اسلام میں بنیادی حقوق

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
نام کتاب​
اسلام میں بنیادی حقوق​
تالیف​
شیخ محمد بن صالح العثیمین​
ناشر​
دارالسلام​
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
مقدمہ​
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے۔ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں،اسی سے مدد چاہتے ہیں،اسی سے معافی طلب کرتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کی شر زنگیزیوں اور اعمال کی برائیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔​
اللہ تعالیٰ جسے ہدایت نصیب فرمادے،اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے،اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ پر،آپ کی آل و اصحاب رضی اللہ عنھم پر اور ہر اس شخص پر جس نے بھلائی کے ساتھ ان کا اتباع کیا،رحمت اور سلامتی نازل فرمائے۔​
اللہ تعالیٰ کی شریعت کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں عدل کا لحاظ رکھا گیا ہے تاکہ ہر صاحب حق کو کسی کمی بیشی کے بغیر اس کا حق دیا جائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عدل ،احسان اور قریبی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔عدل کے ساتھ ہی رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں اور عدل ہی سے دنیا و آخرت کے امور قائم ہیں۔​
عدل کا معنی ہے "برابری کرنا" یعنی ہر صاحب حق کو اس کا پورا پورا حق دینا ۔یہ بات تب ہی پوری ہو سکتی ہے جب حقوق کی معرفت حاصل ہو تاکہ مستحق کو اس کا حق دیا جا سکے۔اسی غرض سے ہم نے ان اہم حقوق کی معرفت اور وضاحت کے لیے یہ رسالہ لکھا ہے تاکہ ہر شخص حسب استطاعت انہیں ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم کا مستحق ٹھہرے۔​
 
اللہ تعالیٰ کے حقوق​
اللہ تعالیٰ کا حق تمام حقوق سے زیادہ ضروری ہے اور سب سے اہم ہے۔کیونکہ وہ اس کائنات کا خالق و مالک اور تمام تر امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔وہ زندہ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کا نطام سنبھالے ہوئے ہے،اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اپنی حکمت بالغہ سے اس کا اندازہ کیا۔انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ،پھر انسان کو اپنے احسانات یاد کرائے کہ اے انسان !تجھ پر اس ذات کا حق ہے جس نے نعمتوں کے ساتھ تیری پرورش کی۔تو اپنی ماں کے پیٹ میں تین طرح کے اندھیروں میں تھا۔جہاں مخلوقات میں کوئی بھی تجھے غذا یا ایسی اشیاء نہیں پہنچا سکتا تھا جو تیری افزائش اور زندگی کو قائم رکھنے والی ہوں۔اس نے ماں کی چھاتیوں میں وافر دودھ اتارا،تجھے اس کی راہ دکھلائی اور تیرے والدین کو تیرا محسن بنا دیا۔تیری امداد کی اور تجھے کامیاب کیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَٱللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّنۢ بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْ۔ًۭٔا وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَٱلْأَفْ۔ِٔدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿78﴾​
ترجمہ: اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور اُن کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو (سورۃ النحل،آیت 78​
اے انسان! اگر اللہ تعالیٰ لمحہ بھر کے لیے اپنا فضل اور رحمت روک لے تو تو ہلاک ہو جائے۔جب انسان پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل اور اس قدر رحمت ہے تو پھر اس کا حق بھی تمام حقوق سے زیادہ اہم ہے۔اللہ تعالیٰ انسان سے (نہ) زق مانگتا ہے نہ کھانا۔ارشاد ربانی ہے:​
لَا نَسْ۔َٔلُكَ رِزْقًۭا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَٱلْعَٰقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ ﴿132﴾​
ترجمہ: ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے ہم تجھے روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا انجام اچھا ہے (سورۃ طہ،آیت 132)​
 
اللہ تعالیٰ تجھ سے صرف ایک ہی چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس میں تیرا ہی فائدہ ہے اور وہ یہ کہ تو اس اکیلے کی عبادت کر جس کا کوئی شریک نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍۢ وَمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴿57﴾إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ ﴿58﴾​
ترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیےمیں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیںبے شک الله ہی بڑا روزی دینے والا زبردست طاقت والا ہے (سورۃ الذاریات،آیت 56-58​
وہ تجھ سے صرف یہ چاہتا ہے کہ عبودیت کہ ہر پہلو سے تو اس کا بندہ بن جا۔جیا کہ ربوبیت کے ہر پہلو سے وہ تیرا پروردگار ہے۔ایسا بندہ جو اسی کے سامنے عجز و انکسار کا اظہار کرے اور اس کی مکمل اطاعت کرے کیونکہ اس نے تجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔کیا ایسے منعم حقیقی کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی؟​
اگر لوگوں میں سے کوئی تجھ پر احسان کرتا تو (اے انسان) تو اس کی نافرمانی اور مخالفت پر اُتر آنے سے ضرور شرماتا،پھر اپنے پروردگار سے تیرا معاملہ کیسا ہے کہ جو کچھ بھی تیرے پاس ہے وہ سب اسی کے فضل سے ہے اور اگر تجھ پر کوئی مصیبت نہیں آتی تو وہ صرف اسی کی رحمت سے رکی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:​
وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍۢ فَمِنَ ٱللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ ٱلضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْ۔َٔرُونَ﴿53﴾​
ترجمہ: اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ پھر جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے چلاتے ہو (سورۃ النحل،آیت 53)​
اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے صرف یہ حق واجب کیا ہے کہ اس کی خالص عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔جسے اللہ تعالیٰ توفیق دے،اسے یہ حق ادا کرنا نہایت آسان ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:​
وَجَٰهِدُوا۟ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦ ۚ هُوَ ٱجْتَبَىٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۢ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٰهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّىٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا۟ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱعْتَصِمُوا۟ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَىٰكُمْ ۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ ﴿78﴾​
ترجمہ: اور الله کی راہ میں کوشش کرو جیسا کوشش کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں پسند کیا ہے اور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی تمہارے باپ ابراھیم کا دین ہے اسی نے تمہارا نام پہلے سےمسلمان رکھا تھااوراس قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ بنے اور تم لوگو ں پر گواہ بنو پس نماز قائم کرو اور زکوٰة دو اور الله کو مضبوط ہو کر پکڑو وہی تمہارا مولیٰ ہے پھر کیا ہی اچھامولیٰ اور کیا ہی اچھا مددگار ہے (سورۃ الحج،آیت 78​

