اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی پالیسی پر تحریک انصاف 2 دھڑوں میں تقسیم

جاسم محمد

محفلین
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی پالیسی پر تحریک انصاف 2 دھڑوں میں تقسیم
احمد منصور اتوار 17 فروری 2019
1555819-asad-1550390010-494-640x480.jpg

اسد قیصر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کے سب سے پرانے کارکنان میں ہوتا ہے فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے اپوزیشن کو ساتھ لے کر بہتر انداز میں ایوان چلانے کی پالیسی پر حکومتی جماعت تحریک انصاف واضح طور پر دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔

اسپیکر اسد قیصر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پارلیمان کو اپنے طریقے سے چلانے کی پالیسی جاری رکھیں گے، نہ ڈکٹیشن لیں گے اور نہ کسی دبائو میں آئیں گے، اسپیکر اسد قیصر کے قریبی حلقوں کے مطابق دو روز قبل ترجمان قومی اسمبلی کی جانب سے جاری بیان کے ذریعے اسپیکر اسد قیصر نے اپنا ٹھوس اور دو ٹوک موقف وزیراعظم عمران خان تک پہنچانے کی کوشش کی، اس بیان میں کہا گیا تھا “اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پورے ایوان کے کسٹوڈین ہیں، آئین ،قانون اور پارلیمانی روایات کی پاسداری اور ان پر عمل پیرا ہونا ان کی اولین ذمہ داری ہے اور بحثیت سپیکر قومی اسمبلی وہ اس ذمہ داری کو غیر جانبداری سے سر انجام دے رہے ہیں، اس ضمن میں وہ ایوان میں موجود حکومتی اور اپوزیشن اراکین سے ایوان کو اس کی اصل روح کے مطابق چلانے کے لیے ناصرف ان سے مشاورت کرتے ہیں بلکہ انہیں ایوان کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے انہیں ان سب کا تعاون بھی درکار رہتا ہے”۔

ذرائع کا کہنا ہے حکومتی صفوں کے اندر پنپنے والی محاذ آرائی میں شدت وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی تنقید کے بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کے اسپیکر کے خلاف بیانات کے تسلسل سے آئی ہے جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر کی حمایت میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری بھی سامنے آ گئے ہیں، اپنے باضابطہ جاری کردہ بیان میں انہوں نے حکومتی صفوں میں موجود اسد قیصر مخالف آوازوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ “نیا پاکستان اور اسد قیصر لازم و ملزوم ہیں” ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے ان الفاظ سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پردے کے پیچھے اسپیکر قومی اسمبلی کو تبدیل کرنے کی سوچ موجود ہے جسے ڈپٹی اسپیکر کے بیان کے ذریعے خبردار کر دیا گیا ہے کہ ایسی کوئی کارروائی ہوئی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اپنے بیان میں قاسم خان سوری نے مزید کہا کہ “وہ اسد قیصر سے متعلق جاری منفی پروپیگنڈا کی شدید مذمت کرتے ہیں، اسد قیصر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کے سب سے پرانے کارکنان میں ہوتا ہے جہنوں نے پارٹی کی بنیاد رکھی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا شکست خوردہ اور عوامی عدالت سے مسترد شدہ لوگوں کو پاکستان کی کامیابی اور ترقی ہضم نہیں ہو رہی، اسد قیصر مشکل حالات میں بہترین طریقے سے ہاوس چلا رہے ہیں اور حکومت کے ساتھ مسلسل مشاورت میں ہیں،اسپیکر اسد قیصر کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، ان کے خلاف تمام پروپیگنڈے بے بنیاد اور منافقانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، نیا پاکستان اور اسد قیصر لازم و ملزوم ہیں”۔

یہ اشارہ دے رہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف حکومتی صفوں میں نہ صرف کسی کارروائی کی کچھڑی پک رہی ہے بلکہ اسپیکر اسد قیصر اور ان کے قریبی حلقے نہ صرف اس سے باخبر ہیں بلکہ مقابلے کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ اس ساری صورتحال میں اپوزیشن کی اسپیکر اسد قیصر کی کھلی حمایت نے ان کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنا دیا ہے جس کے بعد بدھ سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز رہنے کی توقع ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اسد قیصرصاحب کو ہٹانا فی الوقت ناممکن بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ موقع محل دیکھ کر اپوزیشن بھی ان کی حمایت کا اعلان کر سکتی ہے الا یہ کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسد قیصرصاحب کو ہٹانا فی الوقت ناممکن بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ موقع محل دیکھ کر اپوزیشن بھی ان کی حمایت کا اعلان کر سکتی ہے الا یہ کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں۔
تحریک انصاف جمہوری کلچر رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ اسد قیصر آئین کے تحت اپنے فیصلے کرنے میں آزادہیں۔ وہ اپنی پارٹی سے ڈکٹیشن لینے کے مجاز نہیں۔ اور نہ ہی کبھی اپنی جماعت کے اراکین کو پارلیمان میں غیرضروری ترجیح دیتے پائے گئے ہیں۔ ان کا کام ایوان چلانا ہے اور وہ اپوزیشن کو ہر ممکن طریقہ سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ ایوان کے تقدس کی بحالی میں اچھی پیش رفت ہے۔ ان کو ہٹا کر جمہوری نظام پر خود کلہاڑا مارنے والی بات ہوگی۔
 

فرقان احمد

محفلین
تحریک انصاف جمہوری کلچر رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ اسد قیصر آئین کے تحت اپنے فیصلے کرنے میں آزادہیں۔ وہ اپنی پارٹی سے ڈکٹیشن لینے کے مجاز نہیں۔ اور نہ ہی کبھی اپنی جماعت کے اراکین کو پارلیمان میں غیرضروری ترجیح دیتے پائے گئے ہیں۔ ان کا کام ایوان چلانا ہے اور وہ اپوزیشن کو ہر ممکن طریقہ سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ خوش آئین بات ہے۔
جی ہاں! آپ کی پارٹی کی مجبوری ہے کہ اسپیکر کی ہر بات پر دھیان دیں۔ :)
 
Top