اسلام میں شاعری کی حیثیت

علی وقار

محفلین
میرے خیال میں، اسلام نے قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ واضح الفاظ میں کہوں تو اسلام ڈکٹیٹ کرتا ہے اور ایک مسلم کو علوم و فنون کے حوالے سے دین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد، آپ کو بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی تحریر و تقریر اور جملہ فنون کے حوالے سے آزادی وہیں تک محدود ہے جس کا تعین کر دیا گیا ہے۔

جو اشعار میں نے اوپر بطور مثال پیش کیے ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شعرائے کرام میں سے بعض کا رجحان مکمل طور پر مذہبی شاعری کی طرف رہا، بعض الحاد کی طرف مائل رہے۔ کئی ایسے تھے جو اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرے۔ ایسے بھی ہیں جن کی شاعری میں ارتقاء نظر آیا۔ ایسے پیشہ ور شاعر ایسے بھی ہو گزرے جو کسی خاص سوچ اور فکر کے ما تحت نہ چلے، بلکہ مشاعروں اور شعری تقریبات کے موضوع کے لحاظ سے اشعار کہتے رہے۔ نعتیہ مشاعرہ ہوا تو نعت کہہ لی۔ بائیں بازو والوں نے مشاعرہ کروایا تو وہاں بھی انٹری ڈال لی۔

عامر بھائی نے فیض کا یہ شعر بطور مثال پیش کیا ہے،
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

فیض کی شعری عظمت میں کلام نہیں، مگر ایسے اشعار کی اسلام میں اجازت ہے یا نہیں یا ایسے اشعار کا کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم ہی ہے چاہے مجھے یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شعر کسی حوالے سے معروف شعری معیارات کے لحاظ سے کم درجے کا شعر ہے۔

میں خود ایسے اشعار پڑھتا ہوں، سچ کہوں تو ایک خاص طرح کا حظ بھی محسوس ہوتا ہے۔ فیض کی حوصلہ مندی کی داد بھی دیتا ہوں مگر جب میں اسلامی تعلیمات کے سامنے ایسے اشعار کو رکھ کر دیکھوں تو غیر جانب داری سے میری رائے یہی بنتی ہے کہ اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم کم ہی ہے، اس شعر کا تو پھر بھی کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے مگر ایسے اشعار بھی مل جائیں گے جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی علاقہ نہیں ۔

یہی حال دیگر فنون کا ہے۔ اسلام میں ڈراما، رقص، پرفارمننگ آرٹس کی کس قدر گنجائش ہے۔ میرے خیال میں، بہت زیادہ گنجائشیں موجود نہیں ہیں۔ ہم ڈرامے فلمیں دیکھ لیتے ہیں مگر مسلم اسے زیادہ تر برائی ہی تصور کرتے ہیں اور اس کی وجہ ہمیں خوب معلوم ہے۔ اسے منافقت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے مگر میرے خیال میں، اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کو یہ بندشیں تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ شاعری کا معاملہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔ اسلام میں شاعری کی حیثیت یہی ہے کہ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ کہی جائے جو مُسلمہ اسلامی عقائد کے بر خلاف ہو۔

قصہ مختصر، اسلام نے ہر ایک مسلم کے لیے خاص حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں، شعراء کو بھی کوئی استثناء حاصل نہیں۔ جواز تلاش کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔

اب یہ سوال واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ آیا اسلام ایک خشک مذہب ہے جس میں جملہ فنون اور بالخصوص پرفارمننگ آرٹس کے لیے زیادہ گنجائشیں موجود نہ ہیں تو اس کا جواب آپ سب بھی دیجیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسے معاملات کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ان کی اہمیت رکھی گئی ہے۔

بقول اقبال،
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرے خیال میں، اسلام نے قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ واضح الفاظ میں کہوں تو اسلام ڈکٹیٹ کرتا ہے اور ایک مسلم کو علوم و فنون کے حوالے سے دین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد، آپ کو بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی تحریر و تقریر اور جملہ فنون کے حوالے سے آزادی وہیں تک محدود ہے جس کا تعین کر دیا گیا ہے۔

