اضطراب

رشید حسرت

محفلین
نہیں تھا میں ہی فقط، وہ بھی اضطراب میں تھا
ترنگ مجھ میں تھی کچھ، کچھ نشہ شراب میں تھا

یہ دل کے داغ اسی دور کی نشانی ہیں
میں جن دنوں اثرِ حلقۂِ جناب میں تھا

امیرِ شہر نے چہرہ بدل لیا اپنا
غضب کا سانحہ تجدیدِ احتساب میں تھا

یہ اور بات کہ ہر شئے سے ہاتھ کھینچ لیا
کہ پھول جو بھی کِھلا صحنِ انتخاب میں تھا

وہ چاہتا بھی تو تکمیل ھو نہیں پاتی
بھن٘ور تھا عشق مِرا، نہ تو وہ چنابؔ میں تھا

چُنے گلاب تو یہ دل لہو لہان ھؤا
یہ کشف تھا تو فقط آپ کے شباب میں تھا

رشید حسرتِؔ ناکام پر شبِ ھجراں
کوئی تو دے یہ گواہی کہ کس عذاب میں تھا۔

رشید حسرتؔ۔
 
Top