اسلام میں پردہ ۔۔۔ از نازیہ عباس

اسلام میں پردہ

اس پر آشوب دور میں جبکہ ہر طرف بے حیائی اور بے شرمی کا چرچا ہے دینی اقدار کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مغربیت کو اپنایا جا رہا ہے۔ ایک مسئلہ در پیش ہے وہ ہے،“پردہ“۔آیا اس ترقی کے دور میں جب کہ عورت مرد کے دوش بدوش چل رہی ہے۔ کوئی آفس یا کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں عورت نظر نہ آئے۔ تو کیا پردہ برقرار رہ سکتا ہے تو آئیے ہم پردے کے بارے میں سب سے پہلے قرآن کو لیتے ہیں جس نے پردے کا حکم نازل کرکے پردہ کو ہر دور میں ضروری قرار دیا ہے۔ اللہ تعالٰیسورہ نورمیں ارشاد فرماتا ہے۔

(اے نبی) مسلمان مرد عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں ان کیلئے زیادہ صفائی کی بات ہے اور ہر مسلمان عورت سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ مگر جو اس (زینت) میں سے کھلا رہتا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔ مگر اپنے شوہروں پر اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی کے طور پر رہتے ہوں ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ناواقف ہیں۔ اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلون ہو جائے اور تم اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔“

ان آیات سے آپ کی سمجھ میں پردے کی اہمیت آگئی ہوگی اب ذرا اس دور میں ان لوگوں کا جائزہ لیں جو پردے کو لعنت سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ قرآن سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ وہ پردے کو لعنت سمجھ کر قرآن کی تکذیب کرتے ہیں ۔ پردہ عورت کی زینت ہے عورت کے معنی ہیں چھپانا یعنی عورت چھپانے کی شے ہے نہ کہ بے لگام اونٹ کی طرح سڑکوں پر گھومنے کا نام عورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر مرد کو اس کا محافظ بنادیا اور مرد کو عورت پر ایک درجہ زیادہ دے دیا گیا۔ پردہ ترقی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں پردے میں رہ کر عورتوں نے جو کام سر انجام دئیے ہیں اس دور میں مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نام سے کون واقف نہیں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ان کے علم و فضل کے مداح تھے۔ محدثین نے بھی ان کی علمی خدمات کو سراہا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جوکہ بیس سال کی عمر میں خاتونِ جنت کا درجہ پاگئیں کیا وہ باپردہ نہ تھیں جب ان کی وفات ہوئی تو فرمایا میرا جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ کسی کی نگاہ نہ پڑ سکے۔ یہ تھیں باپردہ اور باحیا خاتون جن کے نام زمانہ آج تک فخر کرتا ہے۔ حضرت رابعہ بصری جیسی مایہ ء ناز خاتون جن کے علم و زہد کا چرچا آج تک ہر ایک کی زبان پر باقی ہے اور نیکی کی مثال ان کا نام لیکر دی جاتی ہے کیا باپردہ خاتون نہ تھیں ؟؟ افسوس آج ماڈرن سوسائٹی نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا ہے بلکہ باپردہ خواتین کا مذاق اڑایا اور ان کو طرح طرح کے القاب سے نوازا جاتا ہے یعنی گنوار۔
اجڈ (uncivilized) کہا جاتا ہے۔

اس سے قبل کہ میں کچھ کہوں آپ کو پردے کے فوائد بتا دوں ان کو پڑھ کر آپ کو بےپردگی کے نقصان کا خود بخود اندازہ ہو جائے گا۔

  1. پردہ عورت و مرد کے درمیان خالص نفسانی اصلاح ہے۔
  2. پردہ شیطانیت کے امکانات کو ختم کرتا ہے۔
  3. پردہ زنا کے اسباب ختم کرتا ہے۔
  4. بے حیائی کو ختم کرتا ہے۔
  5. دو غیر جنسوں کو ملاپ سے جو نفسانی خواہشات جنم لے سکتی ہیں ان کو ختم کرتا ہے۔
  6. پردہ عروت کا وقار ہے۔
  7. پردہ عورت کے چہرے کا نور ہے۔

