام آیا دیکھ لو یہ اعتدال اپنا

تُمہاری آنکھ سے آنسُو تو کیا خُوں بھی رواں ہو گا
کہو تو شعر گوئی میں دِکھا دیں وہ کمال اپنا

بہُت مقبُول ہوتی جا رہی ہے دِل زدہگاں میں
ہماری شاعری، اب تو فسُوں بھی بے مِثال اپنا

غُرُور اِک عارضہ جِس کا تدارُک ہی نہِیں مُمکِن
لگا اِک بار یہ جِس کو سمجھ لے وہ زوال اپنا

کرِشمہ وقت میں رکھا گیا ہے زخم بھرنے کا
لگے جو گھاؤ تو حسرتؔ، بنے خُود اِندمال اپنا

رشِید حسرتؔ
 

الف عین

لائبریرین
اچھی عزل ہے حسرت مگر
بہُت مقبُول ہوتی جا رہی ہے دِل زدہگاں میں
فارسی کا قائدہ ہے کہ ہ پر ختم ہونے والے اسماء کی جمع بنانے میں ہ ختم کر دی جاتی ہے، اور گاں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ بچہ سے بچگاں، شکستہ سے شکستگان، اور زدہ سے زدگاں، جس میں دال بھی متحرک، زبر کے ساتھ ہے
 

رشید حسرت

محفلین
اچھی غزل ہے رشید بھائی ۔۔۔

اس شعر میں شتر گربہ در آیا ہے ۔۔۔ایک نظر دوبارہ دیکھ لیجیے۔

اچھی غزل ہے رشید بھائی ۔۔۔

اس شعر میں شتر گربہ در آیا ہے ۔۔۔ایک نظر دوبارہ دیکھ لیجیے۔
"کسی کے ہجر و حرماں سے" کرنے سے شتر گُربگی جاتی رہے گی۔ میرا دھیان ہی نہیں گیا۔ دوسرے فراز بھائی کا ایک شعر ہےکے کہ
ہر بزم میں موضوعِ سُخن دل زدگاں کا
اب کون ہے، شِیریں ہے، کہ لیلاؔ ہے کہ تُم ہو ۔ مجھے بھی دل زدگاں لکھنا تھا، لیکن کی بورڈ میں زبر نہ ہونے کی وجہ سے "ہ" کو مجبورأ برتنا پڑا۔ کوئی حرکت نہ لگانے سے عروض مصرع کو بے وزن بتا رہا تھا۔ لہذا "ہ" لگایا تو مصرع باوزن ہؤا یہی وجہ تھی "ہ" برقرار رکھنے کی۔ اگر زبر لگ سکتی تو "ہ" کی چنداں ضرورت ہی نہ تھی
 
Top