اسلام - دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ

شمشاد

لائبریرین
سوال : بیش تر مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد کیوں ہیں؟

جواب : بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ بیش تر مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد کیوں ہیں۔ مجھ سے ایک سوال پوچھا گیا ہے اور میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ اگر یہ جواب آپ کے لیے اطمینان بخش ہو تو اسے قبول کر لیں اور اگر غیر تسلی بخش ہو تو رد کر دیں۔

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

لاَ اِكْرَاہَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَھَا وَاللّہُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔ (سورۃ بقرۃ (2)، آیہ 256)

"دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔"

میں آپ کے سامنے حقیقت پیش کروں گا لیکن اس حقیقت کو قبول کرنے پر میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا۔ آپ چاہیں تو اس کو قبول کریں چاہیں تو نہ کریں کیوں کہ دین میں یعنی اسلام میں زبردستی تو ہے نہیں۔ آپ پوچھتے ہیں کہ زیادہ تر مسلمان دہشت گرد اور بنیاد پرست کیوں ہیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ "بنیاد پرست" کا مطلب کیا ہے؟

"بنیاد پرست اس شخص کو کہتے ہیں جو (کسی بھی معاملے میں) بنیادی اصولوں پر عمل کرتا ہو۔"

مثال کے طور پر ایک شخص اگر اچھا ریاضی دان بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاضی کے بنیادی تصورات سے آشنا بھی ہو اور ان پر عمل پیرا بھی ہو۔ گویا اگر کوئی اچھا ریاضی دان بننا چاہتا ہے تو اسے ریاضیات کے شعبے کا بنیاد پرست ہونا چاہیے۔

اسی طرح اگر کوئی اچھا سائنس دان بننا چاہتا ہے تو اسے سائنس کے بنیادی اصول کا علم بھی ہونا چاہیے اور اُسے ان اصولوں پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ بہ الفاظ دیگر اسے سائنس کے شعبے کا بنیاد پرست ہونا چاہیے۔

اگر ایک شخص اچھا ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس کو چاہیے کہ وہ علم طب کے بنیادی اصولوں یعنی مبادیات کا علم حاصل کرے اور پھر ان پر پورا عمل بھی کرے۔ یعنی اچھا ڈاکٹر بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعبہ طب کا بنیاد پرست بن جائے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام بنیاد پرستوں کو کسی ایک خانے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام بنیاد پرست برے ہوتے ہیں یا یہ کہ "تمام بنیاد پرست اچھے ہوتے ہیں۔"

مثال کے طور پر ایک ڈاکو بھی بنیاد پرست ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ مبادیاتِ ڈاکہ زنی پر پوری طرح عمل کرتا ہو اور کامیابی سے ڈاکے ڈالتا ہو۔ لیکن وہ ایک اچھا آدمی نہیں ہے کیوں کہ وہ لوگوں کو لوٹتا ہے، وہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ وہ بھائی چارے کو خراب کرتا ہے۔ وہ ایک اچھا انسان نہیں ہے۔

دوسری طرف ایک بنیاد پرست ڈاکٹر ہے۔ جو مبادیاتِ طب پر عمل پیرا ہے۔ بنیادی طبی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کا علاج کرتا ہے ان کی تکالیف دور کرتا ہے۔ وہ ایک اچھا انسان ہے کیوں کہ وہ بنی نوع انسانیت کے کام آ رہا ہے۔

یعنی آپ تمام بنیاد پرستوں کا خاکہ ایک ہی مُوقلم سے نہیں بنا سکتے۔

جہاں تک سوال ہے مسلمانوں کے بنیاد پرست ہونے کا تو مجھے فخر ہے کہ میں ایک بنیاد پرست مسلمان ہوں کیوں کہ میں اسلام کی بنیادی باتوں کا علم رکھتا ہوں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور فخر سے کہتا ہوں کہ میں ایک بنیاد پرست مسلمان ہوں۔ کوئی بھی شخص جو اچھا مسلمان بننا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک بنیاد پرست مسلمان بے۔ بصورت دیگر وہ کبھی بھی ایک اچھا مسلمان نہیں بن سکتا۔

اسی طرح اگر ایک ہندو چاہتا ہے کہ وہ ایک اچھا ہندو بنے تو اسے ایک بنیاد پرست ہندو بننا پڑے گا۔ ایک عیسائی اگر اچھا عیسائی بننا چاہتا ہے تو اسے بنیاد پرست عیسائی بننا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر وہ کبھی ایک اچھا عیسائی نہیں بن سکتا۔

اصل سوال یہ ہے کہ ایک "بنیاد پرست مسلمان" اچھا ہوتا ہے یا برا؟ الحمد للہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جو انسانیت کے خلاف ہو۔ مجھ سے متعدد ایسے سوالات پوچھے گئے جو غلط فہمیوں پر مبنی تھے۔ لوگوں کو اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں اور ان غلط فہمیوں کی وجہ سے ہی وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات میں خرابی ہے۔ جس طرح کہ ایک بھائی نے گائے کے بارے میں سوال کیا اور میں نے جواب دیا۔ اسی طرح کے مزید سوالات کیے گئے اور میں نے جوابات دیے۔

اصل میں ہوتا یہ ہے کہ لوگوں کی معلومات محدود ہوتی ہیں۔ اور وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہی غلط ہیں۔ لیکن اگر آپ اسلام کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں تو آپ کے علم میں ہو گا کہ اسلام کا کوئی ایک اصول بھی ایسا نہیں ہے جو معاشرے اور انسانیت کے لیے نقصان دہ ہو۔

میں یہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کو، اور یہی نہیں، کائنات کے تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں کوئی ایک چیز مجھے ایسی دکھا دیں جو انسانیت کے خلاف ہو۔

ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اسلامی تعلیمات بری لگتی ہوں لیکن مجموعی طور پر پوری انسانیت کی بہتری اور فلاح کے لیے یہی تعلیمات بہترین ہیں۔ میں دوبارہ چیلنج کرتا ہوں، اس ہال میں بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص مجھ سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتا ہے۔ میں انشاء اللہ تمام غلط فہمیاں دور کر دوں گا۔

ویبسٹر ڈکشنری بتاتی ہے کہ :

" فنڈا منٹلزم وہ تحریک تھی جو بیسویں صدی کے آغاز میں امریکی پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے شروع کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ نہ صرف بائبل میں بیان کردہ تعلیمات الہامی ہیں بلکہ پوری انجیل لفظ بہ لفظ کلام خداوندی ہے۔"

اب ظاہر ہے کہ اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ بائبل واقعی حرف بہ حرف کلام خداوندی ہے تو پھر یہ ایک اچھی تحریک ہے لیکن اس تحریک سے وابستہ لوگ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر فنڈا منٹلزم کی یہ تحریک قابل ستایش نہیں کہلائے گی۔

آکسفورڈ انگریزی لغت میں بنیاد پرست کی یہ تعریف ملتی ہے :

“…… Strictly adhering to the ancient laws of a religion, especially Islam.”