جو اشعار میں نے اوپر بطور مثال پیش کیے ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شعرائے کرام میں سے بعض کا رجحان مکمل طور پر مذہبی شاعری کی طرف رہا، بعض الحاد کی طرف مائل رہے۔ کئی ایسے تھے جو اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرے۔ ایسے بھی ہیں جن کی شاعری میں ارتقاء نظر آیا۔ ایسے پیشہ ور شاعر ایسے بھی ہو گزرے جو کسی خاص سوچ اور فکر کے ما تحت نہ چلے، بلکہ مشاعروں اور شعری تقریبات کے موضوع کے لحاظ سے اشعار کہتے رہے۔ نعتیہ مشاعرہ ہوا تو نعت کہہ لی۔ بائیں بازو والوں نے مشاعرہ کروایا تو وہاں بھی انٹری ڈال لی۔

عامر بھائی نے فیض کا یہ شعر بطور مثال پیش کیا ہے،
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

فیض کی شعری عظمت میں کلام نہیں، مگر ایسے اشعار کی اسلام میں اجازت ہے یا نہیں یا ایسے اشعار کا کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم ہی ہے چاہے مجھے یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شعر کسی حوالے سے معروف شعری معیارات کے لحاظ سے کم درجے کا شعر ہے۔

میں خود ایسے اشعار پڑھتا ہوں، سچ کہوں تو ایک خاص طرح کا حظ بھی محسوس ہوتا ہے۔ فیض کی حوصلہ مندی کی داد بھی دیتا ہوں مگر جب میں اسلامی تعلیمات کے سامنے ایسے اشعار کو رکھ کر دیکھوں تو غیر جانب داری سے میری رائے یہی بنتی ہے کہ اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم کم ہی ہے، اس شعر کا تو پھر بھی کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے مگر ایسے اشعار بھی مل جائیں گے جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی علاقہ نہیں ۔

یہی حال دیگر فنون کا ہے۔ اسلام میں ڈراما، رقص، پرفارمننگ آرٹس کی کس قدر گنجائش ہے۔ میرے خیال میں، بہت زیادہ گنجائشیں موجود نہیں ہیں۔ ہم ڈرامے فلمیں دیکھ لیتے ہیں مگر مسلم اسے زیادہ تر برائی ہی تصور کرتے ہیں اور اس کی وجہ ہمیں خوب معلوم ہے۔ اسے منافقت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے مگر میرے خیال میں، اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کو یہ بندشیں تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ شاعری کا معاملہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔ اسلام میں شاعری کی حیثیت یہی ہے کہ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ کہی جائے جو مُسلمہ اسلامی عقائد کے بر خلاف ہو۔

قصہ مختصر، اسلام نے ہر ایک مسلم کے لیے خاص حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں، شعراء کو بھی کوئی استثناء حاصل نہیں۔ جواز تلاش کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔

اب یہ سوال واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ آیا اسلام ایک خشک مذہب ہے جس میں جملہ فنون اور بالخصوص پرفارمننگ آرٹس کے لیے زیادہ گنجائشیں موجود نہ ہیں تو اس کا جواب آپ سب بھی دیجیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسے معاملات کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ان کی اہمیت رکھی گئی ہے۔

بقول اقبال،
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
صرف شاعری پر ہی قدغنیں نہیں لگائی گئیں، زندگی کے ہر شعبے میں اسلام اپنا ایک جداگانہ تصور رکھتا ہے باقی دنیا سے جو بالکل مختلف ہے حتیٰ کہ جنگوں کا بھی ایک خاص قانون ہے۔
 
علی وقار
سید عمران
محمد عبدالرؤوف
زیک
سیما علی

گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

معزز محبان اردو محفل آج ہم سورہ الشعرا کی آیت:

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَﭤ°اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ°وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ°
ترجمہ: "اور شعرا کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔"

پر بات کریں گے کہ اس آیت کریمہ کے معانی و مفاہیم کیا ہیں اور وقت نزول اس کے مخاطبین کون لوگ تھے۔ وجہ نزول تو سبھی کو معلوم ہے کہ کفار مکہ جناب سید الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ صرف شاعر کہتے بلکہ قرآن پاک کو کلام موزوں سمجھتے جس کے رد میں اللہ رب العزت نے دیگر مقامات پر مختلف آیات نازل فرمائیں۔