یہ ہے عقیدہ اور حق کے ساتھ ایمان اور عمل صالح جو بار آور ہے۔عقیدے کا قوام محبت و تعظیم اور کا پھل اخلاص و مداومت ہے۔دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف،درجات کو بلند اور دلوں کی اصلاح کرتا ہے۔اصلاح احوال کے لیے حسب استطاعت تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ​
ترجمہ: جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو(سورۃ التغابن،آیت 16)​
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیمار تھے نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا:​
صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب (صحیح بخاری)​
"کھڑے ہو کر نماز ادا کرو،ایسا نہ کر سکو تو بیٹھ کر اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو پھر لیٹے لیٹے پہلو پر ادا کرو۔"​
تیرے مال کا ایک قلیل سا حصہ ہےجسے تو سال میں ایک بار مسلمانوں کی امداد کے لیے فقیروں،مسکینوں،مسافروں،قرض داروں اور زکاۃ کے دوسرے مستحقین کو ادا کرتا ہے۔روزے سال بھر میں صرف ایک مہینے کے فرض ہیں اور اس میں بھی مریض اور مسافر کے لیے رعایت ہے کہ وہ باقی دنوں میں رکھ لے۔​
 
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:​
وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌۭ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ​
ترجمہ: اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں کی گنتی میں پوری کر لے۔"(سورۃ البقرۃ،آیت 185)​
بیت اللہ کا حج صاحب استطاعت کے لیے عمر بھر میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔​
یہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی حقوق ہیں۔اور جو ان کے علاوہ ہیں،وہ حالات کے مطابق واجب ہوتے ہیں ،جیسے جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔​
میرے بھائی! یہ حق کے لحاظ سے تھوڑا اور اجر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔جب تو اسے ادا کرے گا تو دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائے گا،آگ سے نجات پائے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:​
فَمَن زُحْزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدْخِلَ ٱلْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا ٱلْحَيَوٰةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَٰعُ ٱلْغُرُورِ ﴿185﴾​
ترجمہ: پس جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔(سورہ آل عمران،آیت 185​
 
رسول اللہ ﷺ کے حقوق​
مخلوق کے حقوق میں نبی اکرمﷺ کا حق سب سے زیادہ اہم ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:​
إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِدًۭا وَمُبَشِّرًۭا وَنَذِيرًۭا ﴿8﴾ لِّتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ​
ترجمہ: "(اے نبی!) بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (لوگو!)تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور دل و جان سے رسول کی مدد اور اس کی تعظیم و توقیر کرو۔"(سورۃ الفتح،آیت 8-9​
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:​
لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين (صحیح بخاری)​
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد،والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔"​
نبی کریم ﷺ کے حقوق یہ ہیں کہ آپ (ﷺ) کی عزت افزائی،آپ (ﷺ) کا احترام اور آپ (ﷺ) کی تعظیم کی جائے۔تعظیم ایسی ہونی چاہیے جس میں مبالغہ ہو نہ تقصیر۔آپ (ﷺ) کی عزت افزائی اور تعظیم تقاضا کرتی ہے کہ آپ (ﷺ) کی مکمل اطاعت کی جائے جس طرح آپ(ﷺ) کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کرتے تھے۔اس اطاعت کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:​
"قریش نے جب عروہ بن مسعود ثقفی کو صلح حدیبیہ کے وقت نبی اکرم ﷺ سے صلح کی بات چیت کرنے بھیجا تو (واپس جا کر) اس نے کہا:میں شاہ ایران،شاہ روم اور شاہ حبشہ کے دربار میں بھی گیا ہوں ،مگر میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمدﷺ کے اصحاب اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔جب وہ انہیں حکم دیتے ہیں تو جلد از جلد بجا لاتے ہیں ۔جب وہ وضو کرتے ہیں تو اُن کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور جب وہ بات کرتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے اُن کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔"​
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نبی ﷺ سے اس قدر والہانہ عقیدت کا اظہار اس لیے کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی فطرت میں مکارم اخلاق،نرم مزاجی اور فراخ دلی جیسے اوصاف ودیعت کر رکھے تھے۔اگر آپ (ﷺ) سخت طبیعت والے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ (ﷺ) کے ہم نشین نہ بنتے۔​

نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی تصدیق کی جائے۔جس بات کا آپ (ﷺ) نے حکم دیا ہو وہ بجا لایا جائے اور جس امر کی ممانعت یا سرزنش کی ہو،اس سے پرہیز کیا جائے۔اور اس بات پر ایمان ہو کہ آپ (ﷺ) کی راہ ہدایت تمام راہوں سے بہتر ،آپ (ﷺ) کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل ہے۔آپ (ﷺ) کی شریعت پر کسی بھی قانون کو مقدم نہ کیا جائے،خواہ اس کا ماخذ کچھ بھی ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿56﴾​
ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)​
اور فرمایا:​
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾​
ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ آل عمران،آیت31)​
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی شریعت اور ہدایت کا ہر حال میں دفاع کیا جائے۔اگر حالات اسلحہ کا تقاضا کرتے ہوں اور انسان اس کی قدرت رکھتا ہو تو قوت کے ساتھ دفاع کرے۔جب دشمن دلائل و شبہات سے حملہ آور ہو تو علم سے اس کا دفاع کرے۔اس کے دلائل و شبہات اور تخریبی بیانات کا ازالہ کرے۔​
کسی مومن کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ کسی کو نبی کریم ﷺ کی شریعت یا آپ (ﷺ) کی ذات کریم پر حملہ کرتے سنے اور خاموش رہے جبکہ وہ اس کے دفاع کی طاقت رکھتا ہو۔​
 
