اس غزل کی اصلاح فرمائیں

پہل وعدہ ، اور پھر نبھانے کا وعدہ
سو ایسے کیا اُس نے آنے کا وعدہ

وہ جس طرح سے دل میں آ جا رہا ہے
نہ کرتا کوئی آنے جانے کا وعدہ

محبت وہ مجھ سے جو رکھی گئی تھی
تھا غیروں سے اُس کا ستانے کا وعدہ

مری آنکھوں نے آنسو اِیسے بہائے
کیا ہو جیسے آنسو بہانے کا وعدہ

میں فائقؔ اُسے کس طرح بھول جاؤں
میں نے کیا ہی کب ہے بُھلانے کا وعدہ
 
چلیے اساتذہ کی آمد سے پہلے ہم ہی اپنی صلاح دے کر وزن کے کچھ مسئلے حل کروادیں؛

پہل وعدہ ، اور پھر نبھانے کا وعدہ
سو ایسے کیا اُس نے آنے کا وعدہ
پہلا مصرع یوں کرسکتے ہیں

وہ وعدہ ترا پھر نبھانے کا وعدہ
سو ایسے کیا تو نے آنے کا وعدہ
مری آنکھوں نے آنسو اِیسے بہائے
کیا ہو جیسے آنسو بہانے کا وعدہ
دوسرے مصرع کو یوں کرسکتے ہیں

کہ جیسے ہو آنسو بہانے کا وعدہ

میں فائقؔ اُسے کس طرح بھول جاؤں
میں نے کیا ہی کب ہے بُھلانے کا وعدہ

دوسرے مصرع کو یوں کہیے

کیا میں نے کب ہے بھلانے کا وعدہ
 

الف عین

لائبریرین
جو بحر میں نہیں تھے مصرعے انہیں بھائی خلیل نے درست کر دیا ہے۔
مری آنکھوں نے آنسو اِیسے بہائے
تقطیع کے حساب سے
مری 'آنکھ' نے 'آنس' ایسے بہائے
آ رہا ہے
'ان آنکھوں نے اس طرح آنسو بہائے
بہتر ہے، لیکن دوسرے مصرعے میں بھی آنسو دہرایا گیا ہے، کچھ الفاظ بدلے جائیں
 
وں روتے رہے ہم محبت میں دونوں
کہ جیسے ہو رونے رلانے کا وعدہ
سر جی آپ نے مری ساری مشکل حل کر دی ہے،میں اسی شعر کو کافی ٹائم سے درست کرنے کی کوشش کر رہا تھا،مگر نہیں ہو پا رہا تھا،آپ نے اس پیارے انداز میں اصلاح کی ہے،خدا آپ کو اور الف عین صاحب کو سلامت رکھے،،،
 
Top