اصلاح کہاں چاہیے؟

سید رافع

محفلین
:Could you correct me where I am wrong

.All my hopes are hinged to one concept which is knowledge

If I take Hadith seriously rational writings then it points to a personality Imam Mehdi who will bring large-scale justice. So until he arrives the only option I have is to increase knowledge in all walks of life and disburse it

If we think rationally, when only that man could bring peace and real justice it will be useless to get involved in military conflict with any nation, group or country rather find countries which help in living pious and knowledgeable way

On the contrary, let's ignore Mehdi then all of sudden you will become active in building an NGO, writing books, establishing political movements like Dawat e Islami, Tahir ul Qadri Minhaj, Tableegi Jamaat, Maududi, Khomeini, Akhwan ul Muslimoon or Taliban or even ISIS, Laskur or Jaish. Your main focus will be establishing mosques, a punishment system, and a single theological leader which will not be appointed by Allah by but your inner desire or your close circle

Even if we consider the emergence of Mahdi fake, deny all Hadith as Mahdi is not directly named in Quran - not even a chapter then everyone can see what terrible fruit we get from all such Islamic organizations who established center of knowledge without Mahdi.

So let's stay engineers for the remaining 25 to 30 years at max and eat whatever Halaal we can find and let the sunrise slowly. Our small hands can not push the sun to rise earlier instead we will burn our hands or become tired. When the sun will rise, no one needs to tell anyone

These are just my own thoughts and anyone can differ or propose alternate thought patterns

گوگل ٹرانسلیٹ

کیا آپ مجھے غلط کرسکتے ہیں جہاں میں غلط ہوں؟

میری ساری امیدیں ایک تصور سے جڑی ہوئی ہیں جو علم ہے۔

اگر میں حدیث کو سنجیدگی سے عقلی تحریروں پر لیتا ہوں تو پھر اس سے ایک ایسی شخصیت امام مہدی کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑے پیمانے پر انصاف لائے گا۔ لہذا جب تک کہ وہ میرے پاس نہیں آتا صرف ایک ہی آپشن ہے زندگی کے تمام شعبوں میں علم میں اضافہ کرنا اور اس کی فراہمی کرنا۔

اگر ہم عقلی طور پر سوچتے ہیں ، جب صرف وہی شخص امن اور حقیقی انصاف لاسکے گا جب کسی بھی قوم ، گروہ یا ملک کے ساتھ فوجی تنازعہ میں ملوث ہونا بیکار ہو گا بلکہ ایسے ممالک تلاش کریں گے جو تقویٰ اور علمی انداز میں زندگی گزارنے میں مدد فراہم کریں۔

اس کے برعکس ، آئیے مہدی کو نظر انداز کردیں پھر اچانک آپ این جی او کی تعمیر ، کتاب لکھنے ، دعوت اسلامی ، طاہر القادری منہاج ، تبلیغ جماعت ، مودودی ، خمینی ، اخوان المسلمون یا طالبان یا اس سے بھی سیاسی تحریکیں قائم کرنے میں سرگرم ہوجائیں گے۔ داعش ، لسکور یا جیش۔ آپ کی مرکزی توجہ مساجد ، ایک سزا کا نظام ، اور ایک واحد مذہبی رہنما قائم کرنا ہوگی جو اللہ کے ذریعہ آپ کی اندرونی خواہش یا آپ کے قریبی دائرہ کے ذریعہ مقرر نہیں کیا جائے گا۔

یہاں تک کہ اگر مہدی جعلی کے ظہور پر بھی غور کریں تو ، تمام حدیثوں کی تردید کریں کیوں کہ مہدی کا نام براہ راست قرآن مجید میں نہیں ہے - یہاں تک کہ ایک باب بھی نہیں ، پھر ہر کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہمیں ایسی تمام اسلامی تنظیموں سے کیا خوفناک پھل ملتے ہیں جنھوں نے مہدی کے بغیر علم کا مرکز قائم کیا۔

تو آئیے باقی 25 سے 30 سال تک انجینئرز کو زیادہ سے زیادہ قیام کریں اور جو بھی حلال ہمیں مل سکے اسے کھائیں اور آہستہ آہستہ طلوع ہونے دیں۔ ہمارے چھوٹے ہاتھ سورج کو پہلے طلوع ہونے کے دھکیل کر آگے نہیں بڑھا سکتے اس کی بجائے ہم اپنے ہاتھ جلائیں گے یا تھک جائیں گے۔ جب سورج طلوع ہوگا ، کسی کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ صرف میرے اپنے خیالات ہیں اور کوئی بھی متبادل سوچ کے نمونوں سے مختلف یا تجویز پیش کرسکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
میرے خیال میں، نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے، حکیم الامت علامہ اقبال کے الفاظ میں،