والدین کے حقوق​
اولاد پر والدین کو جو فضیلت حاصل ہے،وہ ایک معروف اور مسلم حقیقت ہے کیونکہ ولادین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں،لہذا ان کا اولاد پر بڑا حق ہے۔ان دونوں نے اسے بچپن میں پالا۔اسے ہر طرح کا آرام پہنچانے کے لیے خود تکلیفیں برداشت کیں۔اے انسان! تیری ماں نے تقریبا نو ماہ تک تجھے اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا خون تیری غذا کا باعث بنا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:​
حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍۢ
ترجمہ:"اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا۔"(سورۃ لقمان،آیت 14)
پھر اس کے بعد دو سال دودھ پلانے کا معاملہ ہے جس میں تھکن بھی ہوتی ہے ،کوفت اور صعوبت بھی۔اسی طرح باپ تیری زندگی اور بقا کے لیے تیرے بچپن ہی سے دوڑ دھوپ کرنے لگا۔حتی کہ تو کود اپنے بل پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا اور وہ تجھے قابل عزت بنانے کے لیے کوشش کرتا رہا،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے،ارشاد ربانی ہے:
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍۢ وَفِصَٰلُهُۥ فِى عَامَيْنِ أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٰلِدَيْكَ إِلَىَّ ٱلْمَصِيرُ ﴿14﴾
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (سورۃ لقمان،آیت 14)
نیز فرمایا:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّۢ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًۭا كَرِيمًۭا ﴿23﴾وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًۭا ﴿24﴾
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال)پر رحمت فرما (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 23-24)
والدین کا تم پر حق یہ ہے کہ ان سے نیکی کرو اور یہ اس طرح ہو گا کہ تم ہر لحاظ سے ان سے بہتر سلوک کرو۔ان کا حکم بجا لاؤ۔اگر اُن کے کسی حکم میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ حکم نہ مانو۔ان سے نرمی سے بات کرو اور خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ان کے مناسب حال ان کی خدمت کرو۔بڑھاپے،بیماری اور کمزوری کے وقت ان کو جھڑکو نہیں اور اس بات کو بوجھ بھی محسوس نہ کرو۔کیونکہ کچھ وقت بعد تم بھی ان کے مقام پر پہنچنے والے ہو۔تم بھی باپ بن جاؤ گے جیسا کہ یہ تمہارے والدین ہیں۔عنقریب تم بھی اولاد کے سامنے بوڑھے ہو جاؤ گے جس طرح یہ تمہارے سامنے بوڑھے ہوئے ہیں اور تم بھی اپنی اولاد سے نیکی کے محتاج ہو گے جیسا کہ آج یہ ہیں۔اگر آج تم ان سے نیکی کر رہے ہو تو تمہیں بہت بڑے اجر اور اولاد سے ایسے ہی سلوک کی خوشخبری ہو۔کیونکہ جس نے اپنے والدین سے نیکی کی اس کی اولاد اس سے نیکی کرے گی اور جس نے والدین کو ستایا اس کی اولاد ضرور اسے ستائے گی۔یہ مکافات عمل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے حق کو بڑی اہمیت دی ہے۔اس لیے اس نے اپنے حق (عبادت) کے ساتھ والدین کے حق کا ذکر کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْ۔ًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا
ترجمہ: "اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔"(سورۃ النساء،آیت 36)
نیز فرمایا:
أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٰلِدَيْكَ
ترجمہ: "کہ تو میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔"(سورۃ لقمان،آیت 14)

نبی کریم ﷺ نے والدین سے نیکی کرنے کے عمل کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم رکھا ہے۔جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے،وہ کہتے ہیں ،میں نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول ! اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟"

آپ نے فرمایا:
(الصلاة على وقتها). قال: ثم أي؟ قال: (ثم بر الوالدين). قال: ثم أي؟ قال: (الجهاد في سبيل الله) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔میں نے پوچھا،پھر کون سا؟آپ نے فرمایا: والدین سے اچھا سلوک کرنا۔میں نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔"
اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیا ہے اور والدین کے اس حق کی اہمیت پر دلیل ہے جسے اکثر لوگوں نے ضائع کر رکھا ہے وہ ان کو ستاتے اور قطع رحمی کرتے ہیں،پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو انہیں حقیر سمجھتے ،ڈانٹتے اور ان پر آوازیں بلند کرتے ہیں۔ایسے لوگ عنقریب اس کی سزا پائیں گے۔
 
میاں بیوی کے حقوق​
شادی کے اثرات بڑے دو رس اور اس کے تقاضے بہت اہم ہیں۔میاں بیوی کا باہم تعلق کچھ اس طرح کا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے دوسرے پر مالی،بدنی اور اجتماعی حقوق عائد ہوتے ہیں،لہذا زوجین میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ دینی دستور کے مطابق رہن سہن رکھے اور ہر ایک دوسرے کے واجبی حقوق و فرائض نہایت فراخدلی کے ساتھ کسی کراہت اور ٹال مٹول کے بغیر،خوش دلی سے انجام دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ
ترجمہ: "اور بیویوں کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو۔"(سورۃ النساء،آیت19)
نیز فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌۭ ۗ
ترجمہ: عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ (سورۃ البقرۃ،آیت228
جس طرح عورت پر واجب ہے کہ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے اسی طرح کاوند کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرے۔جب تک زوجین میں سے ہر ایک ان حقوق کا خیال رکھتا ہے جو ان پر عائد ہوتے ہیں تو ان کی زندگی خوشگوار اور پر سکون بسر ہوتی ہے۔اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اس کا نتیجہ ضد اور باہمی جھگڑوں کی شکل میں نکلے گا اور زندگی تلخ ہو جائے گی۔
 
بیوی کے خاوند پر حقوق​
بیوی سے اچھا سلوک کرنا خاوند کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ہے،اس کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
استوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"عورتوں سے بہتر سلوک کرو عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اس کا بلند حصہ ہے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو ٹیڑھی ہی رہے گی،لہذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔"
ایک اور روایت میں ہے:
ان المرأة خلقت من ضلع لن تستقيم لك على طريقة فإن استمتعت بها استمتعت بها وبها عوج وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔وہ تیرے لیے کسی طرح سیدھی نہ ہو گی ۔لہذا اگر تو اس سے،اس کی ٹیڑھی حالت میں ،فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اٹھا لے۔اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا توڑنا اس کی طلاق ہے۔"

نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
لا يفرك مؤمن مؤمنه إن كره منها خلقا رضى منها آخر(صحیح مسلم)
"کوئی مومن مرد،مومنہ عورت،یعنی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اسےاس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کوئی دوسری پسند ہو گی۔"
اور لا يفرك کے معنی "بغض نہ رکھنا" ہیں۔ان احادیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو ہدایت فرمائی ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرے۔اسے چاہیے کہ جو کچھ بیوی کی ذات سے میسر آئے،لے لے کیونکہ جس طبیعت پر وہ پیدا کی گی ہے وہ کامل درجے پر نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے اور آدمی اس طبیعت سمیت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے ۔ن احادیث میں یہ ہدایت بھی ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرے۔کیونکہ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو اس کے ساتھ دوسری عادت ایسی بھی ہو گی جواسے پسند ہو گی ،لہذا اس کی طرف صرف ناراضی اور کراہت ہی کی نظر سے نہ دیکھے۔
بہت سے شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے،اسی لیے ان کی گزر بسر تنگ ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بیویوں سے فائدہ ٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔اس کا نتیجہ بسا اوقات طلاق ہوتا ہے

جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها (صحیح مسلم)
"اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔"
لہذا خاوند کو چاہیے کہ بیوی سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اس سے درگزر کرے بشرطیکہ وہ دین اور شرافت سے خالی نہ ہو۔خاوند ،بیوی کے کھانے پینے،پوشاک اور اس کے جملہ لوازم کا ذمہ دار ہے۔فرمان الہی ہے:
وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ
ترجمہ: اور دستور کے مطابق ان کی خوراک اور پوشاک بچے کے باپ کے ذمے ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت 233)
(اور حدیث مبارکہ ہے۔)​
ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف (سنن ابی داؤد)​
"اور دستور کے مطابق تمہاری بیویوں کی خوراک اور پوشاک تمہارے ذمہ ہے۔"
نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها إذا اكتسيت " أو " اكسبت " " ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت (سنن ابی داؤد)
"جب تو کھانا کھائے تو اسے کھانا کھلا اور جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا اور اس کے منہ پر نہ مار،(نہ)اسے برا بھلا نہ اس سے قطع تعلق کر مگر یہ کہ گھر کے اندر اندر۔"
بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے عدل کیا جائے۔اگر کاوند کی دوسری بیوی ہو تو ان دونوں کے اخراجات ،رہائش ،شب بسری،غرضیکہ تمام امور میں ممکن حد تک عدل کرے کیونکہ ان میں سے ایک کی جانب میلان رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل (سنن ابی داؤد)
"جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔"
البتہ وہ امور جن میں عدل ممکن نہ ہو ،جیسے محبت اور دل کی خوشی تو ان میں خاوند پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

