اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محترم الف عین صاحب

بات بات پر مجھ سے جو سوال کرتے ہیں
کیا وہ بھی مری فرقت کا ملال کرتے ہیں

اپنا غم مٹانے کے واسطے جہاں والے
کیوں حرام شے کو ایسے حلال کرتے ہیں

اِک ہمی تھے جو اُن کے حُسن پر مٹے ورنہ
لوگ تو فقط تعریفِ جمال کرتے ہیں

جس جگہ پہ لا کے مجھ کو ہے آپ نے چھوڑا
اُس جگہ پہ تو دشمن بھی خیال کرتے ہیں

زندگی سے ہم کو اِک ہی سبق ملا فائقؔ
لوگ مطلبی ہیں جینا محال کرتے ہیں
 
ہزج مثمن اشتر
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن

بات بات پر مجھ سے جو سوال کرتے ہیں
کیا وہ بھی مری فرقت کا ملال کرتے ہیں
وہ بھی کا محض وبھی تقطیع ہونا ٹھیک نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس طرح کی شکستہ بحور میں لازم ہوتا ہے کہ ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو رہی ہو۔ مصرعِ ثانی کو دیکھیں ۔۔۔ دوسرے جزو میں کا ملال کرتے ہیں ادھوری بات لگتی ہے۔
بات بات پر مجھ سے جو سوال کرتے ہیں
کیا کبھی بچھڑنے پر خود ملال کرتے ہیں؟

اپنا غم مٹانے کے واسطے جہاں والے
کیوں حرام شے کو ایسے حلال کرتے ہیں
یہاں دوسرے مصرعے میں ایسے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے جو ٹھیک نہیں۔ یعنی یوں تقطیع ہو رہا ہے
کو ح را م شے کو اے ۔۔۔ سے ح لا ل کر تے ہے
پھر یہ ’’ایسے‘‘ بھی محض بھرتی کا لفظ ہے یہاں ۔۔۔ ایسے کیسے؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔
ع۔ اک حرام شے خود پر، کیوں حلال کرتے ہیں

اِک ہمی تھے جو اُن کے حُسن پر مٹے ورنہ
لوگ تو فقط تعریفِ جمال کرتے ہیں
ہمی ۔۔۔ ہمیں
دوسرے مصرعے میں وہی عیب ہے جو اوپر بیان ہوا، تعریفِ دو حصوں میں منقسم ہے۔

جس جگہ پہ لا کے مجھ کو ہے آپ نے چھوڑا
اُس جگہ پہ تو دشمن بھی خیال کرتے ہیں
ع۔ جس مقام پر مجھ کو لا کر آپ نے چھوڑا

زندگی سے ہم کو اِک ہی سبق ملا فائقؔ
لوگ مطلبی ہیں جینا محال کرتے ہیں
دنوں مصرعوں میں الفاظ اجزائے بحر کے درمیان منقسم ہیں ۔۔۔ دوبارہ کہیں۔
 
Top