اسلام کیسے پھیلا ۔۔۔۔۔

سیفی

محفلین
اس خبر نے اس كے تن بدن ميں آگ لگادي تھي۔ دشمن كي طاقت اس قدر تيزي سے بڑھ جائے گي، يہ اس نے كبھي سوچا بھي نہ تھا۔ بہت دنوں پہلے جب پہلي مرتبہ اسے يہ خبر ملي تھي، اسي روز سے اسے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا كہ اگر اس نے بڑھتے ہوئے دشمن كا راستہ نہ روكا تو ايك دن خود اس كي سرداري ختم ہو جائے گي۔ آنے والے ان برے دنوں كو روكنے كے ليے اس نے اپنے قبيلے ميں دشمن قبيلے كے لوگوں كے نے جانے پر پابندي لگا دي تھي۔ خاص طور پر ان كے مذہب كے متعلق بات كرنا تو سخت منع تھا۔ اس نے نہ صرف اپنے قبيلے ميں، بلكہ ارد گرد كے علاقوں كے سرداروں كے ساتھ مل كر دشمن كي طاقت كو دبانے كا انتظام كيا تھا۔ مگر اس كي ساري تركيبيں دھري كي دھري رہ گئيں۔ دشمن كي طاقت بڑھتي رہي اور وہ دشمن كي بڑھتي ہوئي طاقت پر كڑھتا رہا۔ اس كے دل ميں نفرت كي آگ جلتي رہي۔ ليكن دشمن سے صرف نفرت كرنے سے بھلا اس كي طاقت كو كيسے كم كيا جا سكتا ہے اب نوبت يہاں تك پہنچ گئي تھي كہ ارد گرد كے سارے قبائل نے دشمن كے آگے گھٹنے ٹيك ديے تھے۔

وہ لوگ جنہوں نے اس كے عظيم باپ كے فوت ہونے كے بعد اسے اپنا سردار بنايا تھا اور اسے اپني آمدني كا چوتھا حصہ دينے كا اعلان كيا تھا، اب اسے بدلے بدلے نظر آنے لگے تھے۔ يہ بات بھي وہ اچھي طرح جانتا تھا كہ اس كے قبيلے ميں نہ تو دشمن كے ساتھ ٹكر لينے كي طاقت ہے اور نہ ہي كوئي اس كا ساتھ دے گا۔ سوچ سوچ كر اس كا دماغ شل ہو گيا۔ آخر اسے ايك راستہ نظر آيا۔۔۔۔ وہ راستہ بہادري كے خلاف تھا، يعني فرار۔۔۔۔ وہ جانتا تھا كہ بعض دفعہ دشمن كي نظروں سے بچنے كے ليے، اسے دھوكا دينے كے ليے بھاگنا ہي پڑتا ہے۔ يہ سوچ كر اس نے فرار ہونے كا ارادہ كر ليا ۔ اس كا منصوبہ يہ تھا كہ وہ ملك شام چلا جائے گا۔ وہاں كے لوگ اس كے ہم مذہب تھے بلكہ يہ ملك تو اس مذہب كا گڑھ تھا۔ اسے يقين تھا كہ شام والے اس كي ضرور مدد كريں گے اور پھر ايك دن وہ بڑا لشكر لے كر آئے گا اور دشمن كو ہميشہ كے ليے تباہ و برباد كر دے گا۔

يہ سوچ كر اس نے اپنے غلام كو بلايا اور حكم ديا:

"ميرے لئے تيز رفتار اونٹنياں تيار ركھنا۔ جيسے ہي خطرہ محسوس ہوا، ہم شام كي طرف روانہ ہو جائيں گے۔ اور اپنے اردگرد كے علاقوں پر نظر ركھنااور مجھے پل پل كي خبر دينا۔"غلام نے ادب سے سر جھكا ديا۔

برا دن آخر آہي پہنچا ۔صبح كے وقت اس كے غلام نے كراطلاع دي:"سردار، قريب كي بستي پر دشمن نے قبضہ كر ليا ہے۔ ان كا رخ اب ہماري طرف ہے، وہ نہ جانے كب ہم پر حملہ آور ہو جائيں۔"

