اس گردش ادوار سے واقف ہے تو

La Alma

لائبریرین

اِس گردشِ ادوار سے واقف ہے تُو
ہر بھید سے اسرار سے واقف ہے تُو

مخفی نہیں تیری نظر سے کوئی شے
ہر فعل سے ہر کار سے واقف ہے تُو

حکمت ہے پوشیدہ تری تقسیم میں
دنیا کے کاروبار سے واقف ہے تُو

طاقت سے بڑھ کر بوجھ کیونکر ڈالتا
مقدور بھر مقدار سے واقف ہے تُو

کتنے ہی فرقوں میں ہے مذہب بٹ چکا
نیرنگئِ افکار سے واقف ہے تُو

ہے خلق اعلیٰ اُنؐ کا شیریں ہے سخن
اُس نرمئِ گفتار سے واقف ہے تُو

پھر ہوش کس کو جام وحدت کا پی کر
سب مستئِ مے خوار سے واقف ہے تُو

اپنی خبر میں تجھ کو اب دُوں کس لئے
ہر خوبئِ کردار سے واقف ہے تُو
 
خاتون، آپ کی اور اساتذہ کی اجازت سے ایک ضروری بات سامنے لانی چاہتا ہوں۔
آپ نے اس غزل کو میرے فہم کے مطابق رجز مسدس میں کہا ہے۔ رجز کی اصل یہ ہے کہ اہلِ عرب جنگی ترانے اس دھن میں لکھا اور گایا کرتے تھے۔ یہ مزاج اس بحر کا اس قدر پختہ ہے کہ میرا نہیں خیال صوفیانہ یا عاشقانہ مضامین کے لیے یہ اپنی غیرمحذوف حالت میں کبھی بہترین ثابت ہوئی ہو گی۔
اصل میں نئی بحور پر طبع آزمانے پر قدغن عائد نہیں کی جا سکتی۔ اتنا البتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بحر کا اپنا مزاج کیا ہے۔ ہزج جس قسم کی روانی اور نغمگی اپنے اندر رکھتی ہے، وہ کم و بیش ہر مضمون کو آسانی سے سمو لیتی ہے۔ رجز کے بس کا یہ روگ نہیں۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ذرا ان دونوں کو میز پر بجا کر دیکھیے۔ فرق معلوم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رجز فارسی میں بالعموم اور اور اردو میں بالخصوص جگہ نہیں بنا سکی۔ جبکہ ہزج اپنے مزاج کی ہمہ گیریت کے باعث فارسی اور اردو میں تو بہت زیادہ اور عربی میں بھی کافی مستعمل رہی ہے۔
پھر زحافات کسی بحر کی جو صورت بدلتے ہیں اس سے بھی بحر کے مزاج پر بعض اوقات کسی قدر اور کبھی کبھی زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ رجز مثمن مطوی مخبون (مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن) کی مثال دیکھیے۔ اس میں رجز کی وہی جلالی شان کافی حد تک باقی رہی ہے اور خبن اور طے اس کا کچھ خاص نہیں بگاڑ سکے۔ اس مزاحف صورت میں بھی اس میں بھی نرم و نازک مضامین باندھنا خاصا دشوار ہو سکتا ہے۔
دوسری مثال رمل مثمن مخبون محذوف (فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) کی لی جا سکتی ہے یا رجز مثمن اخرب مکفوف محذوف (مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) کی۔ ان دونوں کا مزاج اپنی اصل سے نہایت دور جا پڑا ہے۔ کم از کم میرے ذوق کو تو انھیں ان کی جڑ سے ملانے میں نہایت دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ دونوں بحریں بالکل اور قسم کے جذبات کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شعر کہنے سے پہلے اچھی بات ہے کہ ذرا بحر کو گنگنا یا بجا کر دیکھ لیا جائے۔ اس سے آپ کے افکار اور بحر میں جو ہم آہنگی پیدا ہو گی وہ محض تقطیع پر پورا اترنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپ دیکھیے کہ میرا موسیقی کا فہم نہ صرف یہ کہ خطرناک حد تک ناقص ہے بلکہ میں فطرتاً بےسرا بھی واقع ہوا ہوں۔ اگر مجھ جیسے شخص کو یہ اندازہ کسی قدر ہو سکتا ہے تو آپ کو کتنا فائدہ نہ ہو گا؟
خیر، اس تمام بحث کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مجھے احساس ہوا کہ آپ کو اپنے خیالات اس آہنگ میں بیان کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ گو کہ اپنی فطانت اور محنت کے بل بوتے پر آپ یہ جوئے شیر لانے میں کامیاب ہو گئی ہیں مگر حسبِ روایت شیریں مر گئی اتنی دیر میں! :):):)
پھر ہوش کس کو جام وحدت کا پی کر
اس مصرعے میں "پی کر" کو فَعَل کر کے وزن پر قیاس کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث "پی" کی یائے معروف گرانی لازم آتی ہے۔ نہایت قبیح اسقاط ہے۔ اس سے گریز فرمائیے تو بہتر ہے۔
من حیث المجموع، خیالات اچھے ہیں۔ مگر بیان ضرورت سے زیادہ سادہ ہے۔ اس سے زیادہ نازک اور لوچ دار پیرایہ ہائے اظہار کی توقع کم از کم میں تو آپ سے رکھتا ہوں! :):):)
 