فرمان الہی ہے:
وَلَن تَسْتَطِيعُوٓا۟ أَن تَعْدِلُوا۟ بَيْنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ
ترجمہ: اگر تم چاہو بھی تو اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے۔(سورۃ النساء،آیت 129)
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے درمیان شب بسری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔آپ عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے:
اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك*
"اے اللہ !یہ میری تقسیم ایسے معاملے میں ہے جس میں میرا اختیار ہے اور جس بات میں تیرا اختیار ہے ،میرا نہیں،اس پر مجھے ملامت نہ فرمانا۔"
*یہ نوٹ کر لیں([ قال أبو داود ] يعني القلب . K ضعيف يعني القلب)اس حدیث کی سند کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن جہاں سے یہ حدیث لی ہے وہاں یہ لکھا ہوا تھا۔اللہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے آمین۔
لیکن اگر کوئی بیوی شب بسری کے معاملے میں اپنی باری خوشی سے دوسری بیوی کو ہبہ کر دے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری ایک دن مقرر کی،پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی۔
رسول اللہ ﷺ اس بیماری کے دوران جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی،پوچھا کرتے تھے،کل میں کہاں ہوں گا،کل میں کہاں ہوں گا۔۔۔۔؟توآپ کی بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت عائچہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما رہے تا آنکہ آپ کی وفات ہو گئی۔
 
خاوند کے بیوی کے حقوق​
جس طرح بیوی کے خاوند پر حقوق ہیں اُسی طرح خاوند کے بیوی پر حقوق ہیں،البتہ مردوں کو فضیلت حاصل ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌۭ ۗ
ترجمہ: عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت 228
مرد اپنی بیوی پر حاکم ہے جو اس کی مصلحتوں ،تادیب اور عزت کو قائم رکھنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ٱلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۢ وَبِمَآ أَنفَقُوا۟ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ ۚ
ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں،اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ النساء،آیت 34)
مرد کا اپنی بیوی پر ایک حق یہ ہے کہ وہ ہرایسے کام میں اس (خاوند) کی اطاعت کرے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اس کے راز اور مال کی حفاظت کرے،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها (جامع الترمذی)
"اگر میں کسی کو یہ حکم دینے والا ہوتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فلم تأته فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح *(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
"جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور خاوند ناراضی کی حالت میں رات گزار دے تو صبح تک اس (بیوی) پر فرشتے لعنے بھیجتے رہتے ہیں۔"
*حدیث کا عربی متن صحیح مسلم سے لیا گیا ہے۔
خاوند کا بیوی پر اس قدر حق ہے کہ اگر وہ نفلی عبادت کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی اُسے خاوند سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بأذنه، ولا تأذن في بيته إلا بأذنه(صحیح بخاری)
"اگر کسی عورت کا خاوند گھر پر موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے،نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے۔"
نیز رسول اللہ ﷺ نے خاوند کے اپنی بیوی سے خوش ہونے کو جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة*
"کوئی بھی عورت جو اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو،وہ جنت میں داخل ہو گی۔
*یہ نوٹ کر لیں(قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب K ضعيف)اس حدیث کی سند کے بارے میں نہیں جانتا تھا لیکن جہاں سے یہ حدیث لی ہے وہاں یہ لکھا ہوا تھا۔اللہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے آمین۔
 
اولاد کے حقوق​
اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے بہترین فرد بن سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًۭا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ
ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (سورۃ التحریم،آیت 6)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ،والرجل راع فی اھلہ ومسوول عن رعیتہ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
"تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔
اولاد والدین کے لیے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہو گی تو وہ والدین کے لیے دنہا و آخرت میں باعث راحت ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَٰهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍۢ ۚ كُلُّ ٱمْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌۭ ﴿21﴾
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (سورۃ الطور،آیت 21)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له (صحیح مسلم)​
"جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔صدقہ جاریہ،ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔"
یہ اولاد کی تربیت کا ثمر ہے۔جب ان کی صالح تربیت کی جائے تو وہ والدین کے لیے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔

بہت سے والدین اولاد کے حق کو معمولی سمجھتے ہیں ،وہ اپنی اولاد کو ضائع کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں ان سے باز پرس ہو گی۔وہ اپنی اولاد کے مشاغل اور ان کی سرگرمیوں سے غافل ہوتے ہیں۔انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کیا کر ہی ہے۔
وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں۔(نہ) وہ انہیں نیکی کی طرف روجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں کہ ہر اس بات کے لیے مستعد رہتے ہیں جو اُن کے مال میں اجافے کا باعث بنے،حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا ،حالانکہ ان کی محافظت دنیا و آخرت دونوں لھاظ سے ان کے لیے بہتر اورمفید تھی،نیز جیسے والدپر بچے کے خوردنوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے،ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنا اور تقوی کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی بات سے کہیں بہتر ہے۔
اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا باپ کی لازمی ذمہ داری ہےاور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے کیونکہ یہ ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا،نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔


صحیحین ،یعنی بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ (ﷺ) نے دریافت فرمایا: :کیا تو نے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟"بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا: "تو پھر اس غلام کو واپس لے لے ۔" اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم (صحیح بخاری)
"اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کےدرمیان انصاف کرو۔"
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
فلا تشهدنى اذا فانی لا اشھد علی جور (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"تب مجھے گواہ مت بناؤ ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔"
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولاد میں سے کسی ایک کو دوسروں پر فضیلت دینے کا نام "جور" رکھا اور "جور" کے معنی ظلم کے ہیں جو حرام ہیں۔
لیکن اگر کسی بیٹے کو ایسی چیز دے جس کی اس کو تو ضرورت ہو لیکن دوسرے بچوں کو ضرورت نہ ہوتو پھر اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تخصیص یا فضیلت کی بنا پر نہیں بلکہ حاجت کی بنا پر ہے،لہذا یہ نفقہ ہی کی صورت ہے اور جب والد وہ تمام باتیں جو اس پر واجب ہیں پوری کر دے،جیسے تربیت اور نفقہ وغیرہ تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اولاد اس سے نیکی کرے اور اس کے حقوق کا خیال رکھے۔
 