"کسی بھی مذہب کے قدیم قوانین کی سختی سے پابندی کرنا، خصوصاً "اسلام"۔

یعنی اب آکسفورڈ ڈکشنری کہتی ہے کہ "خصوصاً اسلام"۔ اس لغت کی تازہ ترین اشاعت میں یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی اب بنیاد پرستی کا لفظ سنتے ہیں فوراً دھیان جائے گا مسلمان کی طرف ۔۔۔۔۔۔ کیوں؟

اس لیے کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل لوگوں پر ایسے بیانات کی بمباری کیے چلے جا رہے ہیں جن سے مسلمان ہی بنیاد پرست معلوم ہوتے ہیں اور مسلمان ہی دہشت گرد۔ اور اب تو صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ "بنیاد پرست" لفظ سنتے ہی فوراً ذہن میں مسلمان آتے ہیں۔

ذرا لفظ "دہشت گرد" پر غور کریں۔ دہشت گرد کسے کہتے ہیں؟ اس شخص کو جو دہشت پھیلائے۔

اب اگر ایک ڈاکو پر پولیس کو دیکھ کر دہشت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے لیے پولیس دہشت گرد ہے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟

میں انگریزی زبان میں واضح طور پر بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں لفظوں سے نہیں کھیل رہا۔ دہشت گرد وہ ہے جو دہشت پھیلائے۔ اب اگر کسی ڈاکو، کسی مجرم، کسی سماج دشمن پر پولیس کو دیکھ کر دہشت طاری ہوتی ہے تو پولیس بھی دہشت گرد ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ اسے سماج دشمن عناصر کے لیے دہشت گرد ہونا چاہیے۔ کوئی ڈاکو کسی مسلمان کو دیکھے تو اس پر دہشت طاری ہو جانی چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی زانی کسی مسلمان کو دیکھے تو اسے دہشت زدہ ہو جانا چاہیے۔

مجھے اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ بالعموم دہشت گرد اس شخص کو کہا جاتا ہے جو عام لوگوں کو دہشت زدہ کرے۔ جو معصوم لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرے اور اس تناظر میں کسی بھی مسلمان کو دہشت گرد نہیں ہونا چاہیے۔ عام لوگوں کو مسلمان سے قطعا دہشت زدہ نہ ہونا چاہیے۔

البتہ جہاں تک سماج دشمن عناصر، چوروں، ڈاکوؤں اور مجرموں کا تعلق ہے تو جس طرح پولیس ان کے لیے دہشت گرد ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی ان کے لیے دہشت گرد ہونا چاہیے۔

ایک معاملہ اور بھی ہے وہ یہ کہ اگر آپ تجزیہ کریں تو بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص پر دو مختلف لیبل لگ جاتے ہیں۔ ایک ہی شخص کے، ایک ہی کام کی وجہ سے، دو مختلف تصور بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا، جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی تو اس وقت مجاہدین آزادی، برصغیر کی آزادی کے لیے جد و جہد کر رہے تھے۔ انگریز حکمران ان لوگوں کو دہشت گرد کہتے تھے جب کہ ہندوستانی انہیں محب وطن اور مجاہدین آزادی کہتے تھے۔

وہی لوگ تھے، ایک ہی فعل کی وجہ سے انگریزوں کی نظر میں وہ دہشت گرد تھے لیکن ہندوستانیوں کی نظر میں، ہماری نظر میں وہ مجاہد تھے۔ آپ جب ان لوگوں پر کوئی لیبل لگائیں گے تو پلے صورتِ حال کا تجزیہ کریں گے۔ اگر آپ انگریز حکمرانوں سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر یقیناً اپ انہیں دہشت گرد قرار دیں گے لیکن اگر آپ ہندوستانیوں کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ انگریز ہندوستان میں تجارت کرنے آئے تھے اور یہاں قابض ہو گئے، ان کی حکومت غاصبانہ اور غیر قانونی ہے تو پھر آپ انہی لوگوں کو مجاہدین آزادی قرار دیں گے۔

یعنی ایک ہی طرح کے لوگوں کے بارے میں دو مختلف آرا ہونا ممکن ہے۔

چنانچہ میں آخر میں یہ کہہ کر اپنی بات سمیٹوں گا کہ "جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ہر مسلمان کو بنیاد پرست ہونا چاہیے کیوں کہ اسلام کی تمام تعلیمات انسانیت کے حق میں ہیں۔ انسان دوستی اور عالمی بھائی چارے کو تقویت دینے والی ہیں۔"

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : جہاں تک میرا خیال ہے کسی مذہب میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔ ہر مذہب کے اصول اچھے ہیں لیکن اصول بیان کر دینا ایک چیز ہے اور ان اصولوں پر عمل کرنا ایک دوسری بات ہے۔ عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ خون ریزی مذہب کے نام پر ہی ہوتی ہے۔ آپ مذہبی اصولوں اور مذہب کے نام پر ہونے والی قتل و غارت میں مطابقت کس طرح تلاش کریں گے؟

جواب : یہ ایک بہت اچھا سوال ہے کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر اچھی باتیں ہی کرتے ہیں لیکن جہاں تک عمل درآمد کا تعلق ہے تو وہ کچھ مختلف ہے۔ تعلیم اچھی باتوں کی دی جاتی ہے لیکن اگر دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو بے شمار لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

یہ ایک بہت اچھا سوال ہے۔ اس سوال کا جزوی جواب تو میں اپنی گفتگو کے دوران میں دے چکا ہوں۔ یعنی جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، ہمارا دین ہمیں کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔

سورۃ مائدہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

مِنْ اَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي اِسْرَائِيلَ اَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ اَحْيَاھَا فَكَاَنَّمَا اَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْھُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنَاتِ ثُمَّ اِنَّ كَثِيرًا مِّنْھُم بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔ (سورۃ 5، آیہ 32)

"اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں"

لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو کس طرح حل کر سکتے ہیں۔ اتفاق کس طرح پیدا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی میں نے سورۃ آل عمران کی چونسٹھویں آیت کی روشنی میں دیا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے :

قُلْ يَا اَھْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ اِلَى كَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِكَ بِہِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ فَاِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْھَدُواْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۔ (سورۃ 3، آیہ 64)

" اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، کہو! اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم (خدا کی اطاعت و بندگی کرنے والے) ہیں۔"

فرض کیجیے دس نکات آپ پیش کرتے ہیں اور دس نکات میں پیش کرتا ہوں۔ اب فرض کیجیے کہ ان میں سے پانچ نکات مشترکہ ہیں اور باقی میں اختلاف ہے تو ہمیں کم از کم پانچ نکات کی حد تک تو اتفاق رائے کر لینا چاہیے۔ اختلافات کو ملتوی کیا جا سکتا ہے، نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

قرآن کن باتوں پر جمع ہونے کی دعوت دیتا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ ہم ایک خدائے واحد و برتر کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ ہم کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے۔

آپ نے ایک اچھی بات کی کہ یہ مسائل کیوں کر حل ہو سکتے ہیں؟ میں نے ایک طریقہ کار آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ مشترکہ امور پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ لیکن اس سلسلے میں ایک نہایت اہم بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی وہ یہ کہ مختلف مذاہب کے بیش تر پیروکار خود اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات سے باخبر نہیں ہوتے۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کے صحائف مقدس میں لکھا کیا ہوا ہے؟

بہت سے مسلمانوں کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ قرآن اور احادیث صحیحہ میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں۔ اسی طرح بہت سے ہندوؤں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کے متونِ مقدسہ کہتے کیا ہیں۔ بہت سے عیسائی ایسے ہیں جو نہیں جانتے کہ بائبل کے احکامات کیا ہیں اور بہت سے یہودیوں کو یہ خبر نہیں کہ عہد نامہ قدیم میں لکھا کیا ہوا ہے؟

اب قصور کس کا ہے؟ ان مذاہب کا یا ان کے ماننے والوں کا؟ ظاہر ہے کہ ان مذاہب کے پیروکار ہی قصوروار ہیں۔ اسی لیے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنے متون مقدسہ کا مطالعہ تو کریں۔ اختلافات بعد میں نپٹا لیے جائیں گے، پہلے کم از کم ان امور پر تو ہم اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہیں۔

میں "اسلام اور عیسائیت میں یکسانیت" کے موضوع پر گفتگو کر چکا ہوں۔ اس میں بھی میں نے یہی کہا کہ اختلافات کو فی الحال نظر انداز کر دیا جائے اور کم از کم ان نکات پر تو ہم متفق ہو جائیں جو ہمارے قرآن اور تمہاری انجیل میں مشترک ہیں۔ اگر ہم مشترک امور پر ہی متفق ہو جائیں تو جھگڑا ختم ہو جائے گا۔

