ایچ اے خان
معطل
سیّد قطب شھید کی کتاب معالم فی الطریق سے اقتباسات
اسلام ہی اصل تہذیب ہے
اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور نظامِ ریاست پر، اخلاق و معاملات پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلام عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اُس پر حکمرانی کرتے ہوں، نہ اسلامی اقدار اور ردّو قبول کے اسلامی پیمانوں کو وہاں برتری حاصل ہو، نہ اسلامی قوانین و ضوابط کا سکہّ رواں ہو اور نہ اسلامی اخلاق و معاملات کسی درجہ فوقیت رکھتے ہوں
اِسلامی معاشرہ وہ نہیں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں اگر نماز روزے اور حج کا اہتمام موجودبھی ہو تو بھی وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فیصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبہ نفس کے تحت اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرلیتا ہے اور اُسے۔۔۔برسبیل ِمثال۔۔۔ "ترقی پسند اسلام" کےنام سے موسوم کرلیتا ہے!
جاہلی معاشرہ مختلف بھیس بدلتا رہتا ہے، جو تمام کے تمام جاہلیت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک ایسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، جس میں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور انسانی تاریخ کی مادی اور جدلی تعبیر ( nterpretationi Dialectual) کی جاتی ہے اور "سائنٹیفک سوشلزم" کو نظامِ زندگی کی حثیت سے عملی جامعہ پہنایا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک ایسی جمعیت کے رنگ میں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کی تو منکر نہیں ہوتی، لیکن اُس کی فرماں روائی اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتی ہے۔ رہی زمین کی فرماروائی تعو اس سے خدا کو بے دخل رکھتی ہے۔ نہ خدا کی شریعت کو نظامِ زندگی میں نافذ کرتی ہے ، اور نہ خدا کی تجویز کردہ اقدارِحیات کو جسے خدا نےانسانی زندگی کے لیے ابدی اور غیر متغیر اقدار ٹھیرایا ہے فرماں روائی کا منصب دیتی ہے۔ وہ لوگوں کو یہ اجازت تو دیتی ہے کہ وہ مسجدوں، کلیساؤں اور عبادت گاہوں کی چاردیواری کے اندر خدا کی پوجا پاٹ کرلیں، لیکن یہ گوارہ نہیں کرتی کہ لوگ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھی شریعتِ الہیٰ کو حاکم بنالیں۔ اس لحاظ سے وہ جمعیت تختہ زمین پر خدا کی الوہیت کی باغی ہوتی ہے کیونکہ وہ اُسے عملی زندگی میں معطل کرکے رکھ دیتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا صریح فرمان ہے: وھو الذی فی السمأٌ الہ و فی الارض الہ (وہی خدا ہے جو آسمان میں بھی الہٰ ہے اور زمین میں بھی)۔ اس طرز عمل کی وجہ سے یہ معاشرہ اللہ کے اس پاکیزہ نظام کی تعریف میں نہیں آتا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت ذیل میں "دین قیّم" تعبیر فرمایا ہے:
حکم صرف اللہ کا ہے۔ اُسی کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے۔ یہی دین قیّم (ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی) ہے۔ (یوسف: 84)
یہی وہ اجتماعی طرزِعمل ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشروں صف میں شمار ہوتا ہے۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کلیساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے اگے مذہبی مراسم کی ادائیگی سے نہ روکے۔
اسلام ہی اصل تہذیب ہے
اِسلام صرف دو قسم کے معاشروں کو جانتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ اور دوسرا جاہلی معاشرہ۔ اسلامی معاشرہ وہ ہے جس میں انسانی زندگی کی زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھ میں ہو۔ انسانوں کے عقائد و عبادات پر، ملکی قانون اور نظامِ ریاست پر، اخلاق و معاملات پر غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی عملداری ہو۔ جاہلی معاشرہ وہ ہے جس میں اسلام عملی زندگی سے خارج ہو۔ نہ اسلام کے عقائد و تصورات اُس پر حکمرانی کرتے ہوں، نہ اسلامی اقدار اور ردّو قبول کے اسلامی پیمانوں کو وہاں برتری حاصل ہو، نہ اسلامی قوانین و ضوابط کا سکہّ رواں ہو اور نہ اسلامی اخلاق و معاملات کسی درجہ فوقیت رکھتے ہوں
اِسلامی معاشرہ وہ نہیں ہے جو "مسلمان" نام کے انسانوں پر مشتمل ہو، مگر اسلامی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو۔ ایسے معاشرے میں اگر نماز روزے اور حج کا اہتمام موجودبھی ہو تو بھی وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو خدا اور رسول کے احکام اور فیصلوں سے آزاد ہو کر اپنے مطالبہ نفس کے تحت اسلام کا ایک جدید ایڈیشن تیار کرلیتا ہے اور اُسے۔۔۔برسبیل ِمثال۔۔۔ "ترقی پسند اسلام" کےنام سے موسوم کرلیتا ہے!