جبکہ بے پردگی عورت کے چہرے سے نسوانیت کو ختم کرتی ہے۔ اور یہ دور صرف بے پردگی تک ختم نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عریانیت کہ جسم پر وہ کپڑا پہننا کہ جسم پوشیدہ تو کیا مذید خوبصورت دکھائی دینے لگا اور یہ ننگے جسم کھلے سڈول بازو عریاں ٹانگیں جو آج سڑکوں پر نظر آتی ہیں کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ کیا ہم اس کو اسلامی سلطنت کہہ سکتے ہیں۔ نہیں بلکہ مغربیت کا خالص نمونہ ہے اور دوسرے لفظوں میں نام نہاد ترقی کا دور ہے۔

اسلام حد سے تجاوز کر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ایسا نظام پیدا کر دیا کہ ہر آنے والے وقت کے تقاضوں کیلئے کافی ہے۔

آئیے ہم اس مبارک دور کا جائزہ لیں جبکہ ماں بہن بیٹی و بیوی کو اس کا جائز مقام دیا جاتا تھا۔ جبکہ نظروں میں حیاء تھی۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک نابینا صحابی آئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ان کو جھانک کر دیکھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ تم اس غیر شخص کو کیوں دیکھ رہی ہو ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وہ تو نابینا ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جواب دیا اے عائشہ تم تو نابینا نہیں ہو۔

یہ تو تھا عہدِ رسالت جس کا کیا کہنا۔ اب دیکھئے صحابہ کا دور مبارک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دورِ خلافت ہے۔ ایک خاتون تمام رات زیور سے لدی ہوئی اونٹ پر تنہا سفر کرتی رہی لیکن کسی نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ کتنے با حیا تھے وہ لوگ اس لئے کہ عورتیں بھی بے حیا نہ تھیں جب عورت کی آنکھ سے حیا کا جنازہ نکلا تو مرد کی شرافت کا جنازہ بھی نکل گیا۔ اور اس نے مقدس عورت کو محض ایک کھلونا سمجھ کر جب جی چاہا دل بہلا لیا۔ جب جی چاہا توڑ کر پھینک دیا۔ عورت نے اپنے جسم کا ایک حصہ ننگا کیا تو مرد جو کہ محض تماشائی ہے اس نے باقی جسم کو بھی عریاں کردیا۔ جب مذید داد ملی تو عورت نے شراب کو بھی جائز سمجھ لیا۔ یہ ہے نئی تہذیب اور ماڈرن دور کی تعریف۔

آئیے اس سلسلے میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں جو کسی نبی کا نہیں اور نہ صحابی کا بلکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں سے ایک غلام کا ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد ابو صالح ایک مرتبہ جوانی کے عالم میں سفر پر روانہ ہوئے راستہ میں ایک مقام پر بھوک کی شدت ہوئی دیکھا کہ ایک تالاب میں ایک سیب بہتا جا رہا ہے۔ آپ نے اٹھا کر کھانا شروع کیا۔ آدھا سیب کھانے کے بعد خیال آیا کہ مالکِ سیب کی اجازت کے بغیر یہ سیب کھا رہا ہوں۔ گناہ کا خیال آیا اور اس طرف چلنا شروع کردیا جس طرف سے سیب آ رہا تھا آخرکار ایک باغ کی طرف پہنچے سیب کے مالک کے بارے میں دریافت کیا معلوم ہوا کہ عبداللہ مومعی اس کے مالک ہیں آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور کہا، اے بزرگ میں نے آپ کے باغ کا سیب کھا لیا ہے۔ مجھے معاف فرما دیں۔ عبداللہ مومعی نے جواب دیا، دو شرطیں ہیں۔

پہلی شرط یہ کہ دس سال ایک باغ کی باغانی کرو۔ دوسری شرط بعد میں بتاؤں گا۔ اور جب ابو صالح دس سال باغ کی پرورش کرنے کے بعد عبداللہ مومعی کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا ایک سیب لاؤ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم نے کس طرح باغ کی پرورش کی ہے۔ آپ نے ایک سیب لاکر دیا وہ پھیکا نکلا۔ عبداللہ مومعی نے فرمایا، تم کو دس سال میں یہ بھی پہچان نہ ہو سکی کہ سیب کونسا میٹھا ہوتا ہے ؟