"تو پھر انتظار مت كرو۔ جلدي سے ميرے سارے خاندان كو ان اونٹنيوں پر سوار كرائو، ہميں جلد از جلد يہاں سے روانہ ہو جانا ہے۔۔۔۔"

اس حكم كو ديے زيادہ دير نہيں گزري تھي كہ تازہ ترين اطلاع آئي: "سردار، دشمن كے تيز رفتار دستے ہمارے علاقے ميں داخل ہو چكے ہيں اور وہ كسي بھي وقت يہاں پہنچ سكتے ہيں۔۔۔۔ كيا ہم ان كا مقابلہ كريں گے؟" يہ پوچھنے والے اس كے وفادار ساتھي تھے۔

وہ دكھ سے بولا:"كاش يہ ممكن ہوتا! ميں خواہ مخواہ كي بہادري دكھانا نہيں چاہتا۔ مجھے معلوم ہے كہ ہم ان كے مقابلے ميں نہيں ٹھہر سكتے اور مجھے اپنے لوگوں كو ہلاك كرانے كا كوئي شوق نہيں۔ ميں تمہيں اجازت ديتا ہوں كہ چاہو تو بھاگ جائو اور چاہو تو ان لوگوں كي بات مان لو۔"

يہ كہہ كر وہ جلدي سے اپني اونٹنيوں كي طرف بڑھا۔ اس كے خاندان كے لوگ جلدي جلدي ان پر سوار ہو رہے تھے۔ اپنے ساتھ جتنا سامان وہ ركھ سكتے تھے، انہوں نے ركھا اور بڑي افراتفري ميں شام كي طرف روانہ ہو گئے۔

انہيں روانہ ہوئے ابھي تھوڑا وقت ہي گزرا تھا كہ ايك عورت بھاگتي ہوئي اس جگہ پہنچي جہاں تھوڑي دير قبل سردار كا قافلہ كھڑا تھا۔ اس عورت كو پہنچانتے ہوئے ايك شخص بولا: "يہ تو سردار كي بہن ہے۔۔۔۔ہائے بيچاري كا بھائي جلدي ميں اپني بہن كوساتھ لے جانا بھول گيا۔"

سردار كي بہن يہ آواز سنتے ہي سناٹے ميں آ گئي۔ وہ سوچ بھي نہيں سكتي تھي كہ گھبراہٹ كي وجہ سے اس كا بھائي اس قدر بزدل ہو جائے گا اس نے فورا دوسري سواري كا انتظام كرنے كا سوچا مگر ابھي وہ كسي سے بات كر ہي رہي تھي كہ گھڑ سواروں كا ايك دستہ بجلي كي سي تيزي سے بستي ميں داخل ہو گيا۔ سردار كي بہن كے ليے بھاگنے كا كوئي راستہ نہيں تھا۔ حملہ آوروں نے پورے علاقے كو گھير ليا تھا۔ انہوں نے جلد ہي پتا چلا ليا كہ قبيلے كا سردار "عدي" فرار ہو چكا ہے اور افراتفري ميں اپني بہن كو پيچھے چھوڑ گيا ہے سردار كا يوں فرار ہونا اس بات كا ثبوت تھا كہ وہ مدد لے كر واپس آسكتا ہے۔ اسے واپس لانے كا اب ايك ہي طريقہ تھا كہ اس كي بہن كو گرفتار كر ليا جائے۔ جب سردار عدي كو معلوم ہو گا كہ اس كي بہن دشمن كي قيد ميں ہے تو وہ جنگ كرنے كے بجائے امن اور صلح كي بات كرے گا، اور حملہ آور جنگ كے بجائے صلح اور امن كو زيادہ پسند كرتے تھے۔ انہوں نے سردار كے خزانے، اسلحے كے گودام اور اس كے محل ميں قيد لوگوں كو اپنے ساتھ ليا اور اپنے علاقے كي طرف چل ديے۔

مفرور سردار كي بہن بہت خوف زدہ تھي۔ اسے معلوم تھا كہ عرب ميں قيديوں كے ساتھ اچھا سلوك نہيں كيا جاتا۔ خاص طور پر عورتوں سے تو بہت برا سلوك كيا جاتا ہے۔ اگر وہ كام كرنے والي نہ ہوں تو انہيں يا تو بيچ ديا جاتا ہے يا قتل كر ديا جاتا ہے۔