اولاد کے حقوق​
اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے بہترین فرد بن سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًۭا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ
ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (سورۃ التحریم،آیت 6)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ،والرجل راع فی اھلہ ومسوول عن رعیتہ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
"تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔
اولاد والدین کے لیے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہو گی تو وہ والدین کے لیے دنہا و آخرت میں باعث راحت ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَٰهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍۢ ۚ كُلُّ ٱمْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌۭ ﴿21﴾
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (سورۃ الطور،آیت 21)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له (صحیح مسلم)​
"جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔صدقہ جاریہ،ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔"
یہ اولاد کی تربیت کا ثمر ہے۔جب ان کی صالح تربیت کی جائے تو وہ والدین کے لیے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔

بہت سے والدین اولاد کے حق کو معمولی سمجھتے ہیں ،وہ اپنی اولاد کو ضائع کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں ان سے باز پرس ہو گی۔وہ اپنی اولاد کے مشاغل اور ان کی سرگرمیوں سے غافل ہوتے ہیں۔انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کیا کر ہی ہے۔
وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں۔(نہ) وہ انہیں نیکی کی طرف روجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں کہ ہر اس بات کے لیے مستعد رہتے ہیں جو اُن کے مال میں اجافے کا باعث بنے،حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا ،حالانکہ ان کی محافظت دنیا و آخرت دونوں لھاظ سے ان کے لیے بہتر اورمفید تھی،نیز جیسے والدپر بچے کے خوردنوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے،ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنا اور تقوی کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی بات سے کہیں بہتر ہے۔
اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا باپ کی لازمی ذمہ داری ہےاور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے کیونکہ یہ ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا،نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔


صحیحین ،یعنی بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ (ﷺ) نے دریافت فرمایا: :کیا تو نے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟"بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا: "تو پھر اس غلام کو واپس لے لے ۔" اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم (صحیح بخاری)
"اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کےدرمیان انصاف کرو۔"
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
فلا تشهدنى اذا فانی لا اشھد علی جور (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"تب مجھے گواہ مت بناؤ ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔"
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولاد میں سے کسی ایک کو دوسروں پر فضیلت دینے کا نام "جور" رکھا اور "جور" کے معنی ظلم کے ہیں جو حرام ہیں۔
لیکن اگر کسی بیٹے کو ایسی چیز دے جس کی اس کو تو ضرورت ہو لیکن دوسرے بچوں کو ضرورت نہ ہوتو پھر اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تخصیص یا فضیلت کی بنا پر نہیں بلکہ حاجت کی بنا پر ہے،لہذا یہ نفقہ ہی کی صورت ہے اور جب والد وہ تمام باتیں جو اس پر واجب ہیں پوری کر دے،جیسے تربیت اور نفقہ وغیرہ تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اولاد اس سے نیکی کرے اور اس کے حقوق کا خیال رکھے۔
 
قریبی رشتہ داروں کے حقوق​
اسلام میں قرابت داروں اور رشتہ داروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا اور انہیں ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔فرمان الہی ہے:
وَءَاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ
ترجمہ: "قرابت داروں کو اس کا حق ادا کرو۔'(سورۃ بنی اسرائیل،آیت 26)
نیز فرمایا:
وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْ۔ًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ
ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،اور والدین اور قرابت داروں سے بھلائی کرو۔"(سورۃ النساء،آیت 36)
لہذا ہر قریبی عزیز پر واجب ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار سے صلہ رحمی کرے۔اس کی مالی اور اخلاقی لحاظ سے ہر ممکن مدد کرے۔یہ ایسی بات ہے جس کا شرع،عقل اور فطرت سبھی تقاضا کرتے ہیں۔

صلہ رحمی کی ترغیب کے لیے بہت سی احادیث ہیں۔صحیحین میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فأخذت بحقو الرحمن، فقال له: مه، قالت: هذا مقام العائذ بك من القطيعة، قال: ألا ترضين أن أصل من وصلك، وأقطع من قطعك؟ قالت: بلى يا رب، قال: فذاك). قال أبو هريرة: اقرؤوا إن شئتم: {فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم}.(ٍصحیح بخاری)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمصلی اللہعلیہ وسلمنے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوقکو پیدا کرنے سے فارغ ہوا تو رحم (رشتہ ناتا مجسم ہو کر) کھڑا ہوا اور اپنےپروردگار کا دامن تھام لیا۔ اللہ نے فرمایا: ”رک جا“۔ وہ عرض کرنے لگا کہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں، ایسا نہ ہو کہکوئی مجھ کو کاٹے (ناتا توڑے)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے، میں اسے جوڑوں اورتجھے توڑے، میں اس کو توڑوں؟ اس نے کہا”جی ہاں“ (مجھ سے ایسا ہی کیجئیے) اللہ نے فرمایا: ”(تجھ سے) ایسا ہی کیا۔“سیدنا ابوہریرہرضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اس کی تائید میں یہ آیت پڑھو: ”اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کر اگر تم کو حکومت مل جائے تو تمزمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔“


اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
من كان يومن بالله واليوم الاخر فليصل رحمه (المسند الجامع: 17/14035)
"جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔"
بہت سے لوگ ہیں جو اس حق کو ضائع کر رہے ہیں اور کچھ اس میں کمی کرتے ہیں۔آپ ایسے لوگ بھی دیکھین گے جو قرابتداری کا مطلق خیال نہیں کرتے۔ان کی مالی یا اخلاقی لحاظ سے کسی طرح بھی مدد نہیں کرتے۔کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں،وہ انہیں دیکھتے بھی نہیں۔(نہ)انہیں ملنے جاتے ہیں نہ ان کو کوئی ہدایہ بھیجتے ہیں بلکہ انہیں ہر لحاظ سے دکھ پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر قریبی رشتہ دار صلہ رحمی کریں تووہ بھی کرتے ہیں اور اگر وہ تعلقات توڑدیں تو یہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ایسا آدمی حقیقتا تعلق جوڑنے والا نہیں بلکہ یہ تو ادلے کا بدلہ ہے۔دراصل تعلق جوڑنے والا وہ ہے جو تعلق کو اللہ تعالیٰ کی کاطر جوڑے اور یہ پرواہ نہ کرے کہ دوسرا بھی اتنا تعلق جوڑتا ہے یا نہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها
"ادلے کا بدلہ دینے والا واصل(تعلق جوڑنے والا) نہیں۔صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ اگر اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ پھر بھی تعلق جوڑے رکھے۔"
کسی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اےاللہ کے رسول (ﷺ) !میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ قطع کرتے ہیں،میں ان سے بہتر سلوک کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں،میں ان کی باتیں برداشت کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك (صحیح مسلم)
"اگر بات ایسی ہے جیسی تو نے کہی ہے تو گویا تو نے ان کے چہروں کو خاک آلود کر دیا اور جب تک تو اس حالت پر برقرار رہے گا،ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ تیرا ایک مددگار رہے گا۔"
صلہ رحمی میں صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اپنے احسان کا مستحق بنا کر اس پر رحمت فرماتا ہے،اس کے کام آسان بنا کر اس کی سختیاں دور کر دیتا ہے بلکہ صلہ رحمی سے خاندان میں باہمی قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔افرادِ خاندان ایک دوسرے پر مہربان اور مصائب میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں جسکے نتیجے میں انہیں مسرت اور راحت ھاصل ہوتی ہے۔یہ بات تجربی شدہ اور جانی پہچانی جاتی ہے۔
اور جب قطع رحمی کی جائے تو یہ سب فوائد اس کے برعکس بن جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں۔
 
