اسلام سلامتی کا مذہب کیسے ؟؟؟ جہاد کی حقیقت !!! - تحریر از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
اسلام سلامتی کا مذہب کیسے؟؟؟ جہاد کی حقیقت !!!
تحریر: شاہد عبدالباسط
اسلام سلامتی کا مذہب ہے، یہ بات سب جانتے تھے، اس بات کو مانتے ہیں لیکن جہاں بات عمل کرنے کی ہوتی ہے وہاں اسلام کو جنگ اور تلواروں کا مذہب ثابت کیا جاتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ قرآن کا کئی فیصد حصہ جہاد پر مشتمل ہے لیکن ذرا غور تو کریں کہ وہ جہاد کیا ہے، جہاد کا مطلب قرآن سے نکالتے ہیں۔ سورہ النساء آیت نمبر 75 تا 76 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
” آخر وجہ کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اوراپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔ جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔“
ان آیات میں صاف واضح بیان کیا جارہا ہے کہ جہاد اصل میں سلامتی کے لیے کیا جائے۔ یعنی امن وسلامتی ہی مقصد جہاد ہے نہ کہ خود فساد کرنا۔ جہاد اصل میں اُن لوگوں کے خلاف کیا جائے گا جو امن کو خراب کرکے فسادکررہے ہیں، جو مظلوموں پر ظلم کررہے ہیں، اگر وہ ظالم مسلمان ہوں تو ان مسلمانوں سے قتال و جہاد کیا جائے گا اوراگر وہ ظالم غیر مسلم ہوں تو ان سے جہاد کیا جائے کیونکہ درحقیقت مقصد جہاد صرف اور صرف فساد اور ظلم کو مٹا کر امن وسلامتی کا ماحول قائم کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ایک امن اور سلامتی کا مذہب ہے۔ سورہ البقرۃ آیت نمبر 190 تا 193 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ ا س سے بھی زیادہ برا ہے۔“
یعنی جو غیر مسلم تم سے لڑ رہے ہیں صرف انہیں سے لڑنے کا حکم ہے، یہ نہ ہو کہ غیرمسلم سکون سے اپنی ریاست میں موجود ہیں اور آپ جا کر وہاں خودکش حملے کر رہے ہو اور کہو کہ میں جہادکررہا ہوں اسی کو اللہ نے زیادتی کہا اور آگے صاف کہہ دیا کہ اللہ ایسی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
آگے اللہ انہیں آیتوں میں فرماتے ہیں:۔
”تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی (سختی)روا(جائز) نہیں۔“
سورہ بقرہ کی اس آیت نمبر 193 میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے کہ ظالموں کے سوا اور کسی سے جہاد کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ صراحتاً قرآن مجید کے خلاف کام کر رہا ہے۔جہاں تک حکم ان غیر مسلموں کے بارے میں ہے جو اپنی ریاست میں امن کے ساتھ رہ رہے ہیں اور آپ سے بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ امن کے ساتھ رہنے دو ان ہی کے بارے میں قرآن کی سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 تا 9 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
”اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج (یعنی تمہارے نکالنے)میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔“
آج بھی کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو جاتی ہے کہ غیر مسلموں سے ترک تعلق کرنا ان کے اسلام نہ لانے کی وجہ سے ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ سمجھایا ہے کہ اس ترک تعلق اور دشمنی کی اصل وجہ ان کا کفر نہیں بلکہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور ظالمانہ روش ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو دشمن کافر اور غیر دشمن کافر میں فرق کرنا چاہیے، اور ان کافروں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرنا چاہیے جنہوں نے کبھی ان کے ساتھ کوئی برائی نہ کی ہو اور جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کا رویہ کر رہے ہیں صرف انہیں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔
 

وجی

لائبریرین
سلامتی و امن اُس وقت تک نہیں آسکتا جب تک معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو۔
عدل و انصاف اس وقت تک نہیں قائم ہوسکتا جب تک افراد کے دلوں میں رحم نہ ہو۔
رحم دلوں میں صرف رحمت اللعالمین :pbuh: کی عقیدت رکھنے سے نہ آئے گا
بلکہ عقیدت کے ساتھ ساتھ عمل کی ضرورت بھی ہے ۔

میرے نزدیک اسلام امن و سلامتی سے زیادہ رحمت والا مذہب ہے اگر سمجھیں ہم تو۔
 
Top