جاہلی معاشرہ مختلف بھیس بدلتا رہتا ہے، جو تمام کے تمام جاہلیت ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ایک ایسے اجتماع کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، جس میں اللہ کے وجود کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے اور انسانی تاریخ کی مادی اور جدلی تعبیر ( nterpretationi Dialectual) کی جاتی ہے اور "سائنٹیفک سوشلزم" کو نظامِ زندگی کی حثیت سے عملی جامعہ پہنایا جاتا ہے۔ وہ کبھی ایک ایسی جمعیت کے رنگ میں نمودار ہوتا ہے جو خدا کے وجود کی تو منکر نہیں ہوتی، لیکن اُس کی فرماں روائی اور اقتدار کو صرف آسمانوں تک محدود رکھتی ہے۔ رہی زمین کی فرماروائی تعو اس سے خدا کو بے دخل رکھتی ہے۔ نہ خدا کی شریعت کو نظامِ زندگی میں نافذ کرتی ہے ، اور نہ خدا کی تجویز کردہ اقدارِحیات کو جسے خدا نےانسانی زندگی کے لیے ابدی اور غیر متغیر اقدار ٹھیرایا ہے فرماں روائی کا منصب دیتی ہے۔ وہ لوگوں کو یہ اجازت تو دیتی ہے کہ وہ مسجدوں، کلیساؤں اور عبادت گاہوں کی چاردیواری کے اندر خدا کی پوجا پاٹ کرلیں، لیکن یہ گوارہ نہیں کرتی کہ لوگ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اندر بھی شریعتِ الہیٰ کو حاکم بنالیں۔ اس لحاظ سے وہ جمعیت تختہ زمین پر خدا کی الوہیت کی باغی ہوتی ہے کیونکہ وہ اُسے عملی زندگی میں معطل کرکے رکھ دیتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا صریح فرمان ہے: وھو الذی فی السمأٌ الہ و فی الارض الہ (وہی خدا ہے جو آسمان میں بھی الہٰ ہے اور زمین میں بھی)۔ اس طرز عمل کی وجہ سے یہ معاشرہ اللہ کے اس پاکیزہ نظام کی تعریف میں نہیں آتا جسے اللہ تعالیٰ نے آیت ذیل میں "دین قیّم" تعبیر فرمایا ہے:
حکم صرف اللہ کا ہے۔ اُسی کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے۔ یہی دین قیّم (ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی) ہے۔ (یوسف: 84)
یہی وہ اجتماعی طرزِعمل ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ بھی جاہلی معاشروں صف میں شمار ہوتا ہے۔ چاہے وہ لاکھ اللہ کے وجود کا اقرار کرے اور لوگوں کو مسجدوں اور کلیساؤں اور صوامع کے اندر اللہ کے اگے مذہبی مراسم کی ادائیگی سے نہ روکے۔