میں اپنی اس گفتگو میں بھی یہ کچھ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کیا میں کبھی کسی مذہب پر ازخود تنقید کرتا ہوں؟ صرف اس وقت جب بعض بھائیوں کے سوالات کی وجہ سے میں مجبور ہو جاتا ہوں تو مجھے اظہارِ حقیقت کرنا پڑتا ہے۔ آپ میری تقاریر کی ریکارڈنگ دیکھ سکتے ہیں، میں نے ایک دفعہ بھی کسی مذہب پر ازخود تنقید کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں اختلافات کے بارے میں بحث کرتا ہی نہیں۔ میں مشترک امور سامنے لانے کی کوشش کرتا ہوں ورنہ میں اختلافات پر بھی بحث کر سکتا ہوں۔ میں ایسے موضوعات پر بھی تقریریں کر سکتا ہوں :

"اسلام اور ہندو مت کے اختلافات "

اسلام اور عیسائیت کے اختلافات"

میں تقابل ادیان کا طالب علم ہوں۔ اللہ کا شکر ہے میں دنیا کے بیش تر مذاہب کے متون مقدسہ کے اقتباسات یہاں پیش کر سکتا ہوں۔ اور ان مذاہب کے اختلافات آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں۔

لیکن میں ایسا نہیں کرتا۔ میں اختلافات کا ذکر اسی وقت کرتا ہوں جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب حاضرین میں سے کوئی پروگرام کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہمیں ان اختلافات سے باخبر ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن میں عام آدمی کے سامنے ان اختلافات پر گفتگو نہیں کرتا۔ عام آدمی سے میں یہی کہتا ہوں کہ خود اپنی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرو۔ اس طرح تم اپنے مذہب کے بھی قریب ہو جاؤ گے اور عالمی بھائی چارہ بھی بڑھے گا۔ اپنے صحائف مقدسہ کا مطالعہ کرو۔ کم از کم خدا پر تو ایمان لاؤ۔ اختلافات بعد میں حل ہوتے رہیں گے۔

یہودیت یہی کہتی ہے، عیسائیت یہی کہتی ہے، ہندو مت یہی کہتا ہے، اسلام یہی کہتا ہے، سکھ مذہب یہی کہتا ہے، پارسی مذہب یہی کہتا ہے کہ :

"ایک خدا پر ایمان لاؤ اور اسی کی پرستش کرو۔"

آپ دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ پہلے صرف اسی نکتے پر جمع ہو جائیں دیگر نکات کے بعد میں فیصلے ہوتے رہیں گے۔ اگر ہم یہ مشترکہ مسئلہ حل کر لیں اگر ہم دس میں سے تین مسائل پر بھی متفق ہو جائیں تو دیگر نکات کا اختلاف برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ان کا فیصلہ بعد میں ہو سکتا ہے۔

آپ یقین کیجیے کہ اگر ہم مشترکہ نکات پر اتفاق کر لیں تو بیش تر مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور میں خود یہی کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں ساری دنیا میں سفر کرتا ہوں۔ غیر مسلموں کے سامنے خطابات کرتا ہوں اور چوں کہ لوگ نہ اپنے صحائف مقدسہ کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں اور نہ ہماری کتابوں کے بارے میں، لہذا بہت سے لوگ سوالات کرتے ہیں۔ خود مسلمان بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات کے بارے میں پورا علم نہیں رکھتے۔ وہ ان باتوں کے بارے میں سوالات کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے لہذا میں انہیں معلومات فراہم کرتا ہوں۔ میں انہیں قرآن اور حدیث کے بارے میں بتاتا ہوں۔ وید اور بائبل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ اور میں جب بھی کوئی اقتباس پیش کرتا ہوں تو اس کا حوالہ ضرور پیش کر دیتا ہوں۔ تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ذاکر بھائی ہوائی باتیں کر رہے ہیں۔ اور یہ تمام کتب مقدسہ جن کا میں حوالہ دیتا ہوں، اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن میں دستیاب ہیں۔ ہماری لائبریری میں وید مقدس کے متعدد ترجمے موجود ہیں۔ ہمارے پاس سینکڑوں قسم کی انجیلیں موجود ہیں۔ بائبل کے تیس سے زیادہ مختلف متن ہمارے پاس ہیں۔ الحمد للہ۔ لہذا اپ کا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو۔ آپ Jehovahs Witness ہوں، Catholic ہوں یا Protestant ہوں، اپ کی بائبل ہمارے پاس موجود ہو گی اور ہم اس کا حوالہ پیش کریں گے۔ چنانچہ اگر کوئی کہنا چاہے کہ ذاکر نائیک غلط کہہ رہا ہے تو اُسے ان متونِ مقدسہ کو بھی غلط کہنا پڑے گا کیوں کہ میری تقریر کا بیش تر حصہ ان متون مقدسہ کے اقتباسات ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر آپ ان صحائف سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کو کوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔ ضرور اختلاف کریں۔ بڑے شوق سے اختلاف کریں کیونکہ قرآن کہتا ہےہ کہ "دین میں کوئی جبر نہیں ہے" حق کو باطل سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ میں ہندو مت کی حقیقی تعلیم آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اتفاق کرنا چاہیں تو کریں اگر اختلاف کرنا چاہیں تو اختلاف کریں۔

ایک سمپوزیم منعقد ہوا تھا، جس کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی دستیاب ہے۔ اس سمپوزیم کا موضوع تھا "اسلام عیسائیت اور ہندو مت میں تصورِ خدا" کچھ لوگ اسے مناظرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیرالہ کے ایک ہندو پنڈت، کالی کٹ کے ایک مسیحی پادری اور اسلام کا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے میں۔ یہ مباحثہ ساڑھے چار گھنٹے جاری رہا۔ اس مباحثے کی ریکارڈنگ دستیاب ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اس مباحثے میں عیشائیت اور ہندو مت کے علما بھی شریک ہیں اور میں تو محض ایک طالب علم ہوں۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ فیصلہ کرنا تو ناظرین کا کام ہے۔ میں نے بہر حال مشترکہ نکات پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہی کی کتابوں کے ساتھ اور مکمل حوالوں کے ساتھ۔ باب نمبر اور آیت نمبر کے ساتھ۔ بنی نوع انسان کو متحد کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ ہے ایسی باتوں کی تلاش جو ہمارے مابین مشترک ہوں۔

امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اگر اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے تو پھر اسے تلوار کی مدد سے کیوں پھیلایا گیا ہے؟

جواب : سوال پوچھا گیا ہے کہ ؛ "اگر اسلام واقعی امن و سلامتی کا مذہب ہے تو پھر یہ تلوار کی مدد سے کیوں پھیلا؟ بات یہ ہے کہ اسلام کا لفظ ہی سَلَمَ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہی سلامتی ہے۔ اسلام کا ایک اور مطلب اپنی رضا کو اللہ تبارک و تعالٰی کی مرضی کے تابع کر دینا ہے۔ گویا اسلام کا مطلب ہوا "وہ سلامتی جو اپنی مرضی کو اللہ تعالٰی کی مرضی کے تابع کر دینے سے حاصل ہوتی ہے۔" لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر شخص سلامتی کا متمنی نہیں ہوتا۔ ہر شخص یہ نہیں چاہتا کہ پوری دنیا میں امن و سلامتی کا دور دورہ ہو۔ کچھ سماج دشمن عناصر بھی ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے امن و سلامتی نہیں چاہتے۔ اگر مکمل طور پر امن ہو جائے تو ظاہر ہے کہ چوروں، ڈاکوؤں اور مجرموں کے لیے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ چنانچہ اپنے فائدے کے لیے ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ امن و سلامتی نہ رہے۔ ایسے سماج دشمن لوگوں کی بیخ کنی کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے پولیس کا ادارہ قائم کرنا پڑتا ہے۔

