اصحاب علم کی توجہ اصلاح کے لئے،'' جو مسلم تیری بندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے ''

جو مسلم تیری بندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے
مخالف آگ پانی ہیں، مخالف یہ ہوا کیوں ہے

کبھی زلزال آتا ہے، کبھی سیلاب آتا ہے
یہ ساری قوم میں پھیلی، برائی اور دغا کیوں ہے

یہ لہوولعب کی رونق، فراِئض کا خطا ہونا
نمازیں فرض جب ٹہریں، نمازوں کی قضا کیوں ہے

زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکاء کیوں ہے

میں مانگوں بھیک نہ پاوں، وڈیرے لوٹ کر کھائیں
ڈکیتوں کو کھلی چھٹی، تو چوری کی سزا کیوں ہے

دوائی تک نیہں ملتی، بھلا ہے پی کے مر جانا
جو جینا ہی سزا ٹہرا، تو پینا پھر خطا کیوں ہے

زمانے کو دکھاتے ہیں سروں کو دھک سے ٹکرائیں
چلو تھا ناس سے دھوکہ، یہ سجدوں میں ریا کیوں ہے

تصور اُس کا کیوں اظہر، نمازوں میں چلا آئے
ثوابوں میں نہیں چسکا، گناہوں میں مزا کیوں ہے
 

الف عین

لائبریرین
تمہارے کچھ الفاظ اور ترکیبیں میری سمجھ میں نہیں آتیں، اس لئے میں تم کو یعقوب آسی صاحب کے سپرد کر کے خوش ہو رہا تھا۔ اور اسی وجہ سے تفصیلی نظر پچھلی نظم پر بھی نہیں ڈالی۔
پہلی بات تو یہ کہ عروض کے حساب سے کوئی غلطی نہیں۔ مبارک ہو۔
اس کے بعد کچھ سوالات۔۔۔۔
1۔ جو مسلم تیری بندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے
ایک تو تیرے بندے‘ ہونا چاہئے، اس کے علاوہ اللہ کے تو سارے بندے ہیں، مسلم اور غیر مسلم دونوں۔ شاید یہ مراد ہو کہ ’بندوں میں سے جو مسلم بندے ہیں‘ تن درست ہے۔ لیکن اصل اعتراض ’ذلت میں رضا‘ پر ہے، یہاں کیا معنی ہیں؟
2۔قوم میں پھیلی، برائی اور دغا کیوں ہے
دغا کا استعمال محل نظر ہے۔
3۔یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکاء کیوں ہے
ذکا بہتی ہے، یہ تم سے ہی معلوم ہوا۔ ذکا مذکر ہے، لیکن بہنے سے کیا مراد ہے؟
4۔ زمانے کو دکھاتے ہیں سروں کو دھک سے ٹکرائیں
چلو تھا ناس سے دھوکہ، یہ سجدوں میں ریا کیوں ہے
دونوں مصرعے سمجھ میں نہیں آئے۔
5۔تصور اُس کا کیوں اظہر، نمازوں میں چلا آئے
نمازوں میں تصور چلتا ہے؟؟؟ ویسے دوسرے مصرعے میں ’چسکا‘ اچھا نہیں لگ رہا، اس لو لذت کیا جا سکتا ہے۔
 
