اسلام کے عظیم ترین جرنل حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ

نیلم

محفلین
حضرت خالد بن ولیدرضی الله عنہ قریش کے ایک معزز افراد اور بنو مخزوم قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے آپ کو ’سیف اللہ‘یعنی'’اللہ کی تلوار‘' کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ جب آنحضور نے اہل قریش کو بتوں کی پوجا سے منع کیا

تو سب آپ کے خلاف ہوگئے۔ اس وقت آپکی عمر 17 برس تھی۔ آپ بھی اپنے والد کے ساتھ حضور صلى الله عليہ وسلم کے دشمن تھے۔ بعد میں آپ نے اسلام قبول کیا۔

حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ نے تلوار کے سائے میں پرورش پائی۔ اس لے وہ بہت پھرتیلے اورنڈر تھے۔ کشتی، گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے ماہر تھے۔ ایک دفعہ بچپن میں حضرت عمر رضي الله عنہ کو پچھاڑ کر ان کی پنڈلی کی ہڈی توڑ دی تھی۔ خالد بن ولید رضي الله عنہ کئی جنگوں میں شریک رہے۔ اسلام لانے کے بعد حاکم شام کا مقابلہ کرنے کےلئے تین ہزار صحابہ کی فوج تیار ہوئی اس میں آپ بھی شامل تھے۔ خونریز معرکہ ہوا مخالفین ایک لاکھ کی تعداد میں تھے۔ مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوا۔

اگلے روز اس لشکر کی کمان حضرت خالد رضي الله عنه نے اپنے ہاتھوں میں لی اور اعلیٰ جنگی اصولوں پر اپنی تھوڑی سی فوج مجتمع کیا اور حاکم شام کی ٹڈی دل فوج کو تہس ہنس کردیا اور فتح پائی۔

نبی پاک صلى الله عليہ وسلم کی وفات کے بعد صدیق اکبررضي الله عنہ کے دور میں آپ اسلامی لشکروں کی سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ معرکہ یمامہ میں آپ نے صرف تیرہ ہزار فوجیوں کے ساتھ مسلیمہ بن کذاب کی لاکھوں کی فوج کو شکست دی۔ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ جب بستر علالت پر تھے تو آپ نے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا۔” میں نے ان گنت جنگوں میں حصہ لیا۔ کئی بار اپنے آپ کو ایسے خطروں میں ڈالا کہ جان بچانا مشکل نظر آتا تھا لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔

میرے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں تلوار‘ تیر یا نیزے کے زخم کا نشان نہ ہو۔ لیکن افسوس ! موت نے مجھے بستر پر آدبوچا۔ میدان کار زار میں شہادت نصیب نہ ہوئی۔“

اس پر لوگوں نے ان کو یہ کہا کہ رسول اللہ نے آپ کو ”سیف اللہ“ یعنی ”اللہ کی تلوار“ کا خطاب عطا فرمایا ہے۔ آپ اگر کسی کافر کے ہاتھ سے مارے جاتے تو اس کا مطلب تھا کہ ایک دشمن خدا نے اللہ کی تلوار کو توڑ ڈالا.... جو ناممکن تھا۔

یہ سن کر آپ کو کچھ اطمینان نصیب ہوا۔

آپ نے جنگ احد سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک جتنی جنگیں لڑیں ان کی تعداد 41 ہے اور ان جنگوں میں آپ نے ایک جنگ بھی نہیں ہاری''۔
 

نیلم

محفلین
یہ بڑے بہادر تھے، ان کا نسب نامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مرہ بن کعب میں مل جاتا ہے، چالیس سال سے کچھ زائد عمر پاکر 21 ھ میں شہر حمص میں انتقال ہوا۔

ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب

نے ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اطلاع کے پہنچنے سے پہلے زید ، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر صحابہ کو سنادی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ:

'' اب اسلامی علم کو زید رضی اللہ عنہ لیے ہوئے ہیں اور وہ شہید کردیئے گئے ، اب جعفر رضی اللہ عنہ نے علم اٹھالیا اور وہ بھی شہید کردیئے گئے ، اب ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے علم اٹھالیا اور وہ بھی شہید کردیئے گئے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے پھر آپ نے فرمایا : اور آخر اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار ( حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ) نے علم اٹھالیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عنایت فرمائی'' ۔

صحیح بخاری . کتاب فضائل اصحاب النبی

حدیث نمبر : 3757
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت کمال معلومات فراہم کی آپ نے۔ بیشک آپ کی ذات گرامی کو فتح کو نشان سمجھا جاتا تھا۔ اور یہی وجہ بھی تھی کہ حضرت عمر:abt: نے آپ کو محاذ ایران سے واپس بلا لیا تھا۔ اور سپہ سالاری کے منصب پر حضرت مثنیٰ بن حارثہ کو فائز کیا تھا۔ اگر کچھ کمی بیشی کر دی ہے تو اہل علم میری تصحیح فرما کر میرے علم میں بھی اضافہ کر دیں۔
 

نیلم

محفلین
بہت کمال معلومات فراہم کی آپ نے۔ بیشک آپ کی ذات گرامی کو فتح کو نشان سمجھا جاتا تھا۔ اور یہی وجہ بھی تھی کہ حضرت عمر:abt: نے آپ کو محاذ ایران سے واپس بلا لیا تھا۔ اور سپہ سالاری کے منصب پر حضرت مثنیٰ بن حارثہ کو فائز کیا تھا۔ اگر کچھ کمی بیشی کر دی ہے تو اہل علم میری تصحیح فرما کر میرے علم میں بھی اضافہ کر دیں۔
بہت شکریہ
 

عدیل منا

محفلین
بہت کمال معلومات فراہم کی آپ نے۔ بیشک آپ کی ذات گرامی کو فتح کو نشان سمجھا جاتا تھا۔ اور یہی وجہ بھی تھی کہ حضرت عمر:abt: نے آپ کو محاذ ایران سے واپس بلا لیا تھا۔ اور سپہ سالاری کے منصب پر حضرت مثنیٰ بن حارثہ کو فائز کیا تھا۔ اگر کچھ کمی بیشی کر دی ہے تو اہل علم میری تصحیح فرما کر میرے علم میں بھی اضافہ کر دیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو افواج شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کرکے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ملک شام کی اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم بنایا۔ اس حکم کی فوراََ تعمیل ہوئی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافر کشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی بلکہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے۔ یہی امتیاز خاص ہے جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا میں بہت بلند کردیتا اور روئے زمین کا بے نظیر سپہ سالار اور سچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الٰہی کے سوا شہرت طلبی اور ریاکاری کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
(تاریخ ابن خلدون )
 

نیلم

محفلین
فرمان حضرت خالدبن ولید رضی اللہ تعالی عنہ،
موت لکھی ہوئی نہ ہو توموت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے،
اور جب موت مقدر میں ہوتو
زندگی خود جا کہ موت سے لپٹ جاتی ہے.
دنیا کے بزردلوں کو میرا یہ پیغام سُنادو
اگر موت میدان جنگ میں ہوتی
تو خالد کبھی بستر پر نہ مرتا.
 
Top