La Alma

لائبریرین
راحیل فاروق.حضرت آپ کی تمام باتیں اپنی جگہ درست لیکن کم از کم شیریں کو مارنے کا الزام آپ ہم پر عائد نہیں کر سکتے . ہماری امن پسندی اور صلح جوئی کی روشن مثال آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح ہم نے رجزیہ بحر میں بھی امن و آشتی کے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کی ہے .

آپ کی میز بجانے کی تجویز تو خاصی جنگجوانہ ثابت ہوئی . پہلے پہل تو بج کے ہی نہیں دے رہی تھی ، پھر ایسی بجی کہ رات کے اس پہر ایک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی .:)
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
بلاشبہ بہت خوب
مجھ ایسے عام سے قاری کو بہت سادگی کے ساتھ شش جہات میں متوجہ کرنے میں کامیاب رہی ۔
کچھ مشکل نہ لگا کہیں بھی کوئی بیان ۔۔۔
مگر جب محترم راحیل فاروق کا تجزیہ پڑھا تو کوئی گنجل سا گنجل تھا یہاں وہاں ۔
سادہ سا دکھنے والا کلام سمجھنا بہت مشکل ہوا " بحروں " کے طلاطم میں ۔
بہت خوبصورت کلام پر بہت سی دعاؤں بھری داد
ڈھیروں دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ درست ہے کہ بحر میں گھن گرج ہے لیکن اس کو استعمال کرنے کی آزادی تو دی جانی چاہئے
پی کی ی کے اسقاط سے متفق ہوں
 
خاتون، آپ کی اور اساتذہ کی اجازت سے ایک ضروری بات سامنے لانی چاہتا ہوں۔
آپ نے اس غزل کو میرے فہم کے مطابق رجز مسدس میں کہا ہے۔ رجز کی اصل یہ ہے کہ اہلِ عرب جنگی ترانے اس دھن میں لکھا اور گایا کرتے تھے۔ یہ مزاج اس بحر کا اس قدر پختہ ہے کہ میرا نہیں خیال صوفیانہ یا عاشقانہ مضامین کے لیے یہ اپنی غیرمحذوف حالت میں کبھی بہترین ثابت ہوئی ہو گی۔
ویسے تو مجھے رجز بالکل بے مزہ معلوم ہوتی ہے پھر بھی ایک شعر یاد آ رہا ہے
؎
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تا کس نگوید بعد ازین من دیگرم تو دیگری
 
میں تو ہو گیا اور تو میں ہو گیا، میں تن ہو گیا اور تو جان ہو گیا، تا کہ کوئی اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تو اور۔
امیر خسرو سے منسوب یہ غزل بڑی مشہور ہے

اے چہرہء زیبائے تو رشکِ بتانِ آذری
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
میں تو ہو گیا اور تو میں ہو گیا، میں تن ہو گیا اور تو جان ہو گیا، تا کہ کوئی اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور تو اور۔
خسرو کے نام سے منسوب یہ غزل بڑی مشہور ہے