تمہارے کچھ الفاظ اور ترکیبیں میری سمجھ میں نہیں آتیں، اس لئے میں تم کو یعقوب آسی صاحب کے سپرد کر کے خوش ہو رہا تھا۔ اور اسی وجہ سے تفصیلی نظر پچھلی نظم پر بھی نہیں ڈالی۔
پہلی بات تو یہ کہ عروض کے حساب سے کوئی غلطی نہیں۔ مبارک ہو۔
اس کے بعد کچھ سوالات۔۔۔۔
1۔ جو مسلم تیری بندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے
ایک تو تیرے بندے‘ ہونا چاہئے، اس کے علاوہ اللہ کے تو سارے بندے ہیں، مسلم اور غیر مسلم دونوں۔ شاید یہ مراد ہو کہ ’بندوں میں سے جو مسلم بندے ہیں‘ تن درست ہے۔ لیکن اصل اعتراض ’ذلت میں رضا‘ پر ہے، یہاں کیا معنی ہیں؟
2۔قوم میں پھیلی، برائی اور دغا کیوں ہے
دغا کا استعمال محل نظر ہے۔
3۔یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکاء کیوں ہے
ذکا بہتی ہے، یہ تم سے ہی معلوم ہوا۔ ذکا مذکر ہے، لیکن بہنے سے کیا مراد ہے؟
4۔ زمانے کو دکھاتے ہیں سروں کو دھک سے ٹکرائیں
چلو تھا ناس سے دھوکہ، یہ سجدوں میں ریا کیوں ہے
دونوں مصرعے سمجھ میں نہیں آئے۔
5۔تصور اُس کا کیوں اظہر، نمازوں میں چلا آئے
نمازوں میں تصور چلتا ہے؟؟؟ ویسے دوسرے مصرعے میں ’چسکا‘ اچھا نہیں لگ رہا، اس لو لذت کیا جا سکتا ہے۔

محترم اُستاد،
شکریہ کہ عروضی اعتبار سے کوئی خطا نہیں، اس میں مبارک باد کے اصل حقدار آپ ہی ہیں

1۔ جو مسلم تیری بندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے
کہنا یہ ہے کے اگر مسلم اللہ کے بندے ہیں تو آج کل جس ذلت سے گزر رہے ہیں اُس کی وجہ ، گویا ایک طرح سے شکوہ ہے کے اے اللہ اگر ہم تیرے بندے ہیں تو ہماری یہ حالت کیوں ہے اور تیری رضا تو ہماری عزت میں ہونی چاہئے تھی پھر یہ ذلت کیوں؟
تیری غلط لکھا گیا تھا ٹھیک کئیے دیتا ہوں

2۔قوم میں پھیلی، برائی اور دغا کیوں ہے
یعنی من حیث القوم ہم میں برائیاں اور دھوکہ کیوں ہے، اگر پھیلا کر دوں تو کیا مناسب ہو گا؟
یہ ساری قوم میں پھیلا، برائی اور دغا کیوں ہے

3۔یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکاء کیوں ہے
قاموس لغت الاُردیہ میں ذکاء بمعٰنی، ذہانت، دانائی، عقلمندی اور فراست کے ہے اور یہ سب کے سب میری ناقص علمی فراست میں مونث ہیں، ازراہ کرم تصحیع فرمائیے

4۔ زمانے کو دکھاتے ہیں سروں کو دھک سے ٹکرائیں
چلو تھا ناس سے دھوکہ، یہ سجدوں میں ریا کیوں ہے
یعنی ہم زمانے کو دکھانے کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں اور کوئ نظر آ جائے تو ذور سے سر زمین پر مارتے ہیں تاکہ گذرنے والے جان جائیں کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں جبکہ یہ عمل صرف اللہ سبحانہہ و تعالٰی کے لئے ہے، چلو ہم لوگوں کو یعنی ناس کو دھوکہ تو دیتے ہیں یہ سجدوں میں ریا کاری کیوں کرتے ہیں، کیا اللہ کو دھوکہ دے سکتے ہیں؟

اب جیسا آپ فرمائیں
دعا گو
اظہر
جو مسلم تیرےبندے ہیں، تو ذلت میں رضا کیوں ہے
مخالف آگ پانی ہیں، مخالف یہ ہوا کیوں ہے

کبھی زلزال آتا ہے، کبھی سیلاب آتا ہے
یہ ساری قوم میں پھیلی، برائی اور دغا کیوں ہے

یہ لہوولعب کی رونق، فراِئض کا خطا ہونا
نمازیں فرض جب ٹہریں، نمازوں کی قضا کیوں ہے

زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکاء کیوں ہے

میں مانگوں بھیک نہ پاوں، وڈیرے لوٹ کر کھائیں
ڈکیتوں کو کھلی چھٹی، تو چوری کی سزا کیوں ہے

دوائی تک نیہں ملتی، بھلا ہے پی کے مر جانا
جو جینا ہی سزا ٹہرا، تو پینا پھر خطا کیوں ہے

