اسلم کولسری - ایک غزل

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا
وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑگیا
ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی
کبھی نہ ساتھ رہا جو کبھی کا چھوڑ گیا
ہم اپنے کھیت کے ٹیلے بھی رفو کر لیتے
مگر وہ شخص تو دریا کا رخ ہی موڑ گیا
برس پڑے ہری شاخوں کے سبز پتے بھی
غزل میں ڈوبی ہوئی رت کو یوں جھنجھوڑ گیا
وہ سی گیا، کہ یہ آنکھیں بھی زخم تھیں جیسے
یہ دل کہ جیسے کوئی آبلہ تھا، پھوڑ گیا
الجھ الجھ گئے منظر کہ اپنی پلکوں سے
وہ مہرزاد، شعاعیں سبھی مروڑ گیا
لہو کی لہر صدا کی طرح نکلتی ہے
مرے لبوں پہ عجب سانحے نچوڑ گیا
 
Top