اس غزل کی اصلاح فرمائیں

پہل وعدہ ، اور پھر نبھانے کا وعدہ
سو ایسے کیا اُس نے آنے کا وعدہ

وہ جس طرح سے دل میں آ جا رہا ہے
نہ کرتا کوئی آنے جانے کا وعدہ

محبت وہ مجھ سے جو رکھی گئی تھی
تھا غیروں سے اُس کا ستانے کا وعدہ

مری آنکھوں نے آنسو اِیسے بہائے
کیا ہو جیسے آنسو بہانے کا وعدہ

میں فائقؔ اُسے کس طرح بھول جاؤں
میں نے کیا ہی کب ہے بُھلانے کا وعدہ
 
Top