ہمسایوں کے حقوق​
ہمسایہ وہ ہے جو آپ کے گھر کے قریب ہو،اس کا آپ پر بہت برا حق ہے۔اگر وہ نسب میں سے آپ سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہو ،تو اس کے تین حقوق ہیں:ہمسائیگی،قرابت داری اور اسلام کا حق۔اگر وہ نسب میں قریب ہے لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں: ایک ہمسائیگی کا اور دوسرا قرابت داری کا۔اگر وہ رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے: یعنی ہمسائیگی کا حق۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ
ترجمہ: اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں (سورۃ النساء،آیت 36)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ما زال يوصيني جبريل بالجار، حتى ظننت أنه سيورثه (صحیح بخاری)
"جبریل (علیہ السلام)مجھے ہمسایوں کے حقوق کے متعلق اس قدر تاکید کرتے رہے حتی کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے۔"
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے ۔ایک ہمسائے کے دوسرے پر حقوق یہ ہیں کہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ ہر لحاظ سے بھلائی کرے،

چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خير الجيران عند الله خيرهم لجاره (جامع الترمذی)
"اللہ کے ہاں ہمسایوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے لیے اچھا ہے۔"
نیز فرمایا:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره(صحیح مسلم)
"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،اسے اپنے ہمسائے سے بہتر سلوک کرنا چاہیے۔"
اور فرمایا:
إذا طبخت مرقة فأكثر ماءها وتعاهد جيرانك(صحیح مسلم)
"جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لو اور اس میں اپنے ہمسایوں کو (بھی) شریک کرلو۔"
احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ تقریبات میں ہمسایوں کو تحائف پیش کیے جائیں کیونکہ تحائف محبت پیدا کرتےہیں اور عداوت کو دور کرتے ہیں۔
ایک ہمسائے کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ وہ اسے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن. قيل: ومن يا رسول الله؟ قال: الذي لا يأمن جاره بوائقه (صحیح مسلم)
"اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں،اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں،اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں۔دریافت کیا گیا کون! اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔"
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يدخل الجنة من لا يأمن جاره بوائقه(صحیح مسلم)
"وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔"
بوائق کا معنی "شرارتیں" ہے،لہذا جس شخص کے شر سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو،وہ مومن نہیں ہے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
آج کل بہت سے لوگ حق ہمسائیگی کا کوئی اہتمام نہیں کرتے،نہ ان کی شرارتوں سے ان کے ہمسائے محفوظ ہوتے ہیں۔آپ انہیں ہمیشہ آپس میں الجھتے،مخالفت کرتے،زیادتی کرتے ،اور ہر لحاظ سے ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہوئے دیکھیں گے ۔یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے اور یہ باتیں مسلمانوں کی آپس میں جدائی ،دلوں کی دوری اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا سبب بن جاتی ہیں
 
حکمرانوں اور رعایا کے حقوق​
"ولاۃ" (حکمران) وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے امور کے نگران ہوتے ہیں خواہ یہ ولایت "عامہ" ہو ،جیسے سلطنت کا سربراہ اعلیٰ یا "خاصہ" ہو،جیسے کسی مخصوص ادارے یا معین کام کا سربراہ اور ان سب کا اپنی اپنی عریت پر حق ہوتا ہے جس سے وہ اپنے فرائ انجام دے سکیں۔اسی طرح عریت کا بھی ان پر حق ہے۔

رعایا کے حکمرانوں پر حقوق

رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے۔وہ رعیت کی خیرخواہی کے کام سر انجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دنوی اور اخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔یہ مومنوں کے راستے کا اتباع ہو گا اور یہی رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا ،کیونکہ اسی میں ان کی،ان کی رعیت کی اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی سعادت ہے۔اور یہی وہ چیز ہے جس میں رعیت زیادہ سے زیادہ اپنے حکمرانوں سے خوش اور مربوط رہ سکتی ہے۔ان کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتی ہے اور اس امانت کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے جس کے لیے رعیت نے اسے حاکم بنایا تھا۔کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اسے لوگوں سے بچاتا ہے اور جو شخص اللہ کو راضی رکھتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور اسے لوگوں کی رضامندی اور مدد سے بے نیاز کر دیتا ہے کیونکہدل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔وہ جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔


حکمرانوں کے رعایا پر حقوق

حکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں۔انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہ راست پر قائم رہیں ۔اگر وہ راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہ راست کی طرف بلائیں ،ان کے حکم بجا لانے میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تی ہو تو اسے بجا لائیں کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ،اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔فرمان الہی ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں (سورۃ النساء،آیت 59)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
على المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وكره إلا أن يؤمر بمعصية فإن أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
"مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے اور جب اللہ کی نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ سنے اور نہ اطاعت کرے۔"
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے الصلاۃ جامعۃ کی ندا دی ۔ہم سب رسول اللہ ﷺ کے پاس اکھٹے ہو گئے آپ نے فرمایا:
إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم وينذرهم شر ما يعلمه لهم وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها وسيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه هذه فمن أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتى إليه ومن بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه إن استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر(صحیح مسلم)
"اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا،اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنی اُمت کی ہر اس بھلائی کی طرف راہنمائی کرے جسے وہ اُمت کے لیے بہتر سمجھتا ہے اور ہر اس برائی سے ڈرائے جس کو اُمت کے لیے شر سمجھتا ہے اور تمہاری اُمت کے ابتدائی دور میں عافیت رکھی گئی ہے۔آخری دور میں آزمائش اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں م ناپسند کو گے۔ایک فتنہ آئے گا جس کا ایک ھصہ دوسرے کو کمزور بنا دے گا ۔فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا یہ مجھے پلاک کر ڈالے گا،پھر وہ ختم ہو گا تو ایک اور فتنہ آ جائے گا تو مومن کہے گا: یہ تو مجھے نہیں چھوڑے گا ،لہذا جو شخص چاہتا ہے کہ آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے اسے چاہیے کہ وہ اس حال میں مرے کہ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔اور جس نے کسی امام کی بیعت کی ،اس کے ہاتھ میں ہتھ دیا اور دل سے تسلیم کیا تو اسے چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا امام آ جائے جو اس (پہلے امام) سے جھگڑا کرے تو اس دوسرے (امام) کی گردن اڑا دو۔"


ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا،اے اللہ کے نبی ! دیکھیے اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق تو مانگتے ہوں لیکن ہمارا حق نہ دیتے ہوں تو اس بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں،آپ ﷺ نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔اس شخص نے دوسری بار وہی سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم (صحیح مسلم)
"ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ان کی ذمہ داری کا بار( بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری کا بوجھ تم پر!"
 