جیسا کے اس آیت کریمہ کے فورا بعد اللہ رب العزت نے اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور اللہ کا بہت ذکر کیا فرما کر یہ بات اظہر من الشمس فرما دی کہ جو آیہ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا کے مخاطب ہیں اور اس زمرہ میں داخل ہیں وہ الْغَاوٗنَ اور مالایفعلون سے مستثنی ہیں۔ اس سے ایک اور بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ وقت نزول اگر صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین آیہ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا کے مخاطبین اول ہیں تو وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ کے مخاطب یقینا کفار و مشرکین ہیں جو غلو سے کام لیتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں میں سمجھتا ہوں کہ آیہ اولا یعنی وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ کے مخاطب وہ لوگ ہے جو کلام موزوں کو کہنے کے ذوق و شوق میں اس قدر بے خود رہتے ہیں کہ وہ احکام شریعت کی اطاعت و پروی سے غافل ہو جاتے ہیں۔اور اپنی سخن وری کے نشے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو بعض دفعہ قرآن و سنت کےغیر موافق ہوتی ہیں۔

علامہ سید نصیر الدین نصیر گیلانی سورہ الشعرا کی انھیں آیات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

" اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کا استثناء بھی تو کتاب اللہ میں موجود ہے اور صراحتا تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کے زیر تفسیر مرقوم ہے۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ من الشعراء یعنی شعرا میں سے وہ لوگ جو صاحب ایمان بھی ہیں اور اعمال صالحہ بھی کرتے ہیں۔ وہ اس وعید کی زد میں نہیں، بلکہ وہ لوگ تو وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا کی شان والے ہیں، جس کی تفسیر صاحب جلالین نے یوں کی ہے کہ أى لم يشغلهم الشعر عن الذكر یعنی ان کو شعر و شاعری میں انہماک ذکر الہی سے غافل نہیں کر سکتا۔"

اور اسی مضمون کو صاحب روح البیان نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ

" اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ شعرائے صالحین اور مومنین کا استثناء ہے یعنی مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ اللہ تعالی کی یاد کی كَثِيْ۔رًا بکثرت، اس لیے ان کے اشعار مبنی بر توحید و ثنا علی اللہ ہیں۔"

اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ° کی صاحب روح البیان نے کیا ہی خوبصورت تفسیر بیان کی ہے آپ لکھتے ہیں کہ

"الم تر اے وہ شخص جس کی شان رئویت ہے کیا تو نے نہیں دیکھا یعنی بے شک تو نے دیکھا ہے اور معلوم کیا ہے انھم بے شک وہ شعرا فی کل واد ہر وادی میں یعنی مدح و ذم اور ہجو و کذب اور فحش و شتم اور لعن و افترا اور دعاوی و تکبر اور مفاخر و تحاسد اور ریاکاری و عجب اور اظہار فضل و انائیت و خشت اور طمع و لالچ اور ذلت و خواری و دیگر قسم قسم کے اخلاق رذیلہ و طعن الانساب و الاعراض و دیگر ایسی آفات و بلیات کے چکر میں ہیں، جیسا کہ فن شعر گوئی میں عموما ہوتا ہے یھیمون۔"
علامہ اسماعیل حقی وادی کے حوالے سے امام راغب سے نقل کرتے ہیں کہ
"وادی در اصل اس جگہ کو کہا جاتا ہے جس میں پانی بہتا ہو اور دو پہاڑوں کے درمیان کے کھلے راستہ کو بھی وادی سے تعبیر کرتے ہیں۔ استعارہ طریقہ مثلا مذہب و اسلوب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے:
فلان فی واد غير واديك یعنی فلاں تیرے طریقے (مذہب) کے غیر پر ہے۔"

اور اس کے بعد آپ تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ

"اور اب اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَ کا معنی یہ ہوا کہ وہ کلام کے اسالیب مدح، ہجو، غزل، جدول میں بھٹکتے رہتے ہیں۔"

وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں مَا لَا یَفْعَلُوْنَ جو وہ خود کرتے نہیں یعنی کہ عام طور پر شعرا ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے ان کا دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا جسے عام معانی میں منافقت بھی کہا جاسکتا ہے کہ کہنا کچھ اور کرنا کچھ اور جو کرنا وہ کہنا نہیں اور جو کہنا اس سے دور دور تک بھی تعلق نہیں۔