گویا اسلام واقعہ امن و سلامتی کا مذہب ہے لیکن امن و سلامتی قائم رکھنے کے لیے بھی بعض اوقات طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے تاکہ معاشرے کے لیے لیے نقصان دہ عناصر کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ "اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے" تو اس سوال کا بہترین جواب ڈی لیسی اولیری نے دیا ہے، جو کہ ایک مشہور غیر مسلم مؤرخ ہیں۔ اپنی کتاب "Islam at the Cross Roads" کے صفحہ آٹھ پر وہ لکھتے ہیں :

" ۔۔۔۔۔ تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شدت پسند مسلمانوں کے پوری دنیا پر قبضے کرنے اور تلوار کے زور پر مفتوحہ اقوام کے لوگوں کو مسلمان کرنے کی کہانیاں درحقیقت ان افسانوں میں سب سے زیادہ بےسروپا اور ناقابل یقین ہیں جو مؤرخ دہراتے رہتے ہیں۔"

کتاب کا نام "Islam at the Cross Roads" ہے۔ مصنف ڈی لیسی اولیری ہیں اور صفحہ نمبر آٹھ ہے۔ اب میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ ہم مسلمانوں نے سپین پر تقریباً آٹھ سو برس حکومت کی۔ لیکن جب صلیبی جنگجو وہاں آئے تو مسلمانوں کا نام و نشان ہی مٹا دیا گیا۔ وہاں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں بچا جو سر عام اذان دے سکے۔ لوگوں کو نماز کی دعوت دے سکے۔ ہم نے وہاں قوت کا استعمال نہیں کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم مسلمانوں نے تقریباً چودہ سو سال مسلسل عرب علاقے میں حکومت کی۔ صرف چند سال انگریزی اور چند سال فرانسیسی بھی رہے لیکن مجموعی طور پر ایک ہزار چار سو برس تک عربوں کے علاقے میں مسلمانوں ہی کی حکومت رہی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت بھی تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب عیسائی ہیں۔ یہ لوگ قبطی عیسائی کہلاتے ہیں۔ قبطی عیسائی نسل در نسل عیسائی چلے آ رہے ہیں۔ اگر ہم مسلمان چاہتے تو ان میں ہر ایک کو بہ زورِ شمشیر مسلمان کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔

یہ چودہ ملین عرب جو کہ قبطی عیسائی ہیں، درحقیقت اس بات کی گواہی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر ہرگز نہیں پھیلا۔ خود ہندوستان پر بھی صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن یہاں بھی اسلام پھیلانے کے لیے تلوار سے کام نہیں لیا گیا۔ اگر چند لوگ کوئی غلط کام کریں تو اس کے لیے مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر چند لوگ مذہب کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس مذہب ہی میں برائی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہنا غلط ہو گا کہ عیسائیت ایک برا مذہب ہے کیوں کہ ہٹلر نے 60 لاکھ یہودی مار دیے تھے۔ فرض کیجیے ایسا ہوا بھی ہو کہ ہٹلر نے ساٹھ لاکھ یہودی جلا کر مار دیے ہوں تو پھر بھی اس کا ذمہ دار عیسائی مذہب کو کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کالی بھڑیں تو ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہیں۔

ہم مسلمانوں نےصدیوں ہندوستان پر حکومت کی، اگر ہم چاہتے ہیں تو یہاں کے ہر غیر مسلم کو بہ زورِ شمشیر مسلمان کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہم نے کبھی ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس بات کی شہادت وہ ہندو ہیں جو آج بھی اس ملک کی آبادی کا اسی فی صد ہیں۔ یہاں موجود حاضرین میں شامل گیر مسلم خود اس بات کی گواہی ہیں کہ ہم نے طاقت اور قوت رکھنے کے باوجود لوگوں کو بہ زورِ شمشیر مسلمان نہیں کیا۔ ہم نے ایسا نہیں کیا کہ اسلام اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا۔

آج آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک انڈونیشیا ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی وہاں ہے۔ کون سی فوج انڈونیشیا فتح کرنے گئی تھی؟ ملیشیا کی آبادی کا بھی 55 فی صد مسلمانوں پر مشتمل ہے تو بتائیے وہاں کون سے فوج روانہ کی گئی تھی؟ افریقہ کا مشرقی ساحل فتح کرنے کون گیا تھا؟ کون سی فوج؟ کون سی تلواریں؟

اس کا جواب تھامس کارلائل دیتا ہے۔ کارلائل اپنی کتاب Heroes & Hero Worship میں لکھتا ہے :

"آپ کو یہ تلوار حاصل کرنا پڑتی ہے۔ بصورتِ دیگر کم ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہر نیا نظریہ ابتدا میں ایک آدمی کے ذہن میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں صرف ایک آدمی کے ذہن میں، ایک آدمی بمقابلہ پوری نوع انسانی اگر وہ تلوار کا استعمال کرے گا تو اس کی کامیابی کا امکان کم ہی ہے۔"

کون سی تلوار؟ فرض کیجیے کوئی ایسی تلوار ہوتی بھی تو مسلمان اسے استعمال نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ قرآن انہیں حکم دیتا ہے :


لاَ اِكْرَاہَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَھَا وَاللّہُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔ (سورۃ بقرۃ (2)، آیہ 256)

"دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔"

یعنی ہر وہ شخص جو اللہ سے دست گیری چاہتا ہے اور باطل قوتوں کو رد کر دیتا ہے۔ درحقیقت اس نے سب سے مضبوط سہارا پکڑا ہے۔ ایسا سہارا جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔

کون سی تلوار سے لوگوں کو مسلمان کیا گیا ہے؟ یہ حکمت کی تلوار تھی۔ قرانِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

ادْعُ اِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُم بِالَّتِي ھِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِينَ۔ (سورۃ النحل (16)، آیہ 125)

"(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔"

The Plain Truth نامی رسالے میں ایک مضمون شایع ہوا ہے جو اصل میں ریڈرز ڈائجسٹ کی سالانہ کتاب 1986ء سے لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں 1934ء سے 1984ء تک کے پچاس برسوں میں مذاہب عالم میں اضافے کے حوالے سے اعدادو شمار دیئے گئے ہیں۔ ان نصف صدی کے دوران سب سے زیادہ اضافہ مسلمانوں کی تعداد دو سو پینتیس فی صد 235% بڑھ گئی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ان پچاس برسوں میں 1934ء سے 1984ء تک مسلمانوں نے کون سی جنگیں لڑ کر لوگوں کو مسلمان کیا ہے؟ وہ کون سی تلوار تھی جس کے ذریعے ان لاکھوں افراد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ تیزی سے برھنے والا مذہب اسلام ہے۔ ان امریکیوں کو اسلام قبول کرنے پر کون سی تلوار مجبور کر رہی ہے؟ یورپ میں بھی اسلام ہی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ انہیں کون بہ نوکِ شمشیر اسلام قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے؟ قرآن اس سوال کا جواب متعدد مقامات پر دیتا ہے۔ میں اس سوال کا جواب ڈاکٹر ایڈم پیٹرسن کے ان الفاظ پر ختم کرنا چاہوں گا :

"وہ لوگ جنہیں یہ خوف ہے کہ ایٹمی ہتھیار کہیں عربوں کے ہاتھ نہ آ جائیں، وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ اسلامی بم تو پہلے ہی گرایا جا چکا ہے۔ یہ بم اس دن گرا تھا جس دن پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی۔"

امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اگر اسلام واقعی بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے تو پھر مسلمان خود کیوں مختلف فرقوں میں تقسیم ہیں؟

