اس کلام کی شرح درکار هےأَلَا يَا أَيُّهَا السَّاقِيْ أَدِرْ كَأْسًا وَنَاوِلْهَا“ جزاک الله

M Shakeel

محفلین
أَلَا يَا أَيُّهَا السَّاقِيْ أَدِرْ كَأْسًا وَنَاوِلْهَا“
کہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سازیم محفلہا

بلا بارید حُبِّ شیخِ نجدی بر وہابیّہ
”کہ عشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا“

وہابی گرچہ اخفا می کند بغضِ نبی لیکن
نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفلہا

توہّب گاہ ملکِ ہند اقامت را نمی شاید
جرس فریاد می دارد کہ بر بندید محملہا

صلائے مجلسم در گوش آمد بیں بیا بشنو
جرس مستانہ می گوید کہ بر بندید محملہا

مگرداں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَو
کہ سالک بے خبر نبود زِ راہ و رسم منزلہا

در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابی
مَتٰى مَا تَلْقَ مَنْ تَهْوٰى دَعِ الدُّنْيَا وَأَمْهِلْهَا

دلم قربانت اے دودِ چراغِ محفلِ مولد
ز تاب جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا

غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مولد
کجا دانند حالِ ما سُبکسارانِ ساحلہا

رضؔائے مستِ جامِ عشقِ ساغر باز می خواہد
”أَلَا يَا أَيُّهَا السَّاقِيْ أَدِرْ كَأْسًا وَنَاوِلْهَا“
 
احمد رضا خان بریلوی کا ایک انوکھا ،نرالا انداز ۔ نعت گوئی کے ذریعے اس نعت پاک میں عشق بھی ہے، مستی بھی ہے، شوخی بھی ہے، اپنے اہل سنت ہونے پر فخر بھی ہے، اور گزارشات بھی۔ اور ایک خاصیت اور کہ جس پہلی لائن (مصرعے) سے نعت پاک شروع ہوئی ہے اسی پر ختم بھی ہوئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ اَلَا یٰاَیُّھَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَاْساَّ وَّ نَا وِلْھا کہ بَر یَادِ شَہِ کَوْثر بِنا سازیم مَحْفِلْھا اے ساقی!!! جام کو گردش میں لائیے اور ہاتھ بڑھا کر عطا کر دیجیے کہ ہم شاہ کوثر کی یاد میں محفلوں کو سجائے ہوئے ہیں۔ بلا بارید حُبِّ شیخ نجدی بَر وہابیہ کہ عشق آساں نمود اول ولے اُفتاد مُشْکِلھا شیخ نجدی کی محبت نےوہابیہ پر مصیبت برسادی کیوں کہ عشق ابتداءً آسان دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ وہابی گر چہ اِخفا می کند بغض نبی لیکن نِہاں کَے ماند آں رازے کزَو سازَند مَحفِلہا وہابی اگرچہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کی عداوت کو چھپاتا ہے مگر وہ راز کب پوشیدہ رہ سکتا ہے جس کے لیے وہ محفلیں تیار کرتے ہیں۔ تَوہُّب گاہ مُلکِ ہند اِقامَت را نمی شاید جرس فریاد می دارد کہ بر بندید مَحمِلہا وہابیت زدہ ملک ہندوستان اب وطن بتانے کے لائق نہیں لگتا، گھنٹہ دُہائی دے رہاہے کہ اونٹوں کے کجاوے کس لو(رخت سفر باند ھ لو)ْ۔ صَلائے مَجلِسَم در کُوش آمد بیں بِیا بِشِنَو جرس مستانہ می گوید کہ بر بندید محملہا میرے کان میں مجلس کی آواز آئی کہ آگاہ !!! اس طرف متوجہ ہو اور سن کہ گھنٹہ مست کے مانند کہہ رہا ہے کہ اپنے کجاوے کَس لو(رخت سفر باند ھ لو)۔ مگر داں رو ازیں محفل رہِ اربابِ سنت رو کہ سالک بے خبر نبود زِ راہ و رسمِ منزلہا اس محفل سے منہ نہ موڑ !!!! اہل سنت کے راستے پر چل کہ سالک منزلوں کے نشان سے بے خبر نہیں ہوتا ہے۔ (سالک یعنی راستہ چلنے والا، صوفیوں کی اصطلاح میں وہ شخص جو خدا کی نزدیکی بھی چاہے اور عقل معاش بھی رکھتا ہو) دریں جلوت بیا از راہ خلوت تا خدا یابی مَتیٰ مَا تَلْقَ مَنْ تَھْویٰ دَعِ الدُّنْیاَ وَ اَمْھِلْھَا تنہائی کے راستے سے اس محفل (اہل سنت کی محفل) میں آ !!!! راستے پر آجا تاکہ تو خدا کو پا لے ، تو اپنے محبوب سے کب ملے گا(ارے) دنیا کو چھوڑ اور اس سے الگ ہو جا۔ دِلَم قُربانَت اے دُودِ چراغِ محفلِ مولِد زِ تابِ جعدِ مُشکِینَت چہ خوں افتاد در دلہا اے محفل میلاد کے چراغ کے دھویں !!! میرا دل تجھ پر قربان ہے، تیرے مشک بو سیاہ خم دار دھویں کی گرمی نے کتنے دلوں کا کیا خون کِیا ہے۔ غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم اَز فرحتِ مولِد کُجا دانند حالِ ما سبُکسَارانِ ساحلہا ہم محفل میلاد کی خوشی میں احمد مجتبیٰ (علیہ التحیۃ والثنا) کی محبت کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں ، کناروں پر رہنے والے(لاتعلق لوگ) ہمارے حال کو کہاں جان سکتے ہیں۔ رضائے مست جام عشق ساغر باز می خواہد اَلَا یٰاَیُّھَا السَّاقِیْ اَدِرْ کَاْساَّ وَّ نَا وِلْھا رضا جو عشق کے جام کا متوالا ہے، شراب کے پیالہ کا مزید جام شراب کا طالب ہے(اور عرض گذار ہے) اے شراب عشق کا جام پلانے والے !!! جام کو گردش میں لائیے اور ہاتھ بڑھا کر جام عطا فرما دیجیے۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ وبارک وسلم)