زمانے کو دکھاتے ہیں سروں کو دھک سے ٹکرائیں
چلو تھا ناس سے دھوکہ، یہ سجدوں میں ریا کیوں ہے

تصور اُس کا کیوں اظہر، نمازوں میں چلا آئے
ثوابوں میں نہیں چسکا، گناہوں میں مزا کیوں ہے
 
اعجاز عبید صاحب، عزت افزائی پر آپ کا ممنون ہوں۔
آپ نے بجا فرمایا اظہر نذیر صاحب نے اس بار کوئی عروضی غلطی نہیں کی۔ خوشی کی بات ہے۔
موصوف کا اصل مسئلہ وہی ہے جسے شاید ”شدتِ اختصار“ کہنا موزوں ہو گا؟ مطلع میں اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر کی طرف اشارہ ہے، مگر صاحب اسلوبی سطح پر ذرا پیچھے رہ گئے اور شعر معنوی طور پر باقی اشعار سے ٹکرا گیا۔ باقی سارے اشعار اسی ”کیوں ہے“ کا جواب یا تفسیر ہیں۔
سروں کو دھک سے ٹکرانا مراد ہے دھڑا دھڑ سجدے کرنا۔ محاورے یوں نہیں بنا کرتے، فاضل شاعر غالباً یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ میں ہی بیان کروں؟ قاری بھی تو کچھ سوچے نا!!۔ اللہ کو تہ خیر کون دھوکا دے گا یا سوچے گا، یہ اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ و لا یخدعون الا انفسہم ۔ ۔ ۔ ۔ (سورۃ بقرۃ کے شروعات میں)۔
لفظ ناس یہاں میری سمجھ میں تو آ گیا ہے، مگر ابلاغ کی سطح کمزور ہو رہی ہے۔ ذکاء یا زکاء؟ اظہر نذیر صاحب نے ”ذکاء“ لکھا ہے اور ذہانت کی رعایت سے اسے مؤنث باندھا ہے۔ ”زکاء“ یعنی پاکیزگی اس سیاق و سباق میں فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ اب اس کو کیا کہئے گا کہ عربی میں ”واقعہ“ مؤنث ہے اور اردو میں مذکر مستعمل ہے۔
آخری شعر کا مصرع اول اگر طنزیہ ہے تو مانا جا سکتا ہے ورنہ کوئی مولوی ناراض ہو جائے گا۔
مجمعوعی طور پر اچھی کوشش ہے، اظہر نذیر صاحب کو ابھی بہت محنت کرنی ہو گی۔ ہاں چکنے چکنے پات بتاتے ہیں کہ بروا خوب چوٹی نکالے گا۔
آپ دونوں کا بہت شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ذکا تو میں درست سمجھا تھا، لیکن میرا اعتراض مؤنث یا مذکر کا نہیں تھا، ’بہہ گئی‘ پر اعتراض تھا، ذاکا کی ندی کہا جاتا تو وقابل قبول بھی تھا۔ لیکن اتنا اختصار کہ شعر بے معنی ہو جائے!!
’ناس‘ عربی کا ہے کہ ’ستیا ناس‘ والا ناس (ہندی، سنسکرت کے ناش یا وناش کا بگاڑ)، اس کو سمجھنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ ’چلو تھا ناس سے دھوکا‘ میری قطعی سمجھ میں نہ آ سکا۔
بہت شکریہ آسی صاحب۔
 