عام مسلمانوں کے حقوق​
عام مسلمانوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
حق المسلم على المسلم ست قيل ما هن يا رسول الله قال إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاك فأجبه وإذا استنصحك فانصح له وإذا عطس فحمد الله فسمته وإذا مرض فعده وإذا مات فاتبعه(صحیح مسلم)
"ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔آپ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! وہ کون سے ہیں ؟آپ نے فرمایا :جب تو اسے ملے تو السلام علیکم کہے ،جب وہ دعوت دے تو تُو اسے قبول کرے ،جب وہ خیرخواہی طلب کرے تو تُو اس کی خیر خواہی کرے،جب وہ چھینک مارے اور الحمدللہ کہے تو تُو یرحمک اللہ کہے،جب وہ بیمار ہو تو تُو اس کی عیادت کر اور جب وہ مر جائے تو تُو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔"


پہلا حق

السلام علیکم کہنا ہے۔السلام علیکم سنت موکدہ ہے اور مسلمانوں میں انس و محبت پیدا کرنے کے اسباب و وسائل میں سے ایک اہم سبب ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدے میں آ چکی ہے اور اس پر نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے:
لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم أفشوا السلام بينكم (صحیح مسلم)
"اللہ کی قسم !جب تک تم مومن نہ بن جاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو مومن نہیں بن سکتے۔کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟آپس میں "السلام علیکم" کو خوب پھیلاؤ۔"
رسول اللہ ﷺ کو جو بھی ملتا آپ اسے سلام کہنے میں پہل کرتے اور جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کہتے۔
سلام کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو،سوارپیدل چلنے والوں کو سلام کہے۔لیکن سنت کے مطابق جسے سلام کہنا چاہیے تھا اگر وہ سلام نہ کہے تو دوسرا کہہ لے تاکہ تاکہ نیکی کا موقع ضائع نہ ہو ،مثلا: جب چھوٹا سلام نہ کہے تو برا کہہ لے اور اگر تھوڑے سلام نہ کہیں تو زیادہ کہہ لیں تاکہ دونوں کو اجر مل جائے۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو شخص انہیں اکھٹا کر لے اس کا ایمان مکمل ہو گیا: "اپنے آپ سے انصاف کرنا (یعنی شرک و بدعت سے دور بھاگنا) سب لوگوں کو سلام کہنا اور تنگی کی حالت میں خرچ کرنا۔"
سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرض کفایہ ہے۔اگر ایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے ،مثلا : کوئی شخص ایک جماعت کو سلام کہے اور ان میں سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو باقی سب کی طرف سے کافی ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍۢ فَحَيُّوا۟ بِأَحْسَنَ مِنْهَآ أَوْ رُدُّوهَآ ۗ
ترجمہ: ور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے جواب دے دو (سورۃ النساء،آیت 86
سلام کے جواب میں صرف "اهلا وسهلا" کہہ دینا کافی نہیں ،کیونکہ یہ الفاظ نہ سلام سے اچھے ہیں ،نہ اس جیسے ہیں،لہذا جب کوئی "السلام علیکم" کہے تو اس کے جواب میں "وعلیکم السلام" کہے اور جب کوئی " اهلا " کہے تو اس کے جواب میں اسی طرح " اهلا " کہہ سکتا ہے اور اگر سلام میں کچھ زیادہ الفاظ "ورحمۃ اللہ وبرکاتہ"کہے تو یہ افضل ہے۔


دوسرا حق

جب تجھے مسلمان بھائی دعوت دے تو اسے قبول کر،یعنی جب تجھے اپنے گھر کھانے پر یا کسی اور کام کے لیے بلائے تو تجھے جانا چاہیے کیونکہ دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے۔اور اس لیے بھی کہ بلانے والے کی دل جوئی اور قدر شناسی ہے۔اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ومن لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله (صحیح مسلم)
"جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
نیز آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے : (وإذا دعاك فأجبه)"جب (کوئی مسلمان) تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر۔" ایسی دعوت کے لیے بھی ہے جو امداد و معاونت کے لیے ہو۔کیونکہ تجھے اس کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضاً (صحیح بخاری)
"ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔"
 
تیسرا حق

جب کوئی مسلمان تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر،یعنی جب وہ تیرے پاس آ کر اپنے لیے کسی چیز میں تجھ سے خیرخواہی کا طالب ہو تو اس کی خیرخواہی کر کیونکہیہ بھی دین کا حصہ ہے جیسا کہ نبی رکیم ﷺ نے فرمایا ہے:
الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم(صحیح مسلم)
"دین خیرخواہی ہے۔ہم نے پوچھا: کس سے؟ آپ نے فرمایا: اللہ سے،اس کی کتاب سے،اس کے رسول سے،مسلمانوں کے اماموں سے اور عام مسلمانوں سے۔
البتہ اگر وہ خیر خواہی طلب کرنے کے لیے تیرے پاس نہ آئے اور صورت حال یہ ہو کہ اسے کوئی نقصان پہنچنے والا ہو یا وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے والا ہو تو تجھ پر واجب ہے کہ اس کی خیرخواہی کر۔


چوتھا حق

جب کوئی مسلمان چھینک مارے اور اس کے بعد (الحمدلله)کہے تو دوسرا مسلمان اس کے جواب میں (يرحمك الله) کہے ،البتہ اگر وہ چھینک مارتے وقت (الحمدلله) نہ کہے تو پھر اس کا کوئی حق رہا نہ کہ اس کے لیے (يرحمك الله) کہا جائے کیونکہ اس نے اللہ کی تعریف بیان نہیں کی،لہذا اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ (يرحمك الله) نہ کہا جائے۔
اور جب چھینک مارنے والا (الحمدلله) کہے تو پھر (يرحمك الله) کہنا فرض ہے اور چھینک مارنے والے پر س کا جواب دینا واجب ہے کہ (يهديكم الله يصلح بالكم) "اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے"کہے اور جب اسے بار بار چھینکیں آ رہی ہوں تو تین بار تشمیت(يرحمك الله) کہے اور چوتھی بار (يرحمك الله) کے بجائے (عافاك الله) "اللہ تمہیں عافیت میں رکھے" کہے۔


