اصلاح و مشورہ

نور وجدان

لائبریرین
سب سے پہلے تو شکریہ مجھے سمجھانے اور بتانے کا ..۔ محترم الف عین
آخری شعر میں ہر دفعہ ٹائپو مسٹیک ہوجاتی ..نہ ماننے کی وجہ بنتی ہی نہیں۔

دوسری بات یہ کہ میں نے سابقہ پوسٹ میں یوں لکھا تھا

زخم تھے جو سب پرانے بھا گئے
آپ نے کہا اس میں سپیس ہونا چاہیے

کیا یہ اوپر والا مصرع ٹھیک ہے؟

ایک اور بات پوچھنا تھی

خون جاری ہو زخم سے کب تلک
اس میں مسقبل کے باری میں بات کی جارہی ..۔۔ کیا مسقبل اور فعل مکمل کو جوڑا نہیں جا سکتا ..۔۔ جملے کو ہم فعل جاری میں تب لے سکتے ہیں جب میں نے "کب تلک " نہ لکھا ہو ..آپ کیا کہتے ہیں ..اس طرح مجھے بھی کچھ کلیریٹی مل جائے گی
 

loneliness4ever

محفلین
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے

بہن اس فقیر بے علم کی اتنی سمجھ نہیں مگر آپ کی غزل پڑھتے ہوئے یہ شعر
کچھ ایسے پڑھ گیا ہوں میں:

زخم رہتے ہیں ہرے دل کے یہاں
لوگ مرہم رکھتے ہیں شمشیر سے
 

الف عین

لائبریرین
بھا اور گئے اگر دو الفاظ ہیں تو اس کا مطلب پسند آ گئے
اور اگر ایک ہی لفظ ’بھاگئے‘ ہے، تو بھاگنے کا فعل امر ہے تعظیم کے ساتھ۔ کیونکہ اردو میں الفاظ کے درمیان سپیس نظر نہیں آتی تو اس لئے یہ دو الفاظ بھی پڑھے جا سکتے ہیں، اور ایک بھی۔ میرا مشورہ یہی تھا کہ ایسا لفظ استعمال کیا جائے کہ کسی کنفیوژن کا احتمال نہ رہے۔
خون جاری ہو، صیغہ امر بھی ہو سکتا ہے۔ مستقبل کے لئے بہتر استعمال ہو گا ۔’خون جاری رہے‘
 
Top