اے چہرہء زیبائے تو رشکِ بتانِ آذری
پھر تو محفل پر ضرور موجود ہو گی یہ غزل ۔۔ ہم نے پڑھنی ہے۔ کیا لنک مل سکتا ہے اس کا؟؟
محمد وارث بھائی
 

نور وجدان

لائبریرین
اے چہرہء زیبائے تو رشکِ بُتانِ آذری
ہر چند و صفت میکنم در حُسنِ از آں زیبا تری​

اے میرے محبوب تیرا خوبصورت چہرہ اُن حَسین بُتوں اور مجسموں سے بھی زیادہ دِلکش ہے جو آزر نے اپنے بُتکدہ میں تیار کر رکھے تھے ۔میں تیری کِتنی صِفات بیان کروں کم ہیں حقیقتاً تُو اُن سب حسینوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔۔

ہزگز نیاید دَر نظر نقشے ز رُویت خُوبتر
شمسی ندانم یا قمر حوری ندانم یا پری

تیرے چہرے سے زیادہ خوبصورت چہرہ مجھے ہرگز نظر نہیں آتا ،تیرے سامنے سورج،چاند،حُور و پری کی کیا حیثیت ہے۔۔۔

آفاق ہا گردیدہ ام مہرِ بُتاں ورزیدہ ام
بسیارِ خُوباں دیدہ ام لیکن تُو چیزے دیگری

میں دُنیا کی بہت سی اطراف گھوما پِھرا ہُُوں میں نے بہت سے حَسین لوگوں سے محبت اِختیار کی ،میں نے بہت سے حَسین دیکھے ہیں لیکن تُو اُن سب میں منفرد اور لاثانی ہے۔

اے راحت و آرامِ جاں ،با قد چوں سرو رواں
زینساں مرو دامن کشاں کآرام جانم می بری

اے میرے جان کی راحت! تُو اپنے چلتے پِھرتے سرو کے قد کی طرح اپنا دامن پھیلائے اِس طرح مت ٹہل کیونکہ اِس طرح تو میری جان کا من و سَکوں چھین کر لئے جا رہا ہے۔۔

عزمِ تماشا کردہ ای،آہنگِ صحرا کردہ ای
جان و دِل ما بردہ ای،ایں است رَسمِ دِلبری؟

تُو نے اِرادہ کر لیا ہے کہ دُنیا کو تماشا دِکھا دے،تُو نے صحرا کو چلے جانے کا اِرادہ کر لیا ہے۔تُو نے ہماری جان اور ہمارا دِل لے لیا ہے کیا یہی رَسم ِ محبت ہے؟

عالم ہمہ یغمای تو، خلقے ہمہ شیدای تو
آں نرگسِ رعنای تو آوردہ کیشِ کافری

میرے محبوب! یہ سارا جہان تیری تارج کی زد میں ہے تمام دُنیا کی خلقت تیری شیدا ہے،تیری ان نرگسی آنکھوں نے کافری(مراد معشوقوںکی سی ) عادات اپنا لی ہیں۔یعنی تو نے اپنے حُسن و دِلکشی کی بِنا پر پوری دُنیا کو لُوٹ لیا ہے تیری آنکھوں نے معشوقوں کی سی ایمان لوٹنے والی عادات اپنا لی ہیں۔۔

من تُو شُدم تو من شُدی من تن شدم تُو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری

میں تُو ہو گیا ہوں اور تُو میں ہو گیا ہے،میں جِسم ہو گیا ہوں اور تُو میری جاں ہو گیا ہوں ،،تا کہ تو بعد میں یہ نہ کہے کہ میں اور ہوں اور توُ اور یعنی ہم ایک نہیں ہیں۔۔۔

خسرو غریب است و گدا ،افُتادہ در شہرِ شُما
باشد کہ از بہرِ خُدا سوی غریباں بنگری

اے محبوب! خسرو ایک مسافر ہے فقیر ہے اور تمہارے شہر میں گِرا پَڑا ہے ۔شاید کہ تُو اللہ کے واسطے اِن مسافروں کی جانب نظر کر لے۔۔۔

کلام حضرت یمین الدین ابولحسن خسرو رحمتہ اللہ علیہ
Wisaal e yaar - 时间线 | Facebook
 
Top