جواب : سوال یہ کیا گیا ہے کہ اگر واقعی اسلام حقیقی عالمی بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے تو پھر مسلمان خود کیوں فرقوں میں تقسیم ہیں۔ اس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی سورۃ آل عمران میں کچھ یوں دیا گیا ہے :

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ط (سورۃ3۳، آیہ 103)

"سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔"

اللہ کی رسی سے کیا مراد ہے؟ اللہ کی رسی سے مراد ہے اللہ تعالٰی کی کتاب یعنی قرآن مجید۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی مرضی کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ یعنی قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی تعلیمات پیش نظر رکھیں، اور آپ میں تفرقہ نہ ڈالیں۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے عرض کیا قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ ۔ (سورۃ الانعام (6)، آیہ 159)

"جن لوگوں نے اپنے دین کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے۔ وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔"

پتہ یہ چلا کہ دین اسلام میں تفرقے سے یعنی فرقوں میں تقسیم ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض مسلمانوں سے جب پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو جواب ملتا ہے :

"میں حنفی ہوں۔"
"میں شافعی ہوں۔"

بعض کہتے ہیں :
"میں مالکی ہوں۔"

اور بعض کا جواب ہوتا ہے :
"میں حنبلی ہوں۔"

سوال یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے؟ کیا وہ حنفی تھے؟ حنبلی تھے؟ مالکی تھے؟ یا شافعی تھے؟ وہ صرف اور صرف مسلمان تھے۔۔

قرآن پاک کی سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے :

فَلَمَّا اَحَسَّ عِيسَى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنصَارِي اِلَى اللّہِ (سورۃ 3، آیہ 52)

"جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟"

حواریوں نے جواب دیا :

نَحْنُ اَنصَارُ اللّہِ آمَنَّا بِاللّہِ وَاشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۔ (سورۃ 3، آیہ 52)

"ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں۔"

ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا اِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔ (سورۃ حم (41)، آیہ 33)

"اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔"

یعنی اچھا وہ ہے جو کہے کہ میں مسلم ہوں۔ جب بھی کوکئی آپ سے یہ سوال کرے کہ آپ کون ہیں؟ تو آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ "میں مسلمان ہوں۔" اس میں کوئی حرج نہیں اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے بعض معاملات میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ یا کسی اور عظیم عالم کی رائے سے اتفاق ہے۔ یا یہ کہ مجھے امام شافعی رحمۃ اللہ یا امام مالک رحمۃ اللہ یا امام ابنِ حنبل رحمۃ اللہ کے فیصلوں سے اتفاق ہے۔

میں ان تمام فقہا کا احترام کرتا ہوں۔ اگر کوئی بعض معاملات میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی تقلید کرتا ہے اور بعض میں امام شافعی رحمۃ اللہ کی تو میرے نزدیک اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں لیکن جب آپ کی شناخت کے بارے میں سوال کیا جائے تو آپ کا جواب ایک ہی ہونا چاہیےاور وہ یہ کہ میں مسلمان ہوں۔ پہلے کسی بھائی نے کہا کہ "قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کے 73 فرقے ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔" دراصل وہ قرآن کا نہیں بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دے رہے تھے۔ یہ حدیث سنن ابو داؤد میں موجود ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ دین اسلام 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا لیکن اگر آپ ان الفاظ پر غور کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس میں اطلاع دی جا رہی ہے کہ 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا، حکم نہیں دیا جا رہا کہ دین کو 73 فرقوں میں تقسیم کر دو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیش گوئی فرما رہے ہیں۔ حکم تو یہی ہے جو قرآن میں دے دیا گیا ہے کہ "تفرقے میں نہ پڑو۔"

یہ تو ایک سچی پیش گوئی ہے جس نے پورا ہر کر رہنا ہے۔ ترمذی کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے :

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی اور ایک فرقے کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یہ ایک فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ وہ جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے رستے پر چلے گا۔"

یعنی وہ جو قرآن اور صحیح احادیث کی پیروی کرے گا، وہی درست راستے پر یعنی صراطِ مستقیم پر ہے۔ اسلام دین میں تفرقے اور تقسیم کے خلاف ہے۔ لہذا قرآن اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ اور ان پر عمل ہونا چاہیے کیوں کہ قرآن و حدیث پر عمل کر کے ہی مسلمان متحد ہو سکتے ہیں۔

امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : دنیا میں بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے بہترین طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے؟ ہمیں زیادہ سے زیادہ زور کس پہلو پر دینا چاہیے؟ مذہب پر،؟ سماجیات پر؟ یا سیاست پر؟

جواب : بھائی نے سوال یہ پوچھا ہے کہ عالمی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ہمیں کس چیز کو ترجیح دینی چاہیے؟ کیا مذہب پر زور دینا چاہیے؟ سماجیات پر؟ یا سیاست پر؟

میرے بھائی میری ساری گفتگو ہی اس موضوع پر تھی اور اب میرے لیے وہ ساری باتیں دہرانا ممکن نہیں ہے۔ آپ کے سوال کا جواب وہی ہے۔ دنیا میں بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ہمیں مذہب کو ترجیح دینی پڑے گی۔ یہ بات تمام مذاہب میں موجود ہے کہ : "ہمیں ایک خدا پر ایمان رکھنا چاہیے اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔" لہذا ہمیں چاہیے کہ اسی بات کو اہمیت دیں اور اسی نکتے کو ترجیح دیں۔ میں اپنی گفتگو کے دوران میں بھی یہی دہراتا رہا ہوں، میں نے متعدد سوالات کے جوابات دیتےہوئے بھی یہ بات کی اور اب پھر کہہ رہا ہوں کہ سماجیات اور سیاسیات بنیادی ترجیح نہیں ہیں بلکہ یہ چیزیں بعد میں آتی ہیں۔ سیاسیات جس بھائی چارے کی بات کرتی ہے وہ محدود ہے اور اسی طرح سماجیات بھی محدود ہے لیکن ایک خدا پر ایمان، ایک کائناتی سچائی ہے۔

اللہ ہی نے پوری انسانیت کو تخلیق فرمایا ہے۔ مرد ہو یا عورت، گورا ہو یا کالا، امیر ہو یا غریب، سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ لہذا عالمی بھائی چارے کا قیام صرف اور صرف خدائے واحد پر ایمان اور عبادت کو صرف اُسی کے لیے خاص کر دینے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : تمام مذاہب بنیادی طور پر اچھی باتوں ہی کی تعلیم دیتے ہیں۔ لہذا کسی بھی مذہب کی پیروی کی جائے ایک ہی بات ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ جب تمام مذاہب بنیادی طور پر اچھی باتوں کی ہی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کسی بھی مذہب کی پیروی کریں ایک ہی بات ہے۔ مجھے آپ کے سوال کے پہلے جزو سے پورا اتفاق ہے کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر اچھی باتیں ہی سکھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مذہب اپنے پیروکاروں کو یہی تعلیم دیتا ہے کہ کسی کو لوٹنا نہیں چاہیے، خواتین کی عزت کرنی چاہیے یعنی کسی خاتون کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے۔ ہندو مت یہی کہتا ہے، عیسائیت یہی تعلیم دیتی ہے اور اسلام بھی یہی تعلیم دیتا ہے۔

لیکن اسلام اور دیگر مذاہب میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ اسلام نہ صرف اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ان باتوں کے عملی نفاذ کا طریق کار بھی سکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھائی چارے کی تعریف تو تمام مذاہب کرتے ہیں لیکن اسلام آپ کو یہ بھی سکھاتا ہے کہ آپ کی عملی زندگی میں بھائی چارہ کس طرح آئے گا۔ ہندو مت کسی کو لوٹنے سے منع کرتا ہے۔ عیسائیت بھی یہی تعلیم دیتی ہے اور اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ کسی کو لوٹنا غلط کام ہے۔ اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اسلام آپ کو ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے جس میں کوئی کسی کو لوٹنے کی کوشش ہی نہ کرے۔ یہی اسلام اور دیگر مذاہب میں فرق ہے۔

