اس اوج پہ میں حرف کی تاثیر سے آیا

اپنی کسی خواہش سے کہ تقدیر سے آیا
میں خواب میں اک خطہِ تعبیر سےآیا


دنیا تو مجھے گِر کر سنبھلنے ہی نہ دیتی
اس اوج پہ میں حرف کی تاثیر سے آیا


وہ رنگ دکھاے مجھے پختہ روی نے
میں جلسہِ عجلت میں بھی تاخیر سےآیا

اس نے حلقہِ در کھول دیا تھا
زندہ ہی نہ باہر میری زنجیر سے آیا

سورج سے بھی زیادہ روشن ہیں تیرے پاؤں
اے دوست ! تو کس جادہِ تنویر سے آیا

تو جو بھی سمجھتا ہے مگر منصفِ دنیا
ہر جرم کسی گوشہِ تعزیر سے آیا


اے مرے مصور ! مری اس خواب سرا میں
جو رنگ بھی آیا تیری تصویر سے آیا

وہ مسندِ شاہی پہ بھی عجلت سے گیا تھا
میں دار پر بھی جادہِ توقیر سے آیا


شاعر : نامعلوم
 
Top