اصلاحِ کہانی

ابنِ حرم

محفلین
السلام علیکم
میں نے ایک کہانی لکھی ہے۔ جو میں یہاں پر پیسٹ کرنے جا رہا ہوں۔ اُمید ہے کہ اِس کہانی میں بہت سی غلطیاں ہو گئی۔ اور میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں گا جب آپ میری اصلاح کریں گئے۔ اِس کے علاوہ کہانی کا کوئی اچھا سا عنوان بھی بتا دیں۔ شکریہ


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یورپ کے ایک دور دراز ملک سربیہ میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اُس کا نام کنگ جورج تھا۔ بادشاہ بہت سخت مزاج اور غصیل آدمی تھا وہ چھوٹی چوٹی بات پر اپنے عوام پر طرح طرح کے ظلم ڈھائیا کرتا تھا۔ کبھی کسی کو بغیر کسی غلطی کے کوڑے لگوا دیے کبھی کسی کو اپنے سے خوبصورت نظر آنے کی وجہ سے اُس کی ٹنڈ کروا دی۔ اگر کسی کی فصل بادشاہ کی شاہی فصل سے اچھی ہوتی تو اُس کی فصل کو جلا دیا جاتا۔ یہ تو بادشاہ کی چھوٹی چھوٹی سزائیں تھیں جو عوام کو سہنا پرتیں تھیں۔ اِس کے علاوہ بادشاہ اپنی عوام کو بہت سخت قسم کی سزائیں بھی دیتا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی نئی سزا ایجاد کی جائے۔ اُس نے بہت سوچا مگر اُسے کے ذہن میں کوئی نئی سزا کا تصور نہ آیا۔ آخر کار اُس نے اپنے وزیروہ سے مشورہ کیا کہ کس طرح کوئی نئی سزا ایجاد کی جائے۔ وزیروں نے بہت سوچ کر مشورہ دیا کے سزا عوام کو ہی دینی ہے اِس لیے اُن سے ہی پوچھا جائے کے کوئی نئی سزا ایجاد کریں۔ بادشاہ نے کہا کم عقلو عوام تھوڑا ہی بتائیں گئے کہ سزا کیا ہونی چاہیے۔ اِسی لمحہ بادشاہ کا ایک وزیر ویلیم جو بہت رحم دل تھا اور اُس کے دل میں عوام کے دل میں بہت ہمدردی تھی بادشاہ کو کہنے لگا بادشاہ سلامت آپ عوام میں یہ علان کروا دیں کہ جو کوئی بھی سب سے سخت سزا ایجاد کرئے گا اُس کو آئندہ کبھی بھی کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملے گئی۔ بادشاہ کو اُس وزیر کی یہ بات بہت پسند آئی اُس نے الگے ہی دن ملک بھر میں یہ علان کروا دیا کہ جو شحص بھی آج تک کی سب سے سخت سزا ایجاد کرنے میں قامیاب ہو گیا اُس کو آئندہ کبھی بھی کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ملے گئی۔ لوگ یہ علان سن کر بہت خوش ہوئے اور سب لوگ نئی سزائیں ایجاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
رات کا وقت تھا۔ بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ لوگ تمام دن نئی سزا ایجاد کرنے کی کوشش کے بعد آرام کی نیند سو رہے تھے کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ اُن کی ذندگی کچہ دنوں بعد بدلنے والی ہے۔ اِس اندھیری اور ٹھنڈی رات میں ایک نقاب پوش محل کی دیورا کے نیچے سے گزرنے والے ایک خفیہ راستے سے محل سے باہر نکلا اور لوہار کے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ لوہار کے گھر کے باہر موجود تھا۔اُس شحص نے لوہار کے گھر کا دروازے پر بہت آرام سے دستک دی کہ لوہار کے علاوہ کوئی شخص دستک کی آواز سے اُٹھ نہ جائے۔لوہار بہت مخنتی آدمی تھا وہ تمام دن کام کرتا رہتا تھا اور رات کو بہت تھک جاتا تھا اور گھر آ کر گہری نیند سو جاتا تھا۔اسی لیے وہ پہلی دستک پر نہ اُٹھا لیکن دوسری دستک پر اُٹھ گیا اور دروازہ کھولا دروازہ کھول کر وہ حیران رہ گیا کیوں کے سامنے موجود شحص کو چور یا ڈاکو نہیں تھا وہ بادشاہ کا رحم دل وزیر ویلیم تھا۔ لوہار نے ویلیم سے پوچھا کہ اتنی رات کو کیا کرنے آئے ہو۔ ویلیم نے لوہار کو کہا کہ میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے اِس لیے ضروری ہے کہ ہم اندر بیٹھ کر بات کریں۔ لوہار ویلیم کوگھرکے اندر لے آیا اور دونو کمرے کے کونے میں بچھے ایک بستر پر بیٹھ گئے۔ ویلیم نے لوہار سے کہا کہ ہمارہ بادشاہ بہت ظالم انسان ہے اگر یہ اسی طرح ہم پر حکومت کرتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم سب لوگ ایک ایک کر کے مر جائیں گئے۔ لوہار نے کہا کہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ویلیم نے کہا کہ میرے پاس ایک طریقہ ہے اگر اُس پر عمل کیا جائے تو ہم بادشاہ کو بہت آسانی سے قتل کر دیں گے۔ ویلیم کے یہ الفاظ سن کر لوہار ڈر گیا اور کہنے لگا تم یہاں سے چلے جائو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اور نہ ہی اب میں تمھاری کوئی بات سننا چاہتا ہوں اگر بادشاہ کو اِس بات کا علم ہو گیا تو وہ ہمیں جان سے مار ڈالے گا۔ ویلیم لوہار کی یہ بات سن کر مایوس ہو گیا لیکن اگلے ہی لمحہ اُسے ایک خیال آیا اُس نے لوہار کو وہ سزائیں یاد دلائیں جو بادشاہ نے اُسے بغیر کسی غلطی کے دیں تھیں۔ویلیم نے کہا کہ میرے پاس ایک ایسا طریقہ ہے کہ کہ ہم بادشاہ کو قتل کر دیں گے اور کسی کو یہ معلوم بھی نہیں ہو گا کہ بادشاہ کو ہم نے قتل کیا ہے۔آخر کار لوہار بادشاہ کو قتل کرنے میں ویلیم کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ ویلیم نے لوہار کو سارا طریقہ بتایا کہ بادشاہ کو کیسے قتل کرنا ہے۔ ویلیم نے لوہار سے کہا کہ وہ جلد ہی ایک موٹے سے بھینسے کا لوہے کا مجسمہ بنائے جو اندر سے اتنا خالی ہو کے اُس کے اندر ایک بندہ آسانی سے لیٹ سکے۔ اور اُس مجسمے کے منہ کے اند ایک ایسا باجا لگا ہو جس کو بجانے سے بھینسے کی آواز آئے۔ اور اُس بھینسے کے اوپر لوہے کا ایک چھوٹا سا دروازہ ہو جس کی مدد سے اِس کے اندر جایا جا سکے۔ دو ہی دنوں میں لوہار نے بھینسے کا مجسمہ بنا لیا اور اُس کے منہ میں ایک ایسا باجا لگایا جس کو بجانے سے بھینسے کی آواز آتی تھی۔ اگلے ہی دن لوہار بھینسے کا مجسمہ بیل گاڑی پر لاد کر بادشاہ کے محل کی طرف چلا اور تھوڑی ہی دیر میں محل کے اندر جا پہنچا۔ محل میں ویلیم پہلے سے ہی لوہار کا انتظار کر رہا تھا۔ ویلیم نے لوہار کو محل میں اُس وقت آنے کا وقت دیا تھا جب بادشاہ دوپہر کو سو رہا ہو۔ اگلے ہی لمحہ ویلیم بادشاہ کے کمرے کی طرف گیا اور کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اُس نے دربان سے کہا کہ بادشاہ کو جگائوں مجھے ایک بہت ہی ضروری اور اہم کام ہے بادشاہ سے۔ دربان بادشاہ کے کمرے میں گیا اور جا کر بادشاہ کو جگایا اور کہنے لگا کے باہر ویلیم آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بادشاہ سے بہت ضروری کام ہے۔ بادشاہ جلدی سے اُٹھ گیا کیوں کہ اُسے معلوم تھا کہ ویلیم کبھی بھی کسی فضول کام کے لیے نہیں آتا۔ بادشاہ کمرے سے باہر آیا اور اُس نے ویلیم سے کہا کہ کیا بات ہے ویلیم ۔ ویلیم نے کہا بادشاہ سلامت آپ کے لیے محل میں ایک ایسی چیز آئی ہے جو آپ نے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی اور آپ اُس کو دیکھ کر بہت خوش ہویں گے۔ یہ کہہ کر وہ بادشاہ کو محل کے اُس حصے میں لے آیا جہاں لوہار آیا ہوا تھا۔ ویلیم بادشاہ کو لوہار کے پاس لے کر آیا اور کہا کہ بادشاہ سلامت لوہار نے ایک ایسی سزا ایجاد کی ہے جو بہت خطر ناک اور بہت درد ناک ہے۔ ویلیم کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اُسے بتایا جائے کہ سزا کیا ہے۔ بادشاہ کے اِس فرمان کے بعد لوہار نے کہا بادشاہ سلامت میں نے یہ ایک بھینسےکا مجسمہ بنایا ہے اِس مجسمے میں ایک انسان کے لیٹنے کی جگہ ہے جس شحص کو سزا دینی ہو اُس کو اِس کے اندر بند کر کے اِس مجسمے کے نیچے آگ جلا دینی ہے آگ کے جلنے کی وجہ سے اندر بند کیے گئے بندے کو گرمی لگے کی اور وہ لمبے لمبے سانس لے گا جس کی وجہ سے جلد ہی بھینسے کے مجسمے کے اندر سانس حتم ہو جائے گا جب بندے کا سانس بند ہونے لگے گا تو وہ اُس نالی کی مدد سے سانس لینے کی کوشش کرئے گا جب وہ اِس نالی کی مدد سے سانس لے گا تو بھینسے کی آواز آئے گئی اور یہ ایک بہت خوفناک منظر ہو گا اور تھوڑی ہی دیر بعد اندر بند کیا گیا بندہ آگ کی تپش کی وجہ سے ترپ ترپ کر مر جائے گا۔ بادشاہ لوہاڑ کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ یہ سزا تو بلکل ایک نئی ایجاد ہے لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ اِس باجے سے بھینسے کی آواز نکلے کی کیوں کہ میں نے کبھی بھی ایسا باجا نہیں دیکھا۔ لوہار نے بادشاہ کو کہا کے آپ خود اِس مجسمے کے اندر جا کر باجا بجا کر دیکھ لیں۔ بادشاہ نے کہا کیوں نہیں میں ضرور اس باجے کو بجا کر دیکھنا چاہوں گا جیسے ہی بادشاہ بھینسے کے مجسمے میں داخل ہوا لوہار نے مجسمے کا دروازہ بند کر دیا اور جلدی سے اُس کو تالا لگا دیا۔ بادشاہ کو دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو وہ جلدی سے پیچھے مُڑا اور دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اب بہت دیر ہو چُکی تھی۔ دروازے کو تالا لگا دیا گیا تھا۔ باہر لوہار اور ویلیم کھڑے ہو کر ہنس رہے تھے۔ بادشاہ نے بہت شور مچایا لیکن مجسمہ ایسا بنایا گیا تھا کہ اندر سے کوئی آواز باہر نہیں آ سکتی تھی۔ ویلیم اور لوہار نے اُس بھینسے کو بیل گاڑی پر لادا اور شاہی باڑے میں لیے گئے اور وہاں کام کرنے والے ملازموں سے کہا کہ باڑے کے لیے یہ مجسمہ بنایا گیا ہے اور اِس کو شاہی باڑے میں لگانا ہے۔ ملازموں نے وہ مجسمہ بارے میں لگا دیا۔ جب کچھ دیر کے بعد سب ملازم باڑے میں سے چلے گئے تو ویلیم چھپ کر باڑے میں آیا اور تمام جانوروں کو باڑے سے بھگا دیا اور پھر بارے میں آگ لگا دی۔ آگ کی لپیٹ میں لوہے کا وہ مجسمہ بھی آ گیا جس میں بادشاہ کو قید کیا گیا تھا۔ آگ کے تپش کی وجہ سے بادشاہ نے جلدی جلدی سانس لیے جس سے مجسمے میں ہوا حتم ہو گئی اور جب اُس نے باجے کی نالی سے سانس لینے کی کوشش کی تو اُس سے سانس نہ لیا گیا کیوں کہ نالی کو بند کر دیا گیا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد بادشاہ مجسمے کے اندر ترپ ترپ کر مر گیا اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ شام کو پورے علاقہ میں خبر پہیل گئی کے بادشاہ گم ہو گیا ہے۔ سپاہی بادشاہ کو تلاش کرتے رہے لیے پانچ دن تک تلاش کرنے کے باوجود بادشاہ نہ ملا لوگوں نے خیال کیا کہ بادشاہ کہیں بھاگ گیا ہے۔ پانچ دن کی تلاشی کے بعد جب بادشاہ نہ ملا تو لوگوں نے ویلیم کو اپنا نیا بادشاہ بنا لیا۔ اگلے ہی دن ویلیم لوہار کے ساتھ باڑے میں گیا اور وہاں کے ملازموں سے کہنے لگا کہ آگ کی وجہ سے یہ مجسمہ جل گیا ہے۔ اِس لیے اِس کو لوہار کو دے دینا چاہیے کہ لوہار اسے ٹھیک کر دے۔ لوہار نے مجسمے بیل گاڑی پر لادا اور اُس کو دریا میں پھینک آیا اور اُس جیسا نیا مجسمہ بنا کر بارے میں رکھوا دیا۔ اِس طرح کسی کو مجسمے کا راز بھی معلوم نہ ہوا۔ نیا بادشاہ اب لوگوں پر بہت رحم کرتا تھا اور لوگ اُس سے بہت خوش تھے اور اب لوگ اپنی زندگی بہت آرام و سکون سے گزار رہے تھے۔
 
Top