اصلاحِ سخن " وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا "

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن

الف عین سر اور دیگر اساتذہ کی خدمت میں اصلاح کیلئے ایک غزل

کہیں مکین کہیں پر مکاں نہیں ملتا
جہاں پہ غم نہ ہو ایسا جہاں نہیں ملتا

جو تم سے پہلے یہاں اور لوگ رہتے تھے
وہ خاک ہو گئے ان کا نشاں نہیں ملتا

ترے فریب سے بچائے اب خدا ہم کو
کہ تیرے لہجے سے تیرا بیاں نہیں ملتا

خدا بھی اپنے پیاروں کو آزماتا ہے
ہر انساں کو شرفِ امتحاں نہیں ملتا

سخن شناس ضروری ہے حق شناسی وہاں
جہاں پہ حق کا کوئی ترجماں نہیں ملتا


مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فِعْلن
 
خدا بھی اپنے پیاروں کو آزماتا ہے
ہر انساں کو شرفِ امتحاں نہیں ملتا

پہلا مصرع بے وزن ہے۔ پیاروں۔ فعلن کے وزن پہ ہوتا ہے

نیز دوسرے مصرع میں ہر انساں کو بھی برا لگ رہا ہے۔

یہ شعر ایسے ہوسکتا ہے

کسی کسی کو خدا آزمایا کرتا ہے
ہر ایک کو شرفِ امتحاں نہیں ملتا
 
Top