ليكن اسے حملہ آور دستے كے سپاہي بہت مختلف لگے تھے۔ ان ميں سے كسي نے بھي اسے تنگ نہيں كيا تھا۔ ان كا رويہ تمام قيديوں كے ساتھ بہت اچھا تھا۔ دشمن دستے كے سردار نے خاص طور پر حكم ديا تھا كہ وہ سردار كي بہن ہے اس ليے اس كے ساتھ اچھا سلوك كيا جائے۔

دشمن كے علاقے ميں پہنچنے كے بعد سردار كي بہن كو دشمن كے سردار كے سامنے پيش كيا گيا۔ وہ اسے ديكھ كر حيران رہ گئي۔ يہ سردار دوسرے قبيلے كے سرداروں سے بالكل مختلف تھا، بلكہ اس جيسا انسان اس نے زندگي ميں پہلے كبھي ديكھا ہي نہيں تھا۔ وہ بے اختيار بول اٹھي: "ميرا باپ فوت ہو چكا ہے اور ميرا نگران گم ہو گيا ہے۔۔۔۔ مجھ پر احسان كريں۔۔۔۔اللہ آپ پر احسان كرے گا۔"

"تمہارا نگران كون ہے؟" اس سے پوچھا گيا۔

"سردار عدي بن حاتم۔"

"اچھا تو اس سردار كي بہن ہے جو ہم سے خوف زدہ ہو كر فرار ہو گيا ہے!"

وہ يہ كہہ كر آگے بڑھ گئے۔ سردار كي بہن جانتي تھي كہ اس كے بھائي عدي نے دشمني كي انتہا كر دي تھي۔ ان كا راستہ روكنے كے ليے ہر كام كيا تھا۔ اس نے لوگوں كے ليے عرب كے اس نئے دين كے متعلق كچھ بھي جاننا ناممكن بنا ديا تھا۔ اس ليے دشمن سردار كا يہ رويہ اس كي سمجھ ميں آتا تھا ۔ مگر اس كا يہ اندازہ درست نہيں تھا، وہ دشمن سردار كے متعلق يہ نہيں جانتي تھي كہ وہ كسي كا دشمن نہيں۔

اگلے دن ہمت كركے اس نے پھر يہي بات ان سے كہي ليكن جواب پھر كل والا ملا اور وہ مايوس ہو كر خاموش ہو گئي۔ اس نے كچھ دوسرے لوگوں سے بات كي تو انہوں نے اسے بتايا كہ سردار كے متعلق تم كچھ نہيں جانتي۔ ان سے بڑھ كر رحم كرنے والا اور احسان كرنے والا كوئي نہيں، تم پھر ان سے بات كرنا۔

تيسرے دن اس نے پھر ہمت كركے كہا : "مجھے آزاد كر ديجيے۔۔۔۔ميرا باپ فوت ہو چكا ہے، وہ لوگوں پر بہت رحم كھاتا تھا۔۔۔۔ آپ مجھ پر رحم كھائيں!"

سردار نے اس كي بات سني اور اعلان كيا : "جائو، تم آزاد ہو!"

وہ خوشي سے بولي : "ميں ملك شام جانا چاہتي ہوں، جہاں ميرا خاندان گيا ہے۔"

"ليكن شام كي طرف تو ان دنوں كوئي قافلہ نہيں جا رہا اور جب تك تمہارے ليے محفوظ سفر كا بندوبست نہيں ہو جاتا ميں تمہيں شام جانے كي اجازت نہيں دے سكتا۔"

سردار كي بہن كو اب معلوم ہوا كہ اسے آزادي نہ ملنے كي اصل وجہ كيا تھي۔ وہ سردار سے بہت متاثر ہوئي۔ اسے يقين آنے لگا كہ واقعي يہ سردار كسي كا دشمن نہيں ہو سكتا ۔ دشمن كے جس دستے كے سردار نے اس كے قبيلے پر حملہ كركے اسے گرفتار كيا تھا، انہوں نے بھي اسے تسلي دي كہ پريشاني كي كوئي بات نہيں، اسے حفاظت سے اس كے خاندان كے پاس پہنچا ديا جائے گا۔