 
آخری تدوین:
یہ امام احمد رضا خان بریلوی کا کلام ہے۔۔۔
یہ بنیادی طور پر حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام پر تضمین ہے۔۔۔

ایک قسم تضمین کی یہ بھی ہے جو کم ہی شعراکے یہاں ملتی ہے وہ یہ کہ پوری نظم کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ شاعر کا خود کا ہو اور دوسرا کسی دیگر شاعر کا ۔۔۔۔یا پہلامصرعہ کسی دیگر شاعر کا ہو اور دوسرا مصرعہ اپنا ہو۔اس کو تضمین المصراع بھی کہتے ہیں ۔ ذیل میں ملاحظہ کریں حضرت حافظ شیرازی کی ایک غزل پر امام احمد رضا بریلوی کی مرقومہ تضمین ، واوین کے مصرعےحضرت حافظ شیرازی کے ہیں ؎ ’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘ کہ بریادِ شہ کوثر بنا سازیم محفلہا بلا بارید حبِ شیخِ نجدی بروہابیہ ’’کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘‘ وہابی گرچہ اخفا می کند بغضِ نبی لیکن ’’نہاں کے ماندآں رازے کزوسازند محفلہا ‘‘ توہب گاہ ملکِ ہند اقامت را نمی شاید ’’جرس فریاد می دارد کہ بر بندید محملہا‘‘ مگرداں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنت رَو ’’کہ سالک بے کبر نبود زِ راہ و رسمِ منزلہا ‘‘ دلم قربانت اے دودِ چراغِ محفلِ مولد ’’زتابِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد دردلہا‘‘ غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مولد ’’کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحلہا‘‘ رضاے مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد ’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘

 

M Shakeel

محفلین
اس میں فرقہ وارانہ تڑکا بھی ہے
یہ امام احمد رضا خان بریلوی کا کلام ہے۔۔۔
یہ بنیادی طور پر حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام پر تضمین ہے۔۔۔

ایک قسم تضمین کی یہ بھی ہے جو کم ہی شعراکے یہاں ملتی ہے وہ یہ کہ پوری نظم کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ شاعر کا خود کا ہو اور دوسرا کسی دیگر شاعر کا ۔۔۔۔یا پہلامصرعہ کسی دیگر شاعر کا ہو اور دوسرا مصرعہ اپنا ہو۔اس کو تضمین المصراع بھی کہتے ہیں ۔ ذیل میں ملاحظہ کریں حضرت حافظ شیرازی کی ایک غزل پر امام احمد رضا بریلوی کی مرقومہ تضمین ، واوین کے مصرعےحضرت حافظ شیرازی کے ہیں ؎ ’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘ کہ بریادِ شہ کوثر بنا سازیم محفلہا بلا بارید حبِ شیخِ نجدی بروہابیہ ’’کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا‘‘ وہابی گرچہ اخفا می کند بغضِ نبی لیکن ’’نہاں کے ماندآں رازے کزوسازند محفلہا ‘‘ توہب گاہ ملکِ ہند اقامت را نمی شاید ’’جرس فریاد می دارد کہ بر بندید محملہا‘‘ مگرداں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنت رَو ’’کہ سالک بے کبر نبود زِ راہ و رسمِ منزلہا ‘‘ دلم قربانت اے دودِ چراغِ محفلِ مولد ’’زتابِ جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد دردلہا‘‘ غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مولد ’’کجا دانند حالِ ماسبکسارانِ ساحلہا‘‘ رضاے مست جامِ عشق ساغر باز می خواہد ’’الا یٰایھا الساقی ادرکاسا و ناولہا‘‘
جزاک الله ۔۔۔۔۔میں کافی تلاش کرتا رها لیکن مجهے اسکا ترجمه نهیں ملا تھا۔۔۔۔ےآپ نے بهت بهترین انداز میں بیان کیا هے۔۔۔۔۔
 
Top