جناب اظہر صاحب

املاء کا درست ہونا بہت ضروری ہے صاحب۔ ہجے غلط ہو جائیں تو سب کچھ غلط ہو جاتا ہے۔ لفظ کے معانی یا تو بدل جاتے ہیں یا کھو جاتے ہیں۔
ہجے مضبوط کرنے کا واحد طریقہ مطالعہ ہے، کچھ نہ ہو تو کوئی اچھی سی لغت لے کر بیٹھ جائیے اور اس کو پڑھتے رہئے، الفاظ آپ کے ذہن میں بیٹھتے چلے جائیں گے۔ مطالعہ کے بعد کا قدم یہ ہے کہ الفاظ کی اصل پر غور کریں اور جو ملتے جلتے الفاظ آپ کے ذہن میں آئیں اُن کو پرکھتے دیکھتے جائیں۔ ایک دو مثالیں دے کر بات ختم کرتا ہوں۔
صحیح: صحت، تصحیح (بنیادی حروف ص ح ح)
منع: امتناع، ممانعت، مانع (بنیادی حروف م ن ع)
صورت: تصویر، تصور، مصور (بنیادی حروف ص و ر)
مشکل: شکل، تشکیل، اِشکال ۔ ایک امر کا دوسرے امر سے مغالطہ ہو جانا، اَشکال ۔ شکل کی جمع، شکیل (بنیادی حروف ش ک ل)
شک: تشکیک، شکوک (بنیادی حروف ش ک ک)
شق: شقیق، انشقاق (بنیادی حروف ش ق ق)
نذیر: اِنذار، مُنذِر (بنیادی حروف ن ذ ر)
نظیر: نظر، منظر، مناظر، مُناظرہ، نظریہ، نظرہ، نظرات، ناظر (بنیادی حروف ن ظ ر)
ظہور: ظاہر، ظواہر، ظاہری، مظہر، اِظہار، ظہیر، ظہور (بنیادی حروف ظ ہ ر)
زہیر: زہرہ، اَزہر، زَہیر، زُہَیر (بنیادی لفظ ز ہ ر) یاد رہے کہ زہر کی اصل مختلف ہے۔

و علٰی ھذا القیاس
 
اساتذہ کرام،
افسوس کہ آپ لوگوں کو میرے ساتھ بہت محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن گزشتہ دو برسوں میں اُردو زبان کافی تو سیکھی ہے لیکن عبور کی منزل ابھی کافی دور ہے۔ کیا کروں؟ کوشش کر رہا ہوں۔ درخواست ہے کہ برداشت کیجیے
میں نے کچھ تبدیلیاں کیں ہیں ملاحظہ کیجیے


جو مسلم خاص بندے ہیں، تو روٹھا پھر خدا کیوں ہے
مخالف آگ پانی ہیں، مخالف یہ ہوا کیوں ہے

کبھی زلزال آتا ہے، کبھی سیلاب آتا ہے
یہ ساری قوم میں پھیلی، برائی، اور جفا کیوں ہے

یہ لہوولعب کی رونق، فراِئض کا خطا ہونا
نمازیں فرض جب ٹہریں، نمازوں کی قضا کیوں ہے

زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے اُٹھ گئی رب کی رضا کیوں ہے

میں مانگوں بھیک نہ پاوں، وڈیرے لوٹ کر کھائیں
ڈکیتوں کو کھلی چھٹی، تو چوری کی سزا کیوں ہے

دوائی تک نیہں ملتی، بھلا ہے پی کے مر جانا
جو جینا ہی سزا ٹہرا، تو پینا پھر خطا کیوں ہے

زمانے کو دکھاتے ہیں مصلے یوں بچاتے ہیں
چلو دنیا سے کرتے تھے، یہ اللہ سے ریا کیوں ہے

تصورسب ہی کیوں اظہر، نمازوں میں چلے آئیں
ثوابوں میں نہیں لذت، گناہوں میں مزا کیوں ہے

دعا گو
اظہر
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی شاعری لکھنے کے لئے اساتذہ شعرا کو پڑھنا بہت ضروری ہے لیکن افسوس ہمارے نئے لکھنے والے اچھی شاعری پڑھنے سے بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔
 
اچھی شاعری لکھنے کے لئے اساتذہ شعرا کو پڑھنا بہت ضروری ہے لیکن افسوس ہمارے نئے لکھنے والے اچھی شاعری پڑھنے سے بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔

السلام و علیکم جناب سخنور صاحب،
چلئے اسی بہانے آپ کے نیاز ہو گئے، جناب میری ہمیشہ کوشش رہی کہ اساتذہ کا کلام پڑھوں اور پڑھتا رہتا ہوں، خاص کر صریر خامہ وارث پے جہاں نہ صرف کلام موجود ہے بلکہ اُس کی جزئیات پہ بحث بھی
نیک تمنائیں قبول کیجیے
 