ابو صالح بولے میں دس سال باغبانی کرتا رہا ہوں، حضور! سیب نہیں کھاتا رہا۔ ابھی تو آدھا سیب بھی نہیں معاف کرا سکا۔ اور سیب کھا کر مذید گناہگار ہوتا۔ یہ تھا ایمان اس وقت کے پاکباز جوان کا۔

ہاں تو دوسری شرط یہ بتائی کہ تم میری لڑکی سے شادی کرلو جو کہ اندھی لنگڑی اور بہری ہے۔ آپ نے یہ شرط بھی منظور کرلی۔

آج کے نوجوان کی شادی کا جب وقت آتا ہے تو پہلے کڑی شرطیں لگا دیتا ہےت کہ اگر حسن وجمال میں ذرہ بھر بھی کمی ہوئی تو معاملہ ٹھیک نہیں رہے گا اور جب ابو صالح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شادی ہو گئی تو پہلی رات آپ نے یہ مہلت مانگی کہ آج رات بھر قرآن پڑھنے دیا جائے اور آج کل کا نوجوان جوڑا شادی کا افتتاح سینما یا کلب میں کرتا ہے۔ مگر ابو صالح تمام رات قرآن پڑھتے رہے۔ آدھی رات کے قریب نگاہ اٹھی تو سامنے ایک عورت جو شرم و حیاء کی پتلی تھی ایک چادر میں لپٹے دیکھا۔ ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ اٹھائی اور فوراً عبداللہ مومعی کے پاس گئے فرمایا، حضور ابھی تو ایک غلطی معاف نہ ہوئی تھی آج دوسری خطا سرزد ہوگئی۔ میری نگاہ ایک غیر عورت پر پڑ گئی۔

عبداللہ مومعی مسکرائے اور فرمایا بیٹا۔ وہ غیر عورت نہیں میری بیٹی اور تیری بیوی تھی۔ آپ یہ سن کر خوش ہوئے۔ فرمایا حضور وہ تو بالکل صحیح و سالم تھی اندھی یا لنگڑی تو نہ تھی۔ عبداللہ مومعی نے فرمایا میں نے اس کو اندھا اس لئے کہا تھا کہ آج تک اس نے کسی غیر مرد کو نہ دیکھا اور لنگڑا اس وجہ سے کہا تھا کہ اس کے پاؤں آج تک کسی بُری جگہ کی طرف نہیں اٹھے اور بہرا اس لئے کہا کہ اس کے کان میں آج تک کسی غیر مرد کی آواز نہیں گئی۔

نئی تہذیب کے علم بردارو سنا آپ نے یہ تھے باپردہ لوگ اور سنت نبوی کے پیرو۔ قرآن پر عمل کرنے والے۔ آپ کو معلوم ہے اس باپردہ خاتون نے کس ہستی کو جنم دیا۔ وہ ہستی کہ جس پر زمانے کے اولیاء ناز کرتے رہے جس کی غلامی زمانے کے قطبوں نے کی۔ یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

میرا خیال ہے جب تک عورتیں باپردہ تھیں اور باحیا تھیں تو گھر گھر قطب اور گلی گلی ولیوں کا دور دورہ تھا۔ جب عورتیں بے نقاب اور بے حیا ہوئیں تو چنگیز خاں اور ہلاکو پیدا ہوئے اور ہلاکو نے کروڑوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹوا دیا۔ پاکباز مائیں پاکباز اولاد پیدا کرتی ہیں اور جب پردہ ختم ہوگیا تو مغربیت کا دور آیا۔ عریانیت نے جنم لیا تو بچے بھی ماؤں کی محبت سے محروم ہوگئے انہیں دین کی صحیح ارکان تو کیا کلمہ تک یاد نہ رہا۔ میرے نزدیک پاکستان جو معرض وجود میں آیا یہ ان 30 فیصد عورتوں کا صدقہ ہے جو باپردہ تھیں یاد رکھئے آج اگر ہم بے پردہ ہوگئے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرق وسطی کا ہوا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ جب حیا جاتی رہی تو ایمان جاتا رہا اور جب قوم کا ایمان جاتا رہا تو اس کی تباہی قریب آ گئی۔