٭٭٭٭

مفرور سردار عدي شام پہنچ گيا تھا۔ اسے اپني بہن كے پيچھے رہ جانے كا سخت افسوس تھا۔ اس نے فورا اپنے خاص آدمي كو بھجوايا اور معلوم كيا كہ اس كے بہن كي ساتھ كيا معاملہ ہوا۔ جب اسے پتا چلا كہ اسے گرفتار كر ليا گيا ہے تو دشمن كے خلاف اس كي نفرت اور غصے ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔ اس نے كچھ آدمي دشمن سردار كے ملك دوڑائے۔ انہوں نے آ كر جو اطلاع دي اسے اس پر يقين نہيں آرہا تھا ۔ بتانے والوں نے بتايا: "انہوں نے تمہاري بہن كي بہت عزت كي، رہنے كے ليے اچھي جگہ دي، كھانے كو بھي ديا۔ اميد ہے كہ اسے جلد رہائي مل جائے گي۔"

سردار عدي كے ليے يہ اطلاع خوشي كا باعث تھي۔ وہ سوچنے لگا كہ ميں نے تو دشمن كے ساتھ اچھا سلوك نہيں كيا، اسے تنگ كرنے كي كوئي كسر نہيں چھوڑي پھر ميري بہن پر يہ احسانات اور نيك سلوك كيوں!"

ايك دن سردار عدي اپنے گھر ميں بيوي بچوں كے ساتھ بيٹھا ہوا تھا كہ اطلاع ملي كہ ايك قافلہ آرہا ہے۔ نہ جانے اسے يہ اميد كيوں لگ گئي تھي كہ اس كي بہن اسي قافلے ميں ہوگي۔ وہ غور سے قافلے كو ديكھنے لگا۔ جب آنے والے قريب آ گئے تو وہ پكار اٹھا : "يہ تو ميري بہن لگ رہي ہے۔۔۔۔سردار عدي كي بہن۔۔۔۔ حاتم كي بيٹي!"

سردار عدي كا اندازہ درست ثابت ہوا، اس نے اپني بہن كو ٹھيك پہچانا تھا۔ وہ خوشي سے ديوانہ وار اپني بہن كي طرف دوڑا مگر وہ اس پر برس پڑي:

"عدي تم ايك ظالم اور خودغرض بھائي ہو۔ تجھے شرم نہيں آئي كہ اپنے بيوي بچوں كو تو ساتھ لے آيا، اور اپنے سردار باپ كي عزت كو دشمن كے ہاتھ چھوڑ آيا۔"

مفرور بھائي جانتا تھا كہ بہن كي يہ ناراضي بجا ہے۔ اس نے شرم سے سر جھكا ليا اور كہا: "بہن تمہيں حق پہنچتا ہے كہ مجھے برا بھلا كہو مجھے جو سزا دو، منظور ہے!"

بھائي كي طرف سے يہ جواب سن كر وہ كچھ نرم ہوئي اور بولي: "عدي آخر تم مجھے وہاں چھوڑ كر كيوں آئے؟"

تب اس نے بتايا كہ ايسا جان بوجھ كر نہيں ہوا، بلكہ جلدي اور افراتفري ميں ہوا۔ بہن كا غصہ آہستہ آہستہ جاتا رہا۔ پھر عدي نے اس سے پوچھا كہ دشمن نے اس كے ساتھ كيسا سلوك كيا۔

بہن نے اسے ساري داستان سنائي اور دشمن سردار اور اس كے ساتھيوں كے اخلاق اور رويے كي بہت تعريف كي۔ عدي كي بہن نے جو كچھ اسے بتايا وہ ان اطلاعات كے مطابق تھا جو اسے اپنے بھيجے ہوئے آدميوں كے ذريعے سے ملي تھيں۔ عدي كي بہن نے اسے يہ بھي كہا : "اے بھائي تمہيں اس سردار سے ضرور ملنا چاہئے، جس كے ساتھ تم نے دشمني اور نفرت كي انتہا كر دي ليكن اس نے تمہاري بہن كي حفاظت كي، اسے آزاد كيا، اپنے پاس سے سواري دي اور ايك ايسے محفوظ قافلے كے ساتھ بھيجا جس ميں ہمارے قبيلے كاايك شخص تھا۔ تمہيں چاہئے كہ اس شخص سے ضرور ملو اور اس كے نئے دين كو جانو۔ كيا خبر وہ اس دين سے بہتر ہو، جس كو ہم مانتے ہيں اے بھائي مجھے يقين ہے كہ وہ تمہيں اپنا دين اختيار كرنے پر مجبور نہيں كريں گے۔"