اسلام ایک نظامِ زکوٰۃ قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر امیر آدمی اپنی بچت کا ڈھائی فیصد غریبوں کو دینے کا پابند ہے۔ زکوٰۃ ہر قمری سال میں ایک بار ادا کی جاتی ہے اور ہر اس شخص پر فرض ہے جس کے پاس ایک خاص مقدار سے زیادہ سونا یا اس کے مساوی مال و دولت ہو۔ اگر ہر امیر آدمی زکوٰۃ کی ادائیگی شروع کر دے تو دنیا سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ اگر دنیا کے تمام امیر لوگ زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیں تو پوری دنیا میں کوئی بھی شخص بھوک سے نہیں مرے گا۔

مزید برآں یہ نظام قائم کرنے کے بعد قرآنِ حکیم حکم دیتا ہے :

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ اَيْدِيَھُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔ (سورۃ المائدہ (5)، آیہ 38 )

"اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے۔ اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے۔ اور وہ دانا و بینا ہے۔"

بعض لوگ کہتے ہیں ہاتھ کاٹنا ایک ظالمانہ سزا ہے۔ اکیسویں صدی میں ایسی سزائیں نافذ نہیں ہو سکتیں اور یہ کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے، ایک بے رحم قانون ہے۔ اور یہ کہ ہزارہا لوگ چوریاں کرتے ہیں، اگر اس سزا کو نافذ کر دیا گیا تو بے شمار لوگوں کے ہاتھ کاٹنے پڑیں گے۔ لیکن سزا کے سخت ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ جیسے ہی اس سزا کو نافذ العمل کیا جائے گا فوراً جرائم میں کمی آ جائے گی۔ جیسے ہی کسی شخص کو یہ معلوم ہو گا کہ چوری کرنے یا ڈاکہ مارنے کی صورت میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو بیش تر صورتوں میں چوری یا ڈاکے کا خیال ہی اس کے ذہن سے نکل جائے گا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ جو اس وقت دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے وہ جرائم کی شرح کے اعتبار سے بھی پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم بھی امریکہ میں ہی ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ چوریاں اور ڈاکے بھی امریکہ ہی میں ہوتے ہیں۔ میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔

فرض کیجیے آج امریکہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امیر آدمی اپنی دولت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی صورت میں مستحقین کو دینا شروع کر دیتا ہے اور اس کے بعد اگر کوئی مرد یا عورت چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، تو میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بتائیں امریکہ میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہو گا اور یہی شرح برقرار رہے گی؟ یا جرائم میں کمی واقع ہو گی؟ ظاہر ہے کہ جرائم کی شرح میں کمی آ جائے گی۔ یہ ایک قابل عمل قانون ہے۔ آپ شرعی قوانین نافذ کرتے ہیں اور آپ کو فوری طور پر نتائج نظر آ جاتے ہیں۔

میں ایک اور مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دنیا کے بیش تر مذاہب خواتین کا احترام کرنے کا حکم دیتے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی کرنے سے منع کرتے ہیں۔ زنا بالجبر کو جرم قرار دیتے ہیں۔ ہندو مت کی یہی تعلیم ہے۔ عیسائیت یہی حکم دیتی ہے اور اسلام بھی یہی کہتا ہے۔ لیکن اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ یہ مذہب آپ کو وہ طریق کار اور وہ نظام بھی دیتا ہے جس کے تحت آپ عملاً معاشرے میں خواتین کی آبرو کا تحفظ ممکن بنا سکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جس میں مرد خواتین کی بے حرمتی نہ کریں، زنا بالجبر کے مرتکب نہ ہوں۔

سب سے پہلے تو اسلام حجاب کا حکم دیتا ہے۔ عام طور پر لوگ خواتین کے حجاب کی بات کرتے ہیں لیکن قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی حجاب کا حکم پہلے مردوں کو اور پھر عورتوں کو دیتا ہے۔

سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے :

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَھُمْ ذَلِكَ اَزْكَى لَھُمْ اِنَّ اللَّہَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ (سورۃ 24، آیہ 30)

"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"

جب بھی کوئی مرد کسی عورت کو دیکھے اور کوئی فاسد خیال اس کے ذہن میں آئے، کوئی شہوت انگیز خیال پیدا ہو تو اس کا فرض ہے کہ اپنی نگاہیں جھکا لے۔ دوبارہ نگاہ کو نہ بھٹکنے دے۔

ایک دن میرا ایک دوست میرے ساتھ تھا۔ یہ دوست مسلمان تھا۔ اس دوست نے کسی لڑکی کو دیکھا تو مسلسل کافی دیر تک دیکھتا رہا۔ میں نے اسے کہا کہ میرے بھائی یہ کیا کر رہے ہو۔ اسلام اس طرح خواتین کو گھورنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ جناب "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پہلی نگاہ کی اجازت ہے اور دوسری حرام ہے۔"

اور ابھی تو میں نے اپنی پہلی نگاہ آدھی بھی مکمل نہیں کی تھی۔ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ میں یہ جو کہا گیا ہے کہ پہلی نظر قابل معافی ہے اور دوسری قابل مواخذہ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلی مرتبہ نظر پڑے تو آدھا گھنٹہ گھورتے ہی چلے جاؤ اور پلک بھی نہ جھپکو۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ بلا ارادہ اگر کسی خاتون پر نظر پڑ بھی جائے تو خیر ہے لیکن قصداً، ارادتاً، جان بوجھ کر قطعا نہ دیکھو۔ سورۃ نور کی اگلی آیت خواتین کے لیے حجاب کا ذکر کرتی ہے۔

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَھُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلَى جُيُوبِھِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُولَتِھِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ ط (سورۃ 24، آیہ 31)

"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ ۔۔۔۔۔۔"

اس کے بعد ان لوگوں کی فہرست دی گئی ہے جو پردے سے مستثنیٰ ہیں۔

حجاب کے حوالے سے بنیادی طور چھ اصول ایسے ہیں جنہیں مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

پہلا اصول ہے حجاب کی حد یا معیار، یہ حد مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف ہے۔ مرد کے لیے حجاب کی کم از کم حد ناف سے گھٹنے تک ہے جب کہ عورت کا سارا جسم حجاب میں ہونا ضروری ہے۔ صرف چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بعض علما تو چہرے کا پردہ بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ صرف یہ اصول ہے جو عورت اور مرد کے لیے مختلف ہے۔ باقی پانچوں اصول مرد اور عورت پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ آپ کا لباس تنگ اور چست ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایسا لباس پہننے کی بھی ممانعت ہے جو جسم کی ساخت کو نمایاں کرے۔

تیسرا اصول یہ ہے کہ آپ کا لباس شفاط نہیں ہونا چاہیے، یعنی ایسے کپڑے کا بنا ہوا لباس پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے آرپار نظر آتا ہو۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ آپ کا لباس اتنا شوخ اور بھڑکیلا بھی نہیں ہونا چاہیے جو خواہ مخواہ لوگوں کو خصوصاً جنس مخالف کو متوجہ کرنے کا سبب بنے۔

پانچواں اُصول یہ ہے کہ آپ کا لباس کفار کے لباس سے مشابہ نہیں ہونا چاہیے یعنی کوئی ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جو کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی پہچان بن چکا ہو۔

چھٹی اور آخری بات یہ ہے کہ آپ کا لباس جنس مخالف کے مشابہ نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی مردوں کے لیے خواتین جیسے اور خواتین کے لیے مردوں والے لباس پہننے سے احتراز بہتر ہے۔