مجھ کو انکار نہیں آمدِ مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا


یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااسوہء حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو تب کی بات ہے۔ وہ جو حکم فرمائیں گے توتب دیکھا جائے گا۔ مگر ابھی تو ہمیں جو کچھ ہے، اس کی نسبت سے ہی اپنے اعمال کا رخ طے کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے، یہ نظم مزید پڑھنا چاہیں تو،


کیا کہوں امّتِ مرحوم کی حالت کیا ہے
جس سے برباد ہوئے ہم وہ مصیبت کیا ہے
حال امت کا برا ہو کہ بھلا کہتے ہیں
صفتِ آئنہ جو کچھ ہے صفا کہتے ہیں
واعظوں میں یہ تکبّر کہ الٰہی توبہ
اپنی ہر بات کو آوازِ خدا کہتے ہیں
ان کے ہر کام میں دنیا طلبی کا سودا
ہاں مگر وعظ میں دنیا کو برا کہتے ہیں
غیر بھی ہو تو اسے چاہیے اچھا کہنا
پر غضب ہے کہ یہ اپنوں کو برا کہتے ہیں
فرقہ بندی کی ہوا تیرے گلستاں میں چلی
یہ وہ ناداں ہیں اسے بادِ صبا کہتے ہیں
شاہدِ قوم ہوا خنجرِ پیکار سے خوں
ہائے غفلت یہ اسے رنگِ حنا کہتے ہیں
آہ جس بات سے ہو فتنۂ محشر پیدا
یہ وہ بندے ہیں اسے فتنہ ربا کہتے ہیں
جن کی دینداری میں ہے آرزوئے زر پنہاں
آ کے دھوکے میں انہیں راہ نماکہتے ہیں
لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصّب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں
خانہ جنگی کو سمجھتے ہیں بنائے ایماں
مرض الموت ہے جو اس کو دوا کہتے ہیں
یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علی شیعوں کا
ہائے کس ڈھنگ سے اچھوں کو برا کہتے ہیں
مقصدِ لَحمُکَ لَحُمِیُ پہ کھلی ان کی زباں
یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی برا کہتے ہیں
تیرے پیاروں کا جو یہ حال ہو اے شافعِ حشر
میرے جیسوں کو تو کیا جانیے کیا کہتے ہیں
بُغض لِلّٰہ کے پردے میں عداوت ذاتی
دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں ، کیا کہتے ہیں
جن کا یہ دیں ہو کہ اپنوں سے کریں ترکِ سلام
ایسے بندوں کو یہ بندے ’’صلحا‘‘ کہتے ہیں
قوم کے عشق میں ہو فکرِ کفن بھی نہ جسے
یہ اسے بندئہ بے دامِ ہوا کہتے ہیں
یہ دوا ، صفحۂ ہستی سے نہ مٹ جانا ہو
درد کے حد سے گزرنے کو دوا کہتے ہیں
وصل ہو لیلیِ مقصود سے کیوں کر اپنا
اخترِ سوختۂ قیس ہے اختر اپنا
امراء جو ہیں وہ سنتے نہیں اپنا کہنا
سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا
ہم جو خاموش تھے اب تک تو ادب مانع تھا
ورنہ آتا تھا ہمیں حرفِ تمنّا کہنا
درد مندوں کا کہیں حال چھپا رہتا ہے
اپنی خاموشی بھی تھی ایک طرح کا کہنا
شکوہِ منّت کشِ لب ہے کبھی منّت کشِ چشم
میرا کہنا جو ہے رونا تو ہے رونا ، کہنا
قوم کو قوم بنا سکتے ہیں دولت والے
یہ اگر راہ پہ آ جائیں تو پھر کیا کہنا
بادئہ عیش میں سرمست رہا کرتے ہیں
یاد فرماں نہ ترا اور نہ خدا کا کہنا
ہم نے سو بار کہا ’’قوم کی حالت ہے بری‘‘
پر سمجھتے نہیں یہ لوگ ہمارا کہنا
جو مرے دل میں ہے ، کہہ دوں تو کوئی کہہ دے گا
منہ پہ ہوتا نہیں ان لوگوں کو اچھّا کہنا
ہم کہیں کچھ تو کہے جائیں ، انہیں کیا پروا
کوئی کہہ دے تو اثر کرتا ہے کیا کیا کہنا
ان کی محفل میں ہے کچھ بار انہی لوگوں کو
جن کو آتا ہو سرِ بزم لطیفا کہنا
دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر
فقر تھا فخر ترا شاہِ دو عالم ہو کر
اس مصیبت میں ہے اک تو ہی سہارا اپنا
تنگ آ کر لبِ فریاد ہوا وا اپنا
ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی
نام لیوا ہیں ترے ، تجھ پہ ہے دعوا اپنا
فرقہ بندی سے کیا راہ نمائوں نے خراب
ہائے ان مالیوں نے باغ اجاڑا اپنا
ہم تو مٹ جائیں گے معمورئہ ہستی سے مگر
صبر ان راہ نمائوں پہ پڑے گا اپنا
تری سرکار میں اپنوں کا گلہ کیا کیجیے
ہو ہی جاتا ہے مصیبت میں پرایا اپنا
ہم نے سو راہ اخوّت کی نکالی لیکن
نہ تو اپنا ہوا اپنا نہ پرایا اپنا
دیکھ اے نوح کی کشتی کے بچانے والے
آیا گرداب حوادث میں سفینہ اپنا
اس مصیبت میں اگر تو بھی ہماری نہ سنے
اور ہم کس سے کہیں جا کے فسانا اپنا
ہاں برس ابرِ کرم ، دیر نہیں ہے اچھی
کہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہونا اپنا
لطف یہ ہے کہ پھلے قوم کی کھیتی اس سے
ورنہ ہونے کو تو آنسو بھی ہے دریا اپنا
اب جو ہے ابر مصیبت کا دھواں دھار آیا
ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھ کو دلِ شیدا اپنا
یوں تو پوشیدہ نہ تھی تجھ سے ہماری حالت
ہم نے گھبرا کے مگر تذکرہ چھیڑا اپنا
زندگی تجھ سے ہے اے فخرِ براہیم اپنی
کر دعا حق سے کہ مشکل ہوا جینا اپنا
ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی
ہے انہی لوگوں کی ہمّت پہ بھروسا اپنا
داستاں درد کی لمبی ہے ، کہیں کیا تجھ سے
ہے ضعیفوں کو سہارے کی تمنّا تجھ سے
قوم کو جس سے شفا ہو وہ دوا کون سی ہے
یہ چمن جس سے ہرا ہو وہ صبا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے ہو عزّتِ دین و دنیا
ہائے اے شافعِ محشر وہ دعا کون سی ہے
جس کی تاثیر سے یک جان ہو امّت ساری
ہاں بتا دے ہمیں وہ طرزِ وفا کون سی ہے
جس کے ہر قطرے میں تاثیر ہو یک رنگی کی
ہاں بتا دے وہ میٔ ہوش ربا کون سی ہے
قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا
ناقہ وہ کیا ہے ، وہ آوازِ درا کون سی ہے
اپنی فریاد میں تاثیر نہیں ہے باقی
جس سے دل قوم کا پگھلے وہ صدا کون سی ہے
سب کو دولت کا بھروسا ہے زمانے میں مگر
اپنی امّید یہاں تیرے سوا کون سی ہے
اپنی کھیتی ہے اجڑ جانے کو اے ابرِ کرم
تجھ کو جو کھینچ کے لائے وہ ہوا کون سی ہے
ہے نہاں جن کی گدائی میں امیری سب کی
آج دنیا میں وہ بزمِ فقرا کون سی ہے
تیرے قرباں کہ دکھا دی ہے یہ محفل تونے
میں نے پوچھا جو اخّوت کی بِنا کون سی ہے
راہ اس محفلِ رنگیں کی دکھا دے سب کو
اور اس بزم کا دیوانہ بنا دے سب کو
 