الف عین

لائبریرین
تقریباً وہی جو میں لکھ چکا ہوں، کہ تم ہر جگہ یہ کہو کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں، تب تو سمجھ میں آتا ہے، ورنہ تفہیم نہیں ہو رہی۔
 
تقریباً وہی جو میں لکھ چکا ہوں، کہ تم ہر جگہ یہ کہو کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں، تب تو سمجھ میں آتا ہے، ورنہ تفہیم نہیں ہو رہی۔

محترم اُستاد،
عجیب مخمصے میں ہوں، حد ادب مجھے سوال کرنے سے روکتی ہے، مگر حصول علم کی طلب سوال ، سوال پکارتی ہے۔
آزراہ کرم ایک بات کی وضاحت فرما دیجیے، سوال کو خالصتاً علمی سطح پہ رکھتے ہوئے

زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکا کیوں ہے

اگر ساٹھ کی دھائی یعنی ۱۹۶۰ میں جاوں تو وطن عزیز پاکستان اور ہندوستان دونو سے ہی brain drain یعنی '' نکاسئ عقل '' ہوا۔ گویا دوسرے معنوں میں ذکا بہہ گئی کیونکہ نکاسی بمعنٰی نکاسئے آب ہی ہوتی ہے، اگر میں غلط سمجھا ہوں تو میری تصحیح فرمائیے

دوسرا سوال ہے کی کیا تراکیب اور محاورات مروجہ ہی استعمال کتے رہنا چاہیے یا ہمیں کچھ نئے محاورے اور تراکیب وضع کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے

میرے سوالات کو ازراہ کرم گستاخی نہ سمجھیے گا، صرف اپنے ذہن کو صاف کرنے کے لئے پوچھ رہا ہوں

دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
محاوروں میں اختراع کرنا مستحسن تو نہیں، مجبوری میں کچھ تبدیلی کی جا سکتی ہے ورنہ تفہیم کس طرح ہو گی؟
ذکا (ز سے زکا نہیں، جیسا کہ آسی صاحب نے تشریح کی ہے کہ تزکیہ سے مشتق ہے) کا نکاس یا برین ڈرین، جب تک کہ ایک فٹ نوٹ نہیں لگایا جائے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
اس کے علاوہ محض اس شعر پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا زمین صرف مسلمانوں کی ہے؟ جو مسلم ممالک سے برین ڈرین ہونے پر زمین پر جہالت کا راج ہو گیا؟؟؟ اس کے علاوہ برین ڈرین غیر مسلم ممالک کا بھی مسئلہ ہے، تیسری دنیا سے کئی لوگ باہر جاتے رہے ہیں، وہ چاہے ہندوستان ہی کیوں نہ ہو۔ (اگرچہ ہندوستان غیر مسلم نہیں، جمہوری ملک ہے)
دوسرے اشعار میں بھی اسی قسم کے سوالات ہیں، اس وقت مثال دینے کے لئے پیچھے جانا پڑے گا۔
 
محمد اظہر نذیر صاحب ۔۔۔۔۔
”دوسرا سوال ہے کہ کیا تراکیب اور محاورات مروجہ ہی استعمال کرتے رہنا چاہیے یا ہمیں کچھ نئے محاورے اور تراکیب وضع کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے“

تراکیب تو ہر زمانے میں وضع ہوتی رہیں ہیں، اور تراکیب میں تازہ کاری کے اس عمل نے بطورِ خاص ادبی زبان کو حسن بخشا ہے۔ محاورہ البتہ صدیوں میں تو نہیں البتہ نسلوں میں کہیں جا کر بنتا ہے۔ ترکیب اور محاورہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ترکیب ایک شخص وضع کرتا ہے اور وہ اپنی افادیت یا حسن کی بنا پر قبول عام کا درجہ پاتی ہے اور پھر مروج ہو جاتی ہے۔ جب کہ محاورہ زبان بولنے والوں میں کہیں غیرمحسوس طور پر پیدا ہوتا ہے اور کسی اہلِ قلم کی وساطت سے ادب میں داخل ہوتا ہے۔