پانچواں حق

جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی بیمار پوسی کر۔مریض کی عیادت کے معنی اس سے ملاقات کرنا ہے اور یہ مسلمان بھائیوں کا اس پر حق ہے،لہذا مسلمانوں پر عیادت کرنا واجب ہ اور جب مریض سے تمہاری قرابت،دوستی یا ہمسائیگی ہو تو عیادت اور زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔
عیادت مریض اور مریض کے حسب حال ہونی چاہیے۔کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بار بار عیادت کے لیے آتا رہے۔جو شخص مریض کی عیادت کرے ،اس کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کا حال پوچھے اور اس کے لیے دعا کرے،صحت و عافیت کی اُمید دلائے۔کیونکہ یہ چیز صحت اور شفا کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔مناسب یہ ہے کہ اس سے توبہ کا ذکر اس انداز سے کرے جو اسے تعجب یا کس وسوسے میں نہ ڈال دے۔مثلا یوں کہے: مومن کی بھی عجیب شان ہے کہ وہ ہر حال میں نیکیاں ھاصل کر سکتا ہے کیونکہ مریض سے اللہ تعالیٰ خطائیں معاف کرتا اور برائیاں متا دیتا ہے،اسلیے تم اپنی بیماری میں کثرت ذکر،استغفار اور دعاؤں کے ذریعے بہت بڑا اجر کما سکتے ہو۔

چھٹا حق

مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کے جنازے میں شریک ہو۔اس میں بہت بڑا اجر ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من شهد الجنازة حتى يصلى عليها فله قيراط ومن شهدها حتى تدفن فله قيراطان قيل وما القيراطان قال مثل الجبلين العظيمين (صحیح بخاری)
"جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے حتی کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے،اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ دفن کیا جائے،اس کے لیے دو قیراط ہیں۔آپ سے پوچھا گیا کہ یہ دو قیراط کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: جیسے دو بڑے بڑے پہاڑ۔"


ساتواں حق

مسلمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے تکلیف پہنچانے سے باز رہے کیونکہ مسلمانوں کو دکھ پہچانا بہت برا گناہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ بِغَيْرِ مَا ٱكْتَسَبُوا۟ فَقَدِ ٱحْتَمَلُوا۟ بُهْتَٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا ﴿58﴾
ترجمہ: اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں (سورۃ الاحزاب،آیت 58
اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بائی پر کوئی تکلیف مسلط کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں اس سے ابتقام لے لیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه(صحیح مسلم)
"(نہ)آپس میں دشمنی رکھو نہ تعلقات منقطع کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہو جاؤ،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ۔آدمی کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔مسلمان پر مسلمان کا کون،مال اور اس کی عزت حرام ہے۔"
مسلمان پر مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں۔نبی کریم ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان :
المسلم أخو المسلم
"مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے۔
کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو اور اس کی ہر ممکن بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہو۔
 
غیر مسلموں کے حقوق​
غیر مسلمموں میں ہر طرح کے کافر شامل ہیں اور ان کی چار قسمیں ہیں:
(1) حربى
(2) مستامن
(3) معاهد
(4) ذمى


حربی

وہ کافر جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں۔حربی کفار کا ہم پر کوئی حق نہیں کہ ان کی کوئی حمایت یا رعایت کی جائے۔


مستامن

وہ کافر جو مسلمانوں سے مال و جان کی امان کی درخواست کریں اور انہیں امان دے دی جائے ۔کفار کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان کو امن دینے کے وقت (مدت امان) اور اس جگہ کا لحاظ رکھا جائے جہاں انہیں امان دی گئی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَإِنْ أَحَدٌۭ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ٱسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُۥ ۚ
ترجمہ: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ الله کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو (سورۃ التوبہ،آیت 6)



معاھد

وہ کافر جن کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو ،مثلا: اتنے سال ہم باہم جنگ و جدال نہیں کریں گے۔(معاھدین) کا ہم پر یہ ھق ہے کہ ہم ان کا عہد اس مدت تک پورا کریں جو ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق رائے سے طے ہوا ہے۔جب تک وہ اس عہد پر قائم رہیں،اس میں کچھ کمی کریں نہ ہمارے خلاف کسی کی مدد کریں،نہ ہمارے دین میں طعنہ زنی کریں،اُس وقت تک ہمیں عہد کا پاس کرنا چاہیے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْ۔ًۭٔا وَلَمْ يُظَٰهِرُوا۟ عَلَيْكُمْ أَحَدًۭا فَأَتِمُّوٓا۟ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ﴿٤﴾
ترجمہ: مگر جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مد نہیں کی سو ان سے ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کر دو بے شک الله پرہیز گارو ں کو پسند کرتا ہے (سورۃ التوبہ،آیت 4)
نیز فرمایا:
وَإِن نَّكَثُوٓا۟ أَيْمَٰنَهُم مِّنۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا۟ فِى دِينِكُمْ فَقَٰتِلُوٓا۟ أَئِمَّةَ ٱلْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَآ أَيْمَٰنَ لَهُمْ
ترجمہ: اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں تو ڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو کفر کے سرداروں سے لڑو ان کی قسموں کوئی اعتبار نہیں ت (سورۃ التوبہ،آیت12)

ذمی

وہ غیر مسلم ہوتے ہیں جو جزیہ ادا کر کے مسلمانوں کے ملک میں رہنے والے ہوں جس کے عوض اسلامی حکومت ان کے مال و جان کے تحفظ کی ذمہ دار ہو۔ذمیوں کے ھقوق باقی تمام کافروں سے زیادہ ہیں۔ان کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ ذمہ داریاں ،کیونکہ وہ مسلمانون کے ملک میں زندی بسر کرتے ہیں اور ان کی حمایت اور رعایت میں رہتے ہیں جس کے عوض وہ جزیہ ادا کرتے ہیں،لہذا مسلمانوں کے حاکم پر واجب ہے کہ وہ ان کے خون،مال اور عزت کے مقدمات میں اسلام کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور جس چیز کی حرمت کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں اس میں ان پر حدود قائم کرے اورحاکم پر ان کی حمایت اور ان کی اذیت و پریشانی کو دور کرنا واجب ہے۔
یہ بھی ضرورہ ہے کہ ان کا لباس مسلمانوں کے لباس سے الگ ہو اور وہ کسی ایسی چیز کا اظہار نہ کریں جو اسلام میں ناپسندیدہ ہو یا ان کے دین کا شعار (شناختی علامت) ہو،جیسے ناقوس اور صلیب۔ذمیں کے احکام اہل علم کی کتابوں میں موجود ہیں،لہذا ہم اسے طول نہیں دیتے۔
 
اسلام کے بنیادی حقوق پر عمل کرنا مسلمانوں میں باہمی محبت کا ذریعہ ہے
ان حقوق پر عمل کرنا مسلمانوں میں باہمی محبت کا ذریعہ ہے۔یہ ایسے حقوق ہیں جن پر عمل کرنے سے باہمی عداوت اور نفرت زائل ہو جاتی ہے،مزید برآں ان تعلیمات پر عمل برائیوں کے مٹنے،نیکیوں کے دوگنا چوگنا ہونے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 
Top