بیوی کے خاوند پر حقوق
بیوی سے اچھا سلوک کرنا خاوند کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ہے،اس کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"عورتوں سے بہتر سلوک کرو عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اس کا بلند حصہ ہے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو ٹیڑھی ہی رہے گی،لہذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔"
ایک اور روایت میں ہے:
ان المرأة خلقت من ضلع لن تستقيم لك على طريقة فإن استمتعت بها استمتعت بها وبها عوج وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔وہ تیرے لیے کسی طرح سیدھی نہ ہو گی ۔لہذا اگر تو اس سے،اس کی ٹیڑھی حالت میں ،فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اٹھا لے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے۔"
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
لا يفرك مؤمن مؤمنه إن كره منها خلقا رضى منها آخر(صحیح مسلم)
"کوئی مومن مرد،مومنہ عورت،یعنی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اسےاس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کوئی دوسری پسند ہو گی۔"
اور لا يفرك کے معنی "بغض نہ رکھنا" ہیں۔ان احادیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرے۔اسے چاہیے کہ جو کچھ بیوی کی ذات سے میسر آئے،لے لے کیونکہ جس طبیعت پر وہ پیدا کی گی ہے وہ کامل درجے پر نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے اور آدمی اس طبیعت سمیت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے ۔ن احادیث میں یہ ہدایت بھی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرے۔کیونکہ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو اس کے ساتھ دوسری عادت ایسی بھی ہو گی جواسے پسند ہو گی ،لہذا اس کی طرف صرف ناراضی اور کراہت ہی کی نظر سے نہ دیکھے۔
بہت سے شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے،اسی لیے ان کی گزر بسر تنگ ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بیویوں سے فائدہ ٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔اس کا نتیجہ بسا اوقات طلاق ہوتا ہے
جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔"
لہذا خاوند کو چاہیے کہ بیوی سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے درگزر کرے بشرطیکہ وہ دین اور شرافت سے خالی نہ ہو۔خاوند ،بیوی کے کھانے پینے،پوشاک اور اس کے جملہ لوازم کا ذمہ دار ہے۔فرمان الہی ہے:
وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ
ترجمہ: اور دستور کے مطابق ان کی خوراک اور پوشاک بچے کے باپ کے ذمے ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت 233)
(اور حدیث مبارکہ ہے۔)
ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف (سنن ابی داؤد)
"اور دستور کے مطابق تمہاری بیویوں کی خوراک اور پوشاک تمہارے ذمہ ہے۔"
نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت " أو " اكسبت " " ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت (سنن ابی داؤد)
"جب تو کھانا کھائے تو اسے کھانا کھلا اور جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا اور اس کے منہ پر نہ مار،(نہ)اسے برا بھلا نہ اس سے قطع تعلق کر مگر یہ کہ گھر کے اندر اندر۔"
بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے عدل کیا جائے۔اگر کاوند کی دوسری بیوی ہو تو ان دونوں کے اخراجات ،رہائش ،شب بسری،غرضیکہ تمام امور میں ممکن حد تک عدل کرے کیونکہ ان میں سے ایک کی جانب میلان رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل (سنن ابی داؤد)
"جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔"
البتہ وہ امور جن میں عدل ممکن نہ ہو ،جیسے محبت اور دل کی خوشی تو ان میں خاوند پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔
فرمان الہی ہے:
وَلَن تَسْتَطِيعُوٓا۟ أَن تَعْدِلُوا۟ بَيْنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ
ترجمہ: اگر تم چاہو بھی تو اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے۔(سورۃ النساء،آیت 129)
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے درمیان شب بسری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔آپ عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے:
اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك*
"اے اللہ !یہ میری تقسیم ایسے معاملے میں ہے جس میں میرا اختیار ہے اور جس بات میں تیرا اختیار ہے ،میرا نہیں،اس پر مجھے ملامت نہ فرمانا۔"
*یہ نوٹ کر لیں([ قال أبو داود ] يعني القلب . K ضعيف يعني القلب)اس حدیث کی سند کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن جہاں سے یہ حدیث لی ہے وہاں یہ لکھا ہوا تھا۔اللہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے آمین۔
لیکن اگر کوئی بیوی شب بسری کے معاملے میں اپنی باری خوشی سے دوسری بیوی کو ہبہ کر دے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری ایک دن مقرر کی،پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی۔
رسول اللہ ﷺ اس بیماری کے دوران جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی،پوچھا کرتے تھے،کل میں کہاں ہوں گا،کل میں کہاں ہوں گا۔۔۔۔؟توآپ کی بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت عائچہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما رہے تا آنکہ آپ کی وفات ہو گئی۔