ماخذ
 
بہت عمدہ جناب مجھے لسان العصر سید اکبر الٰہ آبادی ایک شعر یاد آیا اس سے پہلے کہ کوئی ماڈرن مادام اس کو نقل کرے میں ہی کردیتا ہوں
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
میں نے کہا کہ آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مَردوں کی پڑ گیا
 

قیصرانی

لائبریرین
اسلام میں پردہ

اس پر آشوب دور میں جبکہ ہر طرف بے حیائی اور بے شرمی کا چرچا ہے دینی اقدار کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور مغربیت کو اپنایا جا رہا ہے۔ ایک مسئلہ در پیش ہے وہ ہے،“پردہ“۔آیا اس ترقی کے دور میں جب کہ عورت مرد کے دوش بدوش چل رہی ہے۔ کوئی آفس یا کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں عورت نظر نہ آئے۔ تو کیا پردہ برقرار رہ سکتا ہے تو آئیے ہم پردے کے بارے میں سب سے پہلے قرآن کو لیتے ہیں جس نے پردے کا حکم نازل کرکے پردہ کو ہر دور میں ضروری قرار دیا ہے۔ اللہ تعالٰیسورہ نورمیں ارشاد فرماتا ہے۔

(اے نبی) مسلمان مرد عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں ان کیلئے زیادہ صفائی کی بات ہے اور ہر مسلمان عورت سے کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ مگر جو اس (زینت) میں سے کھلا رہتا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں۔ مگر اپنے شوہروں پر اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی کے طور پر رہتے ہوں ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ناواقف ہیں۔ اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلون ہو جائے اور تم اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔“

ان آیات سے آپ کی سمجھ میں پردے کی اہمیت آگئی ہوگی اب ذرا اس دور میں ان لوگوں کا جائزہ لیں جو پردے کو لعنت سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ قرآن سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ وہ پردے کو لعنت سمجھ کر قرآن کی تکذیب کرتے ہیں ۔ پردہ عورت کی زینت ہے عورت کے معنی ہیں چھپانا یعنی عورت چھپانے کی شے ہے نہ کہ بے لگام اونٹ کی طرح سڑکوں پر گھومنے کا نام عورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر مرد کو اس کا محافظ بنادیا اور مرد کو عورت پر ایک درجہ زیادہ دے دیا گیا۔ پردہ ترقی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں پردے میں رہ کر عورتوں نے جو کام سر انجام دئیے ہیں اس دور میں مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نام سے کون واقف نہیں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ان کے علم و فضل کے مداح تھے۔ محدثین نے بھی ان کی علمی خدمات کو سراہا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جوکہ بیس سال کی عمر میں خاتونِ جنت کا درجہ پاگئیں کیا وہ باپردہ نہ تھیں جب ان کی وفات ہوئی تو فرمایا میرا جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ کسی کی نگاہ نہ پڑ سکے۔ یہ تھیں باپردہ اور باحیا خاتون جن کے نام زمانہ آج تک فخر کرتا ہے۔ حضرت رابعہ بصری جیسی مایہ ء ناز خاتون جن کے علم و زہد کا چرچا آج تک ہر ایک کی زبان پر باقی ہے اور نیکی کی مثال ان کا نام لیکر دی جاتی ہے کیا باپردہ خاتون نہ تھیں ؟؟ افسوس آج ماڈرن سوسائٹی نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا ہے بلکہ باپردہ خواتین کا مذاق اڑایا اور ان کو طرح طرح کے القاب سے نوازا جاتا ہے یعنی گنوار۔
اجڈ (uncivilized) کہا جاتا ہے۔

اس سے قبل کہ میں کچھ کہوں آپ کو پردے کے فوائد بتا دوں ان کو پڑھ کر آپ کو بےپردگی کے نقصان کا خود بخود اندازہ ہو جائے گا۔

  1. پردہ عورت و مرد کے درمیان خالص نفسانی اصلاح ہے۔
  2. پردہ شیطانیت کے امکانات کو ختم کرتا ہے۔
  3. پردہ زنا کے اسباب ختم کرتا ہے۔
  4. بے حیائی کو ختم کرتا ہے۔
  5. دو غیر جنسوں کو ملاپ سے جو نفسانی خواہشات جنم لے سکتی ہیں ان کو ختم کرتا ہے۔
  6. پردہ عروت کا وقار ہے۔
  7. پردہ عورت کے چہرے کا نور ہے۔