حجاب کے حوالے سے یہ وہ چھ بنیادی اصول ہیں جو قرآن اور صحیح حدیث کی روشنی میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔

حجاب کے حوالے سے قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

يَا أَيُّھَا النَّبِيُّ قُل لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْھِنَّ مِن جَلَابِيبِھِنَّ ذَلِكَ اَدْنَى اَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ (سورۃ الاعزاب (33)، آیہ 59)

"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔"

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ حجاب اسی لیے لازم کیا گیا ہے کہ خواتین کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھا جا سکے، اگر اس کے باوجود کوئی شخص زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے سزائے موت دی جائے گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جدید دور میں، اکیسویں صدی میں ایسی سزا کیوں کر دی جا سکتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسلام ایک ظالمانہ مذہب ہے۔ یہ ایک وحشیانہ اور بے رحمی پر مبنی قانون ہے۔

لیکن کیا آپ کے علم میں ہے کہ امریکہ، جو دورِ حاضر کا ترقی یافتہ اور جدید ترین ملک سمجھا جاتا ہے، وہاں زنا بالجر کے واقعات پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں روزانہ اوسطاً ایک ہزار نو سو ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یعنی ہر 1٫3 منٹ کے بعد زنا الجبر کا ایک واقعہ ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ اس ہال میں تقریباً ڈھائی گھنٹے سے ہیں۔ اس دوران امریکہ میں زنا بالجبر کے کتنے واقعات ہو چکےہوں گے؟ ایک سو سے بھی زیادہ۔

میں آپ سے پھر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

یہ بتائیے کہ اگر آج امریکہ میں اسلامی شریعت کا نفاذ کر دیا جائے تو کیا ہو گا۔ یعنی ایک تو مرد خواتین کو گھورنے سے مکمل پرہیز کریں یعنی اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ دوسرے یہ کہ لباس، حجاب کی تمام شرائط پوری کرنے والا ہو۔ اور تیسرے یہ کہ اگر کوئی مرد اس کے بعد کسی خاتون کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو تو اسے سزائے موت سنائی جائے گی۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ ایسی صورت میں زنا بالجبر کے واقعات کی شرح یہی رہے گی؟ اس میں کمی ہو گی؟ یا اضافہ ہو جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ شرح کم ہو جائے گی۔

اسلامی قانون ایک قابل عمل قانون ہے، لہذا جہاں بھی اسلامی شریعت کا نفاذ ہو گا، آپ کو فوری نتائج ملیں گے۔

باقی جہاں تک قوانین کے سکت ہونے کا تعلق ہے تو اس ھوالے سے میں غیر مسلموں سے بالعموم ایک سوال کیا کرتا ہوں کہ فرض کیجیے کوئی شخص آپ کی بیوی یا بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ اس کے بعد مجرم کو آپ کے سامنے لایا جاتا ہے اور آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے۔ آپ اس شخص کو کیا سزا سنائیں گے؟

آپ یقین کیجیے، ہر ایک نے بلا استثنیٰ ایک ہی جواب دیا، اور وہ یہ کہ ہم اس مجرم کو موت کی سزا دیں گے۔ بعض لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور جواب دیا کہ ہم ایسے شخص کو اذیتیں دے دے کر، تڑپا تڑپا کر ماریں گے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہرے معیار کیوں؟

اگر کوئی شخص کسی اور کی بہن یا بیٹی کے ساتھ زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو آپ کے خیال میں سزائے موت ظالمانہ سزا ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہی واقعہ آپ کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہو جاتا ہے تو پھر یہ سزا ٹھیک ہو جاتی ہے۔

خود ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ ہر 54 منٹ کے بعد زنا بالجبر کا ایک واقعہ رجسٹر ہوتا ہے۔ گویا ہر چند منٹ کے بعد ایک خاتون کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس حوالے سے ہندوستان کے وزیر داخلہ کی رائے کیا ہے؟

اکتوبر 1998ء کے اخبارات میں ہندوستانی وزیر داخلہ مسٹر ایل۔کے۔ایڈوانی کا ایک بیان چھپا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ : "زنا بالجبر کے مجرم کے لیے سزائے موت ہونی چاہیے۔" وزیر موصوف نے اس حوالے سے قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ Times of India کی سرخی تھی کہ "ایڈوانی کی طرف سے زنا بالجبر کے مجرم کے لیے سزائے موت کی تجویز۔"

الحمد للہ جو بات اسلام نے آج سے چودہ سو برس پہلے کی تھی، آج بالآخر دنیا اس کی طرف آ رہی ہے۔ مسٹر ایڈوانی نے بالکل ٹھیک بات کی ہے اور مجھے اس بات پر انہیں داد دینی چاہیے، مبارک باد دینی چاہیے۔ میں یہاں کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے کے لیے نہیں آیا۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی حق بات کرتا ہے تو اس کی تعریف ضرور ہوتی چاہیے۔ اگر اس تجویز پر عمل ہوا تو یقیناً زنا بالجبر کے واقعات میں کمی آ جائے گی۔ ہو سکتا ہے۔ آیندہ کوئی وزیر داخلہ اسلام کے نظامِ حجاب کو نافذ کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائے۔ اگر اس طرح ہو تو ان شاٗ اللہ ان جرائم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ لوگ اسلام کے قریب آ رہے ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ قابل تعریف عمل ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا اسلام کی دعوت یہی ہے کہ آؤ ان باتوں پر اتفاق رائے پیدا کریں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں۔ مسٹر ایڈوانی نے ہندوستان میں زنا بالجبر کی وارداتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر صورتِ حال کی سنگینی کو محسوس کیا اور قوانین میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ میں ان کی مکمل حمایت کرتا ہوں کہ قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے اور اس جرم کے مرتکب کو سزائے موت ملنی چاہیے۔

لہذا اگر آپ غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلام صرف اچھی باتوں کی تلقین نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں عملی طور پر بہتری اور اچھائی لانے کا طریقہ کار بھی بتاتا ہے۔

اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اسلام اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والے دیگر مذاہب میں فرق ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب یکساں نہیں ہیں۔ اور میں اس مذہب کی پیروی کروں گا جو محض اچھی باتوں کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ان اچھی باتوں پر عمل درآمد کو بھی یقینی بناتا ہے۔

اسی لیے بجا طور پر سورۃ آلِ عمران میں فرمایا گیا :

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔ (سورۃ 3، آیہ 19)

"اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئی تھی۔ ان کے از طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لینے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔"

امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ بات تو کرتے ہیں عالمی بھائی چارے کی، آپ کی گفتگو کا عنوان بھی عالمی بھائی چارہ ہے لیکن بات صرف اسلام کی کر رہے ہیں۔ عالمی بھائی چارے کا مطلب تو سب کے لیے بھائی چارہ ہونا چاہیے، خواہ کسی کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ بصورتِ دیگر کیا اسے عالمی بھائی چارے کی بجائے "مسلم بھائی چارہ" کہنا بہتر نہیں ہو گا؟

جواب : بھائی نے سوال یہ پوچھا ہے کہ عالمی بھائی چارے کے نام پر میں اسلام کی وکالت کر رہا ہوں۔ فرض کیجیے مجھے آپ کو یہ بتانا ہے کہ بہترین کپڑا کون سا ہے؟ اور فرض کیجیے کہ بہترین کپڑا کسی خاص کمپنی مثال کے طور پر ریمنڈز کا ہے۔ اب اگر میں کہتا ہوں کہ "بہترین کپڑا ریمنڈز کا ہے اور آپ کو ریمنڈز کا کپڑا استعمال کرنا چاہیے" تو کیا میں غلط کہہ رہا ہوں گا۔

