فراز اس سے پہلے کے

راجہ صاحب

محفلین
اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں
کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں

تو بھي ہيرے سے بن گيا تھا پتھر
ہم بھي جانے کيا ہو جائيں

تو کہ يکتا بے شمار ہوا
ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں

ہم بھي مجبوريوں کا عذع کريں
پھر کہيں اور مبتلا ہو جائيں

ہم اگر منزليں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں

دير سے سوچ ميں ہيں پروانے
راکھ ہو جائيں يا ہوا ہوجائيں

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ايسے لپٹيں کہ قبا ہو جائيں

بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز
کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں

اور

بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز
کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں

واہ
 
اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں
کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں

اور

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز

بہت عمدہ غزل ہے اور میری پسندیدہ
 
Top