جبکہ بے پردگی عورت کے چہرے سے نسوانیت کو ختم کرتی ہے۔ اور یہ دور صرف بے پردگی تک ختم نہیں ہوا۔ بلکہ یہ عریانیت کہ جسم پر وہ کپڑا پہننا کہ جسم پوشیدہ تو کیا مذید خوبصورت دکھائی دینے لگا اور یہ ننگے جسم کھلے سڈول بازو عریاں ٹانگیں جو آج سڑکوں پر نظر آتی ہیں کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ کیا ہم اس کو اسلامی سلطنت کہہ سکتے ہیں۔ نہیں بلکہ مغربیت کا خالص نمونہ ہے اور دوسرے لفظوں میں نام نہاد ترقی کا دور ہے۔

اسلام حد سے تجاوز کر جانے والوں کو پسند نہیں کرتا اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ایسا نظام پیدا کر دیا کہ ہر آنے والے وقت کے تقاضوں کیلئے کافی ہے۔

آئیے ہم اس مبارک دور کا جائزہ لیں جبکہ ماں بہن بیٹی و بیوی کو اس کا جائز مقام دیا جاتا تھا۔ جبکہ نظروں میں حیاء تھی۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک نابینا صحابی آئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ان کو جھانک کر دیکھا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ تم اس غیر شخص کو کیوں دیکھ رہی ہو ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وہ تو نابینا ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جواب دیا اے عائشہ تم تو نابینا نہیں ہو۔

یہ تو تھا عہدِ رسالت جس کا کیا کہنا۔ اب دیکھئے صحابہ کا دور مبارک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دورِ خلافت ہے۔ ایک خاتون تمام رات زیور سے لدی ہوئی اونٹ پر تنہا سفر کرتی رہی لیکن کسی نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ کتنے با حیا تھے وہ لوگ اس لئے کہ عورتیں بھی بے حیا نہ تھیں جب عورت کی آنکھ سے حیا کا جنازہ نکلا تو مرد کی شرافت کا جنازہ بھی نکل گیا۔ اور اس نے مقدس عورت کو محض ایک کھلونا سمجھ کر جب جی چاہا دل بہلا لیا۔ جب جی چاہا توڑ کر پھینک دیا۔ عورت نے اپنے جسم کا ایک حصہ ننگا کیا تو مرد جو کہ محض تماشائی ہے اس نے باقی جسم کو بھی عریاں کردیا۔ جب مذید داد ملی تو عورت نے شراب کو بھی جائز سمجھ لیا۔ یہ ہے نئی تہذیب اور ماڈرن دور کی تعریف۔

آئیے اس سلسلے میں آپ کو ایک واقعہ سناؤں جو کسی نبی کا نہیں اور نہ صحابی کا بلکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں میں سے ایک غلام کا ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد ابو صالح ایک مرتبہ جوانی کے عالم میں سفر پر روانہ ہوئے راستہ میں ایک مقام پر بھوک کی شدت ہوئی دیکھا کہ ایک تالاب میں ایک سیب بہتا جا رہا ہے۔ آپ نے اٹھا کر کھانا شروع کیا۔ آدھا سیب کھانے کے بعد خیال آیا کہ مالکِ سیب کی اجازت کے بغیر یہ سیب کھا رہا ہوں۔ گناہ کا خیال آیا اور اس طرف چلنا شروع کردیا جس طرف سے سیب آ رہا تھا آخرکار ایک باغ کی طرف پہنچے سیب کے مالک کے بارے میں دریافت کیا معلوم ہوا کہ عبداللہ مومعی اس کے مالک ہیں آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور کہا، اے بزرگ میں نے آپ کے باغ کا سیب کھا لیا ہے۔ مجھے معاف فرما دیں۔ عبداللہ مومعی نے جواب دیا، دو شرطیں ہیں۔

پہلی شرط یہ کہ دس سال ایک باغ کی باغانی کرو۔ دوسری شرط بعد میں بتاؤں گا۔ اور جب ابو صالح دس سال باغ کی پرورش کرنے کے بعد عبداللہ مومعی کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا ایک سیب لاؤ تاکہ ہم دیکھیں کہ تم نے کس طرح باغ کی پرورش کی ہے۔ آپ نے ایک سیب لاکر دیا وہ پھیکا نکلا۔ عبداللہ مومعی نے فرمایا، تم کو دس سال میں یہ بھی پہچان نہ ہو سکی کہ سیب کونسا میٹھا ہوتا ہے ؟