سید رافع

محفلین
مجھ کو انکار نہیں آمدِ مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا

یہ ممکن نہیں کہ مہدی کے مثل کوئی ہو الا کہ دیگر آئمہ اہل بیت اطہار علیہ السلام۔ لیکن اس میں بھی ایک لطیف بحث ہے جو یہاں کی آڈینس کے لائق نہیں۔
 

سید رافع

محفلین
حکیم الامت علامہ اقبال

اگر آپ اجازت دیں تو کہوں گا کہ جو کام امام مہدی علیہ السلام کا ہے اور کوئی اسکو کرنے کے درپے ہو اسکو کیا کہیں گے؟ بلکہ وہ "علامہ" خانقاہوں میں بیٹھے اپنے شر سے دوسروں سے بچاتے لوگوں کو بھی اس کام میں لگانے کے درپے ہو، اسکو "حکیم الامت" نہیں "مریض الامت" کہیں گے۔ اب سنیں:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري
کہ فقر خانقاہي ہے فقط اندوہ و دلگيري

شبیر ہیں نہیں تو رسم شبیری ادا کیسے ہو؟ اچھا ہے کہ انسان اپنی حد پہچانے!
 

علی وقار

محفلین
رافع بھائی، جو میری سمجھ میں آیا، جس قدر میری فہم ہے، میں نے اُس کے مطابق لکھ دیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو بھی شخصیات مستقبل میں آجائیں، بہرصورت، وہ بھی ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ پر چلنے کی تلقین ہی کریں گے۔
 
Top