ان شاءاللہ آئندہ نشست میں ہم شعر کی قرآن و سنت کے مطابق تعریف اور جناب سید ولد آدم حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا ذوق سماعت شعر اور شعرا و اشعار کے متعلق احادیث مبارکہ سے استفادہ کریں گے۔

*نوٹ: وہ احادیث مبارکہ ہمارے ذہن میں ہیں جن میں سورہ الشعرا کی آیات پر صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کا جناب معلم کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور پیش ہونا بیان کیا گیا ہے۔ یہاں فقط قرآن پاک سے استدلال کرنا مناسب سمجھا گیا ہے۔
والسلام
عامر گولڑوی
 
آخری تدوین:
دخل در معقولات کے لیے معذرت عامر صاحب، یہ شعر فیض احمد فیض کا ہے۔
جی بالکل معافی چاہتا ہوں فیض صاحب کی جگہ احمد ندیم قاسمی لکھ دیا اصل میں یہ غزل میری پسندیدہ ہے لیکن پھر بھی نجانے کیوں قاسمی صاحب کا نام لکھ دیا۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں، اسلام نے قدغنیں لگا رکھی ہیں۔ واضح الفاظ میں کہوں تو اسلام ڈکٹیٹ کرتا ہے اور ایک مسلم کو علوم و فنون کے حوالے سے دین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد، آپ کو بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی تحریر و تقریر اور جملہ فنون کے حوالے سے آزادی وہیں تک محدود ہے جس کا تعین کر دیا گیا ہے۔

جو اشعار میں نے اوپر بطور مثال پیش کیے ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شعرائے کرام میں سے بعض کا رجحان مکمل طور پر مذہبی شاعری کی طرف رہا، بعض الحاد کی طرف مائل رہے۔ کئی ایسے تھے جو اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرے۔ ایسے بھی ہیں جن کی شاعری میں ارتقاء نظر آیا۔ ایسے پیشہ ور شاعر ایسے بھی ہو گزرے جو کسی خاص سوچ اور فکر کے ما تحت نہ چلے، بلکہ مشاعروں اور شعری تقریبات کے موضوع کے لحاظ سے اشعار کہتے رہے۔ نعتیہ مشاعرہ ہوا تو نعت کہہ لی۔ بائیں بازو والوں نے مشاعرہ کروایا تو وہاں بھی انٹری ڈال لی۔

عامر بھائی نے فیض کا یہ شعر بطور مثال پیش کیا ہے،
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

فیض کی شعری عظمت میں کلام نہیں، مگر ایسے اشعار کی اسلام میں اجازت ہے یا نہیں یا ایسے اشعار کا کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم ہی ہے چاہے مجھے یہ بات پسند آئے یا نہ آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شعر کسی حوالے سے معروف شعری معیارات کے لحاظ سے کم درجے کا شعر ہے۔

میں خود ایسے اشعار پڑھتا ہوں، سچ کہوں تو ایک خاص طرح کا حظ بھی محسوس ہوتا ہے۔ فیض کی حوصلہ مندی کی داد بھی دیتا ہوں مگر جب میں اسلامی تعلیمات کے سامنے ایسے اشعار کو رکھ کر دیکھوں تو غیر جانب داری سے میری رائے یہی بنتی ہے کہ اسلام میں ایسی شاعری کی گنجائش کم کم ہی ہے، اس شعر کا تو پھر بھی کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے مگر ایسے اشعار بھی مل جائیں گے جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی علاقہ نہیں ۔

یہی حال دیگر فنون کا ہے۔ اسلام میں ڈراما، رقص، پرفارمننگ آرٹس کی کس قدر گنجائش ہے۔ میرے خیال میں، بہت زیادہ گنجائشیں موجود نہیں ہیں۔ ہم ڈرامے فلمیں دیکھ لیتے ہیں مگر مسلم اسے زیادہ تر برائی ہی تصور کرتے ہیں اور اس کی وجہ ہمیں خوب معلوم ہے۔ اسے منافقت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے مگر میرے خیال میں، اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کو یہ بندشیں تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ شاعری کا معاملہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔ اسلام میں شاعری کی حیثیت یہی ہے کہ اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ کہی جائے جو مُسلمہ اسلامی عقائد کے بر خلاف ہو۔