ابو صالح بولے میں دس سال باغبانی کرتا رہا ہوں، حضور! سیب نہیں کھاتا رہا۔ ابھی تو آدھا سیب بھی نہیں معاف کرا سکا۔ اور سیب کھا کر مذید گناہگار ہوتا۔ یہ تھا ایمان اس وقت کے پاکباز جوان کا۔

ہاں تو دوسری شرط یہ بتائی کہ تم میری لڑکی سے شادی کرلو جو کہ اندھی لنگڑی اور بہری ہے۔ آپ نے یہ شرط بھی منظور کرلی۔

آج کے نوجوان کی شادی کا جب وقت آتا ہے تو پہلے کڑی شرطیں لگا دیتا ہےت کہ اگر حسن وجمال میں ذرہ بھر بھی کمی ہوئی تو معاملہ ٹھیک نہیں رہے گا اور جب ابو صالح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شادی ہو گئی تو پہلی رات آپ نے یہ مہلت مانگی کہ آج رات بھر قرآن پڑھنے دیا جائے اور آج کل کا نوجوان جوڑا شادی کا افتتاح سینما یا کلب میں کرتا ہے۔ مگر ابو صالح تمام رات قرآن پڑھتے رہے۔ آدھی رات کے قریب نگاہ اٹھی تو سامنے ایک عورت جو شرم و حیاء کی پتلی تھی ایک چادر میں لپٹے دیکھا۔ ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ اٹھائی اور فوراً عبداللہ مومعی کے پاس گئے فرمایا، حضور ابھی تو ایک غلطی معاف نہ ہوئی تھی آج دوسری خطا سرزد ہوگئی۔ میری نگاہ ایک غیر عورت پر پڑ گئی۔

عبداللہ مومعی مسکرائے اور فرمایا بیٹا۔ وہ غیر عورت نہیں میری بیٹی اور تیری بیوی تھی۔ آپ یہ سن کر خوش ہوئے۔ فرمایا حضور وہ تو بالکل صحیح و سالم تھی اندھی یا لنگڑی تو نہ تھی۔ عبداللہ مومعی نے فرمایا میں نے اس کو اندھا اس لئے کہا تھا کہ آج تک اس نے کسی غیر مرد کو نہ دیکھا اور لنگڑا اس وجہ سے کہا تھا کہ اس کے پاؤں آج تک کسی بُری جگہ کی طرف نہیں اٹھے اور بہرا اس لئے کہا کہ اس کے کان میں آج تک کسی غیر مرد کی آواز نہیں گئی۔

نئی تہذیب کے علم بردارو سنا آپ نے یہ تھے باپردہ لوگ اور سنت نبوی کے پیرو۔ قرآن پر عمل کرنے والے۔ آپ کو معلوم ہے اس باپردہ خاتون نے کس ہستی کو جنم دیا۔ وہ ہستی کہ جس پر زمانے کے اولیاء ناز کرتے رہے جس کی غلامی زمانے کے قطبوں نے کی۔ یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

میرا خیال ہے جب تک عورتیں باپردہ تھیں اور باحیا تھیں تو گھر گھر قطب اور گلی گلی ولیوں کا دور دورہ تھا۔ جب عورتیں بے نقاب اور بے حیا ہوئیں تو چنگیز خاں اور ہلاکو پیدا ہوئے اور ہلاکو نے کروڑوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹوا دیا۔ پاکباز مائیں پاکباز اولاد پیدا کرتی ہیں اور جب پردہ ختم ہوگیا تو مغربیت کا دور آیا۔ عریانیت نے جنم لیا تو بچے بھی ماؤں کی محبت سے محروم ہوگئے انہیں دین کی صحیح ارکان تو کیا کلمہ تک یاد نہ رہا۔ میرے نزدیک پاکستان جو معرض وجود میں آیا یہ ان 30 فیصد عورتوں کا صدقہ ہے جو باپردہ تھیں یاد رکھئے آج اگر ہم بے پردہ ہوگئے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرق وسطی کا ہوا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ جب حیا جاتی رہی تو ایمان جاتا رہا اور جب قوم کا ایمان جاتا رہا تو اس کی تباہی قریب آ گئی۔