بہن كي ان باتوں نے عدي كو لاجواب كر ديا۔ اس كے دل ميں خواہش پيدا ہوئي كہ وہ اپني آنكھوں سے وہ سب كچھ ديكھے جس كي اسے خبريں ملي ہيں۔

كچھ دنوں كے بعد وہ اپنے ساتھيوں كے ہمراہ دشمن سردار كے علاقے ميں جا پہنچا۔ اسے بتايا گيا كہ وہ مسجد ميں چلا جائے۔ وہ سوچ رہا تھا كہ اس سے كيا سلوك ہو گا؟ سردار كے طور پر عزت كي جائے گي يا ايك ہارا ہوا سردار سمجھ كر اس كي ذلت اور توہين كي جائے گي۔ انہي انديشوں اور خدشوں ميں گھرا وہ مسجد پہنچا اور دشمن كے سردار كو سلام كيا۔ انہوں نے اخلاق سے جواب ديا اور پوچھا: "كون ہو تم؟"

اس نے ڈرتے ڈرتے كہا : "عدي بن حاتم طائي۔"

اس كا نام سن كر انہوں نے خوشي كا اظہار كيا اور اس كا ہاتھ پكڑ كر اپنے ساتھ آنے كے ليے كہا۔ عدي اس سلوك پر حيران تھا۔ ايك ہارے ہوئے سردار سے اس قدر اخلاق اور بے تكلفي اس كي سمجھ سے باہر تھي۔ ابھي وہ راستے ہي ميں تھے كہ ايك غريب سي بڑھيا نے ان كا راستہ روك ليا۔ اس كے ساتھ ايك چھوٹا سا بچہ بھي تھا۔ بڑھيا نے ان سے مالي مدد مانگي۔ سردار نے فورا جيب ميں ہاتھ ڈالااور جو كچھ تھا سارا اس كے حوالے كر ديا۔ عدي كے ليے يہ منظر بھي ناقابل يقين تھا۔ سوچنے لگا كہ يہ سردار بادشاہ نہيں ہو سكتا، ورنہ ايك عام سي بڑھيا اس قدر دليري سے اس كا راستہ نہ روكتي۔اس كے بعد انہوں نے محبت سے عدي كا ہاتھ تھام ليا اور اپنے گھر لے گئے۔

گھر پہنچ كر ايك اور حيرت نے عدي كا استقبال كيا۔ يہ گھر ايك عام گھر تھا۔ صحن ميں بيٹھنے كے ليے ايك ہي جگہ تھي۔ اس پر ايك تكيہ ركھا۔ عدي كو اس تكيے پر بيٹھنے كے لئے كہا گيا تو وہ بولا: "نہيں، نہيں آپ بيٹھيں۔" اسے بہت شرم آرہي تھي۔ مگر اسے حكم ديا گيا كہ وہ اسي تكيے پر بيٹھے۔ اب وہ اس جگہ بيٹھنے پر مجبور تھا اور ميزبان خود زمين پر بيٹھ گئے۔ عدي كو يقين ہو چكا تھا كہ يہ ہستي نفرت نہيں محبت كے قابل ہے۔ وہ اسي طرح كي سوچوں ميں كھويا تھا كہ اسے ان كي آواز سنائي دي۔ وہ پوچھ رہے تھے:"عدي تمہيں اپنے مذہب كے بارے ميں شك ہے نا!"