قصہ مختصر، اسلام نے ہر ایک مسلم کے لیے خاص حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں، شعراء کو بھی کوئی استثناء حاصل نہیں۔ جواز تلاش کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔

اب یہ سوال واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ آیا اسلام ایک خشک مذہب ہے جس میں جملہ فنون اور بالخصوص پرفارمننگ آرٹس کے لیے زیادہ گنجائشیں موجود نہ ہیں تو اس کا جواب آپ سب بھی دیجیے۔ میرے خیال میں، اسلام میں ایسے معاملات کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ان کی اہمیت رکھی گئی ہے۔

بقول اقبال،
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
اسلام کا دائر ہ اس قدر تنگ کر کے خرافات کے نام پر فنونِ لطیفہ بند کریں گے تو لہو ولعب کے نام پر اسپورٹس کیوں بند نہ ہوں۔ صرف چرب زبانی رکھیے جو دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکے اور صرف ورزش رکھیے جو قتال میں کام آ سکے۔ اور تعلیم تو صرف دینی ضروری ہے اور چولہا چوکی کے لیے وہ بھی ضروری نہیں، و علیٰ ہذا لقیاس۔
 

علی وقار

محفلین
اسلام کا دائر ہ اس قدر تنگ کر کے خرافات کے نام پر فنونِ لطیفہ بند کریں گے تو لہو ولعب کے نام پر اسپورٹس کیوں بند نہ ہوں۔ صرف چرب زبانی رکھیے جو دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکے اور صرف ورزش رکھیے جو قتال میں کام آ سکے۔ اور تعلیم تو صرف دینی ضروری ہے اور چولہا چوکی کے لیے وہ بھی ضروری نہیں، و علیٰ ہذا لقیاس۔
میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ تاہم، اسلامی تعلیمات کی رُو سے جو کچھ مجھے سمجھ آیا، عرض کر چکا ہوں۔ فنون لطیفہ کی اہمیت اسلام میں آٹے میں نمک برابر ہی محسوس ہوتی ہے یا پھر یہی بات ہے کہ میری سوچ انتہائی سطحی نوعیت کی ہے۔
 
محترم محمد وارث صاحب اور جناب علی وقار صاحب میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہےالبتہ توحید و رسالت کے معاملہ میں یقینا سختی ہے اور ہمیں بھی چاہیے بطور مسلمان ہم مقام خداوندی اور مرتبہ رسالت کو ملحوظ حاطر رکھیں نہ صرف عبادات کی حد تک بلکہ اپنی زبان و بیان اور روزمرہ کے معاملات میں بھی۔ فنون لطیفہ کے حوالے سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ تمام علوم کا منبہ وہ ذات پاک ہے جس نے مختلف ادوار میں ضرورت انسانی کے عین مطابق مختلف علوم کا ظہور فرمایا۔ جن کا درست استعمال بھی کیا گیا اور غلط بھی خلاصہ کہ استعمال پر تنقید کی جاسکتی ہے نہ کہ فنون پر۔
باقی آپ بزرگواران اصلاح فرما سکتے ہیں۔
یاد رکھیے
بزرگی بہ عقل است نہ بسال
 

محمد وارث

لائبریرین
میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں۔ تاہم، اسلامی تعلیمات کی رُو سے جو کچھ مجھے سمجھ آیا، عرض کر چکا ہوں۔ فنون لطیفہ کی اہمیت اسلام میں آٹے میں نمک برابر ہی محسوس ہوتی ہے یا پھر یہی بات ہے کہ میری سوچ انتہائی سطحی نوعیت کی ہے۔
بات اب رائے تک آ گئی ہےمحترم تو یہی بات ہے کہ رائے اپنی اپنی۔ یہی بات ایک شعر کو پڑھتے ہوئے بھی درست ہے، کسی کی رائے میں وہ غیر اسلامی ہو سکتا ہے اور کسی کی رائے میں قطعاً نہیں۔ سو اس کو انسانی رائے پر ہی چھوڑ دینا چاہیئے نہ کہ مذہب کا رنگ چڑھا کر قطعی حکم لگا دیا جائے۔
 