ہمیں صرف یہ کرنا ہے، کہ تراکیب وضع کرتے ہوئے ترکیب سازی کے مسلمہ اصولوں سے صرفِ نظر نہ کریں۔ محاورے جو پہلے سے مروج ہیں ان میں تبدیلی نہ کریں۔ مثال کے طور پر ”آٹھ آٹھ آنسو رونا“ میں ہم دو دو، چار چار، چھ چھ آنسو نہیں رو سکتے اور نہ ہی ”آٹھ آنسو رونا“ قیول ہو گا۔ ضرب الامثال بھی پیدا ہوتی ہیں مگر شاذ و نادر، ان میں بھی لفظی رد و بدل سے گریز ہی مناسب ہے۔ ”بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا“ کو ہم کتے کے بھاگوں نہیں کہہ سکتے۔ تراکیب سازی میں بھی ”دیوارِ جھوٹ“ اور ”راہِ مفر“ جیسی تراکیب کو درست نہیں مانا جائے گا۔

رہا آپ کا پہلا سوال، برین ڈرین کے حوالے سے بات آپ کی درست ہے۔ یہاں مسئلہ اظہار اور ابلاغ کا پیدا ہوا ہے، حوالے کا نہیں۔ آپ نے جو کہا وہ قاری تک ویسا پہنچا نہیں۔
زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے بہہ گئی ساری ذکا کیوں ہے
اس عدم ابلاغ کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ کے شعر کا معنوی پھیلاؤ زیادہ ہے اور آپ نے اسے بہت زیادہ مختصر کر کے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک بات بہت اہم ہے کہ جہاں جہاں میرا شعر پہنچتا ہے، ضروری نہیں کہ میں بھی وہاں پہنچ پاؤں اور بتا سکوں ”میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ“۔ دوسرے یہ کہ شعر لفظاً پہنچتا ہے، صوتاً ہر جگہ ممکن نہیں، کہ میرا لب و لہجہ ہی معانی کی وضاحت کر دے۔ اس لئے، شعر کو ابلاغ کی سطح پر ایسا ہونا چاہئے کہ اپنے معانی و مطالب خود بیان کر سکے۔

خوش رہا کیجئے!!!۔
 
اگر ہم نیک بندے ہیں، تو روٹھا پھر خدا کیوں ہے
مخالف آگ پانی ہیں، مخالف یہ ہوا کیوں ہے

یہ لہوولعب میں پڑ کر، فراِئض بھول جاتے ہیں
نہ سنت کی تباع باقی، نمازوں کی قضا کیوں ہے

کبھی زلزال آتا ہے، کبھی سیلاب آتا ہے
یہ ساری قوم کا حاکم برائی سے برا کیوں ہے

زمیں پر ظالموں کی ہے حکومت، جہل کا غلبہ
یہ مسلم بستیوں سے اُٹھ گئی رب کی رضا کیوں ہے

ستم گر مسکراتے ہیں، تو جھوٹے دندناتے ہیں
لبوں پہ خوف سے سہمی، سچائی کی صدا کیوں ہے

میں چوری کھیل نہ کھاؤں، وڈیرے لوٹ کر کھائیں
ڈکیتوں کو کھلی چھٹی، تو چوری کی سزا کیوں ہے

دوائی تک نیہں ملتی،تو پیتے ہیں ستم مارے
یہ جینا ہی سزا جب ہے، تو پینا پھر خطا کیوں ہے

زمانے کو دکھاتے ہیں، عبادت بھی سجاتے ہیں
چلو دنیا سے کرلیتے، یہ اللہ سے ریا کیوں ہے

تصورسب ہی کیوں اظہر، نمازوں میں چلے آئیں
ثوابوں میں نہیں لذت، گناہوں میں مزا کیوں ہے

السلام و علیکم اساتذہ کرام و احباِء محفل،
ایک مرتبہ پھر کوشش کی ہے کی عام فہم بنا سکوں، ذرا دیکھئے تو
دعا گو
اظہر
 
Top