اسی طرح فرض کیجیے، مجھے یہ بتانا ہے کہ بہترین ڈاکٹر کون ہے اور فرض کیجیے کہ مجھے علم ہے کہ ڈاکٹر "الف" ہی بہترین ڈاکٹر ہے۔ اب اگر میں کہوں کہ لوگوں کو ڈاکٹر "الف" سے علاج کرانا چاہیے تو کیا میں ڈاکٹر "الف" کی وکالت کر رہا ہوں؟

ہاں میں اپ کو یہی بتا رہا ہوں کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو عالمی بھائی چارے کی بات کرتا ہے اور صرف بات ہی نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر اس کے حصول کو ممکن بھی بناتا ہے۔ رہی یہ بات کہ کیا عالمی چارے کے تناظر میں آپ مسلمان اور غیر مسلم کو بھائی قرار دے سکتے ہیں یا صرف مسلمان ہی مسلمان کا بھائی ہے؟ تو میں یہ عرض کروں گا کہ اسلام کا بھائی چارہ یہی ہے کہ تمام انسان ہمارے بھائی ہیں۔ میں نے اپنی گفتگو کے دوران یہ بات واضح طور پر کی تھی۔ میں قطعا لفظوں سے کھیلنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ واضح الفاظ میں آپ کو بتا رہا ہوں۔

ہو سکتا ہے آپ نے دھیان نہ دیا ہو یا یہ بات آپ سے نظر انداز ہو گئی ہو کہ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز ہی سورۃ حجرات کی ان آیات سے کیا تھا:

يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَاُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّہِ اَتْقَاكُمْ اِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (سورۃ الحجرات (49)، آیۃ 13)

" اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔ "

عالمی بھائی چارے میں ہر انسان شامل ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس کا عمل اچھا ہو، اس میں تقویٰ ہو۔ فرض کیجیے میرے دو بھائی ہیں جن میں سے ایک اچھا آدمی ہے۔ درحقیقت میرا ایک ہی بھائی ہے لیکن فرض کر لیجیے کہ دو ہیں۔ ان میں ایک اچھا آدمی ہے۔ وہ ڈاکٹر ہے، لوگوں کا علاج کرتا ہے اور دوسرا بھائی ایک غلط آدمی ہے وہ شرابی ہے زانی ہے۔

اب میرے بھائی تو دونوں ہیں لیکن ان دونوں میں اچھا بھائی کون سا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بھائی جو ڈاکٹر ہے جو لوگوں کا علاج کرتا ہے، معاشرے کے لیے مفید ہے، نقصان دہ نہیں ہے۔ دوسرا بھی میرا بھائی تو ہے لیکن اچھا بھائی نہیں ہے۔

اسی طرح دنیا کا ہر انسان میرا بھائی ہے لیکن وہ جو نیک ہے، متقی ہے، ایمان دار ہے اور اچھے کام کرنے والا ہے، وہ میرے دل کے زیادہ قریب ہے۔ یہ بات بہت واضح ہے۔ میں اپنی گفتگو کے دوران میں بھی یہ باتیں کر چکا ہوں اور اب دہرا بھی دی ہیں۔

امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : ہندو مت، اسلام اور عیسائیت تینوں مذاہب عالمی بھائی چارے کو فروغ دینے والی باتیں کر رہے ہیں لیکن آپ نے بات صرف اسلام کے حوالے سے کی ہے۔ اپ نے بھائی چارے کے حوالے سے ہندو مت اور عیسائیت کے کردار کی وضاحت نہیں کی؟

جواب : بھائی کا کہنا ہے کہ میں نے صرف اسلام کے حوالے سے اچھی باتیں کی ہیں۔ عالمی بھائی چارے کے حوالے سے ہندو مت اور عیسائیت کی خوبیاں نہیں گنوائیں۔

اگرچہ میں نے ان مذاہب کے حوالے سے کچھ اچھی باتیں ضرور کی ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ بھائی چارے کے حوالے سے ان مذاہب کی ہر بات پر گفتگو میں نے نہیں کی۔ کیوں کہ شاید یہاں موجود لوگ ان تمام باتوں کو ہضم نہ کر پائیں۔ لوگ وہ باتیں برداشت ہی نہیں کر سکیں گے۔ لہذا مجھے خود پر قابو رکھنا پڑتا ہے۔

میں عیسائیت کے بارے میں جانتا ہوں۔ میں نے بائبل کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ میں ہندو مذہب کی مقدس کتابیں بھی پڑھ چکا ہوں۔ اگر میں ان کے حوالے سے بات کروں تو یہاں مسئلہ بن جائے گا اور وہ میں نہیں چاہتا۔ لہذا میں صرف مشترکہ تعلیمات کا ذکر کرتا ہوں۔ ہندو مت کہتا ہے کسی کو مت لوٹو، عیسائیت بھی یہی کہتی ہے کہ کسی کو مت لوٹو، کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرو، زنا نہ کرو۔

جہاں تک بھائی چارے کے حوالے سے دوسری باتوں کا تعلق ہے، میں ان کا ذکر نہیں کرتا۔ یہاں محض مثال کے طور پر میں ایک بات کرنا چاہوں گا۔ متی کی انجیل میں تحریر ہے۔ اور میں ہر بات حوالے کے ساتھ کرتا ہوں۔ میں کتاب کا نام، باب کا نمبر سب کچھ بتا رہا ہوں، لہذا اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

"ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور حکم دے کر کہا؛ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھڑوں کے پاس جانا۔" (مَتی: 10/6،7)

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

"میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا ۔۔۔۔۔۔ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔" (مَتی: 15/24-26)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب صرف یہودیوں کے لیے ہے، پوری کائنات کے لیے نہیں ہے۔ عیسائیت میں رہبانیت کا تصور موجود ہے۔ رہبانیت کیا ہے؟ یہ کہ اگر آپ خدا کے قریب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو دنیا چھوڑنی پڑے گی۔ جب کہ قرآن کہتا ہے :

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِھِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاہُ الْاِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوہُ رَاْفَۃً وَرَحْمَۃً وَرَھْبَانِيَّۃً ابْتَدَعُوھَا مَا كَتَبْنَاھَا عَلَيْھِمْ اِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَايَتِھَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْھُمْ فَاسِقُونَ۔ (سورۃ الحدید (57)، آیہ 27)

"پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوشِ قدم پر (دوسرے) رسولوں کو بھیجا اور ہم نے ان کے پیچھے عیسٰی ابنِ مریم (علیہما السلام) کو بھیجا اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔"

اسلام میں رہبانیت کی اجازت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ : اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ صحیح بخاری، کتاب النکاح کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہر وہ شخص جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو، اُسے نکاح کرنا چاہیے۔

اگر میں یہ بات مان لوں کہ ترکِ دنیا کرنے سے آپ واقع اللہ تعالٰی کے قریب ہو جاتے ہیں اور اگر ہر شخص اس بات سے اتفاق کر کے رہبانیت اختیار کر لے تو کیا ہو گا؟

ہو گا یہ کہ سو ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر روئے زمین پر کوئی آدم زاد باقی نہیں رہے گا۔ آپ یہ بتائیے کہ اگر آج دنیا کا ہر شخص ان تعلیمات پر عمل کرنے لگے تو عالمی بھائی چارہ کہاں سے آئے گا؟ اسی لیے میں نے دوسرے مذاہب کا ذکر صرف اچھے پہلوؤں سے کیا۔ لیکن اگر آپ جاننا چاہیں گے اور سوالات کریں گے تو پھر میرا فرض ہے کہ میں سچ بولوں۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھُوقًا۔ (سورۃ الاسرہ (17)، آیہ 81)

"اور فرما دیجئے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بیشک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔"

امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
ایم ایس ورڈ کی ذپ فائل حاضر ہے۔
ابھی اس کی پروف ریڈینگ نہیں ہوئی اس لیے اس میں غلطیاں تو ضرور ہوں گی۔
 

Attachments

  • Islam.ZIP
    98.2 KB · مناظر: 3
Top