بات اب رائے تک آ گئی ہےمحترم تو یہی بات ہے کہ رائے اپنی اپنی۔ یہی بات ایک شعر کو پڑھتے ہوئے بھی درست ہے، کسی کی رائے میں وہ غیر اسلامی ہو سکتا ہے اور کسی کی رائے میں قطعاً نہیں۔ سو اس کو انسانی رائے پر ہی چھوڑ دینا چاہیئے نہ کہ مذہب کا رنگ چڑھا کر قطعی حکم لگا دیا جائے۔
مومن خان مومن کا ایک شعر
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تو اس کو مجھ جیسے دنیا دار تو اپنی محبوبہ کے طرف لے جاتے ہیں اور اہل حق اسے اس خالق کل کی جانب۔ مولانا نور الدین عبدالرحمن جامی نے کہا تھا کہ
گر عشق حقیقت و گر عشق مجاز است
مقصود ازیں ہر دو را سوز و گداز است
 

عرفان سعید

محفلین
کفار مکہ جناب سید الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ صرف شاعر کہتے بلکہ قرآن پاک کو کلام موزوں سمجھتے جس کے رد میں اللہ رب العزت نے دیگر مقامات پر مختلف آیات نازل فرمائیں۔
کفار مکہ اس کے متعلق الجھن کا شکار تھے کہ یہ ایک شاعرانہ کلام ہے یا نہیں کیونکہ قرآن کی آیات کے صوتی آہنگ، موسیقیت اور قوافی کے باعث وہ قرآن کو شاعر کا کلام تو کہتے تھے لیکن اس الجھن کا بھی شکار تھے کہ اپنی بے پناہ فصاحت و بلاغت کے باوجود یہ کلام شاعری نہیں۔ قرآن نے کفارِ مکہ کے اس تذبذب کو خود سورۃ الحاقہ میں بیان کیا ہے کہ کبھی اسے شاعر کا کلام کہتے اور کبھی کسی کاہن کا۔
فَلاَ أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿38﴾ وَمَا لاَ تُبْصِرُونَ ﴿39﴾ إِنَّه لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿40﴾ وَمَا هوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ ﴿41﴾ وَلاَ بِقَوْلِ كَاهنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ﴿42﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿43﴾
 

عرفان سعید

محفلین
ان شاءاللہ آئندہ نشست میں ہم شعر کی قرآن و سنت کے مطابق تعریف
یہ بھی دلچسپ ہو گا !
شعر تو قرآن کے نزول سے پہلے کہے جا رہے تھے۔جن فنی بنیادوں پر آج شعر کی تعریف کی جاتی ہے بعینہ انہی بنیادوں پر نزولِ قرآن سے پہلے کی شاعری کو پرکھا جا سکتا ہےتو قرآن نے شعر کی کونسی نئی تعریف فراہم کی؟ باقی کتابِ اللہ کا نہ یہ موضوع ہے اور نہ مقام۔
 

علی وقار

محفلین
بات اب رائے تک آ گئی ہےمحترم تو یہی بات ہے کہ رائے اپنی اپنی۔ یہی بات ایک شعر کو پڑھتے ہوئے بھی درست ہے، کسی کی رائے میں وہ غیر اسلامی ہو سکتا ہے اور کسی کی رائے میں قطعاً نہیں۔ سو اس کو انسانی رائے پر ہی چھوڑ دینا چاہیئے نہ کہ مذہب کا رنگ چڑھا کر قطعی حکم لگا دیا جائے۔
درست بات ہے۔ قطعی حکم لگانا غلط ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ بھی دلچسپ ہو گا !
شعر تو قرآن کے نزول سے پہلے کہے جا رہے تھے۔جن فنی بنیادوں پر آج شعر کی تعریف کی جاتی ہے بعینہ انہی بنیادوں پر نزولِ قرآن سے پہلے کی شاعری کو پرکھا جا سکتا ہےتو قرآن نے شعر کی کونسی نئی تعریف فراہم کی؟ باقی کتابِ اللہ کا نہ یہ موضوع ہے اور نہ مقام۔
قرآن نے اگر وضاحت سے شعرا کچھ کے متعلق کچھ کہا ہے تو وہ مذمت ہی ہے چند استثنا کے ساتھ۔
ہاں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کچھ اشعار کو حکمت کہا ہے یہ دوسری بات ہے۔ لیکن واضح طور پر اس کی ترغیب شاید کہیں نہیں دی گئی۔اور ترغیب دی بھی جاتی تو کیا، کیونکہ شاعری تو پہلے سے عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔
 