وہ بولا: "ہاں آپ درست كہتے ہيں۔"

"ليكن تم اپنے مذہب پر عمل نہيں كرتے۔ تم سردار ہو اور اپنے قبيلے كے لوگوں كي آمدني سے چوتھائي حصہ وصول كرتے ہو، تمہارا مذہب تمہيں اس كي اجازت نہيں ديتا۔"

عدي حيران تھا كہ اس بات كا علم انہيں كيسے ہو گيا ۔ پہلي دفعہ اس كے دل نے گواہي دي كہ وہ جو كچھ كہتے ہيں درست ہے۔ يہ واقعي اللہ كے رسول ہيں مگر اس كے ذہن ميں فورا ايك دوسرا خيال آيا۔ وہ اسي خيال ميں گم تھا كہ انہوں نے فرمايا:

"عدي تم شايد سوچ رہے ہو كہ جب مسلمانوں كا نبي اس قدر غريب ہے تو دوسرے لوگوں كا كيا حال ہو گا۔ پھر اس قدر غريب لوگوں كا دين قبول كرنے سے كيا فائدہ؟"

اور عدي واقعي انہي خيالوں ميں تھا۔

وہ خاموش رہا تو فرمانے لگے: "اللہ كي قسم ايك دن ايسا آنے والا ہے جب مسلمان اس قدر مال دار ہو جائيں گے كہ كسي كو صدقے خيرات كي ضرورت نہيں رہے گي۔"

عدي پھر خاموش رہا ۔اب ايك اور سوچ نے اس كے قدم پكڑ ليے تھے۔ تب اسے پھر ان كي پاك آواز سنائي دي:

"عدي تم سوچتے ہو گے كہ مسلمانوں كا دين بالكل مختلف ہے، ان كے دشمن ساري دنيا ميں ہيں۔ ليكن اللہ كي قسم ايك دن ايسا آنے والا ہے كہ پورے عرب ميں اسلام كا پرچم لہرائے گا اور اس قدر امن اور سكون ہو جائے گا كہ قادسيہ نامي شہر سے ايك عورت اكيلي روانہ ہو گي اور حفاظت كے ساتھ مدينہ پہنچے گي اور اسے كوئي خطرہ نہيں ہوگا۔"

تھوڑي خاموشي كے بعد وہ دوبارہ گويا ہوئے:

"اور عدي شايد تم اسلام اس ليے قبول نہيں كررہے كہ سوچ رہے ہوگے كہ اصل حكومت تو ايران اور روم كي ہے، اور وہ مسلمان نہيں۔ تو اللہ كي قسم تم يہ خبر جلد ہي سنو گے كہ بابل كے سفيد محلات اور ايران كے كسريٰ كے خزانوں پر مسلمانوں كا قبضہ ہو گيا ہے۔"

"كيا ايران كے شہنشاہ كسريٰ بن ہرمز كے خزانوں پر؟"عدي حيرت سے بول پڑا۔

انہوں نے فرمايا: "ہاں!"

عدي پر ايك عجيب كيفيت طاري ہو گئي۔ اس نے اسي وقت كہا: "ميں گواہي ديتا ہوں كہ اللہ كے سوا كوئي معبود نہيں اور آپۖ يعني حضرت محمد ۖ اللہ كے رسول ہيں۔"

يوں عرب كے انتہائي مشہور سخي اور رحم دل سردار حاتم طائي كے بيٹے عدي بن حاتم نے اسلام قبول كر ليا۔ وہ اپنے والد سے بھي زيادہ مشہور ہوئے اور بڑے صحابي كہلائے ۔انہوں نے اپني زندگي ميں اللہ كے رسول حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم كي ساري باتوں كو سچا ہوتے ديكھا۔

ان كي زندگي ہي ميں مسلمانوں نے روم اور ايران كي عظيم رياستوں پر قبضہ كر ليا اور ان كے سارے خزانے مسلمانوں كے ہاتھ لگے۔ اسلام كي وسيع سلطنت ميں اس قدر امن و امان ہوا كہ ايك عورت مصر كے شہر قادسيہ سے چلي اور خير و عافيت سے مدينہ پہنچي۔ حضرت عدي بن حاتم كو يقين تھا كہ اللہ كے رسولۖ كي تيسري بات بھي پوري ہوگي اور ان كا يقين درست ثابت ہواحضرت عمر بن عبدالعزيز كے زمانے ميں مسلمان اس قدر خو ش حال اور مالدار ہوگئے كہ كسي كو خيرات يا صدقے كي ضرورت نہ رہي۔

اس مضمون کا ماخذ
 

ثناءاللہ

محفلین
ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔۔ سیرت نبوی صل اللہ علیہ و سلم کا بہت خوبصورت پہلو پیش کیا ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور وہ پاک و برتر ذات آپ کا زور قلم اور زیادہ کرے۔ آمین
 
Top