ماخذ
اس پر ایک عجیب سا اعتراض اٹھتا ہے کہ نبی پاک کو چھوڑ کر، دیگر جتنے مشہور صحابہ ہیں، ان کی امہات (والدہ کی جمع) کیا پردے کی پابند تھیں کہ اتنے جلیل القدر صحابہ پیدا ہوئے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر پردے پر زور نہیں بلکہ تربیت پر زور دینا چاہیئے :)
 
اس پر ایک عجیب سا اعتراض اٹھتا ہے کہ نبی پاک کو چھوڑ کر، دیگر جتنے مشہور صحابہ ہیں، ان کی امہات (والدہ کی جمع) کیا پردے کی پابند تھیں کہ اتنے جلیل القدر صحابہ پیدا ہوئے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر پردے پر زور نہیں بلکہ تربیت پر زور دینا چاہیئے :)
اگر صرف ماں کے پردے کو نیک اولاد کے لیے کافی کہا گیا ہوتا تو یہ اعتراض اٹھتا ، کسی چیز کا ذکر نہ کرنا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں ۔ تربیت اپنی جگہ ضروری ہے اور اس کا ذکر اس کے اپنے مقام پر آتا ہے ۔ نیک نسل کی تربیت کے کئی عوامل ہیں جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا میٹھا ہو گا ۔
پاکباز مائیں پاکباز اولاد پیدا کرتی ہیں اور جب پردہ ختم ہوگیا تو مغربیت کا دور آیا۔ عریانیت نے جنم لیا تو بچے بھی ماؤں کی محبت سے محروم ہوگئے انہیں دین کی صحیح ارکان تو کیا کلمہ تک یاد نہ رہا۔ میرے نزدیک پاکستان جو معرض وجود میں آیا یہ ان 30 فیصد عورتوں کا صدقہ ہے جو باپردہ تھیں یاد رکھئے آج اگر ہم بے پردہ ہوگئے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرق وسطی کا ہوا ہے کیونکہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ جب حیا جاتی رہی تو ایمان جاتا رہا اور جب قوم کا ایمان جاتا رہا تو اس کی تباہی قریب آ گئی۔
اس بات سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا کہ جن ممالک میں عورتوں میں عریانیت عام ہے ، نسب محفوظ نہیں رہے ۔ مجھے واقعات ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ہماری پیاری مسلمان مائیں ہیں جن کے باوقار لباس کی وجہ سے ہمارے معاشرے محفوظ ہیں ۔ اللہ ان کو سلامت رکھے، ان کے عفت ، وقار اور حیا کی حفاظت فرمائے ۔
 
اگر صرف ماں کے پردے کو نیک اولاد کے لیے کافی کہا گیا ہوتا تو یہ اعتراض اٹھتا ، کسی چیز کا ذکر نہ کرنا اس کے عدم وجود کی دلیل نہیں ۔ تربیت اپنی جگہ ضروری ہے اور اس کا ذکر اس کے اپنے مقام پر آتا ہے ۔ نیک نسل کی تربیت کے کئی عوامل ہیں جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا میٹھا ہو گا ۔

اس بات سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا کہ جن ممالک میں عورتوں میں عریانیت عام ہے ، نسب محفوظ نہیں رہے ۔ مجھے واقعات ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ہماری پیاری مسلمان مائیں ہیں جن کے باوقار لباس کی وجہ سے ہمارے معاشرے محفوظ ہیں ۔ اللہ ان کو سلامت رکھے، ان کے عفت ، وقار اور حیا کی حفاظت فرمائے ۔
جزاک اللہ محترمہ، یہ تحریر بھی کسی محترمہ نازیہ عباس کی تھی۔ اس کا ماخذ بھی پہلے مراسلے کے آخر میں ہے۔ لوگ باگ نجانے کیا سمجھتے ہیں؟ مجھے خوشی ہوئی کہ حق کا آوازہ بلند کرنے کے لیے آپ نے اس دھاگے میں اپنے تاثرات، معلومات اور خیالات کا اظہار فرمایا
 
Top