عرفان سعید

محفلین
شاعری کے اندر ایک طرح کا مبالغہ ہوتا ہے جو فشارِ خیالات اور تخیل کی جولانی سے پھوٹتا ہے اور یہی شاعری کا حسن ہے۔ ہر شعر کو ہر شخص اپنی فہم کے مطابق مذہب کی ترازو میں تولنا شروع کر دے تو میرا خیال ہے اقبال کے حکیم الامت اور اس قبیل کے تمام القابات وغیرہ واپس لینا ہوں گے :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بات اب رائے تک آ گئی ہےمحترم تو یہی بات ہے کہ رائے اپنی اپنی۔ یہی بات ایک شعر کو پڑھتے ہوئے بھی درست ہے، کسی کی رائے میں وہ غیر اسلامی ہو سکتا ہے اور کسی کی رائے میں قطعاً نہیں۔ سو اس کو انسانی رائے پر ہی چھوڑ دینا چاہیئے نہ کہ مذہب کا رنگ چڑھا کر قطعی حکم لگا دیا جائے۔
جس طرح ہم عام عبارت یا اپنے کسی قول کے خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں شاعری کو بھی اسی پیمانے سے دیکھنا چاہیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جب کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شاعری کی ہے جن میں باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی شامل ہوں تو یقیناً شاعری اچھی چیز ہے، اور دوسری طرف دیکھیں کہ سبع معلقات کا سب سے بڑا شاعر امر القیس ہے، جس کا کلام اپنے فن کے حوالے سے کمال ہے۔ لیکن اُس نے انتہائی بے حیائی کی باتیں کی ہوئیں ہیں۔ اس زاویے سے دیکھیں تو شاعری بری چیز ہے۔
بس زاویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ فن کی بیخ کنی کرنے کی۔
 

La Alma

لائبریرین
اور شعراء کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔”

کیا واقعی شعراء حقیقتاً ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں؟ اگر یہ وادئ خیال ہے تو یہ بذاتِ خود ایک شاعرانہ بات ہوئی۔ایک انسان اگر اس پیرائے میں بات کرے گا تو یہ خیال آفرینی اور بے اصل بات کہلائے گی۔ لیکن خدا کا خیال، خیالِ محض نہیں ہوتا۔ کلامِ خدا میں کوئی تشبیہہ، کوئی استعارہ، کوئی تمثیل، کوئی علامت فقط زیبِ داستان کے لیے استعمال نہیں ہوئی۔ اسکا ایک ایک حرف حقیقت کے کئی سر بستہ رازوں سے پردے اٹھاتا ہے، اس لیے قابلِ تقلید ہے۔ جبکہ انسان کے کلام میں یہ چیز عنقا ہے۔ وہ اپنی سخن طرازی سے حقیقت پر بھی کئی حجاب ڈال دیتا ہے سو بہتوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔
لیکن یہ بات صرف منظوم کلام پر ہی صادق نہیں آتی۔ اسکا اطلاق نثر پر بھی ہوتا ہے۔ ہزاروں قصے، کہانیوں اور گمراہ کن روایتوں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہوئے ہیں اور یہ زیادہ تر نثر میں ہی ہیں۔ چونکہ قرآن کا اسلوب نثر کی نسبت شعر کے زیادہ قرین ہے اس لیے معتضرین کا شک رفع کیا گیا ہے کہ یہ محض کسی شاعر کا کلام نہیں کیونکہ ایک شاعر تو خود اپنے خیال کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوتا۔
ویسے ایک سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو معاملاتِ زندگی میں شاعروں کی پیروی کرتے ہونگے۔ لیکن کاہنوں اور ستارہ شناسوں کے پیروکار توہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ستارہ شناس علمِ غیب کا دعویٰ کر کے لوگوں کو راہ سے بھٹکاتے بھی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی منکرین کاہن ہونے کا شبہ ظاہر کرتے تھے کیونکہ وہ لوگوں کو آخرت اور غیب کی خبروں پر مطلع کرتے تھے۔ کہیں یہاں ستارہ شعرٰی یا علمِ نجوم کا تذکرہ تو نہیں، جن کے ماہر ین مختلف بروج، سیاروں اور ستاروں کے میدان میں بھٹکتے پھرتے ہیں!
 
Top