اصلاح درکار ہے

شمس

محفلین
پھولوں کے گِرد اِک کانٹوں کی تار ہوتی ہے
قاتل کے ہاتھوں میں زندگی کی دھار ہوتی ہے

بہت دنوں سے اِک چُبھن سی رہتی ہے
شاید کوئی بات دل کے پار ہوتی ہے

آنکھ اور آفتاب کے درمیاں ہے وہ شخص
رشنی کی لہر بدن کے پار ہوتی ہے

وہ کرتے ہیں کلیوں کی بات اور پھولوں سے دوستی
میری آرزو تو نمک میں شمار ہوتی ہے

اپنے ہی آپ سے لڑ رہا ہوں آج کل
اپنی ہی جیت ہر پل اپنی ہی ہار ہوتی ہے

وہ ادا، وہ بانکپن، وہ جوانی کا نشہ
حُسن و جمال میں دو دن کی بہار ہوتی ہے

وہ کہتے ہیں کہ ساحر کی ہر ادا پہ فِدا ہیں
پیار کے دیدار کو نظر بے قرار ہوتی ہے
 
Top