اس قدر زندگی بے ثمر تو نہیں ۔۔۔ برائے تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس قدر زندگی بے ثمر تو نہیں
زندگی گردِ راہِ سفر تو نہیں
زندگی زہرِ آفات کا نام ہے
زندگی زہرِ تیرِ نظر تو نہیں
زندگی مثلِ بادِ صبا، مثلِ گُل
زندگی مثلِ دردِ جگر تو نہیں
بن کے انجان پھرتی ہے بے شک مگر
زندگی موت سے بے خبر تو نہیں
اس میں تکرارِ شام و سحر ہے مگر
زندگی صرف شام و سحر تو نہیں
موت آجائے یہ خواہشِ زندگی
خواہشِ اہلِ علم و ہنر تو نہیں
یہ ہے شاہد مقدر سے ملنے کی شے
زندگی کوششوں کا ثمر تو نہیں ۔۔
آپ سب سے اس غزل پر تنقید کی درخواست ہے۔

الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
عبدالرزاق قادری صاحب
اسد قریشی بھائی
مزمل شیخ بسمل بھائی
طارق شاہ بھائی
محمد اظہر نذیر بھائی
محمد بلال اعظم بھائی
سارہ بشارت گیلانی صاحبہ
مدیحہ گیلانی صاحبہ
قیصرانی صاحب
زندگی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد بھائی اس کو ہم کیا "مسلسل غزل" بھی کہہ سکتے ہیں؟
میں نے اس کو ’’زندگی کی غزل‘‘ لکھ کر پوسٹ کیا تھا فیس بک پر تو کسی نے کہا شاہد غزل کا عنوان نہیں ہوتا۔۔۔ آپ نے اس کو عنوان کیوں دیا؟ اس لیے یہاں بغیر عنوان کے پوسٹ کی ہے۔ چونکہ سارے اشعار ایک ہی موضوع پر ہیں تو غزل مسلسل کا تو علم نہیں، ہاں موضوعاتی غزل کہہ سکتے ہیں۔۔۔
 
زندگی زہرِ آفات کا نام ہے
زندگی زہرِ تیرِ نظر تو نہیں
زندگی مثلِ بادِ صبا، مثلِ گُل
زندگی مثلِ دردِ جگر تو نہیں
اس میں تکرارِ شام و سحر ہے مگر
زندگی صرف شام و سحر تو نہیں
زندگی

بہت خوب جناب۔ ڈھیر ساری داد قبول فرمائیے
 
بن کے انجان پھرتی ہے بے شک مگر
زندگی موت سے بے خبر تو نہیں
اس میں تکرارِ شام و سحر ہے مگر
زندگی صرف شام و سحر تو نہیں

خودی ميں ڈوب جا غافل! يہ سر زندگانی ہے​
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا​
بلاشبہ بلند تخیل ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کا ملتا جلتا تخیل پیش کیا ہے۔ جی شاہد شاہنواز صاحب عمدہ کلام ہے۔ فنی محاسن کے بارے استاد ہی فرمائیں گے​
محمدکامران اختر صاحب کو بھی دعوتِ قرات دیتا ہوں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں نے اس کو ’’زندگی کی غزل‘‘ لکھ کر پوسٹ کیا تھا فیس بک پر تو کسی نے کہا شاہد غزل کا عنوان نہیں ہوتا۔۔۔ آپ نے اس کو عنوان کیوں دیا؟ اس لیے یہاں بغیر عنوان کے پوسٹ کی ہے۔ چونکہ سارے اشعار ایک ہی موضوع پر ہیں تو غزل مسلسل کا تو علم نہیں، ہاں موضوعاتی غزل کہہ سکتے ہیں۔۔۔

غزل کا عنوان تو بے شک نہیں ہوتا۔
لیکن اگر اس کا عنوان رکھ لیا جائے تو پھر یہ نظم کہلانے کی بھی حقدار ہو گی یا نظم کی کچھ اور شرائط ہیں؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غزل کا عنوان تو بے شک نہیں ہوتا۔
لیکن اگر اس کا عنوان رکھ لیا جائے تو پھر یہ نظم کہلانے کی بھی حقدار ہو گی یا نظم کی کچھ اور شرائط ہیں؟
نظم کی فضا میرے خیال میں کچھ الگ ہوتی ہے۔ صرف عنوان رکھ لینے سے غزل نظم نہیں بن سکتی۔۔۔اس کے علاوہ میں نے جس طرح یہ اشعار لکھے ہیں، اس میں باقاعدہ ایک مطلع ہے، ایک مقطع ہے، مقطعے میں تخلص لایا گیا ہے اور درمیان کے جتنے اشعار ہیں، سب ایک ہی قافیے کی پیروی کر رہے ہیں، ان سب باتوں کی توقع صرف غزل سے کی جاسکتی ہے، نظم سے نہیں۔ محض ایک ہی چیز ہے جو اس کو نظم کہنے پر اکساتی ہے ، وہ یہ ہے کہ شاعر اپنے موضوع سے ہٹا نہیں، اس کا موضوع اول مصرعے سے لے کر آخر تک صرف زندگی رہا ہے۔ تاہم میرا خیال اس ضمن میں یہی ہے کہ صرف اتنا اس غزل کو نظم کہنے کے لیے کافی نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ مسلسل غزل ہی ہے، اگر عنوان بھی دو تو یہ لکھ دیا جائے کہ یہ ایک مسلسل غزل ہے۔
یہ اشعار واضح نہیں
اس قدر زندگی بے ثمر تو نہیں
زندگی گردِ راہِ سفر تو نہیں
زندگی زہرِ آفات کا نام ہے
زندگی زہرِ تیرِ نظر تو نہیں

موت آجائے یہ خواہشِ زندگی
خواہشِ اہلِ علم و ہنر تو نہیں
 
Top